زور بازو بھی ہے اور سامنے نخچیر بھی ہے
زور بازو بھی ہے اور سامنے نخچیر بھی ہے
دیکھنا یہ ہے کہ ترکش میں کوئی تیر بھی ہے
کس طرح عشق مجازی کو حقیقی کر لوں
سامنے تو ہے بغل میں تری تصویر بھی ہے
کچھ نہیں ہے ترے ہاتھوں میں لکیروں کے سوا
بات ناصح کی ہے لیکن خط تقدیر بھی ہے
چھیڑتی ہے مجھے آ آ کے مری آزادی
گو میں قیدی ہوں مرے پاؤں میں زنجیر بھی ہے
میرے ہونے کا مرے ہوش کو احساس نہیں
ورنہ جو قطرۂ خوں ہے وہ شرر گیر بھی ہے
اہل دل کے لئے آزار ہے دنیا کو مفید
عقل اک ہوش ہے اور ہوش کی تعبیر بھی ہے
کوئی سمجھے کہ نہ سمجھے ترے اشعار کلیمؔ
زور غالبؔ بھی ہے اور دل کشیٔ میرؔ بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.