زمیں سرکتی ہے پھر سائبان ٹوٹتا ہے
زمیں سرکتی ہے پھر سائبان ٹوٹتا ہے
اور اس کے بعد سدا آسمان ٹوٹتا ہے
میں اپنے آپ میں تقسیم ہونے لگتا ہوں
جو ایک پل کو کبھی تیرا دھیان ٹوٹتا ہے
کوئی پرندہ سا پر کھولتا ہے اڑنے کو
پھر اک چھناکے سے یہ خاکدان ٹوٹتا ہے
جسے بھی اپنی صفائی میں پیش کرتا ہوں
وہی گواہ وہی مہربان ٹوٹتا ہے
نہ ہم میں حوصلۂ خود کشی کہ مر جائیں
نہ ہم سے قفل در پاسبان ٹوٹتا ہے
زکات عشق اگر بانٹنے پہ آ جاؤں
تو اک ہجوم طلب مجھ پہ آن ٹوٹتا ہے
جو آندھیاں سر صحرائے ہجر اٹھتی ہیں
ان آندھیوں میں رضاؔ نخل جان ٹوٹتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.