ضیائے مہر کے پیکر میں ڈھال دے مجھ کو
ضیائے مہر کے پیکر میں ڈھال دے مجھ کو
ابھرتی صبح سے کوئی مثال دے مجھ کو
مرے وجود پہ تنہائیاں مسلط ہیں
حصار ذات سے باہر نکال دے مجھ کو
روایتوں کے دھندلکوں میں گم رہوں کب تک
نئے جہاں کا اچھوتا خیال دے مجھ کو
تمام عمر سوالوں سے کھیلنا ہی رہا
جو حل نہ ہو سکے ایسا سوال دے مجھ کو
ترے حصار کرم میں مرا مقدر ہے
عروج بخش دے چاہے زوال دے مجھ کو
مری چمک سے اگر خیرہ ہیں تری آنکھیں
تو تیرگی کے سمندر میں ڈال دے مجھ کو
ہزاروں گوہر نایاب مجھ میں ہیں فردوسؔ
اگر طلب ہے تو آ کر کھنگال دے مجھ کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.