Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مزاحیہ / طنزیہ شعر

پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا

لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے

اکبر الہ آبادی

اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے

لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے

اکبر الہ آبادی

میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ

علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کے لیٹ

اکبر الہ آبادی

بی.اے. بھی پاس ہوں ملے بی بی بھی دل پسند

محنت کی ہے وہ بات یہ قسمت کی بات ہے

اکبر الہ آبادی

ہم کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے

بی اے ہوئے نوکر ہوئے پنشن ملی پھر مر گئے

اکبر الہ آبادی

ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

اکبر الہ آبادی

لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے

نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے

اکبر الہ آبادی

غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے

میں لیٹا تو اٹھ کے کھڑے ہو گئے

اکبر الہ آبادی

وصل ہو یا فراق ہو اکبرؔ

جاگنا رات بھر مصیبت ہے

اکبر الہ آبادی

حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا

کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے

اکبر الہ آبادی

جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر

مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے

اکبر الہ آبادی

اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم

وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا

اکبر الہ آبادی

بتاؤں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا

پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا

اکبر الہ آبادی

مے بھی ہوٹل میں پیو چندہ بھی دو مسجد میں

شیخ بھی خوش رہیں شیطان بھی بے زار نہ ہو

اکبر الہ آبادی

دھمکا کے بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کا

چندا وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے

اکبر الہ آبادی

کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا

جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا

اکبر الہ آبادی

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں

کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

اکبر الہ آبادی

قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ

رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ

اکبر الہ آبادی

برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا

شوق بہرائچی

جب غم ہوا چڑھا لیں دو بوتلیں اکٹھی

ملا کی دوڑ مسجد اکبرؔ کی دوڑ بھٹی

اکبر الہ آبادی

لیڈروں کی دھوم ہے اور فالوور کوئی نہیں

سب تو جنرل ہیں یہاں آخر سپاہی کون ہے

اکبر الہ آبادی

بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے

کیا شہر محبت میں حجام نہیں ہوتا

مصحفی غلام ہمدانی

بوسے اپنے عارض گلفام کے

لا مجھے دے دے ترے کس کام کے

مضطر خیرآبادی

شیخ اپنی رگ کو کیا کریں ریشے کو کیا کریں

مذہب کے جھگڑے چھوڑیں تو پیشے کو کیا کریں

اکبر الہ آبادی

جب بھی والد کی جفا یاد آئی

اپنے دادا کی خطا یاد آئی

محمد یوسف پاپا

عاشقی کا ہو برا اس نے بگاڑے سارے کام

ہم تو اے.بی میں رہے اغیار بے.اے. ہو گئے

اکبر الہ آبادی

ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا

کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر

اکبر الہ آبادی

تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا تھا

مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر

اکبر الہ آبادی

ان کو کیا کام ہے مروت سے اپنی رخ سے یہ منہ نہ موڑیں گے

جان شاید فرشتے چھوڑ بھی دیں ڈاکٹر فیس کو نہ چھوڑیں گے

اکبر الہ آبادی

بولے کہ تجھ کو دین کی اصلاح فرض ہے

میں چل دیا یہ کہہ کے کہ آداب عرض ہے

اکبر الہ آبادی

رحمان کے فرشتے گو ہیں بہت مقدس

شیطان ہی کی جانب لیکن مجارٹی ہے

اکبر الہ آبادی

ڈنر سے تم کو فرصت کم یہاں فاقے سے کم خالی

چلو بس ہو چکا ملنا نہ تم خالی نہ ہم خالی

اکبر الہ آبادی

علم میں جھینگر سے بڑھ کر کامراں کوئی نہیں

چاٹ جاتا ہے کتابیں امتحاں کوئی نہیں

ظریف لکھنوی

مرعوب ہو گئے ہیں ولایت سے شیخ جی

اب صرف منع کرتے ہیں دیسی شراب کو

اکبر الہ آبادی

ان کو کیا کام ہے مروت سے اپنی سے یہ منہ نہ موڑیں گے

جان شاید فرشتے چھوڑ بھی دیں ڈاکٹر فیس کو نہ چھوڑیں گے

اکبر الہ آبادی

واقف نہیں کہ پاؤں میں پڑتی ہیں بیڑیاں

دولہے کو یہ خوشی ہے کہ میری برات ہے

لالہ مادھو رام جوہر

کالج سے آ رہی ہے صدا پاس پاس کی

عہدوں سے آ رہی ہے صدا دور دور کی

اکبر الہ آبادی

اگر مذہب خلل انداز ہے ملکی مقاصد میں

تو شیخ و برہمن پنہاں رہیں دیر و مساجد میں

اکبر الہ آبادی

بت کدہ میں شور ہے اکبرؔ مسلماں ہو گیا

بے وفاؤں سے کوئی کہہ دے کہ ہاں ہاں ہو گیا

اکبر الہ آبادی

ایک کافر پر طبیعت آ گئی

پارسائی پر بھی آفت آ گئی

اکبر الہ آبادی

حقیقت کو چھپایا ہم سے کیا کیا اس کے میک اپ نے

جسے لیلیٰ سمجھ بیٹھے تھے وہ لیلیٰ کی ماں نکلی

راغب مرادآبادی

بیگم بھی ہیں کھڑی ہوئی میدان حشر میں

مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

ہاشم عظیم آبادی

پبلک میں ذرا ہاتھ ملا لیجیے مجھ سے

صاحب مرے ایمان کی قیمت ہے تو یہ ہے

اکبر الہ آبادی

اس کی بیٹی نے اٹھا رکھی ہے دنیا سر پر

خیریت گزری کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا

آگاہ دہلوی

خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں

مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

اکبر الہ آبادی

شیخ کی دعوت میں مے کا کام کیا

احتیاطاً کچھ منگا لی جائے گی

اکبر الہ آبادی

بتوں کے پہلے بندے تھے مسوں کے اب ہوئے خادم

ہمیں ہر عہد میں مشکل رہا ہے با خدا ہونا

اکبر الہ آبادی

ہونٹ کی شیرینیاں کالج میں جب بٹنے لگیں

چار دن کے چھوکرے کرنے لگے فرہادیاں

ہاشم عظیم آبادی

تمہارے وعظ میں تاثیر تو ہے حضرت واعظ

اثر لیکن نگاہ ناز کا بھی کم نہیں ہوتا

اکبر الہ آبادی

بیٹے کو چیک سمجھ لیا اسٹیٹ بینک کا

سمدھی تلاش کرنے لگے ہائی رینک کا

مصطفی علی بیگ

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے