Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جدیدیت: آج اور کل

شمس الرحمن فاروقی

جدیدیت: آج اور کل

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی


    (شرکاے گفتگو: رحیل صدیقی، احمد محفوظ) 

    احمد محفوظ: فاروقی صاحب اردو ادب میں جدید نظریات کی تبلیغ اور ان کو مشتہر کرے میں آپ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ آج تین چار دہائیاں گزر جانے کے بعد جن نظریات کی تشہیر و تبلیغ آپ نے کی ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان میں کوئی تبدیلی آئی ہے آپ کے یہاں، یا ان نظریات پر آپ پہلے ہی کی طرح قائم ہیں؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: تبدیلی سے اگر مراد یہ ہے کہ کوئی بنیادی رویہ بدلا ہے یا جن بنیادوں پر تصورات قائم کیے گئے تھے ادب کے بارے میں، ان میں سے کوئی بنیاد اب تبدیلی کا تقاضا کر رہی ہے یا رویہ تبدیل ہوچکا ہے تو اس کا جواب تو نہیں میں ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ تبدیلی دراصل اس طرح ہوتی ہے کہ آدمی کی عمر کے ساتھ ساتھ مطالعہ بڑھتا ہے۔ کچھ چیزیں وہ نئی حاصل کرتا ہے، کچھ پرانی چیزوں پر نظرثانی کرتا ہے۔ اور جب نئی چیزیں اس کے سامنے آتی ہیں اور اس کے مطالعے میں داخل ہوتی ہیں تو پرانی چیزوں پر لامحالہ ایک نئی روشنی سی پڑتی ہے، تو اس طرح سے کبھی کبھی یوں ہوسکتا ہے کہ دلچسپی کا محور بدل جائے۔ مثلاً کوئی سمجھے کہ میں نے جدید شاعری یا نئی شاعری کو مقبول کرنے یا متعارف کرنے کے لیے جو کام کیا تھا اب وہ کافی ہے۔ اب کچھ اور آنا چاہیے، جدھر توجہ لوگوں کی نہیں گئی ہے۔ تو اس طرح سے میرے یہاں ضرور ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید اگر میں لکھتا رہا تو آئندہ بھی ممکن ہے کچھ چیزیں نئی داخل ہوں میرے دلچسپی کے احاطے میں اور میرے دائرہ کار میں۔ لیکن اس سے یہ مطلب نہیں نکالنا چاہیے کہ میرے نظریات میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ کیونکہ میں ان چیزوں کو بھی مدنظر رکھتا ہوں جن کو کہ آپ مثلاً کلاسیکی ادب کہہ لیجیے یا داستان کا مطالعہ اٹھا لیجیے یا خود لغت نگاری کا معاملہ لے لیجیے۔ ان تمام چیزوں میں جو رویہ اپنایا ہے، یہ وہی ہے جس پر میں شروع سے کاربند رہا ہوں۔ ایک تو یہ کہ ادب کی بنیادی اہمیت و ضرورت ادبی حیثیت سے قائم ہونی چاہیے۔ دوسرے یہ ہے کہ ادیب اور شاعر کو اختیار ہے کہ وہ الفاظ کے ساتھ ایک کھلا ہوا معاملہ رکھے۔ یہ جو نام نہاد معیاری زبان اور استادانہ زبان وغیرہ کے نام سے پابندیاں استادوں نے لگائی تھیں یا لوگوں کے خیال میں لگائی گئی تھیں، ان کا پابند ہونا ضروری نہیں اور اسی بنیاد پر میں یہ لغت تیار کر رہا ہوں۔۔۔ 

    رحیل: تضمین اللغات کے نام سے جو کام آپ کر رہے ہیں۔۔۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: جی ہاں! تو اس میں ایسے الفاظ جمع کر رہا ہوں جو عموماً لغت میں نہیں ہیں یا عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹکسال باہر ہیں، یا یہ الفاظ ایسے ہیں کہ کبھی کسی زمانے میں مستعمل رہے ہوں اور آج بولے نہیں جارہے ہیں تو اس طرح کے الفاظ جن کے کھوجانے کا خدشہ ہے، بلکہ کھو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات زبان کی وسعت کے خلاف جاتی ہے کہ ان الفاظ کو ترک کردیا جائے یا ان کو لغت میں نہ ڈالا جائے۔ تو یہ بھی اسی وجہ سے ہوا۔ جب میں نے بہت شروع میں یہ بات کہی تھی کہ شاعر کو اپنے اظہار خیال کے لیے یہ حق ہے کہ وہ جو لفظ سب سے اچھا زبان میں ہو اپنے حساب سے استعمال کرے۔ اگر مروج زبان میں نہیں ملتا تو پرانی زبان سے لے کر استعمال کرے، یا وہاں سے ڈھونڈ لائے۔ اپنی پرانی زبان میں اگر نہیں ملتا ہے تو غیرزبان میں چلا جائے اور وہاں سے لائے۔ جب شاعر کا بنیادی حق اور فرض ہے اظہار کرنا، اپنے خیالات کا، تجربات کا، مکمل ترین حدتک الفاظ میں بیان کرنا، تو اس غرض کو حاصل کرنے کے لیے وہ زبان کے پورے ذخیرۂ کائنات کو اپنی ملکیت میں شامل کرے اور یہ خیال نہ کرے کہ کسی استاد نے یا نام نہاد شخص نے کسی لفظ کو متروک کردیا یا بدترین کہہ دیا یا ٹکسال باہر کہہ دیا۔ تو جو لفظ صحیح معلوم ہو اس جگہ کے لیے، اس کو وہاں رکھ دے۔ تو اس طرح سے جو فلسفہ ہے پورے تضمین اللغات کے پیچھے وہ یہی ہے کہ میں ان شعرا اور ان اردو کے لکھنے والوں کے اس استحقاق کو تسلیم کرتا ہوں کہ وہ جہاں سے چاہیں وہاں سے لفظ لے آئیں۔ پوربی سے لے آئیں، دکنی اور پنجابی سے لے آئیں۔ فارسی عربی سے لے آئیں۔ فارسی عربی کے لفظوں کو نئے معنی میں استعمال کریں۔۔۔ 

    محفوظ: یعنی انہیں پوری آزادی ہو۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ہاں انہیں پوری آزادی حاصل ہو، اسی آزادی کو گویا ثابت کرنے کے لیے اور یہ دکھانے کے لیے کہ زبان میں کتنی تونگری پیدا ہوئی، یہ لغت مرتب کر رہا ہوں۔ تو جو بھی کام میں کر رہا ہوں ان سب کاموں کی تہہ میں جو رویہ اور فلسفہ ہے وہی ہے کہ جن پر شروع میں میں نے اظہار خیال کیا تھا اور جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ شاعر کو حق ہے کہ وہ کہیں سے بھی الفاظ لے آئے اظہار کے لیے۔ 

    ادب کی اہمیت اول ہے باقی اہمیتیں بعد میں آتی ہیں۔ ادب جو ہے وہ گویا Self justifying ہے اس کو Justify کرنے کے لیے یہ ضرورت نہیں کہ آپ کوئی اقتصادی، سیاسی، معاملہ لائیں تاکہ اس بنا پر یہ Justify ہوسکے۔ جو میں نے انگریزی میں ابھی کتاب لکھی ہے وہ تمہارے سامنے ہے۔ اس میں اردو کی پرانی شعریات کے جو معاملات ہیں کہ شعریات کس طرح پیدا ہوئی؟ اور اس شعریات کے عناصر کیا ہیں؟ اس کے روابط کیا ہیں؟ ان کو میں نے بیان کیا ہے۔ ان میں میں نے یہ نہیں پوچھا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی سیاسی مصلحت تھی کہ نہیں تھی۔ کوئی فلسفہ تھا کہ نہیں تھا۔ بلکہ میں نے یہ کہا کہ ادبی ضرورت کے تحت آہستہ آہستہ شعریات کی یہ ارتقائی شکل پیدا ہوئی ہے۔ پہلے شعریات محدود تھی، پھر رفتہ رفتہ اس میں وسعت آتی گئی اور کیا کیا اثرات پڑے ہیں۔ تو میں جن خیالات کا حامل شروع میں تھا اگر ان خیالات پر آج بھی کاربند نہ ہوتا تو یہ چیزیں نہ لکھتا۔ 

    رحیل: ’’شعر، غیرشعراور نثر‘‘ کا جو دوسرا اڈیشن ہے اس میں آپ نے لکھا ہے کہ اس بیچ میں نے بہت کچھ کھویا اور بہت کچھ پایا بھی ہے۔ آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ میرے ادبی نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تو کچھ کھونے اور کچھ پانے سے آپ کی کیا مراد ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: اس کی وضاحت تو تھوڑی بہت اسی مضمون میں ہے۔ مثلاً میں نے لکھا ہے کہ ایک زمانے میں میں مغربی فکشن کا بہت پرشوق طالب علم تھا۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی ناول یا افسانہ بازار میں آئے اور میں اس کو نہ پڑھوں۔ ڈرامے کا بھی بہت اچھا طالب علم تھا۔ نئے ڈرامے، یوروپین ڈرامے اور انگریزی ڈرامے سے بڑی اچھی و اقفیت تھی۔ اب یہ چیزیں میں نہیں پڑھتا۔ ظاہر ہے کہ وہ مجھ سے کھوگیا۔ جو چیزیں میں اب بھی پڑھتا رہتا ہوں مثلاً شیکسپیر کو پڑھتا رہتا ہوں۔ شیکسپیر کو میں نے آج سے پچاس سال پہلے پڑھنا شروع کیا تھا۔ اب بھی اس کو پڑھتا رہتا ہوں تو وہ گویا اب بھی قائم ہے۔ لیکن جو لوگ حواشی پر ہیں، اب میرا شغف ان سے کم ہوگیا ہے۔ ایسے ہی شاعری کا معاملہ ہے کہ ایک زمانے میں میں ساری یورپین شاعری کا بڑا شائق تھا۔ اب اتنا نہیں ہوں۔ مثال کے طور پر آپ کوئی بھی نام لے لیجیے۔ مثلاً جان ایشبری (Ashbery) کا بڑا چرچا ہو رہا ہے، آج کل اس کی نظموں کا بڑا چرچا ہو رہا ہے۔ امریکہ کا شاعر ہے۔ اگر بیس پچیس سال پہلے اس کا کلام شائع ہوا ہوتا تو جان ایشبری (Ashbery) کا پورا کلیات اب تک پڑھ چکا ہوتا۔ اب یہ ہے کہ دیکھ لیا اور کچھ پڑھ کر خیالات معلوم کرلیے۔ کیونکہ جو وقت میں یورپین شاعر کے پڑھنے میں لگاؤں، اس سے زیادہ میرے لیے ضروری ہے اردو کے ادیب کی حیثیت سے کہ میں انشا، مصحفی، انیس یا داغ کو پڑھنے میں لگاؤں۔ جو ہم لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوئی وہ یہ کہ ہندوستانی سیاسی تناظر میں مغربی اثر کی بنا پر اور کچھ خیالات میں تبدیلی کی بناپر ہم نے یہ قرار دے لیا کہ نسیم دہلوی، جلال لکھنوی، امیر مینائی وغیرہ کو پڑھنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں ہے۔ ان کو پڑھے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔ بلکہ چلنا ہی چاہیے۔ 

    محفوظ: بلکہ زیادہ اچھی طرح چل سکتا ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: اب رہ گئے دوچار جو چمکنے والے میناریں ہیں ان کا کلیات نہیں مل رہا ہے۔ انتخاب پڑھ لو کام چل جائے گا۔ غٓالب کا تو خیر مٹھی بھر کلام ہے۔ پڑھ لیا۔ پڑھ لیا۔ اقبال کا بھی کوئی بہت بڑا کلیات نہیں ہے۔ جو اچھا لگا پڑھ لیا جو اچھا نہیں لگا چھوڑ دیا۔ تو پانچ سات شاعر مان لیتے ہیں کہ شاعر تھے۔ اور یہ میر، غالب، اقبال، انیس، اور سودا ان کا یا دکن میں چلے جاؤ تو قلی قطب شاہ، ولی، نصرتی، غواصی ان کا، یا یہ کہ ان شاعروں کا وجود بھی مرہون منت ہے ان چھوٹے چھوٹے لوگوں کا۔ یعنی اگر امیر مینائی (چھوٹے نہ کہوں گا لیکن ان لوگوں کے مقابلے میں چھوٹے ہیں) انور دہلوی، ظہیر دہلوی، داغ، جلال اور نسیم یہ لوگ اگر نہ ہوں تو ان کے نہ ہونے کی صورت میں کیسے آپ سمجھیں گے کہ یہ کتنے بلند اور کتنے پست ہیں۔ خوب محمد چشتی، نصرتی، غواصی، غالب یا میر کے بارے میں تم کیسے نشان لگاؤگے کہ ان کو کس معیار پر رکھا جائے۔ ان کی بلندی تبھی طے ہوسکتی ہے جب ان کے دامن میں جو چیزیں پل رہی ہیں ان پر ہماری نگاہ ہو۔ تبھی تو کوئی نہ کوئی Proportion بنے گا۔ جیسے مان لو کہ نقشہ نویس جب کسی عمارت کانقشہ بناتا ہے تو ضرور سا منے ایک آدمی یا ایک موٹر کھڑی کر دیتا ہے۔ یہ دکھانے کے لیے کہ یہ اس کا تناسب ہے۔ تو ضروری ہوتا ہے کہ کوئی ایسا میدان جو بالکل مسطح ہو اور اس میں کوئی ا ونچا نیچا نہ ہو۔ کہیں گڈھا نہ ہو۔ کہیں پہاڑی نہ ہو تو اس میں کسی پیڑ کی اونچائی کے بارے میں کیا ہم فیصلہ کرسکتے ہیں؟ کچھ بھی نہیں کرسکتے کہ پیڑ کتنا اونچا ہے کتنا نیچا ہے؟ ہم فیصلہ نہیں کرسکتے کہ اس پیڑ کے سائے میں اور کیا ممکن تھا؟ کیا کیا ہوا، کیا کیا نہیں ہوا۔ الیٹ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ سردھنتا ہوں کہ اتنی اچھی بات کہی ہے کہ جب بھی ہم کسی نئے آدمی کو پڑھتے ہیں تو اس کی وجہ سے پرانے آدمی کے بارے میں ہمارا مطالعہ کچھ نہ کچھ بدل جاتا ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ پرانے آدمی کے بارے میں کوئی چیز مطلق ہے کہ اس میں تبدیلیاں نہ آئیں گی۔ یعنی ہم اقبال کو پڑھیں یا نہ پڑھیں۔ غالب کے بارے میں ہم جو جانتے ہیں جانتے رہیں گے۔ وہ بدلے گا نہیں۔ یا یہ کہ جو ہم جانتے ہیں مثلاً فیض کے بارے میں یا میراجی کے بارے میں وہ بدلے گا نہیں، وہیں پہ رہے گا اور جو ہم جانتے ہیں مثلاً میر کے بارے میں، انشا کے بارے میں وہیں پر رہے گا۔ دونوں میں کوئی تطابق نہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ جب آپ میرا جی کو پڑھیں گے تو لامحالہ انشا پر نظر پڑے گی ہی آپ کی۔ یہ دو طرح کے لوگ ہیں اور ایک ہی میڈیم میں گفتگو کر رہے ہیں۔ دونوں کا میڈیم ایک ہے۔ دونوں غزل میں بات کر رہے ہیں۔ لیکن دو طرح کی Sensibility نظر آرہی ہے۔ ایک Sensibility ہے انشا کی اور ایک ہے میراجی کی۔ مگر بغیر انشا کے جلوے کو دیکھے آپ میراجی کے باطن کے جلوے کو نہیں دیکھ سکتے۔ اسی لیے تو میں نے کہا کہ یہ سمجھنا غلط ہے کہ جو چھوٹی سی عمر ہے۔ میں سارا زمانہ گزاردوں، یورپ کے تھرڈ کلاس شعراء کو پڑھنے میں اور اپنے یہاں کے شعرا کو نہ پڑھوں تو یہ ناانصافی ہوگی۔ اس لیے میں نے کہا کہ میں نے ان چیزوں کو چھوڑا۔ اب جو کچھ میں نے چھوڑا اور جو کچھ میرا مطالعہ مغربی ادب کا ہے، Literary criticism کا ہے۔ اس کے علاوہ اور چیزوں کا یعنی فلسفہ ہے، نفسیات ہے، سائنس ہے۔ یہ چیزیں پڑھ لیتا ہوں تاکہ ذرا دماغ میں نئی ہواؤں کی تازگی رہے۔ لہٰذا اتنا ضرور میں نے کھویا لیکن اسے کھویا تو اسے پایا۔ اگر میں ان کو پڑھتا تو امیرمینائی اور جلال کو نہ پڑھتا۔ 

    محفوظ: کیا کھونے اور پانے والی بات آپ اس معنی میں کہہ رہے ہیں کہ اب مغربی ادب کی بہت سی چیزیں آپ کے مطالعہ میں نہیں ہیں۔ ان کی جگہ خود اپنے ادب کی بہت سی چیزوں نے لے لی ہیں۔ تو کیا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ کی ترجیحات میں تبدیلی آگئی ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ہاں Preferences کے علاوہ یہ کہنا چاہیے کہ جو ترجیحات ہیں اور اولیات ہیں ان میں تبدیلی آگئی ہے۔ میں نے اپنی کم عمری کے زمانے سے لے کر خاصی پختہ عمر تک اتنی ساری انگریزی پڑھ ڈالی تھی اور اتنا سارا انگریزی ادب اور انگریزی کے حوالے سے بہت سارا ادب پڑھ ڈالا تھا کہ اس میں زیادہ گنجائش بھی نہیں تھی۔ جو کچھ ہو رہا ہے میں اس کو پڑھتا رہوں۔ مثال کے طور پر Jeorgemacbeth کی نظمیں آرہی ہیں ان کو پڑھ لوں اور پھر یہ کہ جو روزانہ ہو رہا ہے ان سے اپنے آپ کو باخبر رکھوں۔ جو کہ گزشتہ عہد کا یا گزشتہ زمانوں کا انگریزی ادب تھا۔ اس کو میں نے اتنا سارا پڑھ لیا تھا کہ اب بھی مجھے بہت سارایاد ہے میں بے تکلف گھنٹوں گفتگو کر سکتا ہوں جیسا کہ تم نے اس دن دیکھا بھی ہوگا کہ جامعہ میں یورپین تنقید پر بات کر رہا تھا (۱) اور جو باتیں میں نے وہاں کہی تھیں وہ سب میں نے زبانی بیان کی تھی۔ تو اس طرح سے میں باہر کے بازار کا مول بھاؤ دیکھ چکا، اب ذرا اندر کے بھی مال کا مول بھاؤ دیکھوں اور یہ بھی دیکھوں کہ ہمارے بازار میں بھاؤ اتنا نیچا کیوں ہے۔ کیوں نہ اوپر اٹھایا جائے؟ تو اس میں اولیات کا معاملہ بھی ہے۔ صرف یہی نہیں ہے کہ میں ایک کو ایک سے بہتر یا بدتر سمجھتا ہوں۔ بلکہ ایسی بات ہی نہیں۔ 

     (۱) جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی ۲۰۰۱ میں ریفریسر کورس کے دوران فاروقی صاحب نے انگریزی ادب اور تنقید پر لکچر دیا تھا۔ یہاں اسی لکچر کاحوالہ آیا ہے۔ 

    بنیادی بات یہ ہے کہ کیا چیز اول رکھی جائے، کیا مقدم ہو، کیا موخر ہو۔ عمر کے اس حصے میں گویا پچاس کی عمر کو پہنچ کر مجھے یہ احساس بہت شدت سے ہونے لگا تھا کہ جتنا میں انگریزی جانتا ہوں۔ جتنا انگریزی کے حوالے سے روسی فرانسیسی اور جرمن ادب کو جانتا ہوں، گہرائی سے میں اردو ادب کو نہیں جانتا۔ اور یہ کمی ہے جسے پورا کرنا چاہیے۔ 

    محفوظ: ابھی آپ نے الیٹ کا ذکر کیا۔ ظاہر ہے کہ الیٹ کا مغربی تنقید میں جو مقام ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ آپ بھی بہت قائل ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایلیٹ سے آپ نے بہت استفادہ بھی کیا ہے۔ فاروقی صاحب، الیٹ ادبی معیاروں کی جو بات کرتا ہے اور خاص طور سے عظیم ادب کے بارے میں۔ اس سے کہاں تک آپ اتفاق کرتے ہیں۔ اس لیے کہ بہرحال اس کا جو نظریہ ہے وہ کہیں نہ کہیں اس کی خاص مذہبی فکر سے متاثر ہے۔ تو اس سے کہاں تک آپ اتفاق کرتے ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں نے تو اس سے اتفاق نہیں کیا ہے اور لکھا بھی ہے کہیں، یاد نہیں آرہا ہے کہاں؟ (۲) کہ یہ بات عجب بوالعجمی سی معلوم ہوتی ہے کہ وہ کہتا ہے ک کوئی تحریر یا متن ادب ہے کہ نہیں اس کا فیصلہ تو ادبی معیار سے کیا جائے گا۔ اور کوئی متن بڑا ادب ہے (۳) کہ نہیں اس کے لیے اور معیار بھی لانے پڑیں گے۔ مثال کے طور پر مذہبی فکر اس کے سامنے آجاتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ الیٹ گویا بے ایمانی کر رہا ہے۔ اس طرح سے کہ اگر ادبی معیار کی ہی روشنی میں آپ یہ طے کر سکتے ہیں کہ کوئی تحریر ادب ہے کہ نہیں ہے تو پھر اس کے بارے میں یہ حکم لگانا کہ جب آپ پوچھتے ہیں کہ بڑا ادب ہے کہ نہیں ہے تو آپ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم غیر ادبی معاملات کو سامنے لائیں۔ مثلاً مذہب کو اور فلسفہ کو سامنے لائیں اور اس کی روشنی میں طے کریں کہ یہ بڑا ادب ہے کہ نہیں۔ کیوں کہ پھر تو ادب کاجو بنیادی وجود ہے خطرے میں پڑجاتا ہے اور یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم کہیں کہ صاحب فلاں تحریرادب ہے لیکن اس میں فلسفہ اچھا نہیں ہے۔ اس لیے بڑا ادب نہیں ہے۔ یا فلاں تحریر تو کچھ کم ادب ہے لیکن فلسفہ اچھا ہے۔ تو بڑا ادب مانا جائے گا۔ یہ بھی سوال کہ فلسفہ سے آپ کی کیا کیا مراد ہے۔ الیٹ بار بار دانتے کو سب سے بڑا یورپین شاعر مانتا ہے۔ شیکسپیر کو اس کے مقابلے میں ہیچ سمجھتا ہے اور ہم لوگ جو مسلمان اپنے کو کہتے ہیں، کبھی اس کو قبول نہیں کرسکتے۔ دانتے کی نظم بڑی شاعری ہوگی، ہم کہہ سکتے ہیں بڑی شاعری یقیناً ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اسے دنیا کے اور تمام کلام پر مقدم جانیں اور اس سے برتر جانیں۔ جب کہ اس میں پیغمبر اسلام کے بارے میں اور ہمارے مذہب کے بارے میں، ہماری روایات اور تصورات کے بارے میں بہت سی غلط اور تکلیف دہ باتیں کہی گئی ہیں۔ ویسے ہی ہے جیسے Stanic verses کے بارے میں کوئی کہہ دے کہ سلمان رشدی نے کیا زبردست ناول لکھا ہے ہاں پیغمبر کو برا بھلا کہا ہے، ناول تو اچھا لکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہی نظریہ اور معیار الیٹ لا رہا ہے کہ ایک کتھیولک کرشچن ہونے کی حیثیت سے اسے دانتے کی تنگ نظری بری نہیں معلوم ہوتی۔ پیغمبر اسلام کو برا بھلا کہہ رہاہے۔ اسے کچھ بھی تکلیف نہیں پہنچاتا۔ اس کے باوجود اس کے علی الرغم وہ عظیم نظم مانتا ہے، تو اسی ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے ہم دانتے کی نظم کو مسترد بھی کرسکتے ہیں۔ ایسا معیار کس کام کا، جس معیارکو لے کر رحیل کہیں کہ صاحب یہ بڑا زبردست کارنامہ ہے۔ اسی معیار کو لے کر میں کہوں کہ صاحب یہ زبردست کارنامہ نہیں ہے۔ یہ تو کوئی معیار نہیں ہوا۔ الیٹ کے یہاں بھی بہت بڑا جھول ہے۔ اور الیٹ کی یہ آزمائش تھی جس میں وہ ناکام رہا ہے۔ اس تضاد کو میں سمجھتا ہوں کہ حل نہیں کرپایا۔ اور شیکسپیر کے مقابلے میں دانتے کو ترجیح دینا اسی بنا پر تھا کہ شیکسپئر کے ادب کے بارے میں نہیں لگ سکتا کہ وہ کس مذہب یا فلسفے یا کس لائحہ عمل کی ترغیب آپ کو دے رہا ہے۔ سب کچھ آپ کے پاس موجود ہے جو بھی نکال لیجیے آپ۔ موٹے طور پر ایک انسانیت وغیر تو ہے ہی، لیکن اس کے علاوہ آپ اور جو کچھ چاہیں سامراج نکال لیجیے، جمہوریت نکال لیں۔ اس میں آپ مذہب کی باریکیاں نکال لیجیے۔ اس میں آپ باپ بیٹے کی محبت نکال لیجیے، عورت مرد کے رشتے نکال لیں کچھ بھی نکال لیجیے۔ یعنی کوئی چیز ایسی نہیں کہ شیکسپیر کے یہاں نہ مل جائے۔ ضرور مل جائے گی اور یہی اس کی بہت بڑی خوبی ہے، اور اس بناپر ہم اسے دانتے سے برتر سمجھتے ہیں۔ دانتے چاہے جتنا بڑا شاعر رہا ہو بہرحال وہ ہے تنگ راہ پر چلنے والا۔ اور الیٹ کی جو ناکامی ہے وہ یہی ہے کہ وہ شیکسپر کی بوقلمونی انگیز نہیں کرپاتا اور اسی جگہ پر وہ دانتے کی تنگ نظری کو پسند کرتاہے۔ 

     (۲)، (۳) یہ بحث فاروقی صاحب نے تنقیدی افکار (کیا نظریاتی تنقید ممکن ہے؟) میں صفحہ ۱۷، ۱۸ پر کی ہے۔ 

    محفوظ: فاروقی صاحب! آپ نے ادب کے غیر ادبی معیاروں کی بات کی ہے اور اس بحث کو اٹھایا ہے۔ آپ نے ہمیشہ اس بات کی تردید کی ہے کہ ادب کی تفہیم اور اس کی جانچ پرکھ کے لیے غیر ادبی معیاروں کو پیش نظر رکھا جائے۔ اس کے بہت سے خطرے ہیں۔ آپ نے اقبال پر مضمون لکھتے ہوئے یہیں سے بات شروع کی ہے کہ اقبال کو سب کچھ تو سمجھا جاتا ہے، مفکر، فلسفی وغیرہ، لیکن بحیثیت شاعر اقبال کا مطالعہ اس طرح نہیں ہوا ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ لیکن میر اور غالب کے حوالے سے اگر ہم دیکھیں تو بیسویں صدی میں میر کی دوبارہ دریافت ہوئی مثلاً ناصر کاظمی، ابن انشا، خلیل الرحمن اعظمی نے غالب کو جس طرح دوبارہ ہمارے زمانے میں دریافت کیا تو اس میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ صورت حال یہ ہے کہ لوگ میر و غالب کے بارے میں جو باتیں کرتے ہیں ان میں زیادہ ان عناصر کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق ادبی معیاروں سے نہیں ہے۔ میر کی جو زمینی صفت ہے یا عام انسانی صفت کہہ لیجیے یا غالب کے کلام میں جو سوالیہ اسلوب ہے ان چیزوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ ظاہر ہے یہاں بھی میر و غالب کو سمجھنے میں معیار تو غیرادبی ہی کہے جائیں گے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: غیرادبی معیار آپ ان کو کیسے کہہ سکتے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ مثلاً میر کے یہاں زمینی کیفیت پائی جاتی ہے اور تجرید ان کے یہاں کم ہے غالب کے مقابلے میں۔ غالب کے یہاں آسمانی کیفیت ہے تو یہ گویا بیانیہ جملے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اگر زمینی صفت نہیں تو شاعر بڑا نہ ہوگا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اگر تجرید نہیں ہوگی تو شاعر بڑا نہیں ہوگا۔ میں ان دونوں کو بیانیہ کی سطح پر رکھتا ہوں۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ غالب اور میر دونوں کی ایک ہی شعریات ہے۔ اور اس شعریات میں اتنی لچک ہے کہ وہ ایک طرف میر ایسا آدمی پیدا کرسکتی ہے، تو دوسری طرف غالب جیسا آدمی پیدا کرسکتی ہے۔ تو اگر میں نے میر کے تخیل کو زمینی اور بے لگام کہا اور غالب کے تخیل کو آسمانی اور تجریدی کہا، تو یہ بیانیہ جملے ہیں، اور یہ تو گویا میری طرف سے آپ کو اشارے ہیں کہ اگر آپ میر کے تخیل کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں تو اس قول پر غور کیجیے۔ اس طرح سے رکھیے غالب کے سامنے تو فرق آپ کو معلوم ہو۔ یہ کوئی اقداری جملے نہیں ہیں۔ یہ میں نے نہیں کہا کہ زمینی صفت کی وجہ سے میر بڑے شاعر ہیں۔ یہ بحث میں بالکل نہیں کر رہا ہوں۔ اور یہ بھی ہے کہ بیانیہ جو جملہ ہے کسی فن پارے یا فن کار کے بارے میں، ظاہر ہے وہ تنقیدی نوعیت کا تو ہونا ہی ہے۔ تو یہ تم نہیں کہہ سکتے کہ اگر میں نے یہ کہا کہ اگر صاحب میر کا تخیل زمینی اور بے لگام ہے تو یہ جمیلہ تنقیدی نہیں ہے۔ 

    رحیل: ہاں یہ بنیادی بات ہے لیکن۔۔۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ جملہ کسی قدر کی طرف لے جائے کہ یہ اچھا ہے یا برا ہے۔ مثلاً آپ نے کہا، غزل ہے، نظم نہیں، لیکن یہ خود ایک بیانیہ جملہ ہے لیکن اس میں تقید اتنی ہے کہ آپ نے فرق کرلیا کہ نظم نہیں ہے غزل ہے۔ ایک بڑے حصے کو آپ نے الگ کرلیا اور ایک حصہ کو Identify کرلیا تو کوئی description جوادب کے بارے میں ہوتا ہے۔ تنقیدی تو پھر بھی وہ ہوگا۔ ضروری نہیں کہ اس سے اقداری فیصلہ آپ فوراً کرسکیں۔ ممکن ہے آئندہ چل کے آپ کرلیں۔ میں نے کہا کہ میر کا تخیل ایسا ہے اور غالب کا ایسا ہے تو یہ جملہ بیانیہ بھی ہے اور تنقیدی بھی ہے لیکن اقداری نہیں ہے۔ اگر میں یہ کہتا کہ میرکا تخیل ایسا ہے اس لیے بڑے شاعر ہیں تو یہ جملہ اقداری ہوجاتا اور پھر ایک بڑی حدتک میں ملزم ٹھہر جاتاایک ایسی بات کا جو میرے خیال میں غلط ہے۔ 

    اب رہا معاملہ استفہام کا، تو اس میں بنیادی معاملہ یہ ہے کہ استفہام یا اس طرح کا کوئی بھی لسانی عمل زبان ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ ادب بھی زبان سے پیدا ہوتا ہے تو جو بھی زبان کے بارے میں گفتگو ہوگی وہ بہرحال ادبی گفتگو قرار دی جائے گی چاہے فوراً آپ نہ کہہ سکیں کہ صاحب ادبی گفتگو کہاں سے ہے۔ جیسے یہی جو بات استفہام کی ہے۔ جیسا کہ تم جانتے ہو کہ ہمارے یہاں دو طرح کے بیان مقرر کیے گئے ہیں۔ انشائیہ اور خبریہ۔ اور یہ کہا گیا کہ انشائیہ خبریہ سے بہتر ہوتا ہے۔ اور یونان میں کچھ لوگوں نے یہ بات کہی تھی۔ دو طرح کی utterancas ہوتی ہے ایک وہ جو (Affirmative) آپ سوال و جواب کرتے ہیں۔ کوئی فیصلہ نہیں دیا کہ کون سا بہتر ہے کون سا کم درجہ کا ہے! سکاکی نے مفتاح العلوم میں پہلی بار پوری طرح سے اس کو بیان کیا۔ سکاکی جو امام جرجانی کے سلسلے کے سب سے بڑے نقاد ہیں تو انہوں نے اپنی کتاب میں اس کو پوری طرح واضح کیا کہ خبریہ کیا ہے؟ انشائیہ کیا ہے؟ اور پھر انہوں نے کہا کہ انشائیہ بہتر ہے خبریہ سے۔ لیکن پوری طرح سے اس بات کی تفصیل میں نہیں گئے کہ انشائیہ خبریہ سے کیوں بہتر ہے۔ غالباً اس بناپر کہ جب کتاب پڑھائی جائے گی تو استاد سمجھادے گا کہ کیوں بہتر ہے۔ بہرحال سکاکی کا کارنامہ کوئی گیارہ سو صدی کے قریب کا ہے تو نو سو برس تک اس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ بہتر کیوں ہے؟ کم تر کیوں ہے؟ کئی لوگوں نے کہا۔ خاص کر ہمارے زمانے سے قریب تر لوگوں میں طباطبائی نے بار بار کہا ہے۔ اپنی کتاب شرح غالب میں۔ انشائیہ لذیذ تر ہے خبریہ سے۔ وجہ انہوں نے نہیں بیان کی۔ میں نے دو ایک مضمون میں (جو بہت طویل بھی ہیں) پوری طرح بیان کیا کہ انشائیہ کیوں بہتر ہے خبریہ سے؟ (۱) تو اس لیے بہرحال وہ ادبی تنقید کے Statements ہیں۔ اور ان کے بارے میں یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان کا غیرادبی معیار سے کوئی تعلق ہے۔ ابھی تم نے جو بات کہی کہ کیا ناصر کاظمی ہوں، کیا مجنوں گورکھپوری ہوں، آل احمد سرور کو آپ لے سکتے ہیں ان لوگوں نے میر کے بارے میں جو باتیں کہیں۔ وہ اصلاً اپنی بنیاد کے اعتبار سے غیرادبی باتوں سے متعلق ہیں۔ ایسا کیوں؟

     (۱) ’’انداز گفتگو کیا ہے‘‘ میں تفصیلی بحث موجود ہے۔ 

    رحیل: بلکہ اس میں محمد حسن عسکری کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ہاں عسکری کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔ 

    محفوظ: عسکری صاحب نے بھی میر کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ کئی مضامین ہیں ان کے۔ عسکری صاحب کا اسلوب وہ نہیں ہے جو آپ نے اختیار کیا ہے۔ ان کا تجزیاتی اسلوب نہیں ہے اور یہ بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ عسکری صاحب نے بہت سی بصیرت کی باتیں میر کے تعلق سے کہی ہیں۔ لیکن بہرحال ان کی نوعیت کم و بیش وہی ہے جو ان لوگوں کی ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: یہ بات صحیح ہے کہ عسکری کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ ان سب لوگوں کے یہاں یہی معاملہ ہے کہ وہ غیر ادبی معاملہ کوئی نہ کوئی ضرور اٹھالیتے ہیں۔ ناصر کاظمی یہ کہہ رہے ہیں کہ صاحب میر کے زمانے کی رات ہمارے زمانے کی رات سے آملی ہے۔ گویا وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جو میر کے زمانے کا آشوب تھا اور جو انسانی جان پر جوکھم تھا، وہی جوکھم اب پھر ہمارے زمانے میں آگیا ہے۔ مجنوں صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ غمگین تو بہت ہیں۔ روتے بہت ہیں، پھر بھی ان کے یہاں حوصلہ مندی اور مثبت پہلو ملتا ہے۔ مجنوں صاحب کہتے ہیں کہ بڑی شاعری میں تو یہ ہوتا ہی ہے کہ تھوڑی بہت غمگینی ہوتی ہے۔ لیکن بڑا مثبت پہلو جینے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ سرور صاحب خاص کر اس پر زور دیتے ہیں کہ صاحب کوئی آدرش ہے میر کے سامنے، کوئی عینی خیال ہے جس کی طرف وہ آپ کو متوجہ کرتے ہیں اور وہ اس شعر کو بار بار نقل کرتے ہیں۔ 

    اے آہوان کعبہ نہ اینڈو حرم کے گرد
    کھاؤ کسی کا تیر کسی کا شکار ہو

    رحیل: ہاں یہ بڑا مشہور شعر ہے۔ اور اسے میر کے یہاں ہمت اور حوصلے کے وجود کے ثبوت میں بطور حوالہ اکثر لایا جاتا ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: اب وہ کہتے ہیں تیر کھانے اور شکار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بھائی تمہارے سامنے کوئی آدرش ہو۔ کوئی عینی تصور ہو۔ جس کی تلاش میں تم سرگرداں رہو۔ اس سرگردانی سے تمہاری روح اور تمہارے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہو۔ اس طرح سے جو زندگی کی مادیت اور مادہ پرستیاں ہیں کہ پیدا ہوئے، اسکول گئے، پڑھے لکھے، شادی کیے اور مرگئے۔ اس کے مقابلے میں ایک Internal لائف بھی تمہاری ہو۔ مثلاً اسی کو پھر لیتے ہیں مثلا آدرش کا معاملہ ہے۔ توکل اگر کوئی آر۔ ایس۔ ایس کا آدمی یہ کہے کہ صحیح تو ہے لیکن جس آدرش کی طرف میر ہم کولے جانا چاہتے ہیں وہ آدرش یہ ہے کہ صاحب آپ ہندوتو کو قائم کریں۔ ہندوستان کو ہندو بنادیں۔ ہندوستان کو ایک رنگ میں رنگ دیں۔ تو آپ کیا جواب دیں گے۔ اس کا جواب نہیں ہے اور یہی حق بجانب ہے۔ کیونکہ میر نے تو ذکر کیا نہیں۔ میر نے تو استعارے میں بات کہی ہے۔ علامت سمجھ لیجیے کسی کا تیر کھانا، کسی کا شکار ہونا۔ اب ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ شکار ہونا اور تیر کھانے سے مطلب یہ ہے کہ بابا نظام الدین صاحب یا بختیار کاکی کے چوکھٹ پر سررگڑنا۔ سرور صاحب مراد لے رہے ہیں کہ سنگھرش اور جدوجہد میں شامل ہوجانا۔ اور ویر ساورکر اور گول وارکر کہہ رہے ہیں کہ بلم لے کر مسلمانوں کے دل میں سوراخ کرنا۔ تو یہی ہوا نا کہ جس چیز کو آپ لے کر چل رہے ہیں۔ یہ تو میں نے پہلے کبھی کہیں کہا تھا کہ یہ مشکل آجاتی ہے اس معیار میں کہ جس غیرادبی معیار کی روشنی میں تم کسی شاعر کو بڑا شاعر ثابت کرسکتے ہو اسی غیرادبی معیار کی روشنی میں میں اسی شاعر کو خراب شاعر کہہ سکتا ہوں، کیونکہ وہ غیرادبی معیار میرے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ عسکری صاحب کا معاملہ اس سے بڑھ کر چلا گیا ہے عسکری صاحب نے تو فرضی دنیا گڑھی ہے کہ میر اپنی شخصیت کو بالکل سپرد کردیتے ہیں۔ معشوق کے پیروں میں ڈال دیتے ہیں اور اپنی شخصیت سے باہر نکل آتے ہیں بالکل اپنی شخصیت کو ختم کردیتے ہیں۔ کردیتے ہوں گے مجھے اس میں کوئی بحث نہیں ہے۔ اول تو یہ کہ یہ بہت مشکوک معاملہ ہے۔ لیکن مان لیجیے، کر بھی دیتے ہیں ایسا وہ، میں یہاں تک تو تیار تھا سننے کے لیے کہ ایسا میر کردیتے ہیں۔ تو میں ان کے کلام میں ڈھونڈتا کہ ایسا ہوا کہ نہیں ہوا۔ اس سے بڑھ کر عسکری صاحب کہتے ہیں یہ بات صاحب بڑا شاعر ہونے کی دلیل ہے۔ فوراً میرے ہاتھ پیر رک جاتے ہیں کہ غالب اس لیے بڑے شاعر نہیں کہ وہ اپنی شخصیت میں گرفتار ہیں اور اپنی انا کا شکار ہیں وہ اپنی شخصیت سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔ اور میر اس لیے بڑے شاعر ہیں کہ وہ اپنی شخصیت کو جب دیکھو تب معشوق کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں بھائی میں کچھ نہیں میں تجھ میں ختم ہوکر رہ گیا ہوں۔ تو یہ بڑی شاعری کی دلیل کہاں سے ہوگئی۔ 

    تو ان لوگوں کے ساتھ جو میرا جھگڑا ہے یہی ہے کہ چاہے یہ باتیں دل کو لگتی ہی کیوں نہ ہوں۔ اول تو یہ لگتی نہیں ایمان کی بات ہے۔ لیکن اگر دل کو لگتی ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی روشنی میں آپ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ عسکری کو یا سرور کو یا مجنوں کو میر اسی لیے اچھے لگتے ہیں۔ 

    رحیل: یعنی ان لوگوں نے شاعر کی شخصیت کے حوالے سے زیادہ باتیں کی ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: مگر اس کے ساتھ ایک بات جو غور کرنے کی ہے کہ انہیں لوگوں کے زمانے میں ایک واحد شخص نے ادب کے ادبی معیار کا اطلاق کیا میر کے اوپر تو اس نے میر کی جڑ ہی کاٹ دی، یعنی کلیم الدین احمد صاحب نے۔ انہوں نے فرمایا کہ صاحب میر کوئی شاعر وائر نہیں ہیں۔ غزل نیم وحشی صنف سخن ہے۔ شاعری تو وہ ہوتی ہے کہ جس میں نظم ہو، جس میں آغاز ہو، وسط ہو اور انجام ہو۔ غزل میں نہ آغاز ہے نہ انجام ہے۔ تو جس صنف سخن میں یہ صفات ہی نہیں اس میں بڑی شاعری کہاں سے ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں سرور صاحب نے، احتشام صاحب نے، عسکری صاحب نے یا مجنوں صاحب نے دیکھا کہ ادبی معیار کااطلاق کرنے کے نتیجے میں ہمارے شاعر کی جڑ ہی کٹ رہی ہے ناحق۔ تو دور رہو اس سے، نہ ڈھونڈو اس میں کچھ۔ کوئی آیڈیل ڈھونڈ رہا ہے، کوئی ولولہ ڈھونڈ رہا ہے، کوئی کچھ ڈھونڈ رہا ہے۔ تو یہ بھی ہے کہ اس میں جو ناکامی دراصل ہے وہ میں نے بہت صاف صاف لکھا بھی۔ ان سب لوگوں کے پورے احترام کے ساتھ لکھا ہے کہ ان سب لوگوں کی ناکامی یہ ہے کہ کلیم الدین احمد کے اس قسم کے مدرسانہ اور معمولی قسم کے جملوں کا جواب وہ نہیں دے سکے۔ کیا خواجہ منظور مرحوم، مجنوں صاحب مرحوم، سرور صاحب، (۱) کیاعسکری صاحب یہ سب لوگ بے انتہا انگریزی پڑھے ہوئے تھے۔ بے انتہا لائق فائق لوگ تھے لیکن اس بات کا جواب نہیں دے پائے کلیم صاحب کا، اور اس لیے جگہ جگہ انہوں نے راہ فرار ڈھونڈی، کوئی کہیں راہ فرار ڈھونڈ رہا ہے۔ خواجہ صاحب نے راہ فرار یہ ڈھونڈ لی کہ ساری اردو شاعری Political شاعری ہے اور جب وہ کہہ رہا ہے،

     (۱) یہ انٹرویو جولائی ۲۰۰۱ء کو ریکارڈ کیا گیا تھا۔ 

    تو اور آرائش خم کاکل
    میں اور اندیشہ ہائے دور دراز

    یہ سکھوں کے بارے میں کہا گیا ہے۔ تو اس سے بڑھ کر شکست کیا ہوسکتی ہے؟ تمہارے نقاد کی، یا تمہارے دانشور کی۔ جس سوال کا جواب وہیں اسی وقت موجود تھا وہ جواب نہ دے پائے اور اتنے مبتدیانہ سوال کو اتنا بڑا فرض کرلیا انہوں نے، اور اس سے فرار حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے نئے جواب ڈھونڈے، اس غرض سے کہ اس سوال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جو کلیم صاحب ہمارے سامنے رکھ گئے تھے۔ 

    رحیل: ابھی استفہامیہ اور خبریہ بیان کے بارے میں آپ کہہ رہے تھے کہ انشائیہ بیان بہتر ہوتا ہے۔ اور غالباً کسی مضمون میں آپ نے لکھا بھی ہے کہ تخلیق زبان میں چار عناصر ہوتے ہیں۔ (۱) علامت، استعارہ، پیکر اور تشبیہ۔ اور ان میں سے کم سے کم دو کا تخلیقی زبان میں ہونا ضروری ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دور کے نثرنگار، افسانہ نگار خاص طور سے نیر مسعود وغیرہ نے اس کا اظہار کیا کہ میں ان چیزوں سے بچتا ہوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ جب وہ ان چیزوں سے بچتے ہیں تو وہ بات جو تخلیقی زبان والی بات ہے وہ صفت تو غائب ہوجانی چاہیے۔ 

    (۱) شعر، غیر شعر اور نثر: علامت کی پہچان صفحہ ۱۰۸ (جملہ یوں ہے۔ تخلیقی زبان چار چیزوں سے عبارت ہے: تشبیہہ، پیکر، استعارہ اور علامت۔۔۔ تشبیہہ، پیکر، استعارہ اور علامت میں سے کم سے کم دو عناصر تخلیقی زبان میں تقریباً ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ اگر دو سے کم ہوں تو زبان غیر تخلیقی ہوجائے گی۔) 

    شمس الرحمٰن فاروقی: پہلی بات تو یہ ہے کہ تم سے کس نے کہا کہ مصنف کی ہر بات کو مان لو۔ اس بات کو تو پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ کسی بھی مصنف کا کوئی بیان خاص کر اس کے اپنے بارے میں، اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک اس کی شہادت کہیں اور سے نہ مل جائے۔ غالب تو ہمیشہ لکھتے رہے کہ صاحب میں نے بے خبری سے کام لیا اور بڑا گمراہ تھا اور بے راہ روتھا۔ پتہ نہیں کیا کیا بکتا رہا۔ پچیس برس کی عمر میں میں خیالی مضامین لکھا کیا۔ جب تمیز آئی یک قلم چاک کیا تو چند صفات دیوان میں نمونے کے چھوڑدیے اور لوگ غالب کی اس بات کو پکڑ کے بیٹھ گئے۔ اب یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ وہ بڈھا جھوٹ بول رہا ہے۔ آپ کو بے وقوف بنارہا ہے۔ کوئی سیاسی بات کہہ رہا ہے، یا سچ بول رہا ہے تو اس بیان کی بناپر لوگوں نے پوری دیوار بنالی کہ صاحب غالب نے اپنے پرانے انداز سے توبہ کرلی میر کے انداز میں داخل ہوگئے۔ نہ یہ دیکھا کہ پرانا انداز کیا تھا نہ یہ دیکھا کہ نیا انداز کیا تھا۔ نہ یہ دیکھا کہ جن اشعار کی بناپر ہم غالب کو غالب قرار دیتے ہیں ان کا اسی فیصدی حصہ اردو اشعار کا وہ پچیس سال کی عمر تک کہہ چکے تھے جس عمر کو وہ بتارہے ہیں کہ خیالی مضامین بکتا رہا اور بھٹکتا رہا۔ جب تمیز آئی تو میں نے دور کیا اور چاک کیا انہیں۔ دور کیے اور چاک کیے اوراق میں تمام غزلیں ہیں۔ جن کی بناپر تم غالب کو غالب مانتے ہو۔ وہ کسی نے نہیں دیکھا اور اس بیان کو لے کر لوگ سو برس سے غالب کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ صاحب وہ جوانی میں بڑے مہمل گو تھے۔ بڑھاپے میں آکر میر کے عاشق ہوئے۔ 

    ویسے نیر مسعود صاحب کا یہ کہنا کہ میری تحریر میں کوئی استعارہ نہیں ہے، تشبیہ نہیں ہے ٹھیک ہے۔ ایک Level پر تو بالکل صحیح ہے کہ سامنے کے بیانیہ کے Level پر وہ استعارے تشبیہ سے کام نہیں لیتے۔ مثلاً یہ نہیں کہتے کہ صاحب اس کا دل ٹوٹ گیا۔ اس کے مقابلے میں وہ کہیں گے کہ وہ غمگین ہوگیا، یہ کہنا زیادہ اچھا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ راستہ سانپ کی طرح بل کھارہا تھا، وہ یہ کہتے ہیں کہ راستہ بل کھارہا تھا یا خم و پیچ سے بھرا ہوا تھا۔ تو یہ صحیح ہے کہ ایک بیانیہ کے پہلی سطح کے اوپر وہ استعارے اور تشبیہ سے گریز کرتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جس طرح سے استعارے، تشبیہ کا استعمال کرکے ہمارے یہاں بہت سے لوگوں نے شاعرانہ نثر میں کمال حاصل کیا۔ کرشن چندر مرحوم ہوں، قرۃ العین حیدر ہوں، یا کوئی اور ہو۔ اس سے کئی لوگوں کو جن کی طبیعت سلامتی طبع ہے اس سے ایک طرح کا گریز ہے اور اس میں نیر صاحب بھی شامل ہیں۔ لیکن جب ان کا پورا افسانہ ہی ایک استعارہ ہے، جیسے : مان لو ’شیشہ گھاٹ‘ جس پر بہت گفتگو ہوتی ہے۔ ابھی پھر امت چودھری نے اس کو شامل کیا ہے Modern Indian writing میں دو تین چیزیں اردو کی لی ہیں ان میں ایک نیر صاحب کا افسانہ ہے۔ تو ’شیشہ گھاٹ‘ آخر ہے کیا؟ ’شیشہ گھاٹ‘ پورا کا پورا افسانہ محض ایک استعارہ ہے۔ اظہار بیان کی تنگی کا۔ ٹھیک سے اظہار بیان نہیں ہوسکتا ہے۔ اور اس کے لیے طرح طرح کے مسائل جو بچے کو پیدا ہو رہے ہیں کہ وہ لڑکی ہے اور وہ جو اس کو سکھانے والا جو سکھاتا ہے جو طرح طرح کی بولیاں بولتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو شیشہ گھاٹ افسانہ اسی بات پر منحصر ہے کہ وہ استعارہ ہے اظہار کی نارسائی کا۔ اس کو غالب نے یوں کہا تھا،

    کہ شیشہ نازک و صہبائے آبگینہ گداز

    تو ہم کہہ نہیں پاتے جو ہم کہنا چاہتے ہیں اور جو ہم کہتے ہیں یہ وہ نہیں ہے جو ہم کہنا چاہتے تھے۔ یہ تو آئی۔ اے رچرڈس کا بہت مشہور قول ہے We can not say what we mean and we can the mean not mean what we say. تو پورا افسانہ ’شیشہ گھاٹ‘ اسی کی تفصیل میں لکھاگیا ہے۔ تو اگرچہ اس میں بیانیہ کی پہلی سطح کے اوپر اس طرح کے روا روی کے استعارے نہیں ہیں یہ تو میرے یہاں بھی نہیں ملیں گے اگر تم غور کروگے تو۔۔۔ 

    رحیل: سوار اور دیگر افسانے میں ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: کسی لڑکی کے بیان میں، کسی منظر کے بیان میں، اگر ہوں گے تو ادب کے ملیں گے براہ راست نہیں لائے گئے کہ اگر ان کو الگ کرلیجیے تو بھی بیانیہ قائم رہے۔ یہ تو تخلیقی نثر کے بعض علمبرداروں کی صفت رہی ہے۔ مثلاً عسکری صاحب کے یہاں یہ صفت پائی جاتی ہے۔ عسکری صاحب کے پورے کے پورے افسانے پڑھ جائیے مشکل سے کوئی تشبیہ آپ کو نظر آئے گی اور کرشن چندر کا، منٹو کا معاملہ یہ ہے کہ ایک صفحہ میں بارہ بارہ آپ کو تشبیہ استعارے مل جائیں گے۔ بیدی کے یہاں مل جائیں گے۔ تو ہمارے یہاں دو طرح کی نثریں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور ہم لوگ جس طرح کی نثر کی پابندی کرنا چاہتے ہیں اس میں ایک پابندی یہ بھی ہے کہ نام نہاد شاعرانہ نثر، لطیف قسم کی نثر سے گریز کیا جائے۔ 

    محفوظ: اور سجی سجائی نثر سے 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ہاں!۔۔۔ 

    رحیل: لیکن نثر میں پیکر کا استعمال ہونا ہی چاہیے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: یہ چاہنے والا معاملہ گڑبڑ ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نثر میں پیکر کا استعمال ہوتا ہے۔ اچھی طرح ہوسکتا ہے اور سارا معاملہ دو باتوں کا ہے۔ ایک تو یہ کہ،

    شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے 

    کیسے اس کو تم استعمال کرتے ہو۔ استعارے کو، تشبیہ کو، کوئی بھی چیز ہو، نثر کا قالب ان چیزوں کا پسند نہیں کرتا۔ ایمان کی بات یہ ہے۔ نثر آخر کیوں وجود میں آئی ہے؟ نثر وجود میں ہمیشہ آتی ہے تب، جب انسان اپنے خیالات کو بخوبی منطقی طور پر بیان کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔ 

    محفوظ: وضاحت کے ساتھ۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: نظم پہلے وجود میں آتی ہے۔ نظم اندر سے جبلی طور پر بیدار ہوتی ہے اور جیسا کہ کولرج نے کہا ہے کہ زبان کی صفت ہی ہے کہ وہ موزوں ہونا چاہتی ہے۔ تو موزونیت صفت ہے زبان کی۔ تو گویا وہ اس کے اندر ہے تو اس لیے نظم تب وجود میں آتی ہے جب انسان ارتقا کی منزلیں طے کرلیتا ہے اور جب وہ منطقی اور مربوط طور پر کسی بات کو کہنے سمجھانے پر قادر ہوجاتا ہے۔ تب جاکر نثر لکھتا ہے جیسا کہ ارسطو نے لکھا ہے کہ ڈائیلاگ وہاں صحیح ہوتا ہے جہاں کچھ ثابت کرنا ہوتا ہے تب مکالمہ لاتے ہیں۔ اس لیے میں نے کہا کہ اس بناپر یہ بات ضرور سمجھنے کی ہے کہ نثر اپنے مزاج کے اعتبار سے بالواسطہ بیان کو پسند نہیں کرتی۔ استعارے کو تشبیہ کو پسند نہیں کرتی۔ اب جو لوگ اس کو لاتے ہیں، اس کا خیال رکھتے ہیں کہ اس طرح لائیں کہ وہ پوری طرح اس میں حل ہو کے آئے۔ جیسے سب سے اچھی مثال ہمارے زمانے میں انگریزی میں Love Dorrel کے جو چار ناول ہیں، لمبے چوڑے خوبصورت۔ تو اب اس قدر خوبصورت نثر ان کی ہے کہ کہانی وہ چاہے جیسی بکواس ہو لیکن ان کی نثر میں آپ اپنے کو کھودیتے ہیں اور بہت ہی چمچماتی دل نشیں قدم قدم پر اس میں تشبیہات استعارے بھی ہیں۔ لیکن تشبیہات استعارے ایسے نہیں کہ جیسے ہمارے یہاں عام طور پر رکھے جاتے ہیں بلکہ وہ اس کے اندر پیوست ہیں۔ بیانیہ کا حصہ ہیں اس سے باہر نہیں نکل سکتے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کہیں دیکھیے صاحب اس صفحہ پر گیارہ تشبیہ ہیں اور استعارے ہیں۔ آپ نہیں کہہ سکتے، بلکہ آپ یہ کہیں گے کہ بھائی صفحہ پورا جگمگا رہا ہے ان تمام چیزوں سے۔ تو ایسی نثر لکھنا اور طرح کی بات ہے اور وہ نثر لکھنا جو کہ عسکری لکھتے تھے یا جس کی میں تھوڑی بہت کوشش کرتا ہوں یا نیر صاحب کہتے ہیں کہ وہ لکھتے ہیں تو وہ صحیح کہتے ہیں۔ جو کہ Deliberated ہے ان چیزوں سے ان کو چھیل کر نکال دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ نثر خود ان باتوں کا تقاضا نہیں کرتی۔ نثر پہلے اپنے کو منوانا چاہتی ہے کہ میں نے اس میں کیا کہا ہے یا ثابت کیا ہے۔ اور جو بھی استعارہ یا پیکر یا علامتی طرز بیان جیسا کہ میں نے کہا کہ ایک صورت تو یہ ممکن ہے جیسا کہ نیر مسعود صاحب کے یہاں کہ ان کا پورا افسانہ ایک استعارہ ہے۔ پورا افسانہ ایک علامت ہے۔ اس کو اس طرح سے پڑھ کے دیکھیے آپ کہ افسانے میں علامت ہے کہ نہیں ہے۔ یا افسانے کی نثر میں استعارہ ہے کہ نہیں ہے۔ جب پورا افسانہ استعارہ ہے۔ یا پھر یہ کہ استعارے اور اس طرح کی جو تخلیقی زبان کی خوبیاں ہیں وہ زبان میں حل کردی جائیں کہ آپ کو محسوس ہی نہ ہو کہ الگ لاکر رکھا جارہا ہے۔ جیسا کہ ہم بعض لوگوں میں دیکھتے ہیں۔ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ اور نثر کے لیے یہ حکم لگانا مناسب نہیں ہے۔ اگرچہ نثر تخلیقی نثر بھی ہو تو ضروری ہے کہ اس میں استعارہ ہو، تشبیہ ہو، ضروری نہیں ہے۔ ہو جائے تو کوئی بات نہیں ہے لیکن اگر نہ ہو تو یہ تخلیقی نثر کی شا ن کے خلاف نہیں ہے۔ تخلیقی نثر کی اور بہت سی خوبیاں ہیں جو ان چیزوں سے الگ ہیں اور جن کو عمل میں لائے بغیر نثر کو تخلیقی نثر نہیں کہہ سکتے۔ 

    رحیل: اب ایک سوال قرۃ العین حیدر کے بارے میں۔ آگ کا دریا، اردو ناول نگاری کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ناول کا ایک اقتباس آپ نے اپنے ایک مضمون میں نقل کیا ہے کہ اس ناول میں مختلف طرح کی نثر کا ملغوبہ ہوگیا ہے۔ یہ نثر بوجھل معلوم ہوتی ہے۔ (۱) ’آگ کا دریا‘ اتنا بڑا ناول ہے پھر اس کی نثر کے بارے میں آپ کا یہ خیال کہاں تک درست ہے۔ 

    (۱) لفظ و معنی: صفحہ۱۸

    شمس الرحمٰن فاروقی: اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ’آگ کا دریا‘ بڑا ناول ہے۔ اور جدید ہندوستان میں ادب کی بڑی نشانیوں میں شامل ہے۔ اب ہم اسے ذاتی طور پر، کسی وجہ سے پسند نہ کریں۔ میں نے پڑھا ضرور اس کو۔ جب پہلی بار چھپ کے آیا تھا۔ اس کے کچھ دن بعد میں نے دوبارہ پڑھا۔ تب اس وقت میری عمر کم تھی لیکن خیر میں نے پڑھ اُڑھ کے جو کچھ سمجھ میں آیا، سمجھا، ایک بار پھر اس کو دیکھا تو مجھے بہرحال وہ ذاتی طور پر پسند نہیں آیا۔ لیکن اس سے یہ مطلب نہیں نکالنا چاہیے کہ میں اسے اردو کیا ہندوستانی زبانوں کے بڑے ناولوں میں شمار نہیں کرتا۔ یقیناً شمار کرتا ہوں۔ ان کی نثر سے مجھے ہمیشہ شکوہ رہا ہے۔ اب تم نے یہ پرانی بات چھیڑدی ہے۔ مجھ سے پہلے ہی وہ بہت خفا رہتی ہیں۔ پھر تم خفا کرنا چاہتے ہو لیکن سچی بات جو مجھے کہنا ہے اس سے میں انکار نہیں کروں گا۔ تم نے جس مضمون کا حوالہ دیا ہے وہ بہت پہلے کا لکھا ہوا ہے۔ (۱) 

    (۱) یہ مضمون ’’ادب پر چند مبتدیانہ باتیں‘‘ ۱۹۶۲ء کا لکھا ہوا ہے۔ 

    رحیل: لیکن ۱۹۶۰ء کے آس پاس کا ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں اس مضمون میں لکھی ہوئی باتوں سے بالکل کنارہ کش نہیں ہوں میں اب بھی کہتا ہوں۔ میں نے جو رائے قائم کی تھی۔ اب بھی اس پر قائم ہوں کہ ان کی نثر کی جو خوبی ہے وہ کسی مقررہ ماحول کو دوبارہ خلق کرنے میں بہت کامیاب ہے۔ مثلاً یہ کہ ۱۹۴۰ء کا دہرہ دون۔ ۱۹۵۰ء کا آسام یا بنگال۔ اس طرح سے کسی مخصوص تاریخی یا جغرافیائی صورت حال میں کوئی جگہ اگرنظر آتی ہے انہیں تو وہ بڑی خوبی سے اسے دوبارہ خلق کرلیتی ہیں۔ لیکن جب وہ بیان کرنے پر آتی ہیں مثلاً وہ کچھ کہنے پر آتی ہیں کہ یہاں پر یہ ہو رہا تھا یا پھر وہ ہو رہا تھا، تو وہاں پر وہ ہمیشہ ٹھوکر کھاجاتی ہیں۔ وہاں پر وہ یہی کرتی ہیں کہ زبان کو سجائیں اور زبان کو آراستہ کریں جیسا کہ کرشن چندر کیا کرتے تھے۔ کرشن چندر کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی زبان زیادہ لچک دار ہے قرۃ العین کے مقابلے میں۔ اگرچہ اس زبان کو میں بہت پسند نہیں کرتا۔ لیکن کرشن چندر کی زبان میں بہت بڑی خوبی ہے کہ پورا افسانہ معلوم ہوتا ہے کہ ڈھل کر سامنے آیا ہے۔ کہیں اس میں جھول نہیں ہے۔ شروع میں، آخر میں، بیچ میں، آپس کے انٹریکشن میں، بیانیہ کے بہاؤ میں، کہیں کوئی رکاوٹ، کوئی تکلف، کوئی بناوٹ نہیں۔ مثلاً ان کا ناول ’شکست‘ جب میں نے پڑھا۔ بے انتہا اس سے لطف اندوز ہوا۔ حالانکہ وہ لڑکپن تھا۔ اب بڑھاپا ہے۔ اب میں اس کو اتنا بڑا ناول نہیں سمجھتا۔ لیکن جب میں نے اس کو پڑھا تو اس سے بے انتہا متاثر ہوا۔ پورا ناول کچھ نہیں بلکہ ایک طویل نظم ہے۔ اور بے حد خوبصورت گٹھی ہوئی نثر، ہر بیان، ہر Narrative، ہر واقعہ، ہر وقوعہ ایسا بیان کیا گیا جیسا نظم میں پیش آتا ہے۔ اسی شدت کا بہت ہی رواں نظم کی طرح سے، مگر ایک شدید احساس کے ساتھ۔ 

    تو قرۃ العین حیدر کا معاملہ یہ ہے کہ اس طرح کی نثر نہیں لکھتیں۔ جس طرح کی نثر کرشن چندر لکھتے تھے کہ بڑی آسانی سے شعری عناصر کو اپنی نثر میں حل کرلیتے تھے تو وہ ان کے (قرۃ العین حیدر) یہاں نہیں ملتا ان کے یہاں ایک Strain (کوشش) ملتی ہے بیانیہ ایسے الفاظ لانے کی کہ جس سے کہ بیانیہ مستحکم ہوسکے جو وہ کہنا چاہتی ہیں، جو تاثر قائم کرنا چاہتی ہیں، جو منظر دکھانا چاہتی ہیں وہ منظر اور زیادہ واضح ہوسکے۔ میں سمجھتا ہوں وہاں ان کی نثر ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔ مجموعی حیثیت سے ان کی نثر اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب وہ کسی مقررہ تاریخی جغرافیائی نکتہ پر پہنچ کرکے اس کو دوبارہ اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہیں۔ وہاں تو ان کاجواب میں سمجھتا ہوں کہ اردو تو خیر کیا ہے، مغربی زبانوں میں بھی اس طرح کا پراسرار طور پر تخلیق نو کسی لمحے کی کردینا، کسی کے یہاں میں نے نہیں دیکھا۔ انگریزی میں بھی میں نے نہیں دیکھا۔ فرنچ میں بھی میں نے نہیں دیکھا تو اس میں کوئی شک نہیں۔ کرشن چندر کو ہم بھی بڑا افسانہ نگار نہیں مانتے، لیکن ایمان کی بات ہم ضرور کہیں گے کہ کرشن چندر کے جو اچھے افسانے ہیں وہ لگتا ہے کہ بس پورے کے پورے بن کے آگئے ہیں۔ کہیں سے کسی نے بس منھ سے نکال کر جیسے سانپ کے منہ سے من نکلتا ہے اور تاریک رات روشن ہوگئی۔ نہ کوئی جھول ہے نہ کوئی بناوٹ۔ نہ اس میں کوئی گھیر گھار ہے۔ نثر جو ہے شعر کے اندر یا شعر ڈھلا ہوا ہے نثر کے اندر۔ 

    قرۃ العین حیدر کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہمارے زمانے کی سب سے بڑی فکشن نگار ہیں۔ اردو ہی کی نہیں بلکہ ہندوستان کی تمام زبانوں کو شامل کرلیں تو بھی ان کا مرتبہ بہت ممتاز نظر آئے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی ہر بات، ان کے فن کے ہر پہلو کو ہم ایک ہی طرح سے بلند مرتبہ پر رکھیں۔ ہر ایک کے یہاں کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں۔ کچھ مضبوطیاں ہوتی ہیں۔ جیسا کہ میں ابھی کہہ رہا تھا کہ ان کی سب سے بڑی مضبوطی یہ ہے کہ جس طرح سے Past کو وہ Evoke کرلیتی ہیں جو بہت ہی ماضی قریب ہے۔ اس کی چیزوں کو جس طرح سے وہ دوبارہ زندہ کرلیتی ہیں۔ ۱۹۴۸ء کا کراچی، یا پت جھڑ کی آواز میں ۱۹۴۶ء کا دہلی، یہ ایسی چیز ہے جو ہر آدمی نہیں کرسکتا۔ وہ چند جملوں میں، چند ایک ڈائیلاگ سے یا ایک آدھ گفتگو سے، وہ فوراً پوری طرح گرفت میں لے لیتی ہیں۔ ’ڈالن والا‘ میں ۱۹۴۰ء کا دہرہ دون، تو اس میں تو کوئی شک نہیں رہ گیا۔ یہ کہ جو ماضی بعید ہے ’آگ کا دریا‘ میں، جو بہت نظر آتا ہے۔ اس ماضی بعید کو وہ کہاں تک اپنے گرفت میں لے سکتی ہیں۔ ظاہر سی بات ہے وہ بہتر جواب دے سکتا ہے جس نے ماضی بعید کا گہرا مطالعہ کیا ہو اور وہ کہہ سکتا ہو کہ جو ماحول اور جو فضا تیار کی ہے انہوں نے اپنے ناول میں، وہ کم و بیش اس طرح کی سی ہے، جیسی اس زمانے میں رہی ہوگی۔ میں تو اس کے بارے میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ اتنی وثوق انگیز نہیں معلوم ہوتیں، جو ان کی ماضی بعید کی بازیافت ہے۔ اب ایک بات یہ بھی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں اور صحیح کہتے ہیں کہ ان کے سروکار بڑی بڑی چیزوں سے ہیں۔ اور یہ یقیناً ان کے بڑے فکشن نگار ہونے کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ فکشن کے ساتھ سروکاروں کا تصور ہمیشہ آتا ہے کیونکہ یہ نئے زمانے کی چیز ہے اور نئے زمانے میں ادیب کے ساتھ کچھ نئی طرح کی توقعات وابستہ ہوگئی ہیں، چاہے کسی وجہ سے ہوگئی ہوں۔ میں اس میں نہیں جاتا۔ لیکن یہ بات صحیح ہے کہ کچھ نئی طرح کی توقعات وابستہ ہوگئی ہیں، چاہے کسی وجہ سے ہوگئی ہوں۔ میں اس میں نہیں جاتا۔ لیکن یہ بات صحیح ہے کہ کچھ نئی طرح کی توقعات وابستہ ہوگئی ہیں اور فکشن چونکہ نئے زمانے کی چیز ہے اس لیے وہ توقعات سب سے زیادہ فکشن سے وابستہ ہیں کہ وہ معاشرت کے، معاشیات کے، سیاست کے، اجتماعی زندگی کے، معاملات سے اس کے توقعات سے سروکار زیادہ ہیں۔ ادھر تم جانتے ہو کہ فکشن شروع ہوا بالکل الٹے طریقے سے۔ ماڈرن فکشن اگر یوروپ میں دیکھا جائے تو وہ شروع ہوتا ہے انفرادی زندگی کے سروکاروں سے تعلق رکھتے ہوئے۔ Richardson کے ناول ہیں اور یہ سب ناولوں میں اجتماعی زندگی بلکہ ایک شخص انسانی فرد واحد کے مسائل، اس کے کشمکش، اس کے ذہنی اور سماجی جدوجہد کا ذکر ملتا ہے۔ بہت جلد ہی یہ ہونے لگا کہ جب فکشن کے پڑھنے والے بہت بڑھے تو وہ لوگ شامل ہوئے اس کے پڑھنے والوں میں جو کہ روزمرہ کے کاروبار کرنے والے ہیں جو کہ مزدور ہیں، کارخانے میں کام کر رہے ہیں، ٹھیلے والے ہیں۔ یہ جو چھوٹے چھوٹے لوگ ہیں تو انہوں نے تقاضا کرنا شروع کیا۔ چاہے زبان سے نہ کہا ہو لیکن Grounds wall پیدا ہوا کہ بھئی ہم اس میں کہاں ہیں۔ لہٰذا تم دیکتے ہو کہ فوراً ہی چند ہی دہائیوں میں کہاں تو Pamela کا ناول ہے۔ جس میں ایک لڑکی اپنی عصمت و عفت کا دفاع کرنا چاہتی ہے۔ ایک شخص اس پر عاشق ہوگیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا استحصال کرے۔ یہ اس سے عشق کرتی ہے، لیکن یہ چاہتی ہے کہ استحصال نہ ہو۔ بلکہ honorable معاملہ بنے تو سارا افسانہ اسی پر ہے۔ یعنی ایک لڑکی اپنی انا کو قائم کرنے کے لیے کس طرح سے مقابلہ کرتی ہے۔ تو پھر اس کے مقابلے میں پھر تم ذرا سا اور آگے آؤ تو جین آسٹن کے ناولوں میں Concern تو ہیں لیکن Socially oriented ہوگئے ہیں۔ لڑکیاں جن کی شادی نہیں ہو رہی ہے۔ کیسے ہوسکتی ہے کوئی کسی کا چاہنے والا ہے، چاہنے والا نہیں ہے، ایمان دار کوئی غیرایمان دار ہے۔ لڑکی ایک سماج کا حصہ ہے اور سماجی مسائل ہیں، غریبی ہے۔ شادی کا معاملہ ہے اور پھر اس کے بعد ڈکشن سامنے آتے ہیں وہ اس زمانے کی جو سو کالڈ لائف ہے وہ اس میں پوری طرح Involved ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ فکشن کے ساتھ یہ معاملہ رہا ہے، اور ہے کہ بار بار اس کے سروکاروں کے بارے میں سوال ہوتا ہے کہ سروکار کیا ہیں تو ان کے بارے میں کہتا ہے۔ جو مزدور ہے۔ جو غریب ہے۔ جو سیاسی معاملات ہو رہے ہیں۔ ان معاملات کے نتیجہ میں کس طرح بدل رہی ہیں پوزیشن۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان سروکاروں کے بغیر بڑا فکشن نہیں بن سکتا۔ بنتا ہے۔ سب سے زیادہ زندہ مثال تو پشکن کا منظوم ناول ہے۔ اس میں ایک Story ہے۔ اس میں کوئی Concern نہیں ہے۔ بس یہ ہے کہ عشق کی داستان بیان کی گئی ہے اور اسے سب سے بڑا ناول قرار دینے والے لوگ موجود ہیں جو قرار دیتے ہیں۔ یقیناً دنیا کے بڑے ناولوں میں تو ہے ہی یا ہمارے آپ کے زمانے میں لیں تو وکرم سیٹھ کا سوٹیبل بوائے “A Suitable Boy”۔ اس میں کوئی Social concern نہیں ہے۔ بلکہ ایسے بیان کر رہا ہے کہ یہ ہوتا ہے۔ وہ ہوتا ہے۔ لوگ لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں۔ اور کوئی لڑکی ہو کانونٹ کی پڑھی ہوئی ہو۔ لمبی ہو، تگڑی ہو، فلانا ہو۔ Politics بھی Involve ہو رہی ہے۔ خاص طور سے ہندو مسلم، لیکن کہیں پروگرم سیٹھ کوئی Position نہیں لے رہے ہیں کہ یہ ہونا چاہیے تھا اور یہ ہوا لیکن یہ غلط ہوا۔ بلکہ وہ صرف دکھا رہے ہیں لمبی چوڑی ایک فلم چل رہی ہے۔ 

    محفوظ: The Trial ہے کا فکا کا اس کے لیے پوزیشن کیا ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: ہاں! ٹرائل کے بارے میں تم کہہ سکتے ہو کہ چونکہ ٹرائل میں علامتی رنگ بہت ہے اس کے ineterpatation ممکن ہے آپ اس کے Concerns کو ظاہر کریں۔ لوگوں نے کیا بھی ہے۔ میرا مطلب کہنے کا یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے فکشن کے ساتھ کہ سماجی یا کوئی بھی Concern ضروری ہو فکشن کے واسطے۔ اس کو بڑا فکشن بنانے کے واسطے۔ 

    رحیل: لیکن عام طور پر ہم لوگ اس سے توقع کرتے ہیں اور دیکھا بھی گیا ہے کہ جو ناول بہت موثر اور دیرپا ثابت ہوتے ہیں ان میں کہیں نہ کہیں سوشل کسی نہ کسی طرح ضرور جھلکتی ہے مثلاً بالزاک کے یہاں دیکھتے ہیں کہ بالزاک کے یہاں زیادہ تر Personal Concern ہیں لیکن بعض چیزوں سے اسے بے انتہا محبت ہے، مثلاً پیسے سے اس کو بے انتہا محبت ہے۔ سارے کا سارا جو اس کے بڑے ناول ہیں ان میں کہیں نہ کہیں یہ ہے کہ پیسہ کس طرح سماج کے اوپر حاوی ہے۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ یہ ہے کہ ایک بات۔ اس کے پس منظر میں کہا جائے کہ قرۃ العین حیدر کے سروکار بہت بڑے بڑے ہیں تو غلط نہیں ہے۔ ہیں یقیناً بہت بڑے سروکار ہیں۔ History کیا ہے۔ انسانی History اور انسان کے درمیان تعلقات کیا ہوسکتے ہیں؟ کیا روابط ہیں؟ انسان History بناتا ہے۔ یا History انسان بناتی ہے؟ کیا جو باتیں ہوچکی ہیں وہ دہرائی جاسکتی ہیں۔ بار بار وہی چیزیں سامنے آتی ہیں یا بدل کے آتی ہیں۔ بدلی ہوئی چیزوں کی معنویت کیا ہے؟ مثلاً جیسے کہ ’آگ کا دریا‘ کے Concern کیا ہیں۔ ظاہر ہے بہت بڑے Concern ہیں کوئی شک نہیں کہ اس ناول کے بے انتہا بڑے مابعد الطبیعاتی Concern ہیں اور ان سروکاروں سے قرۃ العین حیدر نے پوری طرح سے الجھنے کی کوشش کی ہے چاہے وہ جو جہاں ناول ختم ہوتا ہے اس پر آپ کو ایک طرح بے اطمینانی ہو کہ ناول نگار نے آپ کو بہت گھمایا پھرایا لیکن بتایا نہیں کہ باہر کیسے نکلیں، لیکن ہوسکتا یہ اس کی استواری ہو۔ ناول نگار Position نہیں لے رہی ہے اور آپ کے گلے میں پھندا ڈال کر دوڑا نہیں رہی ہے جیسا کہ پریم چند کرتے ہیں۔ تو ممکن ہے اس میں شامل ہو یہ بات کہ اگرچہ وہ آپ کو غیرمطمئن چھوڑدے جیسے بالزاک آپک کو غیرمطمئن چھوڑتا ہے۔ بالزاک اپنے ناولوں میں دکھاتا ہے کہ دنیا میں دولت کی کتنی زیادہ بھرمار ہے۔ ہر چیز دولت ہی کے بل بوتے پر چلائی جارہی ہے۔ شادی ہے تو، عشق ہے تو، موت ہے تو، چل رہے ہیں تو، وہ کہتے نہیں کہ اس سے کیسے بھاگیں چھوڑ دینا ہے آپ کو۔ یہ ہوسکتا ہے کہ قرۃ العین حیدر کی طرف سے یہ کہا جائے اور صحیح کہا جائے کہ صاحب ہم نے تو چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے آپ کو دکھا دیا کہ ہندوستان ایسا ہے اور ہم اس کو یوں دیکھتے ہیں۔ اب اس میں اگر کوئی Trap ہے۔ اس میں کوئی Dilemma ہے۔ اس سے کیسے باہر نکلیں یہ آپ کا معاملہ ہے۔ ان سب باتوں کے بنا پر ’آگ کا دریا‘، کو بہت بڑا ناول قرار دینا چاہیے۔ چاہے اس سے آپ پوری طرح مطمئن نہ بھی ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ قرۃالعین حیدر کی ہر بات سولہ آنہ پکی ہے۔ بہت کمزوریاں بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ان میں حس مزاج بہت کم ہے۔ مثلاً وہ جسمانی معاملات میں اکثر جگہ بہت ہی کمزور پڑجاتی ہیں۔ خود انتظار حسین کمزور پڑجاتے ہیں، تو ان کی کیا ہستی ہے، تو اس طرح کی چیزیں ہیں۔ بیان کرنے جب بیٹھتی ہیں وہ substained صورت حال کا بیان نہیں کر سکتیں۔ ہمیشہ نثر ان کی لڑکھڑاجاتی ہے۔ تو یہ ہے۔ کوئی ضروری نہیں ہے ہر آدمی ڈکنس ہے، دستوئفسکی ہے، دنیا کے بڑے بڑے ناول نگار ہیں ان کے یہاں بہت سی خرابیاں ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات تھوڑی ہے کہ اس کے بنا پر ہم یہ کہہ دیں کہ ہم ان کو نہیں مانتے۔ 

    رحیل: ہمارا معاشرہ قرۃ العین حیدر کو بڑا ناول نگار مانتا ہے۔ اگر کوئی دوری تہذیب یا معاشرہ انکار کرتا ہے تو اس سے ان کے ناول نگار ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: اچھا یہ بات جو تم لوگ کہہ رہے ہو، جو پتہ کی بات ہے کہ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ صاحب ہم انہیں بڑا مانتے ہیں اور ہمارا ادبی معاشرہ ہے۔ ہم جو ادبی معاشرے کے نمائندے ہیں یاہم جو اردو کا معاشرہ بناتے ہیں۔ اگر ہم کہتے ہیں۔ فلاں شخص بڑا شاعر یا بڑا ناول نگار ہے تو وہ ہے۔ یہ بہت ہی درست Argument ہے یعنی اس میں کوئی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ سب سے پہلے یہ Argument خسرو نے نے پیش کیا تھا۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ بڑے شاعر ہونے کی پہلی پہچان یہ ہے کہ جس معاشرے میں شاعر جی رہا ہے، وہ معاشرہ اسے قبول کرے کہ وہ بڑا شاعر ہے۔ (۱) اب دیکھنے میں تو بہت ہلکی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ذرا سا غور کیجیے آپ۔ مثلاً ہم یہ کہیں کہ صاحب ہمارے یہاں میر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ٹٹ پونجیے ہیں۔ جامع مسجد کی سیڑھی پر کھڑے ہوکر اپنا رویا کرتے ہیں اور انگریز سے کہیں کہ تو اس کو بڑا شاعر مان لے۔ آپ کے گھر میں وہ جناب عالی جھاڑو دے رہا ہے۔ ہمارے یہاں آپ کہہ رہے ہیں اس کی تاج پوشی کرو۔ پہلے تو جس معاشرے میں وہ شاعر یا فن کار موجود ہے اگر وہ معاشرہ اسے بڑا ادیب یا بڑا شاعر بنا کے قبول نہیں کرتا تو یقیناً وہی ایک بڑا سوالیہ نشان بن جاتا ہے اور پھر اقبال کو ان کا معاشرہ مذہب و ملت کیا ہندو، کیا مسلمان، کیا سکھ، کیا عیسائی، کیا بنگالی، کیا پنجابی، کیا مدراسی سب ان کو بڑا شاعر مان رہے ہیں تو یقینا اس کے پیچھے وہ قوت ہے۔ ہم کہیں کہ صاحب یہ آدمی ہمارے یہاں ہے، رہتا لاہور میں ہے۔ اس کے کلمہ پڑھنے والے مدراس میں ہیں، بمبئی میں ہیں، پیشاور میں ہیں تو یقیناً اس کے سننے والے، اس کے معاشرے نے قائم کردیا کہ لے بھئی تو بڑاآدمی ہے۔ لہٰذا اگر قرۃ العین حیدر کو جیسا کہ یقیناً ہے سب لوگ ہمارے معاشرہ میں بڑا فکشن نگار مانتے ہیں تو یہ ایک Valid پوائنٹ ہے ان کے بڑے فکشن نگار ہونے میں۔ 

    (۱) غرہ الکمال کا د یباچہ اور شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ’’اردو کا ابتدائی زمانہ‘‘ دیکھیں۔ 

    محفوظ: ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ ہندوستان میں فکشن میں سب سے بڑا نام قرۃ العین حیدر کا ہے۔ پاکستان میں انتظار حسین کا نام ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: نہیں ا نتظار حسین سے بھی اوپر رکھیں تو کوئی ہرج نہیں۔ مطلب یہ کہ انہوں نے ان سے زیادہ دور رس تجربے کیے ہیں فکشن کے آرٹ میں۔ یہ ایک بالکل پختہ اور قابل قبول استدلال ہے۔ صرف اس میں ا یک کمی رہ جاتی ہے کہ وہ معاشرہ جس کے پاس کوئی روایت موجود ہے لمبی چوڑی، اور اس روایت میں کچھ بڑی بڑی اونچی اونچی چوٹیاں ہیں تو وہ کہتا ہے کہ اچھا فلاں صاحب میر کی طرح یا میر کے سے معلوم ہو رہے ہیں۔ فلاں صاحب غالب کے سے معلوم ہو رہے ہیں۔ غالب کی راہ پر چل رہے ہیں۔ فانی، غالب کی راہ پر چلتے معلوم ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر یا کوئی بھی ہو۔ راشد، اقبال کے راہ پر، اقبال، غالب کے راہ پر۔ گویا ایک بڑی لمبی روایت موجود ہے۔ جو صدیوں کی روایت ہے اور اس میں کچھ ایسے نام ہیں جن کو آپ کہیے کہ پیرامیٹر ہیں۔ 

    آپ کہتے ہیں، کیا عمدہ شعر کہا ہے بالکل غالب کے رنگ کا ہے۔ یا ناصر کاظمی کے یہاں کہ میر کس طرح سے جلوہ گر ہوئے ہیں۔ ا س طرح سے جب ہم کہتے ہیں گویا یعنی ناصر کاظمی کو نہیں پڑھ رہے ہیں بلکہ ہم میر کو پڑھ رہے ہیں اور اب کیا ہمارے ماڈرن اردو فکشن میں کوئی ایسی روایت ابھی قائم ہوئی ہے جس طرح سے کہ شاعری میں قائم ہے یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ارے بھائی دیکھیے یہ ولی کا انداز معلوم ہوتا ہے۔ ناسخ کا انداز معلوم ہوتا ہے۔ یا غالب کا سا ان کا شعر ہے، یا غالب نے ان ان لوگوں کو متاثر کیا، اس میں یہ شامل ہے، وہ شامل ہے۔ 

    رحیل: یعنی اردو فکشن کے لیے ہمارے پاس نمونہ نہیں ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: اردو فکشن کی چونکہ عمر بہت کم ہے۔ لہٰذا ایسا کوئی نام ہمارے پاس ماضی میں نہیں ہیں کہ ہم کہہ سکیں۔ ہوسکتا ہے پچاس سال بعد لوگ کہیں کہ صاحب فلاں قرۃ العین حیدر کی طرف approximate کر رہا ہے۔ انتظار حسین کی طرف کر رہا ہے۔ لیکن آج مشکل یہ ہے کہ قرۃ العین حیدر، انتظار حسین کس کی طرف کیے جائیں کس کی طرف approximate مائل قرار دیے جائیں۔ ایسا کوئی آدمی نہیں ہے۔ شاعر کے بارے میں کہہ سکتے ہو کہ اقبال غالب کی طرف مائل ہیں۔ ناصر کاظمی میر کی طرف مائل ہیں۔ میر مائل ہیں سبک ہندی کے بڑے شعرا کی طرف وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کہہ سکتے ہو۔ کیونکہ پوری ایک لمبی روایت موجود ہے۔ لیکن ابھی چونکہ فکشن کی روایت بنی نہیں اس لیے اس سو سواسو سال کے بل بوتے پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم قرۃ العین حیدر کے فن کو فلاں کے مقابل رکھ کے دیکھتے ہیں۔ انتظار حسین کے فن کو ہم فلاں کے مقابلے رکھ کے دیکھتے ہیں۔ لے دے کے ایک صرف پریم چند ہیں تو یہ یقیناً۔۔۔ 

    محفوظ: اچھا دوسری تہذیب میں ہم جانہیں سکتے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: نہیں جاسکتے اس لیے کہ وہ دوسری بات ہے۔ 

    رحیل: فاروقی صاحب آپ نے ’داستان امیرحمزہ کا مطالبہ جلد اول‘ میں لکھا ہے کہ بیانیہ میں وجودیاتی مسائل یکساں ہوتے ہیں، اگر ہر بیانیہ میں اس کے وجودیات میں یکسانیت ہے تو فکشن کو داستان کے وجودیات سے ہم نہیں ملاسکتے؟ مثال کے لیے اگر ہم فکشن کی روایت کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں کہ اردو فکشن کو قدیم روایت سے جوڑیں تو کیا ہم داستان کی روایت سے جوڑ سکتے ہیں؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: بات یہ ہے کہ داستان کی جو Ontology ہے طرز وجود ہے وہ فکشن کے طرز وجود سے بالکل مختلف ہے۔ داستان کی Ontology میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ داستان کا جو Consumer ہے وہ سامنے موجود ہے۔ داستان گو داستان سنا رہا ہے۔ سننے والے سن رہے ہیں۔ فوری طور پر دونوں میں ایک رابطہ قائم ہے اور وہ زبانی سنا رہا ہے۔ زبانی سنانے کی حرکیات الگ ہوتی ہے۔ یعنی Dynamic الگ ہوتی ہے۔ لکھے جانے کی حرکیات الگ ہوتی ہے۔ تو گویا ان دونوں میں وہی رشتہ ہے جو نارنگی اور آم میں ہے کہ دونوں میٹھے ہیں۔ دونوں ایک رنگ کے ہوتے ہیں، تو ماڈرن فکشن کو اس کے ساتھ زیادتی کرنا ہوا جس طرح سے کہ داستان کے ساتھ زیادتی کرنا ہے کہ آپ داستان کو ماڈرن فکشن کے اصول پر رکھ کے دیکھیں یہاں یہ کمی ہے، یہاں پلاٹ نہیں ہے، یہاں کردار نگاری نہیں ہے۔ یہاں واقفیت نہیں ہے یا فلاں نہیں ہے۔ تو ویسے بھی زیادتی ہے کہ ناول کو داستان کے میدان میں لاکر کھڑا کردیا جائے کہ داستان فکشن کی طرح ہے۔ لہٰذا آپ نہیں کہہ سکتے کہ دونوں کے جو طرز وجود ہیں بالکل محتلف ہیں۔ ناول کے بارے میں جیسا کہ باختن نے کہا کہ ناول نگار سے زیادہ دنیا میں کوئی تنہا آدمی نہیں ہے۔ وہ اکیلا بیٹھا لکھ رہا ہے اب اس کے پڑھنے والے کہاں ہوں گے اور کس طرح اس کو پڑھیں گے۔ کیا Reaction ہوگا۔ پڑھیں گے۔ نہیں پڑھیں گے پھاڑ کے پھینک دیں گے۔ گالی دیں گے اسے۔ کچھ نہیں معلوم۔ وہ تو صحیح معنی میں اپنے دل کو اتار کر کاغذ پر رکھ دے رہا ہے۔ اس کے بعد چپ ہے۔ بودلیئر نے لکھا ہے اپنے مجموعے کا عنوان لگا کر کہ ’’میرا دل عریاں‘‘ میں My heart laid bare ناول نگار تو اپنے heart کو لے کر لکھ رہا ہے۔ کوئی قبول کرے گا نہ قبول کرے گا۔ پھینکے گا لے جائے گا۔ جب کہ داستان گو اور سامعین آمنے سامنے موجود ہیں۔ ان کو خوب معلوم ہے کہ میرے سننے والوں کے کیا حدود ہیں۔ کیا مجبوریاں ہیں، کیا کمزوریاں ہیں۔ سننے والوں کو معلوم ہے کہ داستان گو کی کیا کمزوریاں اور مجبوریاں ہیں۔ 

    یہ الگ بات ہے کہ جیسا میں نے کہا کہ بیانیہ کے ساتھ بہرحال یہ بات یقیناً منسلک ہے کہ وجودیات کے سروکار اس میں آجاتے ہیں۔ داستان میں بھی ہیں۔ لیکن صرف اس بنا پر کہ سامعین بھی آتے ہیں۔ مقابلہ کرتے ہیں اس کا اس بنا پر کہ کچھ سروکار خاص اصناف میں مشترک ہیں کم و بیش، ان سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ ایک اصناف کو ترازو کے پلڑے میں برابر کرکے ایک کے برابر ایک کورکھیں یا ایک کے رنگ سے ایک کے رنگ کو پہچانیں اور ناپیں تو نہیں ہوسکتا ہے۔ اور یہ جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ جس طرح داستان کے ساتھ بے انصافی ہے کہ آپ اسے ناول کے رنگ میں رنگ کے دیکھیں، ویسے ناول کے ساتھ بے انصافی ہے کہ داستان کے رنگ میں رنگ کے دیکھیں۔ 

    احمد محفوظ: فکشن کی تنقید کے حوالے سے آپ سے کچھ ہم لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ خاص طور سے ’افسانے کی حمایت‘ میں فکشن کی تنقید سے متعلق جو مسائل آپ نے بیان کیے ہیں اور جو بنیادی اصول کی طرف آپ نے بہت زور دیا کہ ان اصول کو فکشن کی تنقید میں پیش نظر رکھا جائے تو فکشن کے ساتھ زیادہ انصاف کرسکیں گے۔ ایک عرصے سے جب کہ وہ کتاب چھپے ہوئے، ۲۲۔ ۲۳ سال ہوگئے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس عرصے میں بیان کیے ہوئے ان مسائل کو اکثر و بیشتر موضوع بحث بنایا گیا اور بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ان مسائل کو عملی طور پر لوگوں نے استعمال نہیں کیا، اس طرح زیادہ توجہ نہیں دی جس کے وہ مستحق ہیں۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جب یہ مسائل اتنی اہمیت رکھتے ہیں اور لوگوں نے یہ محسوس بھی کیا کہ یہ اہم مسائل ہیں تو ان کی طرف عملی طور پر لوگوں نے توجہ کیوں نہیں دی، آپ کے خیال میں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ظاہر ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ جو ابھی ہم لوگ بات کر رہے تھے۔ ہمارے یہاں جو تنقید فکشن کی وجود میں آئی۔ جیسی بھی آئی پچھلے پچاس ساٹھ ستر برس میں۔ وہ سب کے سب اس کے سروکاروں کے بارے میں رہی کہ کیا سروکار نذیر احمد کے ہیں؟ کیا سروکار ہادی رسوا کے ہیں؟ عبدالحلیم شرر کے کیا مسائل ہیں؟ کس لیے وہ اتنا پریشان ہیں۔ اگر عبدالحلیم شرر کے ناولوں میں کوئی اور فنی پہلو ہیں اور یقیناً ہیں یا یہ کچھ اس میں جیسے کہنا چاہیے کہ اس کی Inner Anthoplogy ہے کہ صاحب عاشق جو ہوگی ہمیشہ عیسائی لڑکی ہوگی۔ ایسا کبھی نہیں دکھایا جائے گا کہ کوئی مسلمان لڑکی کسی عیسائی پر عاشق ہوجائے لیکن جو دکھائی جائیں گی ان میں ایک Code of honor ہوگا کہ مسلمان سپاہی اس کا پوری طرح احترام کرے گا اور جو اس کے مخالف ہیں، عیسائی ہیں، یا جو بھی ہیں وہ اس سے واقف ہی نہیں ہوں گے۔ واقف بھی ہوں گے تو اس کو شکست کرنے میں ان کو زیادہ لطف آئے گا اس کا عمل کریں۔ اس طرح بہت ساری جو اس کی اندرونی انسانیات ہے کچھ ایسے مفروضے ہیں جن کی بناپر وہ ناول تاریخی ناول قائم ہے۔ کوئی بحث ان پر ابھی تک نہیں کی گئی ہے۔ شرر کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے۔ آج تک یہ مسائل اٹھائے نہیں گئے کہ ان کے پیچھے کیا معاملہ ہے۔ یا یہ کہ جو کے یہاں Violence کا بہت زیادہ مثلاً ’خوفناک محبت‘ اس قدر وائلنش ناول ہے کہ اس زمانے میں کوئی کیا ناول لکھے گا ایسا۔ بالکل آخری باب میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ قتل عام ہی ہوگیا۔ خدا جانے کتنے آدمی مرتے ہیں۔ میں نے پہلی بار پڑھا تھا آج سے پچاس سال پہلے۔ ہفتوں تک میرا ذہن منغض رہا۔ پندرہ بیس کردار جو ہیں سب کے سب آخرکار آتے آتے آخر سب کا قتل ہوتا ہے۔ وہ کسی کو خود مارتے ہیں کوئی ان کو ماردیتا ہے۔ اور یہ کہ ایک بہت بڑا جیسے کہنا چاہیے کہ اشتعال ہے شرر کا وائلنس سے۔ کوئی ذکر اس پر نہیں ہو رہا ہے تو یہ معاملہ ہے ہم لوگوں کے یہاں کہ شروع سے صاحب یہ رہا، جو سو کالڈ نام نہاد سماجی سروکار ہیں یا یہ کہ جن مسائل کو ہم اپنے خیال میں بڑا اہم سمجھتے ہیں مثلاً طوائف کا کردار ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس طرح کی چیزوں کا ہم لوگوں نے زیادہ زور دیا ہے۔ یعنی مرزا رسوا امراؤجان ادا کے بارے میں خورشید الاسلام کا اتنا اچھا مضمون ہے امراؤجان پر۔ لیکن اس میں اس کا کوئی ذکر نہیں؟ لیکن اس میں کوئی بھی گفتگو اس پر نہیں ہے کہ اس کا اسٹرکچر کیسا ہے اور وہ کس طرح سے ناول اپنے کو انوفلٹ کرتا ہے اور جو اس کا Narrator ہے۔ رسوا اس کا جوامراؤجان سے Interaction ہے۔ اس کے اندر کیا کوئی کلچرل کوئی تاریخی حقائق ایسے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ان کو ہم سامنے لائیں۔ تو یہ ہماری تنقید کی ایک کمی کہہ سکتے ہیں یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے اپنے گویا ترجیحی معاملات ہیں۔ شروع سے ہمارے یہاں فکشن کی تنقید میں انہیں باتوں پر زور دیا گیا کہ کردار کیسا، کیا باتیں ہیں کن باتوں پر زور ہے۔ مسائل کیا ہیں، پریم چند نے کیا مسائل اٹھائے، شرر نے کیا مسائل اٹھائے۔ اور ان مسائل کے پیچھے کہ جس چیز نے ان مسائل کو فکشن بنا کے پیش کیا ان کی طرف کبھی دھیان نہیں گیا۔ تو یہ ایک کمی ہمارے یہاں رہی ہے۔ 

    میری تحریروں پر جو اعتراضات یا جو ایک طرح کا Outrage لوگوں کو محسوس ہوا۔ وارث علوی تو بے انتہا اسی بات پر خفا ہیں کہ صاحب آپ سب پوچھتے پھرتے ہیں کہ صاحب بیانیہ First person Narrative کی کیا اہمیت ہے۔ Third Person Narrative کی کیا اہمیت ہے؟ اور وہ بیان جس میں Narrator جو یہ سب کچھ جانتا ہے۔ Narrator Omniscient ہے تو اس کے مقابلے میں وہ بیان جس میں Narrator Omniscient نہیں ہے۔ Point of View کی کیا اہمیت ہے؟ کسی کردار کی آنکھ سے پورا واقعہ خفا ہیں۔ آپ یہ سب کیا پوچھتے ہیں۔ آپ یہ پوچھیے کہ سوگندھی پڑھ کر ہمیں کتنی خوشی ہوئی ہے کہ کیا زبردست کریکٹر ہے۔ دیکھیے کس طرح وہ اپنے عورت پن کا اظہار کرتی ہے۔ یہ دیکھیے صاحب ببل کو دیکھیے کہ بیدی نے کیسے ایکسپوز کیا ہے۔ یہ دیکھیے۔ یہ کیا دیکھتے ہیں کہ ببل کو کیسے انٹروڈیوس کیا گیا۔۔۔ تو یہ ہمارے یہاں ایک رجحان ہے۔ 

    احمد محفوظ: لیکن یہیں سے ایک بات یہ بھی نکلتی ہے کہ بنیادی طور پر جو اصول آپ نے بیان کیے ظاہر ہے کہ ان میں بہت استحکام ہے۔ اور وہ باتیں ایسی ہیں کہ کوئی انکار ہی نہیں کرسکتا۔ لیکن ایسا تو نہیں ہے کہ اس کی طرف لوگوں نے خاص توجہ نہیں دی۔ شاید یہ رہی ہو کہ آپ نے اصولوں کو ظاہر ہے فکشن کی تنقید کم لکھی ہے اور اس کو عملی طور پر کرکے دکھایا ہوتا تو شاید لوگوں کی صورت حال کچھ مختلف ہوتی اس سے۔ انہوں نے یہ سوچا ہو کہ فاروقی صاحب نے اس طرح کے اصول تو بیان کردیے لیکن عملاً کیا صورت ہو۔ تو شاید آپ نے فکشن کی عملی تنقید کم لکھی ہے۔ 

    رحیل: میرے خیال میں فکشن کی عملی تنقید پر فاروقی صاحب کے اچھے مضامین ہیں جیسے پریم چند پر یا یلدرم پریا۔۔۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ایسا تو نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ میں نے فکشن پر لکھا ہی کم ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ میں نے عملی تنقید نہیں لکھی۔ اگر تم دیکھو تو مثلاً فوراً یاد آرہا ہے تو بلونت سنگھ پر میں نے مضمون لکھا ہے۔ یقیناً وہ ایسا ہے کہ اس پر آدمی غور کرے اس میں میں نے ان چیزوں کو اٹھایا ہے۔ بلونت سنگھ کے فکشن میں ظاہر ہے جو ایک معاملہ ہے کہ فکشن میں کہ عورت کا ٹریٹمنٹ بلونث سنگھ کے یہاں بھی ہے۔ وہی صورت حال ہے Exploitation کی اور الیاس احمد گدی کے افسانوں میں وہی صورت حال ہے تو کس طرح سے تینوں اس کو گویا بیان کرتے ہیں۔ اچھا یلدرم پر میں نے مضمون لکھا ہے، دکھایا ہے کہ لسبین عشق (Lesbian Love) کا سب سے پہلا گویا نمونہ یلدرم کے یہاں ملتا ہے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ میں نے نہیں لکھا۔ ہاں کم لکھا ہے یہ ضرور ہے بہت نہیں لکھا ہے۔ مثلاً لکھنا چاہے مجھے انتظار حسین پر، نہیں لکھا ہے۔ انور سجاد پر دو مضمون چھوٹے چھوٹے لکھے ہیں۔ بڑا مضمون نہیں لکھا ہے۔ لیکن اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ اگر مان لیجیے داستان والی کتاب تمہارے سامنے ہے۔ داستان والی پوری کتاب انہیں اصولوں کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے کہ بیانیہ کیسے بنتا ہے؟ بیانیہ کا طرز وجود کیا ہے؟ زبانی بیانیہ اور تحریری بیانیہ میں کیا فرق ہے اور کیوں فرق ہے؟ اور کردار کی کیا اہمیت ہے؟ واقعہ کی کیا اہمیت ہیں؟ واقعہ کی کیا اہمیت ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ یہ وجہ نہیں ہے کہ مثالیں میں نے نہیں پیش کیں۔ 

    احمد محفوظ: آپ نے دوسرے موضوع مثلاً جدید شاعری، کلاسیکی شاعری، اور دوسرے موضوعات پر جس کثرت سے لکھا ہے۔ وہ صورت حال افسانے کی تنقید کے حوالے سے نہیں ہے۔ 

    رحیل: لیکن کیا زیادہ لکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ متوجہ ہوتے۔ میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: لیکن یہ تو تمہاری ایک طرح سے خوش فہمی ہے کہ اگر میں بہت لکھتا تو لوگ Convince ہوجاتے کہ ہاں دیکھیے بہت لکھ رہے ہیں فاروقی صاحب اور جن مسائل کو اہم سمجھتے ہیں ان مسائل کو سامنے رکھ کر لکھ رہے ہیں اور کتنا اچھا کامیاب تنقید عمل پیرا ہو رہے ہیں، ایسا نہیں ہے میرے خیال میں۔ یہ تو اپنے اپنے قبول کرنے اور رد کرنے کی بات ہے۔ اب جب وارث علوی جیسا حساس پڑھا لکھا آدمی جس نے انگریزی بہت ساری پڑھی ہے، اردو بہت ساری پڑھی ہے۔ جو واقعی فکشن کا اچھا قاری ہے، جس نے کہ جو منٹو پر مضمون لکھے ہیں۔ غیرمعمولی مضمون ہیں کوئی شک نہیں۔ تو یہ سب ہوتے ہوئے بھی وہ ایک طرح uncomfortable اور بے چینی محسوس کرتا ہے کہ یہ سب کیا ہے اس کی بحث کیا ہے کہ واقعہ کسے کہتے ہیں۔ اس کی بحث کیا ہے کہ واقعہ کیا چیز ہوتی ہے۔ اس کی بحث کیا ہے کہ Point of View سے کیا فرق پڑجاتا ہے۔ جب وارث علوی جیسا آدمی ان باتوں سے متوحش ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہمارے ادبی معاشرے میں تنقید کی جو امیج ہے۔ وہ میری تنقید کی اس امیج سے بالکل مختلف نظر آتی ہے لوگوں کو۔ اور اسی لیے لوگوں کو پسند نہیں آتی۔ مثلاً میں نے جو مضمون لکھا تھا، ’’افسانے میں کردار اور بیانیہ کی کشمکش۔‘‘ میں نے پڑھا تھا قرۃ العین حیدر صدارت کر رہی تھیں تو پورا مضمون میں نے پڑھ دیا اور ظاہر ہے اس میں بہت سارے حوالے ہیں۔ نئے افسانے کا ذکر بھی ہے۔ پرانے افسانے کا ذکر بھی ہے۔ سب کچھ ہوا اس کے بعد قرۃ العین حیدر کہنے لگیں، ’’فاروقی صاحب کی موشگافیاں تو بہت خوب ہیں۔ لیکن ہم لوگ جو لکھنے والے ہیں ہم جب لکھنے بیٹھتے ہیں تو تھوڑی دیکھتے ہیں کہ فاروقی صاحب نے کیا نظریہ بیان کیا ہم کو جو سمجھ میں آیا لکھ دیتے ہیں ایک طرف سے۔‘‘ جس طرح کی Theoretical Investigation میں نے کی تھی ان کو اور مجھے یقین ہے کہ سننے والوں کو متاثر نہیں کرسکی، کیونکہ اس میں اس کا ذکر نہیں تھا کہ سماجی معنویت کتنی ہے۔ اور نئے افسانے کو کس طرح سے ہم Justify کریں کہ سماجی معنویت ہے اور یہ کہنا غلط ہے کہ نہیں ہے۔ بلکہ اس طرح سے ہے تو۔ اگر اس طرح کا مضمون میں لکھتا اور دکھاتا کہ صاحب نئے افسانہ نگاروں کے یہاں سماجی شعور بہت کارفرما ہے انور خاں کے یہاں، سلام بن رزاق کے یہاں، اور حسین الحق کے یہاں یا جن لوگوں کا ذکر میں نے کیا، اس میں تو شاید زیادہ لوگوں کو وہ مضمون سمجھ میں آتا اور قابل قبول ہوتا لیکن یہ سب جو میں نے دو بڑے بڑے گویا Exess ہیں بیانیہ کے ایک تو ہے کردار اور ایک ہے واقعہ۔ تو پریم چند کی روایت کا جو افسانہ ہے اس میں واقعہ کو اہمیت دی جاتی ہے اور واقعہ کی روشنی میں کردار کو پرکھتے ہیں اور جو پریم چند کی مخالف روایت نئے افسانہ نگاروں نے قائم کی ہے۔ اس میں کردار کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس میں کردار الف ب کے نام سے آتے ہیں۔ وہ بڑی ناک والا آدمی آتا ہے۔ چھوٹی ناک والا آدمی۔ اکثر تو نام ہی نہیں بتایا جاتا کہ اس کا نام کیا ہے۔ وہ تو یہ دکھارہا ہے کہ جو ہو رہا ہے وہ اہم تر ہے۔ اس کے مقابلے میں جس پر ہو رہا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ پرانے افسانے اور نئے افسانے کی حیثیت سے بہت بنیادی معاملہ ہے لیکن اس سے کوئی دلچسپی لوگوں کو نہیں ہے کہ اس طرح کی حد فاصل قائم کی جائے۔ وہ اب بھی یہی پوچھتے ہیں کہ ان افسانوں میں سریندر پرکاش کے یہاں سماجی معنویت سے (بجوکا) بہت بڑا افسانہ ہے۔ (بجوکا) میں کتنی معنویت ہے۔ بہت بڑا افسانہ ہے۔ اس کے مقابلے میں اس سے بدرجہا بہتر افسانے ہیں مثلاً برف پر مکالمہ ’جنگل سے کاٹی ہوئی لکڑیاں ‘۔ ان میں فوری طور پر معنویت نظر نہیں آتی لوگوں کو۔ ہمارے یہاں تنقید اس رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ 

    رحیل: میرے خیال سے پوری بیسویں صدی کا جو تنقیدی منظرنامہ ہے۔ اس میں یہ بات شامل ہے کہ عام طور سے ادب کی اس صورت کو پیش نظر نہیں زیادہ رکھا گیا ہے جس میں ہم ان چیزوں سے بحث کرتے ہیں کہ اسٹرکچر کیا ہے۔ کیا ہیئتی اعتبار سے اس کے اسلوب کے اعتبار سے۔ اس سے زیادہ سروکار ہے لوگوں کو کہ اس میں جو کچھ بیان ہوا ہے کیا ہے کیسا ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: ہاں! وجہ یہ ہے کہ نظری تنقید کے جو گویا حدود مقرر کردیے تھے حالی، آزاد اور شبلی نے، انہیں پر ہم نے قناعت کی ہے۔ ترقی پسند لوگوں نے بھی اصلاً اور اصولاً انہیں باتوں کو اپنے محاورے میں دہرایا۔ مثلاً اگر حالی کہہ رہے ہیں اخلاق کا نائب و مناب ہے ادب تو ترقی پسند کہہ رہا ہے اخلاق تو نہیں انقلاب کا نائب و مناب ہے۔ اگر حالی کہہ رہے ہیں کہ ادب کا کام یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کرے، ترقی پسند کہہ رہا ہے کہ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ سماجی ترقی کی بات کرے۔ Social Change کو پرموٹ کرے، تو یہ ہوا ہے۔ نظری تنقید ایک طرح ہمارے یہاں کسی بنا پر میں نہیں سمجھتا کہ کیا وجہ ہے تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے کہ نظری تنقید ہمارے یہاں گھوم پھر کے انہیں لوگوں کے اندر ہو کے رہ گئی۔ حالی، آزاد اور شبلی اور اس کے بعد جیسا تم دیکھتے ہو اگر کوئی نظریہ پیش بھی کیا گیا ادب کے بارے میں جس کا تعلق ادب کی داخلی مستثنیات سے ہو، جیسے کلیم الدین صاحب تو وہ کامیاب نہیں رہا۔ اس لیے کلیم الدین صاحب نے نظریہ کے نام پر تخریب کا کام کیا۔ تو اب اس نظریے کو لے کر ہم کیا کریں جس کی رو سے غالب شاعر ہی نہیں مانے جاسکتے۔ اس کو لے کر کیا کریں جس میں میر کوئی شاعر ہی نہیں مانا جارہا ہے۔ اقبال تک کو ہم شاعر نہیں مان رہے ہیں۔ تو کلیم الدین یقیناً نظری بنیادیں کچھ قائم کرنا چاہیں لیکن وہ اس لیے قبول نہیں ہوئیں کہ ان کو قبول کرنے کے نتیجے میں ہم اپنے رہے سہے سرمایے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے اور یہ کمی ضرور تھی ہمارے یہاں۔ اور میں نے اپنے خیال میں اپنے طور پر شروع سے ہی جب سے میں نے لکھنا شروع کیا، محسوس کیا کہ ہمارے یہاں نظری معاملات پر گفتگو بہت کم ہوتی ہے۔ چنانچہ بڑی محنت کی اور بہت ڈھونڈا کہ اسٹرکچر بیان کیا جائے۔ غزل کیا ہوتی ہے؟ نظم کیا ہوتی ہے؟ استعارہ کسے کہتے ہیں؟ شاعری کی اچھائیاں کیا کیا ہیں؟ برائیاں کیا ہیں؟ فکشن کس طرح وجود میں آتا ہے؟ کیا تقاضا کرتا ہے؟ تو میں نے زندگی کا بڑا حصہ گزارا ان معاملات کو سمجھانے میں اور سمجھنے میں۔ 

    محفوظ: اس لحاظ سے یقین کے ساتھ ہم لوگ یہ کہہ سکتے ہیں بلکہ لوگ مانتے بھی ہیں کہ جدید تصورات کا۔ جدیدیت کے جو لوگ ہیں اور ظاہر سی بات ہے اس کے بانی آپ ہیں۔ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ پوری جو صورت حال ہے اس کو ایک خاص رخ دیا اور وہ رخ جو ادب کے مطالعہ کے لیے یا ادبی تنقید میں اس کی جو صورت ہے زیادہ Justify ہے۔ ایک بات اب یہاں یہ آتی ہے کہ جدیدیت کے زیر اثر جو تنقید یہاں لکھی گئی اس کے بارے میں عام تصور یہ ہے اور لوگ اس کو تسلیم بھی کرتے ہیں کہ امریکی نئی تنقید کا بہت اثر رہا ہے۔ تو اس لحاظ سے یہ بات ایک حد تک صحیح لگتی ہے کہ نئی تنقید ادب کو خود مکتفی وجود کے طور پر دیکھتی ہے جو اس میں دوسری چیزیں ہیں ان کو سامنے نہیں رکھتی اور یہی چیز جدیدیت نے بھی کیا، آج بھی اس کے جو قواعد ہیں وہ سب دیکھ رہے ہیں حالانکہ بہت سی چیزوں کا اخراج ہوگیا جن کا شامل ہونا ادب کے لیے نقصان دہ ہم دیکھتے ہیں۔ تو آج ایک سوال آپ سے۔ جدیدیت کے تصورات کے مستحکم کرنے میں، اس کے رجحان کو آگے بڑھانے میں آپ نے جو کام کیا ہے۔ اس کے لحاظ سے آپ یہ بتائیں کہ امریکی تنقید اور نئی تنقید سے جدیدیت نے پوری طرح اڈاپٹ کیا یا کوئی نئی چیز شامل کی۔ کسی خاص طرح سے استعمال کیا۔ اس پر آپ ہم لوگوں کو بتائیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: یہ بات کوئی بہت دور تک نہیں جاتی امریکن یا شکاگو نئی تنقید کے ماڈل پر جدید تنقید شامل کی ہم لوگوں نے، میں نے یا ہمارے بہت سے ہم عصروں نے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو فلسفیانہ تصورات ادب یا زبان کی نوعیت کے بارے میں ہیں ہم لوگوں کے یہاں وہ سب کے سب امریکن نئی تنقید کے نہیں ہیں۔ ان سے کچھ الگ بھی ہیں۔ مثلاً یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ نئی تنقید نے اس بات پر بہت زور دیا کہ اس میں جو Message ہے کسی poemمیں تو اس massege کی Relevance اس Poem کے حوالے سے قائم کرنا چاہیے نہ کسی باہری تصور کے حوالے سے بلکہ اپنی اس نظم کے اندر یا فن پارے کے اندر بیان ہوا ہے۔ تو یہ تو ٹھیک ہے لیکن یا یہ کہنا کہ صاحب ادب یا کسی نظم کو پڑھنے کے لیے ہم پہلے یہ طے کریں کہ کیا نظم کے حوالے نظم کے اندر ہی سے نکالے جائیں گے یا نظم کے باہر سے نکالے جائیں گے۔ باہر سے لائے جائیں گے تو اس کے لیے جواز کیا ہوگا؟ یعنی تاریخی طور پر اگر آپ متعین کرنا چاہتے ہیں معنی کسی نظم کے۔ تو تاریخ کو بروئے کار لانے کے لیے آپ کے پاس کیا جواز ہے؟ تو اس طرح کی باتیں جو ہم لوگوں نے کہیں وہ یقیناً امریکن Neo critics سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن اور بہت سی باتیں ہیں مثلاً رچرڈس کی پوری بحث جو معنی کے حوالے سے ہے اور نظم کے سامنے جو قاری کا Response ہے وہ کن چیزوں سے مشروط ہے۔ وہ کون سی چیزیں ہیں یا شرطیں ہیں جو ازخود عمل میں آجاتی ہیں۔ میں نے ان کے نام گنائے ہیں جو قاری کے استعجاب میں فوراً کارگر ہوتی ہیں۔ جن میں کچھ چیزیں Relevant کچھ Unrelevant ہیں۔ ہم لوگوں نے ان کو بھی سامنے رکھا۔ پھر یہ کہ نظم بنیادی طور پر ایک کلام ہے، Utterance ہے اور اس کلام کی Relevance زیادہ ضروری ہے دیکھنا بہ نسبت اس بات سے شاعر یا ہم اس سے کیانتیجہ نکال سکتے ہیں۔ تو بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو رچرڈس کے یہاں سے بہت سے لوگوں نے خاص کر میں نے حاصل کیں۔ بعد میں یہ بھی دیکھا کہ رچرڈس کی بہت سی باتیں ہمارے یہاں عرب یا سنسکرت کے لوگ بہت پہلے کہہ چکے تھے۔ لیکن اس وقت اتنا مجھے نہیں معلوم تھا۔ پھر یہ کہ الیٹ کے ہاں سے بھی تھوڑا بہت اٹھایا۔ خاص کر یہ کہ جو ماضی ہے، وہ سارے کا سارا بند نہیں ہے۔ بلکہ ماضی کھلتا جاتا ہے۔ بار بار جب آپ کوئی نئی چیز پڑھتے ہیں وہ نئی چیز پرانی چیز کو بھی متاثر کرتی ہے۔ مثلاً اگر آج آپ نے پڑھا فلپ لارکن کو تو فلپ لارکن کی نظموں کو پڑھ کرکے شیکسپئر کے بارے میں کوئی نتیجہ اور نکال سکتے ہیں جو اسی سے پہلے آپ نے نہ نکالا ہو۔ یا شیکسپئر کے سانیٹوں کے بارے میں جب آپ آڈن کے سانیٹ پڑھتے ہیں تو وہ نتیجہ نکال سکتے ہیں جو آپ نے پہلے نہ نکالا ہو، تو اس لیے ماضی بالکل ماضی نہیں ہے گذر نہیں گیا ہے۔ جو ترقی پسند حضرات کہا کرتے تھے کہ ماضی ختم ہوگیا ہے، گزر گیا ہے اور اس ماضی سے ہم صرف وہی چیزیں چن لیں جو ہمارے مطلب کی ہیں۔ جو مطلب کی نہیں ہیں ان کو القط قرار دیں۔ اس کے مقابلے میں الیٹ نے کہا کہ سب چیزیں مطلب کی ہیں۔ سارا ماضی مطلب کا ہے۔ پڑھنے والے کی کمی ہے اگر ہم اس ماضی کو پڑھ نہیں سکتے۔ یہ ہم نے وہاں سے اٹھایا۔ پھر یہ کہ اور بھی مثلاً روسی ہیئت پسندوں نے جو کبھی۔ 

    رحیل: فرانسیسی وضعیاتی نقادوں نے جو کہا۔۔۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ہاں! فرانسیسی وضعیاتی نقادوں نے بھی خاص کر وہ لوگ جو Genre یا اصناف کی بات کرتے ہیں اصناف کی جو theory ہے۔ صنف کی کیا اہمیت ہے؟ صنف سے کیسے کوئی معنی پیدا ہوتے ہیں، جو ذرا سی بات الیٹ نے بھی کہی تھی اشارے میں۔ ان لوگوں نے زیادہ تفصیل سے اس کے بارے میں کلام کیا تو یہ چیزیں بھی لائی گئیں۔ تو میں یہ نہیں سمجھتا۔ (کم از کم اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں) کہ جدید تنقید سراسر امریکن نئی تنقید پر قائم کی گئی ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ ہاں یہ یقیناً درست ہے کہ امریکن نئے نقادوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ نظم کو پہلے نظم ہونا چاہیے۔ اور نظم کو نظم ہونے کے لیے جو شرائط ہیں وہ نظم سے ہی بدآمد ہوسکتے ہیں۔ اس دنیا سے برآمد نہیں ہوتی ہے جو نظم نہیں ہے۔ ظاہر بات ہے کہ پھر اس نے میر کے لیے جواز پیدا کیا۔ ناسخ کے لیے جواز پیدا کیا۔ جب میں نے یہ سوال پوچھنا شروع کیا اپنے سے کہ آخر پچاس ساٹھ برس ناسخ نے شعر کہا، تو کیا وہ جھک مار رہے تھے یا گھاس کھارہے تھے۔ ہم آج تو ان سے یہ کہہ کر نکل جاتے ہیں کہ صاحب نثر ہے۔ وہ شاعر تھا ہی نہیں، وہ تو Non Poet تھا۔ لیکن ایک شخص جس نے پچاس ساٹھ برس شاعری کی اور اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح ایک طرح کی شاعری پر لگایا۔ تو یہ سوال اس سے پوچھنے کا ہے کہ تم کیا کام کر رہے تھے۔ تو یہ سوال ظاہر ہے کہ نئی تنقید نے نہیں پوچھا۔ لیکن میں پوچھتا ہوں اور اس لیے پوچھتا ہوں کہ اس سے یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ ادبی معاشرہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو مقرر کرتی ہے حدود کو اور جن حدود کا شاعر پابند ہوتا ہے یا جن حدود کو شاعر وسیع کرتا ہے تو یہ تمام چیزیں اس میں نہیں۔ 

    اور اب آسانی کے لیے اور کچھ مطعون کرنے کے لیے بھی کہنا شروع کیا لوگوں نے کہ امریکی ہے امریکی ہے۔۔۔ سجاد ظہیر مرحوم نے سب سے پہلے یہ بات کہی تھی۔ انگریزی میں مضمون لکھا تھا۔ اس میں میرے بارے میں لکھا کہ وہ Civil Service کے آدمی ہیں اور وہ کھاتے پیتے آدمی ہیں۔ ارے کیا وہ جو باتیں کہتے ہیں وہ سب تو میں امریکی نقادوں کے یہاں دیکھتا ہوں۔ اور اس بات کی بازگشت تقریباً ۲۵سال بعد محمود ایاز مرحوم کے یہاں ملی جب انہوں نے یہ لکھا مغنی تبسم کو کہ صاحب فاروقی کھاتے پیتے آدمی ہیں۔ انہوں نے بھوک کب دیکھی ہے۔ غریبی کب دیکھی ہے۔ اس لیے ان کو بہت سوجھتی ہے ایہام کہاں ہے اور رعایت لفظی کہاں ہے وغیرہ۔ 

    رحیل: یہیں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیسا کہ آپ چالیس سال سے لکھ رہے ہیں چنانچہ ہم لوگ سنہ ۷۲۔ ۱۹۷۰ کی جو تحریریں دیکھتے ہیں تو ان میں آپ کے نظریات اور تصورات کی مخالفت زیادہ نظر آتی ہے۔ آپ نے کہا بھی ہے کہ میرے نظریات کو رجعت پرست نظریہ کہا گیا۔ لیکن آپ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنا کام کرتے رہے۔ اس دوران کیا آپ کبھی مایوسی کا شکار بھی ہوئے، خاص کر ان مخالفتوں کی شدت کے پیش نظر؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: مایوسی تو میں نہیں کہتا۔ ہاں جو چیز مجھے تنقید کے میدان میں رکے رہنے پر مجبور کرتی رہی ہے وہ یہ کہ میں نے ہمیشہ سے یہ خیال رکھا ہے کہ نقاد دراصل وہ ہے جو نامقبول Position کو بھی اختیار کرسکے۔ اگر اس پر وہ Convinced ہے۔ مثلاً ٹھیک ہے بھائی، نظیر اکبر آبادی کے بارے میں تین ہزار آدمی کہہ رہے ہیں کہ بہت بڑے شاعر تھے۔ اب اگر میں متفق نہیں ہوں اور اس رائے سے، تو اگر نظیر پر مضمون لکھنے کے لیے کوئی کہے، تو یہی لکھوں گا کہ وہ میرے خیال میں خراب شاعر تھے۔ 

    محفوظ: آپ نے یہ لکھا بھی ہے کہ نظیر اہم شاعر ہیں لیکن وہ بڑے شاعر نہیں ہیں۔ آپ کا بہت اچھا مضمون ہے وہ نظیر پر۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: تو جو کہ اقلیتی رائے ہے یا جو کہ غیر ہر دل عزیز رائے ہے۔ جو مقبول نہیں ہے۔ اگر اس رائے تک میں پہنچا اور اس رائے کو بیان کرنے کی جرأت مجھ میں نہیں ہے تو پھر میں نقاد کا فرض ا نجام نہیں دے رہا ہوں۔ اب یہ نہیں ہے کہ میں جوش کے سمینار میں بلایا گیا، تو میں جوش کی تعریف میں مضمون لکھ کر لے گیا کہ واہ واہ سبحان اللہ جوش بہت بڑے شاعر ہیں۔ فراق کے سمینار میں فراق کی تعریف میں مضمون لکھ کر لے گیا۔ کل کو مجھے ساحر لدھیانوی پر کہا جائے تو میں اس پر تعریفی مضمون لکھ دوں۔ تو یہ نقاد کا منصب نہیں ہے۔ نقاد کا منصب یہ ہے کہ جو وہ کہہ رہا ہے وہ اپنے طور پر سوچ سمجھ کر نتیجہ نکالے۔ اور پھر اس پر وہ استدلال کے ساتھ قائم رہے۔ تو اسی کو چونکہ میں نقاد کا سب سے پہلا فرض منصبی سمجھتا ہوں کہ وہ نامقبول، غیر ہردل عزیز اور اپنی اقلیتی رائے کو پوری طرح سے بیان کرسکے۔ یہ اس کاپہلا کام ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ میں شروع سے دیکھ رہا ہوں میری بہت سی باتیں لوگوں نے نہیں مانیں۔ چونکہ وہ باتیں میں کہتا ہوں، اس لیے لوگ نہیں مانتے۔ ممکن ہے وہی باتیں تم لوگ کہو تو لوگ مان جائیں۔ لیکن ہم کہیں تو نہ مانیں گے۔ اچھا یہ فاروقی کہہ رہے ہیں تو ہم نہ مانیں گے۔ 

    رحیل: اس کی ایک تازہ مثال تو آپ کے وہ افسانے ہیں۔ جو ادھر فرضی ناموں سے شائع ہوئے اور جب کچھ لوگوں نے ان فرضی ناموں کو آپ سے منسوب کیا تو اکثر لوگوں کو اسے ماننے میں تامل رہا۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: جی ہاں۔۔۔ تو وہی بات کہ جب تک میں اپنے طور پر مطمئن ہوں کہ نظیرہوں، فراق ہوں، جوش یا فیض ہوں۔ جو رائے میں نے ان کے بارے میں قائم کی ہے، وہ پوری دیانت داری سے سوچ سمجھ کر قائم کی ہے۔ اور جس نظریۂ ادب اور نظریۂ شعر کا موید ہوں اور مبلغ ہوں۔ اس میں وہ بات پوری طرح فٹ بیٹھتی ہے۔ مثلاً یہ نہیں ہے کہ میں جس نظریۂ ادب یا نظریۂ شعر کی تبلیغ کر رہا ہوں۔ اس کی رو سے فراق بڑے ٹھہریں، یہ بالکل ممکن ہی نہیں ہے۔ تو جیسا کہ لکھا ہے فضیل جعفری نے کہ میر کے یہاں بھی بہت سے بھرتی کے الفاظ آتے ہیں تو اس پر فاروقی کچھ نہیں بولتا ہے اور فراق کے یہاں آتے ہیں تو بگڑجاتا ہے۔ تو ظاہر سی بات ہے کہ میں نے اس کے جواب میں تو نہیں لیکن کسی اور موقع پر مثال دے کر یہ دکھایا کہ جن نظموں کو یا جن استعمالات کو میر کے یہاں یا کسی اور بڑے شاعر کے یہاں یا پھر بڑے ہی شاعر کیوں، کسی چھوٹے شاعر کو ہی لے لیجیے مثلاً جامن علی جلال کو لیجیے، نسیم دہلوی کو لیجیے تو ان کے یہاں جن کو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھرتی کے لفظ ہیں تو دراصل بھرتی کے لفظ نہیں بلکہ وہ کارآمد لفظ ہیں۔ اور برخلاف کسی اور شاعر کے یہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ لفظ واقعی بے کار لفظ ہیں تو ہم شکایت کرتے کہ وہ لفظ یہاں کیوں رکھا۔ اس کے بغیر بھی یہ بات پوری ہے اسے آپ نے جبراً رکھا ہے۔ 

    چونکہ مصرع یا شعر میں مشکل سے دس بارہ لفظ ہوتے ہیں اس میں دو لفظ بے کار ہوگئے تو سمجھ لیجیے دس فیصد آپ کا اسلوب داغ دار ہوگیا۔ تو یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ جس نظریۂ شعر کی میں نے تبلیغ کی ہے جسے بیان کرنا چاہا ہے میر کے حوالے سے، غالب کے حوالے سے، ناسخ کے حوالے سے، درد کے حوالے سے، انیس کے حوالے سے، اسی نظریۂ شعر کا اطلاق کرکے ہم جوش کو بڑا شاعر پائیں یہ ممکن ہی نہیں ہے، ہو نہیں سکتا۔ یہ ہے بس بنیادی بات۔ 

    رحیل: فاروقی صاحب، آج کی صورت حال یہ ہے کہ موجودہ نسل پر، خاص کر شاعری پر تنقید کے حوالے سے آپ کے نظریات کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ عام طور پر ہر طرف آپ کے نظریے، آپ کے اسلوب نگارش اور طریقۂ کار کی تقلید کی کوشش ہو رہی ہیں بلکہ بہت سے لکھنے والوں کے یہاں آپ کی مروج کی ہوئی اصطلاحوں کو دیکھا جارہا ہے۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی نسل آپ کے ہی نظریے اور خیالات کی اشاعت کر رہی ہے۔ چاہے نام نہ دے رہے ہوں۔ 

    محفوظ: لیکن افسانے کے تعلق سے اگر دیکھا جائے کہ لوگوں کا عجیب رویہ ہے کہ آپ کی رائج کردہ اصطلاحوں میں گفتگو تو ہوتی ہے لیکن رائج کردہ نظریات کو لوگ نظرانداز کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں ایسا کیوں ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: وہی بات ہے کہ جیسا میں نے کہا کہ ہمارے یہاں فکشن کی تنقید شروع سے ہی ان بنیادوں پر قائم کی گئی کہ فکشن کے سروکار کیا ہیں۔ اس کے سماجی سروکار کیا ہیں اس 
    کے سیاسی سروکار کیا ہیں۔ کوئی بھی تنقید جن میں فکشن کے ان سروکار سے کوئی خاص تعلق نہ رکھا گیا ہو وہ اردو کے عام پڑھنے والوں یا طالب علموں کے لیے زیادہ قابل قبول ابھی شاید نہیں ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ جس طرح ذہن چاہیے مثلاً وہی مضمون پھر اٹھالیتے ہیں، بیانیہ اور کردار کی کش مکش، تو جس طرح کا ذہن چاہیے اس طرح کا مضمون لکھنے کے لیے وہ ذہن ابھی تیار نہیں ہوا ہے۔ ابھی تک کا ذہن موجود نہیں ہے جو اس طرح کے سوال اٹھاسکے۔ کردار اور بیانیہ دو بڑے بڑے Asses، ان میں آپس میں کس طرح کا Interaction ہوتا ہے۔ پہلے کس طرح سے تھا اور اب کس طرح سے ہوا ہے۔ میرے خیال میں ان چیزوں کو سوچنے کے لیے ذہن تیار نہیں ہوا ہے۔ اور شاید اس طرز پر سوچ کر لکھنا زیادہ مشکل ہے۔ اس کے مقابلے میں کہ ہم کسی کردار کی خوبصورتی، اس کی مضبوطی، اس میں دل کو چھولینے والی کیفیت کے بارے میں سوچیں۔ ٹھیک ہے صاحب بیدی نے گرہن میں عورت کو جس طرح پیش کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ساس کے مظالم کا شکار ہے گھر سے بھاگ لیتی ہے، لیکن جس کے پاس بھی جاتی ہے اس پر ظلم کرتا ہے، وہ استعمال کرتا ہے آخر کار وہ واپس آتی ہے۔ پھر ہمیں معلوم نہیں کہ اس کا کیا ہوتا ہے تو اب وہ عورت بہت ہی پاورفل سمبل ہے استحصال کا یا عورت پر مظالم کا۔ لیکن آخر میں بیدی اس کو گھر کی طرف بھیج دیتے ہیں تو کیوں بھیج دیتے ہیں۔ کیا وہ چاہتے ہیں کہ واقعی وہ پھر سسرال جائے اور اس کے طعنے سہے اور مظالم کا شکار ہو۔ شوہر کے ناز اٹھائے اور اپنے من کو مارکے رکھے کہ گویا یہی عورت کی معراج ہے۔ تو میں جب ان افسانوں کو پڑھوں گا تو میں یہ پوچھوں کا کہ جو یہ کردار بنایا گیا ہے اس کو بنانے میں جو چیزیں شامل کی گئی۔ وہ کس حدتک اس افسانے یا اس کردار میں ہمیں تیار کرتی ہیں بیدی کے نقطۂ نظر کو قبول کرنے کے لیے۔ اگر تیار نہیں کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نقطۂ نظر میں کہیں کوئی کمی ہے جو اس کے پڑھنے والے کو بہت کھٹکتی ہے۔ جو یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ جو آدرش گرہن سے نکلتا ہے وہ میرے لیے قابل قبول کیوں ہے۔ کیوں کا جواب بیدی کے یہاں بالکل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں بس ایسا ہے تو ظاہر سی بات ہے جب کیوں کا سوال اٹھے گا تو بھائی سروکار سے آگے بات جائے گی کہ کس طرح سے وہ کردار بنایا گیا ہے اور اس کردار کے لیے جو واقعات بنائے ہیں بیدی نے۔ وہ واقعات کیا من مانے (Arbitrary) ہیں یا ان واقعات کے پیچھے کوئی منطق ہے۔ اگر وہ من مانے ہیں تو یقیناً ایک اور طرح کا جواب ملے گا۔ اور وہ منطقی واقعات ہیں تو ایک اور طرح کا جواب ملے گا کہ بھائی یہ کس طرح کے سوال ہیں۔ یہ سوال کیوں اٹھارہے ہیں آپ۔ ہم کو اس سے کیا مطلب ہے۔ 

    بہرحال جو بھی قصہ ہو میں یہی سمجھتا ہوں۔ جو بھی ہوں دیکھتے ہیں پندرہ بیس سال ابھی اور ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا صورت بنتی ہے۔ لوگ کیا نتائج نکالتے ہیں۔ تو اب یہ سوال ایسے ہیں کہ پوچھنے سے لوگ گھبراتے ہیں۔ تو ان سوالوں کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ بھائی ان میں کیا رکھا ہے بس بیدی نے گرہن میں یہ دکھایا ہے کہ ہندوستانی عورت کتنی مظلوم ہوتی ہے اور ظلم سہتی ہے اور اس کا ملجا و ماوی اور اس کا ٹھکانا اس کا گھر وہیں پر ہے جہاں اس کا شوہر ہے۔ تو اس لیے یہ باتیں کہنا آسان ہے۔ لیکن جب آپ افسانے کے جوتانے بانے ہیں اور جن سے وہ افسانہ بنا ہے ان کو جب اٹھاکر بکھیرنا چاہتے ہیں اور اس طرح سوال اٹھانا چاہتے ہیں تو لوگ بے چین ہوجاتے ہیں۔ 

    محفوظ: فاروقی صاحب اب ایک سوال جسے آپ ہی سے پوچھنا زیادہ مناسب ہوگا۔ وہ یہ کہ جدید تصورات کی ابتدا آج سے چالیس سال پہلے ہوئی۔ اور ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تصورات آج بھی بڑی حدتک جاری و ساری ہیں۔ لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ ان میں Developments بھی ہوئے ہوں۔ آپ کے خیال میں جدیدیت کے وہ بنیادی تصورات جو اس کے ابتدا اور عروج کے زمانے میں رائج ہوئے اور آج کی موجودہ جدید صورت حال ہے، ان تصورات میں کوئی ارتقا یا تبدیلی دکھائی دیتی ہے یا وہ صورت حال وہی آج بھی قائم ہے۔ ظاہر ہے کہ جدیدیت کا بنیادی تصور تو نہیں بدلا ہے، لیکن حالات میں بہت سی تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں۔ تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی وسعت کوئی تبدیلی یا کوئی انحراف پیدا ہوا ہے۔ آپ چالیس سال پر پھیلی ہوئی صورت حال کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ظاہر ہے تبدیلی تو آئی ہے اور آنا بھی چاہیے۔ تیس پینتیس سال جب کسی چیز پر گزرگئے ہیں تو تبدیلی آئے گی ہی، لیکن وہ تبدیلی کیا اس کے بنیادی عناصر کو بدل کے پیدا ہوئی ہے۔ یہ اصل سوال ہے۔ 

    رحیل: جی ہاں ہم لوگوں کی مراد بھی اسی بات سے ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: تو ایسا نہیں ہے جیسا کہ میں نے کہیں لکھا بھی ہے کہ جدیدیت کے جو کلیدی مقدمات ہیں ان سے آج بھی کوئی انکار نہیں کرتا۔ مثلاً اگر ہم نے یہ کہا کہ تجربہ کرنا شاعر یا ادیب کا بنیادی حق ہے۔ تجربے نئے نئے کرے /چاہے کامیاب ہو یا نہ ہو۔ تجربہ اسے کرنا چاہیے۔ آگے اللہ مالک ہے۔ نئی چیزیں اسے بہرحال لانی چاہیے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرتا ہے۔ ہم نے کہا کہ ادیب کو پوری پوری آزادیٔ اظہار ملنی چاہیے۔ کوئی پابندی نہ ہو کہ فلاں فلسفے کی روشنی میں لکھو۔ یا فلاں مذہب کی روشنی میں لکھو۔ فلاں آدمی کے خیالات کی روشنی میں لکھو۔ تو سب لوگ یہی کہہ رہے ہیں۔ آج کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ کسی خاص فلسفہ، انسان یا کسی خاص کتاب کی روشنی میں لکھنا لازمی ہے۔ 

    احمد محفوظ: جی ہاں آج تو یہ بات کوئی نہیں کہہ سکتا۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: مثلاً ہم نے یہ کہا جو بالواسطہ استعاراتی بیان ہے، وہ برتر اور افضل ہے۔ بلاواسطہ اور سیدھے سادے بیان سے۔ اس سے بھی کوئی آج انکار نہیں کر رہا ہے۔ اس طرح جو پانچ سات بنیادی باتیں تھیں۔ ان سے آج کسی کو انکار نہیں ہے۔ آج جو کچھ لکھا جارہا ہے۔ بلکہ ان کا استحکام ہی ہو رہا ہے۔ آخر دیکھیے نا (اگر برانہ مایں دنیا بھر کی فضولیات) ہائیکو، ماہیا، فلانا یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ اسی لیے تو ہو رہا ہے کہ ہم نے کہا کہ بھیا آپ کو حق ہے جو چاہے لکھیں، جو آپ کو اچھا لگے وہ لکھیں۔ تجربہ تو کیجیے۔ اگر آپ محسوس کرتے ہیں، اصناف کی موجودہ صورت حال سے مطمئن نہیں ہیں۔ نئی اصناف میں ضرور تجربہ کیجیے اور پھر دیکھیے کہ کوئی شکل بنتی یا نہیں بنتی ہے۔ تو یہ بات اسی لیے پیدا ہوئی کہ شاعر کو حق ہے کہ وہ نئے نئے تجربے کرے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جو شدت شروع شروع میں تھی بعض positions میں وہ اب نہیں ہے۔ اس وقت ہم نے کہا کہ افسانے کے لیے ضروری ہے کہ واقعات کا Linear Sequence جو ہے اسے افسانہ نگار توڑے مروڑے۔ کردار کی وہ اہمیت نہ رکھے جو پہلے لوگوں نے رکھی تھی۔ تو یہ بات اب بھی ہم کہتے تھے کہ یہ ضروری نہیں ہے، لیکن جو اور افسانہ لکھے جارہے ہیں جن میں linear sequence کا اہتمام کیاگیا ہے تو اس کی ہم شکایت نہیں کرتے ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ لوگ یہ نہ سمجھیے کہ پریم چند اور کرشن چند کے آگے افسانہ ختم ہوگیا۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پریم چند اور کرشن چند نے افسانے کے پورے Paradigm مقرر کردے ہیں، ان سے انحراف ممکن نہیں تو آپ زیادتی کر رہے ہیں۔ انحراف ممکن ہے، انحراف ہونا چاہیے۔ اگر کوئی افسانہ نگار اب بھی اپنی حیثیت کو قائم کرنے کے لیے ان باتوں سے منحرف ہونا چاہتا ہے یا یہ کہ وہ سادہ اور شفاف بیان کے مقابلے میں نیم شفاف بیان چاہتا ہے تو کرنے د یجیے، تو دیکھیے اس میں کیا نکلتا ہے۔ اگر اس میں کچھ نکلتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ چھوڑدیجیے۔ یہ تو آپ سے کسی نے کہا نہیں کہ آپ اسے ضرور پڑھیے۔ خلیل الرحمن اعظمی یہی کہا کرتے تھے بھئی نہیں سمجھ میں آتا تو چھوڑدیجیے کس نے کہا ہے کہ آپ پڑھیے۔ آخر اگر ان افسانوں نظموں کو پڑھنے سے آپ کو بخار آتا ہے تو کیوں پڑھتے ہیں آپ۔ تو ظاہر ہے کہ اب ایسے افسانے لکھے جارہے ہیں جن میں کہ اتنا زیادہ تجربہ یا نیم روشن طرز نہیں اختیار کیا جارہا ہے۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ان افسانوں کو چھاپتے ہیں ہم۔ لیکن اس طرح کے افسانے جو ساٹھ ستر میں مروج تھے۔ آج اگر لکھیں تو میں آج بھی ان کو چھاپوں گا۔ کیونکہ میں نے ان کے لیے جگہ بنادی ہے۔ ان کی بھی جگہ ہے۔ ان کو بھی کرسی ملنی چاہیے۔ جہاں کرشن چندر بیٹھے ہیں۔ ان کے بغل میں ا ن کو بیٹھنا چاہیے۔ سریندر پرکاش کو بھی بٹھاؤ، بلراج مین را کو بھی بٹھاؤ۔ تو یہ فرق پڑا ہے نا۔ پھر ایک طرح کا جو انقلابی جوش کسی نئی چیز کے آنے سے پھیلتا ہے تو اس طرح کا جوش اس زمانے کے لکھنے والوں میں بھی تھا۔ اب وہ نئی چیز مکمل ہوچکی، قائم ہوچکی اور ہر طرف پھیل ہوچکی ہے تو ظاہر ہے اس حدتک انقلابی جوش اب تمہیں نظر نہیں آئے گا۔ 

    دوسری بات یہ کہ یہی افسانے جو آج لکھے جارہے ہیں اور جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان میں بیانیہ واپس آگیا ہے۔ اگر یہ افسانے ۱۹۶۰ء میں لکھے جاتے تو اس وقت بھی یہی کہا جاتا کہ یہ افسانے سمجھ میں نہیں آرہے ہیں کہ ان میں کیا کہا جارہا ہے۔ یہ میرا دعویٰ ہے۔ یہ جو آج لوگ بہت بغلیں بجا بجاکے کہہ رہے ہیں کہ کہانی واپس آگئی ہے۔ بیانیہ واپس آگیا۔ چالیس برس کی مشق نے، مزاولت نے، مانوسیت نے ان کو آج آپ کے لیے آسان کردیا ہے۔ 

    رحیل: ہاں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اتنے طویل عرصے تک خاص طرح کی تخلیقات پڑھتے پڑھتے ہم ان سے مانوس ہوجاتے ہیں۔ اور پھر وہ مشکل اور پیچیدہ طرز ہمارے لیے قابل فہم ہوجاتا ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: اس طرح آپ یہ غور کریں کہ جو نظمیں، غزلیں افسانے آج ہمارے لیے آسان لگ رہے ہیں۔ چالیس سال پہلے آپ کو آسان نہیں لگ رہے تھے۔ 

    محفوظ: آج ان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اب چیزیں بہت آسان ہوگئی ہیں یا ان میں وہ علامتی و استعاراتی اور تجریدی اظہار نہیں ہے۔ جو پہلے تھا۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ بقول بعض صورت حال معتدل ہوگئی ہے۔ 

    رحیل: اس عرصے میں لوگ ان چیزوں کے عادی ہوگئے ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ہاں لوگ عادی ہوگئے ہیں۔ یہ تو خود میں اپنے لیے کہہ سکتا ہوں کہ نئی شاعری جب سن پچاس پچپن میں پڑھ رہا تھا تو اس وقت کے جو شاعر تھے آج ان کو پڑھتا ہوں تو مجھے آسان لگتے ہیں۔ جب کہ اس وقت وہی لوگ مجھے مشکل لگتے تھے۔ یہ ہوتا ہی ہے۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں۔ 

    رحیل: آپ نے ایک زمانے میں بہت سے فرضی ناموں سے افسانے لکھے تھے۔ مثلاً جاوید جمیل اور شہرزاد وغیرہ کے نام سے۔ یہ افسانے شب خون میں شائع بھی ہوئے اور پڑھے گئے اور یقیناً اچھے افسانے ہیں۔ آپ نے اپنے افسانوں کا پہلا مجموعہ جو ابھی حال میں شائع کیا ہے اس میں ان ابتدائی افسانوں کو جگہ کیوں نہیں دی۔ کیا آپ کے خیال میں وہ افسانے سوار اور دوسرے افسانے میں شائع افسانوں کے مقابلے میں ایسے نہیں تھے کہ اس مجموعے میں شامل کیا جاتا۔ یا ممکن ہے اس مجموعے کو آپ نے بطور انتخاب شائع کیا ہو۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: انتخاب تو میں نے نہیں شائع کیا ہے۔ ہا ں میرے افسانوں کا پہلا مجموعہ ضرور شائع ہوا ہے۔ ہاں یہ ممکن تھا کہ ابتدائی افسانوں کا ایک الگ مجموعہ شائع ہوتا۔ میرے خیال میں وہ یقیناً اچھے افسانے ہیں۔ اگرچہ ایک خاص طرح کے ہیں۔ اب یہ تو کاہلی ہے کہ میں نے بہت سی چیزیں جمع نہیں کی ہیں۔ مثلاً اگر تم مضامین ہی کو لے لو، تو تین مجموعے بھر کے مضامین تو اب بھی کونے میں پڑے ہوئے ہیں۔ تو فرصت بھی تو چاہیے۔ ادھر جو پانچ افسانے ایک کتاب میں جمع کر دیے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے خیال میں یہ افسانے ایک خاص تہذیبی ضرورت کے تحت پڑھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ہمارا اجتماعی ادبی حافظہ ہے اس سے بہت ہی چیزیں محو ہوتی جارہی تھیں۔ اور آج کل کے زمانے میں بعض لوگوں کے یہاں، میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اس تہذیبی حافظے کو محو کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے کہ لوگ اسے بھول جائیں۔ تو اس لیے میں نے سوچا یہ افسانے اگرجمع ہوجائیں اور سامنے آئیں تو شاید ایک حد تک اسی تہذیبی حافظے کی بازیافت میں کامیابی ہو۔ یا کم سے کم لوگ دیکھیں کہ یہ چیزیں ہمارے تہذیبی ماضی میں موجود ہیں اور اس تہذیب نے ہی اس کو جنم دیا ہے۔ تو اس ضرورت کو، اس اہمیت کو دیکھتے ہوئے آج سے دس پندرہ سال پہلے سے میں خاص کر کے اپنے ادبی تہذیب کو گویا دوبارہ حاصل کرنے میں زیادہ منہمک رہا ہوں۔ 

    محفوظ: پچھلے چند برسوں میں میر اور داستان کی شعریات کے حوالے سے آپ کے کام بھی اسی کا حصہ ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ہاں ہماری شعریات بھی اس میں شامل ہے۔ اب جو افسانے جاوید جمیل نے لکھے۔ شہرزاد نے لکھے، وہ شب خون میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اگر کبھی تم لوگوں میں یا جس کو توفیق ہوگی کبھی آکے بیٹھے گا تو میں دکھادوں گا یہ سب ہے انہیں جمع کرو اور جو اچھے لگیں چھاپ دو۔ میں ان افسانوں سے شرمندہ نہیں ہوں، نہ مجھے کوئی شکایت ہے۔ لیکن آج کے تناظر میں مجھے زیادہ اہم معلوم ہوا یہ افسانے جن میں میں نے دہلی اور لکھنؤ کو گویا مرکز بناکر ادبی تہذیب اور ادبی معاشرہ اور شاعر کی اس ادبی معاشرہ میں حیثیت و اہمیت کیا تھی۔ شاعر سے کیا کیا توقعات ہوتے تھے، اور وہ کس طرح پورے ہوتے تھے۔ معاشرے سے شاعر کو کیا چاہیے تھا، اور شاعر سے معاشرے کو کیا چاہیے تھا۔ یہ تمام باتیں ان افسانوں میں پیش کی گئی ہیں۔ تو شاید آج کے ماحول میں یہ افسانے زیادہ اہم ہوں جب کہ ان چیزوں کو لوگ بھلانا چاہتے ہیں اور یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو ماضی میں ہوگیا ہوگیا۔ اب تو نیا زمانہ ہے۔ نئی باتیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ 

    محفوظ: بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا جو اصل منصوبہ اپنے ادبی اور تہذیبی ماضی کو دریافت کرنے کا ہے۔ جو کام آپ نے تنقید اور علمی سطح پر شعر شور انگیز کے ذریعے کیا، وہی کام تخلیقی سطح پر آپ نے ان افسانوں کے ذریعے کیا ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ افسانے شعر شور انگیز اور ساحری، شاہی، صاحب قرانی کے تسلسل کا حصہ ہیں۔ 

    رحیل: میرے خیال میں اس طرح کے افسانے اردو میں پہلی بار لکھے گئے ہیں ایسی مثال پہلے تو شا ید نظر نہیں آتی۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: جیسا کہ اس کتاب کے دیباچہ میں میں نے بیان کیا ہے کہ تھوڑی بہت تو Category ہے ان کی اردو میں بھی۔ لیکن اتنے پھیلاؤ کے ساتھ اتنے تسلسل کے ساتھ اس تہذیب کو بیان کرنا اور پڑھنا شاید نہیں ہوا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ فرحت اللہ بیگ کا ’دہلی کی آخری شمع‘ یا مالک رام کا ’غالب احوال و عادات!‘ ہے تو یقیناً یہ اسی Category میں شامل ہیں۔ 

    رحیل: ہندی میں اس طرح کی چیزیں ملتی ہیں۔ خاص طور سے امرت لال ناگر نے سور اور تلسی کو موضوع بناکر اس طرح کی چیزیں پیش کی ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ہاں!ہندی میں تو ظاہر ہے بعض لوگ بہت Active تھے اور آج بھی ہیں۔ اور ماضی کو گویا تعمیر کرنے میں بہت مصروف ہیں کیونکہ ہندی میں تو کوئی ماضی ہے نہیں۔ لہٰذا اس کی تعمیر کرنا ضروری ہوا۔ اب ظاہر ہے سور، تلسی ہندی کے شاعر تو ہیں نہیں۔ تلسی اودھی کے شاعر ہیں، تو سور برج کے۔ اب ان لوگوں نے برج اور اودھی کو اپنی جیب میں رکھ لیا ہے تو یہ اور بات ہے۔ بہرحال یہ کہ تاریخی طور Legitimation حاصل کرنے کے لیے پرانی اودھی کو، برج کو اور دوسری زبانوں کو اپنے یہاں شامل سمجھتے ہیں تو اسی حکمت عملی کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ ان کے بارے میں ناول لکھے جائیں۔ 

    رحیل: فاروقی صاحب۔ ہم آپ کے بہت شکرگزار ہیں کہ آپ نے ہم لوگوں کے ساتھ اتنی طویل گفتگو کی، جس سے بہت سی اہم باتیں سامنے آئیں۔

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے