زندہ بھی خلق میں ہوں مرا بھی ہوا ہوں میں
زندہ بھی خلق میں ہوں مرا بھی ہوا ہوں میں
ہوں مختلف بھی اس میں پھنسا بھی ہوا ہوں میں
جو اہل شہر کو کسی صورت نہیں ہے راس
ایسی یہاں پہ آب و ہوا بھی ہوا ہوں میں
آزردہ کیوں ہیں اب مرے شیون پہ اہل باغ
کچھ دن یہاں پہ نغمہ سرا بھی ہوا ہوں میں
ان بارشوں کی مجھ کو تمنا بھی تھی بہت
دیوار سے ذرا سا مٹا بھی ہوا ہوں میں
رہتا ہوں دور اس کے دل نرم سے مگر
پتھر کی طرح اس میں جڑا بھی ہوا ہوں میں
زندہ ہوں پھر بھی ایک امید بہار پر
پتا ہوں اور شجر سے جھڑا بھی ہوا ہوں میں
رہتا نہیں ہوں بوجھ کسی پر زیادہ دیر
کچھ قرض تھا اگر تو ادا بھی ہوا ہوں میں
رکھنے لگے ہیں کچھ نظر انداز بھی یہ لوگ
منظر سے اپنے آپ ہٹا بھی ہوا ہوں میں
اک دور کے سفر پہ روانہ بھی ہوں ظفرؔ
سست الوجود گھر میں پڑا بھی ہوا ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.