Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شمس الرحمٰن فاروقی کے ساتھ مکالمہ

شمس الرحمن فاروقی

شمس الرحمٰن فاروقی کے ساتھ مکالمہ

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

     

    (یہ پینل انٹرویو’’روزنامہ جنگ‘‘ لندن کے ذریعہ منعقد کیا گیا تھا اور وہیں شائع ہوا۔ بعد میں ’شب خون‘ میں بھی شائع ہوا۔ اس گفتگو کے پینل میں ساقی فاروقی، رضا علی عابدی، عبید صدیقی، سیما جبار، افتخار قیصر اور اور مشتاق مشرقی شامل تھے)

    ساقی فاروقی: اس وقت شمس الرحمٰن فاروقی اردو ادب کے حوالے سے پورے برصغیر پاک و ہند میں سب سے بڑے نقاد ہیں۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ان کا مرتبہ محمد حسن عسکری جیسے لوگوں کے برابر ہے۔ بھارت میں جدید ادب کے نقاد زیادہ ہیں۔ وہاں فاروقی کے علاوہ گوپی چند نارنگ، وارث علوی، شمیم حنفی اور فضیل جعفری جیسے لوگ موجود ہیں۔ پاکستان میں جدیدیت کے حوالے سے وزیر آغا کا بھی نام آتا ہے۔ چاہے یہ کام انہوں نے اپنی پبلسٹی کے لیے ہی کیا ہو لیکن انہوں نے جدید شاعروں اور ادیبوں کی ایک تحریک کی طرف لوگوں کو متوجہ ضرور کیا ہے۔ پھر سہیل احمد خاں بھی منظر پرآئے ہیں۔ مظفر علی سید ان سے پہلے سے موجود ہیں۔ مگر میرے دل میں شمس الرحمٰن فاروقی کی عزت ان سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے کہ وہ سچے اسکالر ہیں۔ انہوں نے بہت سے نئے لوگوں کو اپنے رسالہ ’’شب خون‘‘ کے ذریعہ متعارف کیا۔ سرکاری ملازمت میں رہنے کے باوجود وہ مغربی ادب، فارسی ادب، اردو کی پرانی اور نئی شاعری، ان سب کے عالم ہیں یہ دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے۔

    افتخار قیصر: شمس الرحمٰن فاروقی، آپ امریکہ میں بھی رہے ہیں اور لندن بھی آتے رہتے ہیں۔ آپ پہلے یہ بتائیں کہ امریکہ اور برطانیہ میں اردو ادب کے حوالے سے آپ کیا تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں؟ اور فی الحال دیار مغرب میں آپ کا آنا کس تقریب سے ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ساقی فاروقی نے میرے بارے میں مبالغہ آمیز باتیں کہی ہیں۔ بہرحال ان کی محبت ہے۔ میں ان باتوں کا اہل نہیں ہوں۔ ہاں اردو ادب کے حوالے سے یہ کہوں گا کہ میں نے اردو ادب کی خدمت ایسے کی جیسے کوئی اپنے والدین کی خدمت کرتا ہے۔ رہا سوال امریکہ میں میرے موجودہ کام کا، تو میں کولمبیا یونیورسٹی میں آب حیات کے ترجمے کے ایک پراجکٹ پر کام کر رہا تھا۔ اس کی تکمیل کے لیے مجھے ماہر صلاح کار کی حیثیت سے دعوت دی گئی تھی۔ یونیورسٹی والوں کا اصرار تھا کہ میں چھ مہینے وہاں قیام کروں لیکن میں نے ایک سال کے وقفے سے تین تین مہینے وہاں رہ کر کام کیا جو اب تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ پہلے خیال تھا کہ آزاد نے شعرا کے کلام کے نمونے جو دیے ہیں ان کا ترجمہ نہ کیا جائے۔ بعد میں نیشنل انڈاؤمنٹ فار ہیومینٹیز National Endowment for humanities نے (جس کی گرانٹ کے تحت یہ کام ہو رہا تھا) تجویز رکھی کہ تھوڑا بہت نمونہ کلام ترجمہ ہو تو خوب ہے۔ چنانچہ ہر شاعر کے نمونہ کلام سے کچھ انتخاب کرکے اس کا ترجمہ بھی میں نے اپنی نگرانی میں مکمل کرالیا ہے۔ کلام کا ترجمہ کرنے میں مصلحت یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ جن شعرا کا ذکر اس کتاب میں ہے ان کا کلام ترجمے کے بعد کیسا لگتا ہے یعنی انگریزی زبان میں۔ بنیادی طور پر آب حیات کا ترجمہ ایک ثقافتی تہذیبی اور تاریخی دستاویز کے طور پر کیا گیا ہے۔ (۱) میں نے اپنے دیباچے میں یہ بات واضح کردی ہے کہ تنقیدی اور تحقیقی اعتبار سے یہ کتاب مستند نہیں۔ اگر اس کا اثر بہت ہوا اور اب بھی باقی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ اس لیے نہیں کیا جارہا ہے کہ اس کے ذریعہ انگریزی پڑھنے والوں کو اردو شاعری کے بارے میں کوئی تاریخی حقائق معلوم ہوں گے بلکہ یہ ترجمہ اس لیے کیا جارہا ہے کہ یہ ایک تہذیبی اور شعری دستاویز ہے اس زمانے کی، جب اردو کا کلاسیکی کلچر یا تو ختم ہوچکا تھا، یا تباہ ہو رہا تھا۔ وہ شخص جو اس تہذیب کا حصہ دار تھا، جس نے اس تہذیب کو بڑی حدتک پھیلتے پھولتے ہوئے اور پھر مٹتے ہوئے بھی دیکھاتھا، وہ اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ اور کس طرح سے اسے دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے۔ اور ہم آج کے لیے اس سے کیا نتائج اخذ کر سکتے ہیں؟ میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں اس کتاب کے تنقیدی مشمولات سے متفق نہیں ہوں اور انہیں غلط بلکہ نقصان دہ سمجھتا ہوں۔ تاریخی اعتبار سے بھی اس میں بہت سی باتیں غلط ہیں یا بے ثبوت شامل کی گئی ہیں، ان باتوں کی اہمیت کی وضاحت دیباچے میں بخوبی ہے اور ساتھ ہی ساتھ کتاب ہے۔ 

    (۱) یہ کتاب (OUP) نئی دہلی سے شائع ہوچکی ہے۔

    اس کام کے علاوہ میں پنسلوانیا یونیورسٹی فلاڈلفیا میں ایڈجنکٹ پروفیسر (Adjunct Professor) بھی ہوں اور اس تعلق سے وہاں پر ہر سال آتا جاتا ہوں۔ اس سلسلے میں عربی کہاوت مجھ پر صادق آتی ہے کہ، ’’بڑوں نے جانے انجانے چھوٹوں کو بڑا کردیا‘‘ یعنی مجھ جیسا شخص جس کے پاس اردو کی کوئی ڈگری نہیں ہے اسے ایک بڑی یونیورسٹی نے کلاسیکی اردو شاعری، اردو تہذیب، شعریات اور فارسی شعریات پڑھانے کے لیے اعزازی عہدہ دیا۔ لیکن وہاں بھی میں بہت کم، یعنی میں چند ہفتوں کے لیے جاتا ہوں۔ 

    بہرحال، ترجمۂ ’آب حیات‘ کا تو کام پورا ہوا۔ اس وقت جو میرا Work in progress ہے، یا جو کام میرے زیر غور ہے وہ ہے اردو کی کلاسیکی شعریات کی بعض بنیادی اصطلاحات کی وضاحت تفصیل اور باریکی کے ساتھ کرنا مثلاً روانی، رعایت، مناسبت، وغیرہ۔ بعض ایسی اصطلاحات ہیں جن کے بارے میں جدید تنقید کے شروع کے زمانے میں کچھ غلط فہمیاں پھیل گئیں تھیں۔ یہ زمانہ ۱۸۸۰ سے ۱۹۱۵ تک کا ہے۔ مثلاً ہمارے یہاں ایک لفظ رعایت جسے اب عام طور پر برے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے فلاں صاحب کے یہاں رعایت لفظی بہت ہے اور اس کا مطلب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ بہت ہی غیر سنجیدہ بات ہے۔ اور سنجیدہ شاعر کے منصب سے گری ہوئی ہے۔ اسی طرح، ایہام کا لفظ ۱۷۲۰ کے آس پاس بہت مقبول ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں ایہام گوئی کی ایک تحریک تھی اور شروع شروع میں حاتم، آبرو، ناجی وغیرہ نے خوب خوب ایہام گوئی کی اور پھر خود ہی اس سے منکر اور تائب ہوکر ایہام گوئی ترک کردی۔ ایک اصلاح ’’مناسبت‘‘ ہے جسے پرانے تذکروں میں یوں برتا گیا ہے کہ (مثلاً) اگر فلاں لفظ شعر میں ہوتا تو کلام میں مناسبت پیدا ہوجاتی۔ میر نے اپنے تذکروں میں یہ لفظ بہت استعمال کیا ہے۔ 

    اب بوجوہ ہماری ادبی تاریخ میں ہوا یہ کہ بعد کے لوگوں نے ایہام اور رعایت کو تو یاد رکھا کیونکہ یہ لفظ تنقیدی گالی کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں، لیکن مناسبت کو بھول گئے۔ کچھ اس وجہ سے بھی بھول گئے کہ اگر مناسبت کلام میں موجود ہو تو اس کی موجودگی اس وقت تک محسوس نہیں ہوتی جب تک آپ مشاق قاری نہ بن جائیں۔ تو ان اصطلاحات کی تعریف، مثالوں کے ذریعہ چھان بین، ان کے پیچھے کیا تصورات شعر کارفرما ہیں، میں اس موضوع پر لکھنے کی غرض سے مطالعہ اور غور کر رہا ہوں۔ 

    باقی رہی بات برطانیہ کی، تو یہاں پر میرا بچپن کا دوست ساقی رہتا ہے جو بہت ہی طرح دار شاعر اور شخص ہے۔ فرصت کی تنگی کے باعث اکثر میں امریکہ اور کناڈا براہ راست چلا جاتا اور یہاں نہ ٹھہرتا۔ لیکن اب ریٹائرمنٹ کے بعد فرصت ہی فرصت ہے۔ اب کیوں کر ممکن تھا کہ میں ادھر آتا اور ساقی سے ملے بغیر چلا جاتا۔ اس کے علاوہ میرا بھائی اور بھتیجا یہاں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہیں۔ تو یہ سب چیزیں مل کر مجھے یہاں کھینچ لائی ہیں۔ 

    افتخار قیصر: سوال کا دوسرا حصہ یہاں پر تخلیق ہونے والے ادب کے بارے میں تھا۔ تھوڑا اس پر بھی اظہار خیال فرمائیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: یہ بات میں ’’جنگ فورم‘‘ کے علاوہ اور جگہوں پر بھی کہہ چکا ہوں کہ اگرچہ اردو ایک چھوٹی زبان ہے اور عمر بھی اس کی ابھی بہت کم ہے، اس کے بولنے والوں کی کوئی سیاسی قوت نہیں ہے جیسی کی عربی بولنے والوں کی ہے۔ لیکن پھر بھی اردو اس وقت دنیا کی چند ایک زبانوں میں ہے جو بھی حقیقی طور پر بین الاقوامی ہیں۔ یعنی آپ کو اردو بونے والا، اردو لکھنے والا، اردو میں لکھنے والا، اردو میں شعر کہنے والا، اور تخلیقی کام کرنے والا دنیا کے ہر کونے میں مل جائے گا۔ اور یہ لوگ اکثر ملکوں میں اتنی تعداد میں مل جائیں گے کہ وہ اپنی ایک حیثیت اپنی جماعت، اپنی انجمن قائم کرسکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب عربی جاننے والا دنیا کے کسی کونے میں نکل جاتا، لوگوں کو اپنی بات بتاسکتا تھا۔ لندن میں عربوں کی موجودگی کا ذکر سب سے پہلے ایک پادری کی تحریر ۱۲۶۰ء میں ملتا ہے۔ وہ شکایت کرتا ہے کہ یہاں لندن میں عرب بہت آگے ہیں۔ اسی طرح، شمالی یورپ میں، سویڈن اور ناروے میں، آثار قدیمہ والوں کو عرب سکے ملے ہیں۔ مغرب والوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ عرب جہازراں ڈوبنے کے خوف سے سمندر کے کنارے کنارے سفر کیا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عرب بہت دلیر اور ہمت والے جہازراں تھے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ آج سے سات آٹھ سو برس پہلے عربی میں کوئی علمی کتاب لکھی جاتی تو وہ ہر جگہ پھیل سکتی تھی۔ لیکن میں اتناکہہ سکتا ہوں کہ شاید کوئی بہت ہی بدنصیبی کا معاملہ ہو تو ہو، ورنہ عام طور پر اگرایک شخص آج اردو بولتا ہوا نکلے تو وہ ٹوکیو سے الاسکا تک بخوبی زندہ رہ سکتا ہے۔ 

    لہٰذا آج یہ بہت اہم سوال ہے کہ اردو کا ادب جو برصغیر ہندوپاک سے باہر لکھا جارہا ہے اس کو ہم کہاں رکھیں اور اس کے بارے میں ہماری کیا رائے ہونی چاہیے۔ یعنی کیا اس ادب کو پرکھنے، اس کے بارے میں سوچنے اور سوال قائم کرنے کا طریقہ وہی ہو جو دلی، لاہور، لکھنؤ، حیدرآباد پٹنہ یا کراچی میں لکھے جانے والے اردو ادب کے بارے میں ہم اختیار کرتے ہیں؟ اصل میں بنیادی سوال جس پر ہم لوگوں نے اب تک غور نہیں کیا، یہ ہے ک ہم لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ شاعر یا ادیب چاہے لندن میں بیٹھا ہو یا شنگھائی میں، چونکہ وہ اردو میں لکھ رہا ہے لہٰذا اس کی زبان، اس کا لہجہ، طرز فکر، طرز احساس، طرز بیان، سب کا سب وہی ہوگا جو گوجرانوالہ یا برہانپور میں ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، بلکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ سفرنامہ لکھ رہے ہیں تو اور بات ہے ویسے ہمارے یہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں اور تھے، جو برسہا برس مغرب کے کسی بھی ملک میں رہ گئے، لیکن ان کی شاعری میں صرف سفرنامے ملتے ہیں، کہ انہوں نے لندن برج یا ماربل آرچ یا نائیگرا فال کے بارے میں نظمیں لکھ ڈالیں۔ تو وہ ہم اپنے ملک میں بیٹھے ہوئے بھی کرسکتے ہیں۔ 

    میں دوباتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کیا مغربی تہذیب میں، یا غیرتہذیب میں جو شخص سانس لے رہا ہے کیا اس کی اردو اور اس کا اردو ادب اسی طرح سے دیکھا جائے گا جس طرح سے دلی، لاہور، کراچی یا بمبئی والوں کا دیکھا جائے گا؟ یہ سوال آپ کے غور کرنے کا ہے کہ آپ لوگ کس طرح کے معیارات یا تصورات چاہتے ہیں اس ادب کے بارے میں۔ کیونکہ یہ کام بھی بڑی حدتک تخلیقی فن کار خود ہی کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے یہاں جن کو مہاجر کہہ لیتے ہیں اردو میں مجھے اس لفظ کا اچھا بدل نہیں مل سکا، انگریزی میں Expatriate کہتے ہیں۔ لیکن میں اپنی تحریر و تقریر میں انگریزی کم سے کم استعمال کرتا ہوں۔ لہٰذا یہ کہنے پر اکتفا کروں گا کہ مہاجر سے میری مراد وہ لوگ ہیں جو وطن سے باہر ہیں۔ ان کے یہاں دو طرح کا ادب ہمارے سامنے آتا ہے۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہاں بیٹھ کر وہی ادب لکھا جو وہ لاہور یا دلی میں لکھتے رہے تھے۔ جیسے راشد صاحب ہیں اور راشد صاحب ہمارے سب سے بڑے شاعروں میں ہیں۔ میں ان کو جدید شعرا کی فہرست میں میراجی کے ساتھ رکھتا ہوں۔ راشد صاحب کی جہاں بہت سی خصوصیات تھیں وہاں ایک بہت بڑی خصوصیت یہ بھی تھی کہ ان کا ذہن شروع ہی سے بین الاقوامی تھا۔ 

    ساقی فاروقی: آپ نے راشد صاحب کے بارے میں جو بات کہی اس سے کیا یہ مطلب لیا جائے کہ اقبال کے بعد آپ ن۔ م۔ راشد کو فیض سے بھی اوپر رکھتے ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: ن۔ م۔ راشد تو فیض سے بہت اوپر ہیں۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں۔ فیض سے اوپر تو اخترالایمان اور مجید امجد بھی ہیں۔ ان چار پانچ شعرا کی فہرست میں فیض بھی ہیں لیکن وہ بہت نیچے ہیں۔ راشد صاحب اقبال کے بعد بین الاقوامی مسائل کے بارے میں سب سے زیادہ سوچتے تھے۔ اس لیے ان کی شاعری میں ہمیں کوئی تبدیلی نظر نہیں آنی چاہیے۔ وہ ایران میں بیٹھے لکھ رہے ہیں۔ یا نیویارک یا لندن میں، بلکہ ملک سے دور ان کا جتنا بھی فاصلہ بڑھتا گیا وہ High Literary Urdu لکھتے رہے۔ جسے اردو میں آپ اردوے معلیٰ کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح مشتاق احمد یوسفی کی زبان پر بھی بجائے اس کے کہ یہاں کی بولی کا یہاں کے محاوروں یا یہاں کے مزاج کا اثر آتا، ان کی اردو اور بھی خالص ہوتی گئی۔ ان کی کتاب ’آب گم‘ دیکھ لیں۔ زہرا نگاہ کی مثال بھی سامنے ہے۔ اس طرح کے اور بھی لوگ ہیں جو یہاں پر، یا امریکہ میں ہیں یا رہ چکے ہیں۔ ان لوگوں کا معاملہ ان لوگوں سے الگ ٹھہرے گا جنہوں نے شعوری یا غیرشعوری طور پر نئی جگہ کے تہذیبی، معاشرتی اور علمی اثرات کو اپنی شاعری میں جذب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے بھی بہت سے لوگ ہیں، خاص کرکے فکشن میں جو تہذیبی تضاد کا شکار ہیں۔ یا تہذیبی تضاد کا شکار ہونے والے لوگوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ اس کی مثال وہ لوگ ہیں جو یہاں عرصہ دراز سے آباد ہیں لیکن اب بیٹی جوان ہوگئی، اسے کہاں لے جائیں، وہ تو چاہتی ہے کہ میرا کوئی بوائے فرینڈ ہو اور آپ چاہتے ہیں کہ اس کی شادی لائل پور یا فیصل آباد میں کروں۔ جب کہ لڑکے اگر یہی کہتے ہیں یا کرتے ہیں تو ہمیں اتنا برا نہیں لگتا۔ جب لڑکی کرتی ہے تو ہمیں بہت تکلیف پہنچتی ہے۔ ہم نے بہت سے ایسے افسانے پڑھے ہیں جن میں ان مسائل کا ذکر ملتا ہے۔ بغیر کسی حل کے۔ یعنی مسائل تو بیان کردیے گئے ہیں لیکن ان مسائل کے حوالے سے کسی قسم کا داخلی احتساب نظر نہیں آتا۔ جب کہ اردو اور دنیا کے نئے ادیب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے زیادہ خود احتساب ادب کوئی نہیں۔ مغرب میں نئے ادب کی شروعات ۱۹۱۵ یا ۱۹۲۰ سے ہوئی۔ اسے Modernism کا بھی نام دیا جاتا ہے۔ اس کی پہچان یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ سوال بہت کرتا ہے اور غالب کو ہم سب سے پہلا جدید شاعر اور آخری بڑا کلاسیکی شاعر اس لیے کہتے ہیں کہ ان کے یہاں کلاسیکی شعرا کے تمام دم خم موجود ہیں۔ اور سب سے زیادہ سوال بھی وہی کرتے ہیں۔ جیسے کہ ’کاغذی ہے پیراہن ہر پیکر تصویر کا‘ جس سے ان کا دیوان شروع ہوتا ہے۔ 

    اب آپ عبداللہ حسین کا افسانہ ’واپسی کا سفر‘ لے لیں۔ وہ خود سوال نہیں پوچھتے لیکن آپ پوچھنے لگتے ہیں کہ ان لوگوں کا کیا ہوگا؟ یہ لوگ کہاں ہیں؟ ان کی اصل کیا ہے؟ ان کا وطن کہاں ہے؟ یہ کہاں مریں گے اور کہاں دفن ہوں گے؟ تارکین وطن کا جو ادب ہے اسے اپنے نئے ماحول کے فکری، ذہنی، معاشرتی اور نفسیاتی نظام کو اپنے اندر جذب کرنا چاہیے۔ یہاں رہنے والوں سے میرا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے اس شعور اور نئی حیات کو اپنے ادب میں شامل کریں جو انہیں یہاں مل رہی ہیں تاکہ اردو ادب کا ایک نیا ورق پلٹا جاسکے۔ جیسے برصغیر کے لوگوں نے فارسی کا نیا وقت پلٹاتھا۔ امیر خسرو کی فارسی اور ایران کی فارسی میں کوئی فرق نہ تھا۔ لیکن ہندوستان میں چار پانچ سو سال کے بعد ان فارسی شعرا کا کلام ایران کے باشندوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کیونکہ اس میں برصغیر کے ماحول کے مطابق نئی فکری اور معاشی حسیات شامل کی گئی تھیں۔ میں نے ایران والوں کو بتایا ہے کہ ان کا ادب ایک جگہ رک گیا ہے ان کے یہاں کئی سوسال سے کوئی بڑا شاعر اسی لیے نہیں پیدا ہوسکا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جامی کے بعد آپ کا کون سا بڑا شاعر ہے؟ ایرانی شعرا ادب کے نئے دھارے سے منحرف ہوگئے تھے۔ جس دھارے نے تہذیب، تجربہ، زبان اور تخیل کا نیا انداز دیا، ایرانیوں نے نہ صرف اس سے انحراف کیا بلکہ اس کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ جب کہ برصغیر میں فارسی کے کئی بڑے شاعر پیدا ہوئے۔ غالب کے بعد بھی کئی شاعر پیدا ہوئے جیسے کہ شبلی اور فانی۔ اسی طرح اقبال کے یہاں دورنگے ملتے ہیں۔ ’زبورعجم‘ کو دیکھیے تو ایسا لگتا ہے حافظ بول رہے ہیں۔ ’’جاوید نامہ‘‘ اور پیام مشرق‘‘ میں اور ہی رنگ ہے۔ ہم نے چارپانچ سو برس تک فارسی ادب کے نئے باب لکھے ہیں۔ صائب، نظیری، غنی، بیدل، غالب، نورالعین واسف اور خان آرزو نے یہ باب لکھے۔ پھر چندربھان برہمن، سوامی بیغم بیراگی کو دیکھیں۔ منوہر ہی کو لے لیں جو عبدالرحیم خان خاناں کے دوست راجا لوکرن کا بیٹا تھا۔ وہ فارسی کا پہلا ہندوشاعر تھا جس کا فارسی کلام ایسا ہے کہ آپ کسی بھی اہل زبان استاد سے موازنہ کرلیں، آپ کو فرق محسوس نہ ہوگا اس کا شعر ہے۔ 

    یگانہ بودن و یکتا شدن بچشم آموز
    کہ ہر دو چشم جدا و جدا نمی نگرد

    مطلب یہ کہ دونوں آنکھیں الگ ہیں۔ لیکن دیکھتی الگ الگ نہیں ہیں۔ یہ نہیں کہ ایک یہاں دیکھ رہی ہے تو دوسری وہاں۔ یہ تھا خان خاناں کے زمانے کے شاعر منوہر کا کلام بعض لوگ اسے مرزا منوہر کہتے تھے۔ اب ہم لوگ تو غالب کی وجہ سے مرزا تفتہ کو ہی جانتے ہیں جو کہ ہندو تھے۔ لیکن غالب نے انہیں مرزا کہا تھا۔ جتنا تخلیقی قوت سے بھرا ہوا ادب نظیری، عرفی، صائب، کلیم، ہمدان، ظہوری، غنی اور بیدل نے پیش کیا۔ ایرانی بھی نہ کرسکے۔ اس حوالے سے دیکھنا یہ ہے کہ ساقی فاروقی یا کوئی اور شاعر جو مغربی ممالک میں مقیم ہیں وہ کب اور کس حدتک اردو ادب میں ایک نیا باب رقم کریں گے۔ جیسا کہ ایران سے آنے والے فارسی شعرا نے اور ہندوستان کے فارسی گویوں نے کیا تھا۔ چاہے وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہوں۔ لیکن ہم ان سے تقاضا تو یہی کریں گے۔ 

    ساقی فاروقی: تقاضا تو آپ نے کردیا۔ اسی بات سے ایک بات نکلتی ہے کہ جدیدیت کی طرح انفرادیت بھی ایک طرز زندگی ہے۔ لوگوں نے اپنے ذہنوں میں جو سرحدیں بنا رکھی ہیں انہیں مسمار کیسے کیا جائے؟ ان لوگوں نے تو ضد کر رکھی ہے کہ وہ انہیں مسمار نہ ہونے دیں گے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: سرحدیں مسمار کرنے کے طریقے تو بہت ہیں۔ اگر آپ اپنی تاریخ کو یادرکھیں، پھر تو بہ آسانی مسمار کرسکتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایران، خراسان، آذربائجان، افغانستان سے لوگ آئے اور انہوں نے ہندوستان میں آکر اپنی زبان میں ایک نئے ادب اور نئے طرز فکر کی تعمیر کی۔ اگر ہم ان لوگوں کو بھول جائیں یا پھر یہ سمجھیں کہ صاحب ہم تو اپنی جڑوں سے کٹ گئے ہیں ہم تو ایسے پودے ہیں جو سوکھنے والے ہیں، تو ظاہر بات ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ 

    ساقی فاروقی: اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاریخی شعور کے ساتھ جغرافیائی شعور بھی ضروری ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: جغرافیائی شعور دراصل تاریخی شعور کے بغیر مہلک ہوجاتا ہے۔ اب آپ میر کا زمانہ لیجیے۔ اس زمانے میں جو شاعر لکھ رہا ہے وہ اکثر کم از کم تین زبانیں جانتا ہے۔ وہ اردو میں لکھ رہا ہے۔ یقیناً فارسی جانتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مقامی زبان ضرور جانتا ہوگا۔ مثلاً اگر وہ پورب میں ہے تو اودھی بول رہا ہوگا۔ اگر متھرا کے علاقے میں ہے تو برج بول رہا ہوگا اگر لاہور میں ہے تو پنجابی بول رہا ہوگا۔ اس کے علاوہ اگر اس نے مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے تو وہ عربی ضرور جانتا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ان میں سے کم از کم تین زبانوں میں اظہار خیال پر قادر تھا۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے صوفیائے کرام نے فارسی اردو اور مقامی زبان میں بھی لکھا ہے۔ یہ بائی لنگولزم Bilingualism (۱) کیا بلکہ ٹرائی لنگولزمTrilingualism ہے۔ اگر اس طرح کی روایت اور تاریخ سے آپ واقف نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ آپ یہی کہیں گے کہ ہم جڑ سے اکھڑ چکے ہیں اور میرزا رضی دانش کا شعر پڑھ کر چپ ہوجائیں گے۔ 

    گل بہ دست گل فروشاں رنگ بیماراں گرفت
    آب غربت تاز پردردگلستاں را نہ ساخت

    جس کا مطلب یہ ہے کہ پھول جب بیچنے والوں کے ہاتھ پہنچا تو اس کا رنگ اور حال بیماروں سا ہوگیا کیوں کہ غربت کا پانی گلستاں کے ناز پروردہ کو سازگارنہ آیا۔ 

    (۱) اردو کا ابتدائی زمانہ: تاریخ و تہذیب کے پہلو صفحہ ۶۶ میں خسرو اور مسعود سعد اور سلمان کے تعلق سے دیکھیں۔ 

    رضاعلی عابدی: سرزمین ہند پر فارسی شعرا کے حوالے سے جو کچھ آپ نے کہا اور برطانیہ میں آباد تارکین وطن تخلیق کاروں کے ساتھ جو مماثلت ڈھونڈی جارہی تھی ٹھیک ہے۔ لیکن سرزمین ہند پر اس وقت جو بھی شاعر فارسی میں شعر کہہ رہا تھا اس کا قاری اور اس کا سامع بھی سرزمین ہندپر ہی تھا۔ جب ہم لوگ لکھ رہے ہوتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ہوتا یہی ہے کہ یہ دلی اور کراچی میں بھی پڑھا جائے گا لیکن ذہن کے گوشے میں یہ بہت کم ہوتا ہے کہ یہ بریڈ فورڈ اور مانچسٹر میں بھی پڑھا جائے گا ہم برآمدی ادب لکھتے ہیں۔ ہمارا قاری، ہمارا سامع ہم سے چار ہزار میل دور بیٹھا ہوا ہے اور ہمیں اس کے ذہنی تقاضوں اور ذہنی سطحوں کو ذہن میں رکھنا پڑتا ہے۔ اور اپنی نئی حسیات کو اس میں شامل کرکے ہم یقیناً ایک نیا عنصر اس میں شامل کرتے ہیں۔ جو ادب سرزمین انگلستان میں فروغ پا رہا ہے اس کا اس فارسی ادب سے کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا جس نے ہندوستان میں فروغ پایا۔ یہ ایک المیہ ہے اور یہ بات میں فرسٹ ہنڈ تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مجبوری آپ کے ذہن میں کیوں ہو؟ آپ کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں یا لکھ رہی ہوں اس کا پڑھنے والا یا پڑھنے والی کراچی یا حیدرآباد میں ہوگی اور بریڈ فورڈ مانچسٹر ٹورنٹو اور مونٹریال میں نہ ہوگی۔ کیوں نہ ہوگی؟ یہ تو آپ کی کمزوری ہے۔ آپ کے پڑھنے والے اور سننے والے یہاں بھی ہیں اور وہاں بھی۔ آپ کا فرض ہے کہ آپ کسی قسم کی مفاہمت نہ کریں۔ آپ مفاہمت کرنا چاہتے ہیں تو بہت خوب۔ اگر آپ مفاہمت نہیں کرنا چاہتے اور نہ آپ کو کرنا چاہیے تو آپ یہ بھول جائیے کہ آپ کا پڑھنے والا صرف برصغیر کے چند شہروں میں موجود ہے۔ اگر فرض کیجیے ایسا ہے بھی تو پھر آپ لکھنا پڑھنا چھوڑدیں گے۔ 

    رضاعلی عابدی: یہ بالکل حقیقت ہے کہ آج یہاں سامعین کی تعداد وہ نہیں ہے جو دلیپ کمار کے ساتھ منعقدہ جنگ فورم میں تھی اس المیے سے کبھی نگاہ نہیں پھیری جاسکتی کہ ایک ایسی بتی کا سوئچ ہے جو تھوڑی دیر میں بند ہونے والا ہے۔ اردو یہاں کی Fading جنریشن اور Fading زبان ہے۔ ہماری جو نئی نسل ہے وہ ہماری چھوڑی ہوئی کتابوں کو نہیں پڑھتے، یہ کتاب پھر جاکر کراچی ہی میں بکے گی۔ وہیں اس کی پذیرائی ہوگی۔ ہم لوگ جو تحریریں لکھ رہے ہیں یہ ایسی آگ ہے جس میں عنقریب ہم خود جلنے والے ہیں۔ اس آگ سے نیا پرندہ اب نہ ابھرے گا۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں نے پہلے ہی کہا کہ آپ اگر ایسا سمجھتے ہیں تو کچھ دنوں بعد آپ لوگ بھی لکھنا چھوڑ دیں گے۔ یہ بھی آپ کی ذمہ داری ہے، ہماری تھوڑی ہی۔ آپ کا مسئلہ ہے۔ مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں؟

    رضا علی عابدی: دراصل میرا مشاہدہ ہے، سوال نہیں تھا۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں آپ کے اس مشاہدے کی تصدیق و توثیق کرتا ہوں۔ یہی سوال مجھ سے دنیا کے کئی ملکوں میں پوچھا گیا اور میں یہی کہتا رہا ہوں کہ حضور یہ میرا نہیں آپ کا معاملہ ہے۔ کیونکہ جو بھی ادب کا قاری ہے، وہ یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ لندن، برکلی یا نیومیکسیکو میں لکھا ہوا ادب نہیں پڑھے گا۔ اگر یہاں پر ملک سے باہر جو لوگ مجبوری یا شوق سے قیام پذیر ہیں اپنے بعد والوں میں اپنا قاری نہ ڈھونڈسکے تو یہ وہی بات ہے جو میں نے ہندوستان کے بعض بزرگوں ادیبوں سے کہی کہ آپ کے مرنے کے بعد آپ کا افسانہ ناول یا تنقید کون پڑھے گا اگر آپ کے بچے بھی اسے نہ پڑھ پائے؟ تو یہ بھی ان کا ہی معاملہ ہے۔ یہ یقیناً ایک سماجی صورت حال ہے۔ مغرب میں ہمارے اوپر غیر تہذیب کی یلغار ہے۔ اور اس یلغار کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کہ ہمارے بچوں کے بچے پیچھے ہٹ جائیں اور اپنی تہذیبی شناخت کو برقرار نہ رکھ سکیں۔ 

    رضا علی عابدی: وہ زمانہ گزرے زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب اسٹیشن پر کوئی ٹرین رکتی تھی تو لوگ دوڑ کر فیروز سنز بک اسٹال سے ڈیڑھ روپے کا ناول یا کتاب خریدتے تھے۔ اور اسے پڑھتے تھے۔ لاہور کا سفر کیا کرتے تھے۔ اب ڈیڑھ سو روپے کا ناول یا ڈھائی سو روپے کی کلیات بک اسٹالوں پر ملتے ہیں اور گرد کھا رہے ہیں۔ انہیں نہ کوی خریدتا ہے نہ پڑھتا ہے۔ اب ہمارا نیا ادب قاری سے کٹ رہا ہے۔ چند لوگ لکھ رہے ہیں چند لوگوں کے لیے اور چند لوگ پڑھ رہے ہیں اور آپس میں سراہ رہے ہیں۔ بہت کم کتابیں ہیں جو اس حلقے کو توڑ کر باہر نکلتی ہیں جنہیں قبول عامہ حاصل ہوتا ہے۔ جو کتابیں گھر گھر خریدی جاتی ہیں وہ بھی اپنی گھریلو خوبیوں مذہبی لگاؤ کے باعث بکتی ہیں۔ تیسرا شعبہ کوئی نہیں ہے جس کی کتاب کو لوگ ہاتھوں ہاتھ خریدیں۔ میرے ذہن میں ایک زوال کی کیفیت ہے کہ اب ہمارا قاری ڈائجسٹ کی طرف نکل گیا ہے۔ اگرچہ یہ فیصلہ کرنے کا ہمیں حق نہیں کہ کس ادب کو ہم اعلی ادب قرار دیں۔ لیکن اب آئڈنٹٹی کارڈ کوئی نہیں پڑھے گا۔ اور اس قماش کی کتابیں اب اہم قاری تک نہ تو پہنچیں گی اور نہ وہ انہیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اردو زبان کی تاریخ اور ادب پر گہرائی نگاہ ڈالیں تو زوال کی کیفیت نظر آتی ہے کہ نہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: یہ سوال تو سارے اردو ادب کے بارے میں ہے، مہاجر ادب کے بارے میں نہیں۔ لیکن گستاخی معاف آپ کے اس ماتمی بیان میں بہت زیادہ شکست خوردگی، اور بے عملی کا ایک جواز پیدا کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ آپ کے اسی شہر لندن میں ۱۹۳۵ میں سرہربرٹ جو بہت بڑا نقاد تھا۔ بڑا شاعر بھی تھا۔ بلکہ سوشل کرٹک بھی تھا، اس نے کہا تھا کہ برطانیہ میں شاعری وائری ختم ہوچکی ہے۔ اب شاعری English Speaking World میں ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ زمانہ بدل کیا ہے، یہ ہوگیا ہے وہ ہوگیا ہے۔ ایسی باتیں ہم لوگ برصغیر والے بھی کبھی کبھی کہتے ہیں۔ اور اسی زمانے میں (۱۹۱۴) سیسل ڈے لوٹس نے جو بہت بڑا شاعر تھا اور جو بعد میں Poet Laureate بنا، اور آکسفورڈ میں Professor of Poetry بھی۔ اس نے A Hope for Poetry لکھی، یعنی شاعری کے حوالے سے Hope کی بات کی۔ اور Hope بھی یہ کہ اگر شاعری اصلاحی ہو سیاسی پروپگنڈہ کرسکے تو شاید زندہ رہ جائے۔ ورنہ اس کے دن اب تھوڑے ہیں۔ لیکن آج یہ عالم ہے کہ بریڈ فورڈ میں گزشتہ دنوں انگلش پوئٹری کا بہت بڑا جلسہ ہوا جس میں انگریزی کے شاعروں نے اپنا کلام سنایا۔ جلسے کے دوسرے حصے میں ایک نقاد نے ٹی۔ ایس۔ الیٹ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آپ دیکھیں کہ ٹی۔ ایس۔ الیٹ کے بارے میں ہندوستان پاکستان کے نام نہاد دانشور یہ فیصلہ صادر کرچکے ہیں کہ وہ تو مرکھپ گیا۔ بالکل ختم ہوگیا۔ غرق ہوگیا۔ اب آپ یہ بتائیں کہ میں ہربرٹ کی بات نوٹ کروں یا ڈے لوئس کی کتاب پڑھوں یا بریڈ فورڈ جیسے مقام پر پوئٹری Festival کا نظارہ کروں؟

    ایک اور بات یہ کہ جب انگریزی زبان میں ناولوں کا چلن زیادہ ہوا تو سستے سستے چھوٹے سائز کے ناول بہت لکھے جانے لگے۔ میں نے خود ہندوستان میں بارہ آنے میں دوسوصفحات کا پیپر بیک خریدا تھا۔ انگلستان میں پیپر بیک پنگوئن والوں نے ۱۹۳۷ میں شروع کیا تھا۔ (ہمارے کرشنا مینن اس کے ایڈیٹروں میں تھے) اس زمانے میں کہا جارہا تھا کہ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ آٹھ سو صفحات کا ناول پڑھے۔ زندگی تیز ہوگئی ہے، لوگ موٹر، ریل، ہوائی جہاز میں سفر کر رہے ہیں۔ ریڈیو، ٹیلی فون آگئے ہیں۔ پھر ٹی وی اور ٹیپ ریکارڈر آگئے اور ٹیپ پر ناول سنے جانے لگے۔ ایسی صورت میں لمبے ناولوں کا ذوق کس کو ہوگا؟ ورجینیا وولف جیسی بڑی ناول نگار کو بھی اپنے آپ کو ڈھائی تین سو صفحوں تک محدود کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب کیا صورت حال ہے؟ اب تو یہ عالم ہے کہ Popular writing کا کوئی ناول پانچ سو صفحات سے کم کا ہوتا ہی نہیں۔ اب زندگی کی وہ تیزی کہاں چلی گئی؟ اب تو لوگ چاند سے بھی ہوکر آگئے ہیں، کانکورڈ سے سفر کر رہے ہیں کہ حاضری کھائے جو کلکتہ میں تو لندن میں ٹپن کا منظر واقعی آنکھوں کے سامنے ہے۔ اور وہی لوگ بارہ سو صفحات کا ناول خرید رہے ہیں جو دوجلدوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جوناول میری جوانی میں دو سو صفحات کے ہوتے تھے۔ آج وہی پانچ سو سے شروع ہوکر بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اردو ادب کی سماجیات کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہمارے نام نہاد ماہرین نے ناک کے نیچے ایک چیز دیکھی اور کہہ دیا کہ دنیا بدل گئی۔ ادب میں اور انسانوں کی زندگی میں کب کیا ہوجائے گا۔ اس کے بارے میں چند باتوں کی ہی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ مارکس اسی لیے مار کھا گیا تھا کہ اس نے کہا تھا کہ میرے ہاتھ میں ایسی کلید آگئی ہے کہ میں کل کی تاریخ لکھ سکتا ہوں۔ لیکن تاریخ کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں ہوسکتی۔ 

    ساقی فاروقی: ادب کے مردہ ہوجانے کا نعرہ تو محمد حسن عسکری نے بھی لگایا تھا۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: آپ نے فرمایا کہ کلیات چھپ رہے ہیں ڈھائی سو روپے میں کوئی خرید نہیں رہا۔ لیکن چھپ تو رہے ہیں بھائی۔ کیا چھاپنے والے کو کسی کتے نے کاٹا ہے اور چھپوانے والے کو کیا کسی حکیم نے کہا ہے۔ 

    رضا علی عابدی: دیکھیے صاحب یہ بھی کہانیاں ہیں۔ لائبریریوں کو بکتے ہیں اور ان کو ستر فیصد کمیشن ملتا ہے جب کہ لائبریرین اپنی جیب میں تیس فیصدی کمیشن رکھتا ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: عابدی صاحب ہم تیس سال سے یہی کام کر رہے ہیں۔ ہم بھی یہ سب جانتے ہیں۔ 

    رضا علی عابدی: آپ پانچ سو صفحات کے ناول کی بات کر رہے ہیں جو ٹیوب میں لاکھوں لوگ پڑھتے ہیں۔ اس طرح آپ گنتی میں چلے گئے، کوالٹی Quality کی بات کو چھوڑ گئے۔ اگر معیار یہی ہے تو پاکستان میں ساڑھے تین سو صفحات کا سب رنگ ڈائجسٹ ایک لاکھ کے قریب چھپتا ہے۔ صبح جنگ اخبار میں اشتہار چھپتا ہے، شام ڈائجسٹ بک جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پڑھنے والے نہیں ہیں۔ اب لوگ ایک چادر میلی سی جیسے ناول نہیں پڑھتے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: کوئی چیز جس کا نام ادب عالیہ ہے اگر ہے تو اس کے پڑھنے والے ڈیڑھ دولاکھ نہیں ہوں گے۔ اب آپ دیکھیں کہ ورجینا وولف خود ایک پریس کی مالک تھی۔ لیکن اس کے زمانے میں اس کے ناولوں کا پرنٹ آرڈر تین ہزار ہوتا تھا۔ ایک تو انگریزی زبان کی برصغیر ہندوپاک میں زبردست مقبولیت ہوئی ہے اب لوگ اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم میں تعلیم دلوا رہے ہیں اور ورجینا وولف کے ناول چونکہ نصاب میں شامل ہیں اور وہ عورتوں کے مسائل پر بہت کچھ لکھتی رہی، اس لیے اب اس کے ناول زیادہ بک رہے ہیں۔ لیکن اگاتھا کرسٹی کی سترویں سالگرہ پر پنگوئن نے اس کے دس ناول چھاپے اور ہر ناول کا پرنٹ آرڈر دس لاکھ دیا تھا۔ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ میری شاعری کا مجموعہ دس ہزار چھپ رہا ہے تو میں خودکشی کرلوں۔ بڑے ادب کی پہچان ہے کہ وہ رہتا ہے اگرچہ اس کے پڑھنے والے کم ہوتے ہیں۔ 

    ساقی فاروقی: عابدی صاحب نے جس افسوس ناک پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر پہلے ایک کتاب یا ناول کا پرنٹ آرڈر ایک ہزار ہواکرتا تھا اب چار یا پانچ سو ہوگیا ہے۔ اس کا سبب ناخواندگی تو نہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: اس کا سبب خواندگی کی توسیع ہے۔ آپ نے ہر جگہ اسکول کھول دیے ہیں جہاں جاہل پیدا کیے جارہے ہیں۔ پہلے زمانے میں یعنی اصغر اور جگر کے زمانے تک گوکہ یہ بڑے شاعر نہیں تھے اور اقبال کو مستثنی کرتے ہوئے دستور یہ تھا کہ شاعر پہلے اپنے آپ کو مشاعرے میں قائم کیا کرتا تھا، تب جاکر اس کا کلام چھپا کرتا تھا۔ یہ روایت ہمارے یہاں انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی اور ۱۹۴۰ تک یہ سلسلہ چلتا رہے۔ لیکن جب دوسری جنگ عظیم میں War Effort کے باعث شاعروں کی بنیاد کھوکھلی ہوکر رہ گئی تو مشاعروں کا وہ معیار نہ رہا۔ بات دراصل یہ ہے کہ مشاعرے میں سننے والے تو پچاس ہزار بھی ہوسکتے ہیں لیکن جو شاعر مشاعرے میں کامیاب ہوتا ہے اب ہم اسے شاعر نہیں مانتے، کیونکہ مشاعرے میں مقبول ہونا اب شاعر کے خراب ہونے کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔ توسیع تعلیم کی بدولت گلی گلی شاعر پیدا ہورہے ہیں۔ یہ ایسی صورت حال ہے جو ہماری ادبی تاریخ میں پہلی بار پیدا ہوئی ہے۔ یہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور دیگر زبانوں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ جب تعلیم کے نام پر خواندگی کی توسیع ہونے لگتی ہے تو معیار میں زبردست انحطاط پیدا ہوتا ہے۔ لیکن میں ان چیزوں سے بھاگتا نہیں۔ اس لیے کہ اگر بھاگوں تو کام کرنا چھوڑدوں گا۔ جیسے اردو کے بارے میں بعض لوگ کہتے رہتے ہیں کہ اردو ختم ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے جن کے گھروں میں اردو نہیں ہے تو ان کے ہاں وہ ضرور ختم ہوجائے گی۔ 

    ساقی فاروقی: آپ کے رسالے ’’شب خون‘‘ نے پچھلے تیس برسوں میں نئے لوگوں کو سامنے لانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ پہلے جو ایڈیٹر ہوتا تھا وہ کچھ چیزیں رسالے میں سے خارج کردیتا تھا۔ میری آپ کے ساتھ اس بارے میں گزشتہ پندرہ بیس برسوں سے بحث چل رہی ہے میں کہتا ہوں یار ایسی چیزیں اس رسالے میں شامل نہیں ہونی چاہیے لیکن آپ کا موقف یہ رہا ہے کہ ہم وہی چھاپ سکتے ہیں جو لکھا جارہا ہے۔ اور ہم اس میں ایک دو چیزیں ایسی شامل کردیتے ہیں جن کی وجہ سے رسالے کا جواز نکل آتا ہے۔ کیا وہ صورت حال بہتر ہوئی، یا پہلے سے بدتر ہوگئی؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: میرے خیال میں ایک بات سے عابدی صاحب بھی اتفاق کریں گے۔ جب ہم لوگوں نے ادب کے میدان میں گھوڑے دوڑائے تھے تو ایک طرح کا اہتزاز تھا۔ مجید امجد یا کسی ایسے ہی اہم شاعر کی نظم چھپتی تو ہم جاکر ڈھونڈ کر رسالہ خریدتے تھے۔ راشد صاحب کی نظم تو ایک Event ہواکرتی تھی۔ فیض صاحب، ناصر کاظمی، سلیم احمد، ظفر اقبال، بلراج کومل، ساقی فاروقی، شہریار، محمد علوی، عادل منصوری، جیسے شعرا کی نظمیں اور غزلیں شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ اسی طرح انتظار حسین، سریندر پرکاش، انور سجاد جیسے افسانہ نگاروں کی تخلیقات کے بارے میں ایک اشتیاق سا رہتا تھا۔ لوگ اپنے پسندیدہ شعر، نظمیں افسانے دوسروں تک پہنچاتے تھے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جو اہتزاز یعنی Frisson پہلے تھا اب نہیں رہا۔ میرے رسالے ’’شب خون‘‘ میں جو نئی چیزیں چھپنے کو آتی ہیں تو ان میں سے اکثر (بلکہ اس سے زیادہ) کے بارے میں مجھے احساس نہیں ہوتا کہ کوئی نئی بات دریافت ہو رہی ہے۔ یہ مسئلہ میں نے ہندوستان میں چھیڑا تھا اور گالیاں کھائی تھیں۔ میں نے سوال کیا تھا کہ ہندوستان میں جو لوگ پندرہ سال سے شعر یا افسانہ لکھ رہے ہیں، وہ مجھے بتائیں کہ وہ جدیدیت سے کس طرح مختلف ہیں، کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں ہمارا مزاج نیا ہے، لہجہ نیا ہے وغیرہ۔ 

    اسی حوالے سے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں تو اب اس قسم کے بھی مسائل زیربحث نہیں آتے۔ وہاں تو اب یہ بحث ہوتی ہے کہ سفرناموں میں حج کا سفرنامہ سب سے پہلے کس نے لکھا۔ اورانشائیہ صنف سخن ہے کہ نہیں۔ پاکستان میں تو اب Non Issues سامنے آرہے ہیں۔ ہندوستان میں آج کل کے ادیب کہتے ہیں کہ صاحب افسانہ اغوا ہوچکا تھا ہم اسے واپس چھڑالائے ہیں۔ ہم ان کے سامنے انتظار حسین اور انورسجاد وغیرہ کے درجنوں افسانے رکھتے ہیں، جن میں وہ چیز موجود ہے جسے وہ افسانہ پن کہتے ہیں۔ افسانہ پن کہیں بھاگ نہیں گیا تھا۔ یہ تو وہیں موجود تھا۔ ہاں افسانے لکھنے کے مختلف اسالیب ضرور تھے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ایک تھا بادشاہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، جیسے افسانہ ہر بار نہ لکھیں گے۔ اسے کسی اور طریقے سے بھی تحریر کریں۔ 

    معیار کی پستی کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس لیے کہ معاصر ادب کے بارے میں یہ حکم نہ صادر کرنا چاہیے کہ فلاں اچھا ہے فلاں برا ہے۔ معاصر ادب کے بارے میں یہ لکھا جاتا ہے کہ یہ اہم ہے کہ نہیں۔ آج کے سیاق و سباق میں بامعنی ہے کہ نہیں۔ تو اس کی اہمیت، اس کا بامعنی ہونا اس کا Relevant اور Significant ہونا ضروری ہے۔ میں نے اپنی تحریروں میں کہیں نہیں کہا کہ یہ ہونا چاہیے۔ میں بلکہ یہ کہتا رہا ہوں کہ ایسا ایسا ہوتا آیا ہے۔ ایسا ایسا بھی ہوتا ہے، اور ایسا ہے۔ کسی بھی زمانے میں ادب کے میدان میں بہت سے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ اچھے ہوں گے۔ کچھ کم اچھے ہوں گے، کچھ بہت خراب ہوں گے۔ کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے ہوں گے۔ یہ فیصلے ہم آپ اپنی دوستی میں کرلیں تو کرلیں، ورنہ صحیح معنوں میں یہ فیصلہ ہم نہیں کرسکتے۔ اقبال کے معاصر کئی شعرا تھے جن کا بڑا نام تھا۔ لیکن وقت نے اقبال کو بڑا شاعر ثابت کیا۔ 

    ساقی فاروقی: آپ کی عالمی ادب پر گہری نظر ہے۔ خاص کر جدید شاعری، جدید تنقید کا آپ نے گہرا مطالعہ کیا ہے۔ اتنا مطالعہ کرنے سے آدمی ایک معیار اپنے ذہن میں قائم کرلیتا ہے کہ بودلیئر کی یہ چیز اچھی ہے اور ریم بونڈ (Rim band) کی یہ چیز بہتر ہے۔ آپ نے ٹھیک کہا ہے کہ ہمیں کسی کو جانچنا نہیں چاہیے کیونکہ پتہ نہیں ہوتا کہ وقت کس کو بڑا یا چھوٹا بنادے۔ لیکن یہ تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ خراب یا اچھا ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: دیکھیے، میں جانچنے سے انکار نہیں کرتا۔ میں حکم لگانے سے انکار کرتا ہوں۔ یعنی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں تخلیق مطلق طور پر خراب یا اچھی ہے۔ رہی بات شب خون کی تو میرے پاس کوئی نہ کوئی چھلنی تو موجود ہے۔ یہ تو نہیں کہا کہ ’’شب خون‘‘ میں ہر چیز چھاپ دی جائے۔ بلکہ میرے پاس دوچھلنیاں ہیں۔ ’’شب خون‘‘ کا ایک مزاج ہے، جس کو آپ جدیدیت، تجربہ پسندی، تخلیق کار کے لیے آزادی اظہار پر اصرار کہہ لیجیے۔ دوسری بات یہ کہ جب مجھے کسی تخلیق میں نئے پن یا نئے رنگ کا احساس ہو تو تجربے کے دائرے میں ہو اور اس کے بارے میں مجھے احساس ہو کہ اسے کوئی باعزت رسالہ نہیں چھاپے گا تو میں اسے چھاپ دیتا ہوں۔ پھر بھی ہمارے رسالوں میں اسی طرح کے ادب کا تو انعکاس ہوگا جیسا ادب لکھا جارہا ہے۔ ویسے میرا خیال ہے کہ ’’شب خون‘‘ کا معیار پہلے سے کچھ کم نہیں۔ 

    ساقی فاروقی: مگر گاہے بہ گاہے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی چھلنی کے سوراخ کچھ بڑے ہوگئے ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: وہ اس لیے کہ تمہاری نظم ان میں سے نکالنی ہوتی ہے۔ (ہنسی) 

    ساقی فاروقی: آج کل اتنا چھوٹا اور جھوٹا ادب کیوں پیدا ہو رہا ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: اس کا مفصل جواب دینا یہاں تو مشکل ہے، لیکن ایک بات سے صورت حال واضح کردیتا ہوں۔ جب ہم لوگوں نے لکھنا شروع کیا تو ہماری عمریں آج سے ۳۵ یا ۴۰ سال کم تھیں۔ اور جو ہمارے سامنے لوگ تھے ان کی عمریں ہم سے بیس تیس پینتیس سال زیادہ تھیں۔ ہم ان سے کہتے تھے کہ آپ ہمارے ادب کو پڑھتے نہیں لیکن اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ آج ادب کا معیار پست ہوگیا ہے اب سوچنا یہ چاہیے کہ ہم لوگ بھی وہی کام تو نہیں کر رہے ہیں جو کہ لوگ ہم سے عمر میں تیس پینتیس سال کم ہیں ہم ان کے بارے میں۔۔۔ 

    ساقی فاروقی: صاحب میں تو بڑوں کی بات کر رہا ہوں۔ کیونکہ جو لوگ ہم سے چھوٹے ہیں وہ تو گاہے بہ گاہے تازگی لے کر آتے ہی رہتے ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: بڑوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے قول فعل کے آپ ذمہ دار ہیں۔ اب اگر احمد ندیم قاسمی، یا وزیر آغا یا اخترالایمان خراب نظم لکھتے ہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ جواب دیں۔ 

    ساقی فاروقی: آپ نے کہا خراب نظم لکھ رہے ہیں۔ تو میں کہتا ہوں کہ وہ دس سال سے خراب نظمیں لکھ رہے ہیں۔ وزیر آغا تو بیس سال سے بری شاعری کر رہے ہیں۔ لگتا ہے آپ نے ان لوگوں کو بخش دیا۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: آپ کا مطلب ہے میں تمام برے شاعروں کے پیچھے ڈنڈا لے کر پڑجاؤں؟ ہمارے پیغمبر کے بارے میں قرآن میں اللہ نے لکھا ہے، تم ان کے اوپر داروغہ بن کر نازل نہیں کیے گئے۔ اگر میں داروغہ بن کر آیا ہوتا تو اور بات تھی۔ (ہنسی) 

    ساقی فاوقی: آپ ہمیں بتائیں کہ احمد مشتاق کو فراق سے بڑا شاعر قرار دینے کا سبب کیا تھا؟ کیونکہ آپ ساقی فاروقی کا منیر نیازی، احمد مشتاق کا ناصر سے مقابلہ تو کرسکتے ہیں۔ لیکن ان دو میں مشتاق کو بڑا کہنے میں ایک Extreme View کی نشان دہی ہوتی ہے کہ نہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: اصل میں میں نے احمد مشتاق اور ناصر کاظمی دونوں کا ذکر کیا تھا۔ در حقیقت قصہ یہ ہے کہ اردو شاعروں کی وہ نسل جس کی تاریخ پیدائش ۱۸۸۰ کے آس پاس ہے۔ یہ نسل ۱۹۱۰ سے ۱۹۲۰ کے عرصے میں اسکول کالج گئی۔ یہ پہلی نسل تھی جس نے انگریزی پڑھے ہوئے استادوں سے تعلیم حاصل کی۔ میں اس نسل کو اردو ادب کی گم کردہ راہ نسل کہتا ہوں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے نہ تو اپنے کلاسیکی ادب کو ٹھیک سے پڑھا اور نہ ہی مغربی ادب کو صحیح طرح سمجھا اور پڑھا۔ وہ لوگ کہیں کے نہ رہے۔ ان کے یہاں جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی وہ غزل کی گرامر ہے۔ اس کا پہلا اصول ہے مربوط کلام کہنا اور فراق صاحب کی کمزوری یہ ہے کہ وہ دو مصرعے مربوط نہیں کہہ سکتے تھے یعنی اکثر وہ ایک مصرعے میں کوئی گہری، اچھوتی بات کہہ جاتے تھے لیکن دوسرے مصرعے میں اس کے برابر کی اس سے مربوط بات نہ کہہ پاتے تھے۔ مثال کے طور پر ان کا شعر ہے 

    مٹا ہے کوئی عقیدہ تو خون تھوکا ہے 
    نئے خیال کی تکلیف اٹھی ہے مشکل سے 

    اب آپ غور کریں تو پہلے مصرعے میں بات پوری ہوگئی۔ یہ ایسا مصرع ہے کہ آدمی ایک بار تو چونک پڑتا ہے کہ واہ سبحان اللہ۔ یہ ایسا تجربہ ہے جس سے ہم سب گزر چکے ہیں۔ لیکن پہلے مصرعے میں ’’خون تھوکنا‘‘ جیسی زبردست بات کہی اور دوسرے مصرعے میں بات کو گراکر صرف تکلیف کہا۔ اب ایسے مصرع اولی کے ہم پلہ مصرع لانے کے لیے میر اور غالب نہیں تو ذوق کو ضرور لانا پڑے گا کیونکہ اس مصرعے پر شمس الرحمن فاروقی تو مصرع لگا نہیں سکتے۔ 

    عبید صدیقی: کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ نئی غزل کا مزاج بنانے اور اس کی روایت کی بنیاد ڈالنے میں فراق کی غزل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: عبید نے بڑے پتے کی بات کہی۔ فراق کا کردار اس معاملے میں اہم ضرور رہا ہے۔ میں نے تویہاں تک لکھا ہے کہ فراق اور شاد عارفی نہ ہوتے تو نئی غزل نہ ہوتی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ چھوٹے شاعر نے بڑے شاعر کو متاثر کیا ہے مثلاً ایڈگرایلن پو (Edgar Allen Poe) نے اپنے سے ہزار گنا اچھے شاعر بودلیئر کو متاثر کیا۔ اور زندگی بھر بودلیئر اسی کی قسم کھاتا رہا کہ میں تو پوہی کو اپنا استاد اور باپ مانتا ہوں۔ 

    ساقی فاروقی: میرے خیال میں کئی شاعروں کو بگاڑنے میں تمہارا ہاتھ ہے۔ مثلاً زیب غوری اور عرفان صدیقی جیسے شاعر ہیں۔ تمہاری ایک دم سے کلاسیکیت پر چلے جانے والی بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ ایک طرف تو تم نے لوگوں کو جدیدیت کی طرف لگایا۔ جب دیکھا کہ کلاسیکی روایت سے ہمارا رشتہ ہی ٹوٹتا جارہا ہے تو تم نے پلٹا کھایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عرفان صدیقی جیسے لوگ بھی میاں اور چیاں کرنے لگے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: یہ بات تو یہ کہ عرفان صدیقی اور زیب غوری میرے خیال میں بہت اچھے شاعر ہیں۔ باقی تمہارا یہ کہنا کہ میں نے بہت سے شعرا کو گمراہ یا خراب کیا ہے تو اتنا بڑا بوجھ آپ میری جان ناتواں پر نہ ڈالیں۔ (ہنستے ہیں) 

    سیما جبار: برطانیہ میں اردو کا مستقبل کتنا روشن ہے؟ یہاں پر اسکولوں میں اردو پڑھائی جارہی ہے۔ کیا بچوں میں افسانہ اور شاعری سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوسکے گی؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: یہ سوال آپ مجھ سے نہ پوچھیں کیوں کہ میں یہاں رہتا نہیں۔ اگر یہاں اردو پڑھی اور بولی جائے تو اس کا پہلا اور آخری اعزاز آپ لوگوں کو ہوگا جو اردو پڑھنے اور بولنے والیاں ہیں۔ آپ لوگ اپنی اولادوں کو یا ان بچوں کو جو آپ کے زیر اثر ہیں ان کو اردو پڑھنا اور بولنا نہیں سکھائیں گے تو کوئی حکومت کوئی ایجوکیشن بورڈ کوئی اسکول یہ کام نہیں کرپائے گا۔ جب تک والدین کے دل میں اردو کی محبت ایک زندہ محبت نہ ہوگی۔ اور وہ اپنے بچوں کو یہ نہ بتائیں گے کہ اردو ایک قدر ہے اور ہم اس کی قدر اس لیے کرتے ہیں کہ ہم اس میں ہیں اور یہ ہم میں ہے، اردو کا فروغ نہ ہوسکے گا۔ معاف کیجیے گا صرف نماز پڑھوانے سے اردو نہیں آئے گی۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو نماز کے بہت پابند ہیں، روزے رکھتے ہیں۔ لیکن ان کے بچے اردو نہیں بولتے۔ اردو ایک تہذیب ہے جس میں نماز بھی شامل ہے لیکن اردو کو طرز حیات اور طرز فکر کا حصہ ہونا چاہیے۔ 

    ساقی فاروقی: لیکن رزق کمانے کی زبان تو انگریزی ہے۔ تو بچے پہلے اس کی طرف ہی جائیں گے۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے آٹھ دس برسوں میں مسلم اسکول کھلنا شروع ہوئے ہیں۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: میں یہ کہتا ہی نہیں کہ تم اپنے بچوں کو اردو سکھاؤ انگریزی مت سکھاؤ۔ یہ تو کوئی نہیں کہہ سکتا۔ ہندوستان میں ہمارے بعض ترقی پسند بزرگوں نے اتنا بڑا جھوٹ بولا ہے کہ اردو اس لیے ترقی نہیں کرسکتی کہ روزی روٹی سے اردو کا معاملہ جڑا نہیں ہے۔ یہ فقرہ ہی بتا رہا ہے کہ اس کا بنانے والا اردو سے نابلد ہے آج پاکستان ہندوستان میں آپ کو صرف ہندی یا اردو پڑھ کر کون سی نوکری مل سکتی ہے؟ آج کوئی آدمی ہندوستان میں ایسا نہیں ہے جو صرف ہندی کے بل بوتے پر کسی بڑے ادارے کا سربراہ ہو، کسی یونیورسٹی میں ہندی کے علاوہ کسی مضمون کا پروفیسر ہو یا انجینئر ہو؟ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ کہنا کہ اردو پڑھنے سے نوکری نہیں ملتی، محض نہ پڑھنے کا بہانہ ہے۔ لوگ اپنے بچوں کو کئی کئی میل دور انگریزی پڑھنے کے لیے بھیج سکتے ہیں، لیکن انہیں اردو اس بہانے سے نہیں پڑھاتے کہ پاس میں کوئی اردو اسکول نہیں ہے۔ 

    سیما جبار: بھارت میں اردو کا مستقبل کیا ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: مستقبل کا حال تو میں بتا نہیں سکتا لیکن حال پہلے سے بہت بہتر ہے۔ یہ بات میں آج صرف آپ کے سامنے نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ حکومت ہند کا ایک بڑا افسر ہوتے ہوئے بھی ہندوستان میں میں نے یہ بات کہی اور بار بار کہی کہ ۱۹۴۹ آتے آتے یوپی میں اردو کو بالکل ختم کردیا گیا۔ یہ بات میں نے پرنٹ میں کہی ہے کہ یوپی میں اردو پر بہت بڑا ظلم کیا گیا اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی گئی۔ اس زمانے میں یوپی میں اردو ختم بھی ہوگئی بڑی حدتک۔ لیکن اردو پر ظلم کا زمانہ ۱۹۴۷ میں نہیں بلکہ ۱۹۳۵ میں شروع ہوا۔ پہلے بنگال میں اردو فارسی کو کاٹا گیا۔ اس زمانے میں ہزاروں مسلمان استاد بنگال میں بھوکے مرے۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش، بہار اور یوپی میں ہندی لانے کی کوشش کی گئی۔ جو زبان تھی ہی نہیں اسے پیدا کیا گیا۔ اردو کو ختم کرنے کے لیے آخری حملہ ۱۹۷۵ میں یوپی میں کیا گیا جب اردو اور ہندی دونوں کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ لیکن اردو پھر بھی زندہ رہی پھولتی پھلتی رہی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان اردو کو لے کر ۱۹۴۷ میں بھاگ گیا۔ یہ غلط ہے۔ اردو ہندوستان میں اب بھی موجود ہے اور اردو والا مرا نہیں ہے۔ 

    افتخار قیصر: آپ نے میراجی، راشد، مجید امجد اور اخترالایمان کو فیض سے بڑا شاعر قرار دیا ہے۔ جب کہ عام تاثر ہے کہ فیض مجید امجد سے بڑے شاعر ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: جن لوگوں نے یہ تاثر قائم کیا ہے یہ سوال آپ ان سے ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ لیکن ایک بات میں کہہ سکتا ہوں کہ میں کیوں جدید اردو شاعری کے پانچ سب سے بڑے شاعروں میں فیض کو سب سے نیچے رکھتا ہوں۔ میرے خیال میں سب سے پہلے میراجی بعد میں راشد، اخترالایمان، پھر مجید امجد اور پھر فیض کا نام آتا ہے۔ فیض صاحب کی بڑائی کا ثبوت کیا پیش کیا جاتا ہے؟ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سیاسی معاملات اور سیاسی مسائل، جدید حسیت کے مختلف پہلوؤں کو کلاسیکی زبان میں پیش کیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے دار اور مقتل وغیرہ الفاظ کو نئے معنی عطا کیے جو پہلے نہیں تھے۔ لیکن مثال کے طور پر شعر ہے، 

    قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
    پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا

    اگر آپ کو نہ معلوم ہو کہ یہ کس زمانے کا شعر ہے تو آپ اس کے بارے میں کیا تاثر قائم کریں گے؟ یہی نہ کہ عاشق کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ معشوق اسے قتل کرتے ہیں۔ آپ یہ نہ سوچیں گے کے اس شعر کے کوئی سیاسی معنی بھی ہیں۔ اب اگر آپ اس کا تجزیہ کریں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس شعر کے کوئی سیاسی معنی بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو بتایا جائے کہ صاحب یہ شعر تو فیض کا ہے، تو آپ کہیں گے کہ دیکھا کیا سیاسی بات کہہ دی ہے فیض نے یہ شعر تو مارشل لا کے بارے میں کہا ہے۔ حالانکہ شعر میں خود کوئی فی نفسہٖ سیاسی بات نہیں، یہ درد کا شعر ہے فیض کا نہیں۔ وہ تصوراتی الفاظ جن کے پیچھے معنی کی بڑی کائنات موجود ہے ان الفاظ کو استعمال کرکے فیض صاحب نے شاعری لکھی ہے۔ وہ شاعری اچھی تو ہے لیکن کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے۔ فیض صاحب کے اشعار کی بنیادی خوبصورتی تو ان الفاظ کی وجہ سے قائم ہے۔ جب ہم لوگ یہ کہتے ہیں کہ فیض صاحب نے ان اصطلاحوں کو سیاسی معنی دیے ہیں تو اس لیے کہتے ہیں کہ ہمیں فیض کی سوانح حیات معلوم ہے ان کے خیالات معلوم ہیں کہ وہ ایک طرح کے انقلابی تھے۔ اب یہ شعر ہے 

    کروکج جیں پر سرکفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
    کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلادیا

    غزل میں جو کیفیت ہے وہ اس لیے ہم پر تھوڑا ہی اثر کرتی ہے کہ اس میں ہم کو سیاسی پیغام سنائی دے رہا ہے۔ وہ پیغام تو ہم اس میں ڈال دیتے ہیں جب معلوم ہوتا ہے کہ یہ غزل فیض کی ہے۔ اس کی اصل خوبصورتی اس بناپر ہے کہ اس میں وہ تمام بنیادی الفاظ اور پیکر ہیں جنہیں پانچ سات سو برس سے غزل میں برتا گیا ہے اور اس طرح برتا گیا ہے کہ ان میں وہ چیز آگئی ہے جسے ہم کیفیت کہتے ہیں۔ 

    ارشد لطیف: یہاں یہ بات آتی ہے کہ کیا ان الفاظ کو استعمال کرنا متروک ہے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: آپ تو میری ہی بات کہہ رہے ہیں۔ ان الفاظ کو کس نے Ban کیا ہے؟ اگر فیض صاحب نے لکھا تو اچھا لکھا، نہیں لکھا تو ان کی مرضی۔ وہ الفاظ جو ہماری شاعری کے ورثے کا حصہ ہیں ان کو ایک شاعر نے برت دیا۔ اگر اس میں کوئی سلیقہ ہے یا خوبصورتی ہے تو اچھی بات ہے یقیناً۔ لیکن فیض صاحب کی اپنی کوئی بڑائی اس میں نہیں ہے کہ انہوں نے ان الفاظ کو کوئی نئے معنی دیے ہیں کیونکہ وہ معنی تو دراصل ان الفاظ میں ایک طرح سے موجود ہیں۔ وہ تصورات ہی ایسے ہیں کہ ان میں ہر طرح کے معنی کا امکان ہے۔ دوسری بات یہ کہ فیض صاحب انقلابی تھے یا پس ماندہ لوگوں کے نمائندے تھے، یا انسانی دکھ درد کے ترجمان تھے یہ باتیں تو آپ کسی کے بارے میں کہہ سکتے ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہ ہوگا کہ وہ شخص بڑا شاعر بھی تھا۔ 

    فرض کیجیے یہی بات (پس ماندہ لوگوں کی نمائندگی وغیرہ) میں راشد صاحب کے بارے میں کہوں۔ وہ تو بہت پہلے سے یہ کام کر رہے تھے۔ فیض ’’تنہائی لکھ رہے تھے‘‘ تو راشد ’’خودکشی‘‘ لکھ رہے تھے۔ اگر کوئی ادبی قدر یا کسی سچائی کا احساس اور ادراک فیض صاحب کے یہاں اس طرح ہو کہ اور کسی کے یہاں نہ ہو، یا ان سے اچھا کسی نے نہ کیا ہو تو بھی ایک بات ہے۔ فیض صاحب کی شاعری میں جو خصوصیات ہیں وہ کم و بیش اس زمانے کے تمام جدید ادب کا خاصہ ہیں۔ جب برصغیر میں آزادی اور نوآبادیاتی نظام کااحساس بڑھنے لگا، ۱۹۴۰ کے آس پاس، تو اس زمانے میں جو نیا ادب اردو میں لکھا گیا اس میں یہ موضوعات تھے۔ تمام شاعروں نے اپنے طریقے سے بات کی۔ اس میں میراجی بھی شامل ہیں۔ 

    اب تیسری بات یہ کہ فیض کی شاعری خوبصورت بہت ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ فیض کی شاعری میں وہ خوبصورتیاں ہیں جوتمام اچھی شاعری میں موجود ہیں۔ جو خوبصورتیاں غزل میں میر، غالب، ولی، سودا، قائم وغیرہ کے یہاں ڈھونڈتے ہیں۔ وہی ہم فیض صاحب کے یہاں بھی ڈھونڈتے ہیں، اور کامیاب ہوں گے، کم وبیش۔ اگر کوئی نئی خوبصورتی ہے تو آپ بیان کریں۔ اگر نظم کی بات کرتے ہیں تو ہمارے دو Bench Mark ہیں، اقبال اور میراجی، ان کے سا منے آپ فیض کو کہاں دیکھتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ فیض کے یہاں خوبصورتیاں ہیں لیکن ایسی خوبصورتی نہیں کہ ہم کہہ سکیں یہ فیض صاحب نے اردو ادب میں داخل کی ہیں۔ بلکہ ہمارے یہاں جو ہوچکا یا ہو رہا ہے اسی رسم و رواج اور بہاؤ کو فیض نے اختیار کیا ہے۔ 

    فیض کے کلام میں کیفیت بہت زیادہ ہے۔ وہ ایسے الفاظ استعمال کرتے جو فوراً آپ کے دل پر اثر کرتے ہیں۔ ان کے شعر سننے والے پر جذباتی ردعمل چھوڑ جاتے ہیں مثلاً اسی غزل کا مطلع ہے،

    نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
    جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹادیا

    اس میں معنی بہت کم ہیں۔ ناوک نیم کش، یا محض ناوک، دل کو ریزہ ریزہ نہیں کرتا۔ ناوک تو دل کے پار ہوجاتا ہے۔ پھر تن داغ داغ کو لٹادینا اور بچے ہوئے پتھروں کو سمیٹ لینے کی درخواست محض کیفیت آور بیانات ہیں۔ اس شعر سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ شخص (متکلم) اپنے دشمنوں کے سامنے Back to wall ہے لیکن اس میں اکڑ باقی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس مضمون میں کوئی نئی بات نہیں، اردو شاعری میں بہت پہلے سے موجود ہے۔ فیض صاحب حیات کو متاثر کرتے ہیں لیکن ان سے بہتر یہ کام تو منیر نیازی کرلیتا ہے۔ (یہاں شمس الرحمٰن فاروقی نے منیر نیازی کی نظم آغاز زمستاں میں دوبارہ سامعین کو سنائی۔) میرا دعویٰ ہے کہ اس پائے کی کوئی نظم فیض نے نہیں لکھی۔ اس نظم میں کیفیت بھی ہے اور معنی بھی۔ فیض کی بعض بہت اچھی نظمیں مثلاً ایک منظر اردو کی بہترین نظموں میں شمار کرنے کے قابل ہیں۔ لیکن ان نظموں میں کیفیت کی فراوانی ہے، کہا بہت کم گیا ہے۔ 

    میر اور ناصر کاظمی کے یہاں کیفیت کے باعث معنی دب جاتے ہیں۔ میر کے یہاں تو معنی اکثر موجود ہوتے ہیں لیکن انہیں تلاش کرنا پڑتا ہے۔ ناصر کاظمی کے کلام میں بعض اوقات معنی نکلتے ہیں لیکن بہت کم۔ جیسے آپ اس شعر کا تجزیہ کریں۔ 

    نئے کپڑے پہن کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے 
    وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا اب باہر جاؤں کس کے لیے 

    اس شعر کا پہلا مصرع بالکل بیکار ہے۔ لیکن کسی شخص کی جو داخلی تنہائی ہے، ناکامی ہے۔ یا احساس زیاں ہے۔ وہ زندہ ہوکر سامنے آگیا ہے۔ اتنے معنی تو ہیں۔ فیض کے یہاں اکثر اور احمد فراز کے یہاں تقریباً ہمیشہ یہ صورت حال ہوتی ہے کہ معنی بہت کم ہوتے ہیں۔ 

    ارشد لطیف: کیا کسی شاعر کو بڑا یا چھوٹا قرار دینے کے لیے اس کے کاز Cause یا جس طرح وہ زندگی گزارتا ہے اس کو پھر بھی مدنظر رکھنا چاہیے، یا اس کو صرف اس کی شاعری کے حوالے سے دیکھنا چاہیے؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: دنیا میں بہت سے بڑے بڑے شاعر گزرے ہیں لیکن ہم کتنے شاعروں کے حالات زندگی کے بارے میں علم رکھتے ہیں؟ فیض صاحب کے ساتھ یہ ہوا کہ انہیں انقلابی کہا گیا جاں باز کہا گیا کہ وہ ایک مقصد کے لیے لڑ رہے تھے۔ لوگوں نے انہیں اس ہالے ہی میں رکھا۔ اس میں اتفاقی طور پر کچھ چیزیں شامل ہوگئیں، جیسے ان کا جیل جانا۔ یہ تو سونے پر سہاگے والی بات ہوگئی۔ اس میں فیض صاحب کا قصور نہیں۔ اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے، اور میرے خیال میں فیض صاحب خود اس طرح کے آدمی تھے بھی نہیں۔ لیکن اگر تھے تو پھر بھی کیا؟ غالب جن کی ہم تقریباً پرسش کرتے ہیں ان کاخود یہ عالم تھا کہ انہوں نے نواب یوسف علی خاں کو لکھا کہ آزردہ مرگیا ہے۔ سنا ہے اس کی بیوی نے آپ سے درخواست کی ہے کہ اس کی پنشن جاری رکھی جائے ایسا ہرگز نہ کیجیے گا کیونکہ وہ بہت بدمعاش تھا اس نے اپنی بیوی کے لیے بہت پیسہ چھوڑا ہے۔ اب آپ دیکھیں کہ اپنے مرے ہوئے معاصر کے بارے میں یہ بات لکھ رہے ہیں۔ اور خود اس وقت غالب کی یہ حالت تھی کہ قرض سے دبے ہوئے تھے۔ اور نواب سے اپنا قرض ادا کرنے کی التجا کر رہے تھے کہ کم از کم قرض ادا ہو تو آرام سے مرسکیں، او روہ بھی ادا نہ ہوا۔ اب یہ واقعہ سن کر کیا ہم غالب کا دیوان پھاڑ دیں گے؟

    ہم لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ شاعری کو سوانح عمری سمجھ لیتے ہیں۔ کسی نے کہہ دیا کہ اچھا شاعر ہے تو اچھا آدمی ہوگا۔ واہ سبحان اللہ۔ بھائی اچھے آدمی کا معیار کیا ہے؟ ناتھورام گوڈسے جس نے گاندھی کو قتل کیا وہ اپنے آپ کو اچھا آدمی کہتا تھا۔ اس کا بھائی حال ہی میں جیل سے چھوٹا ہے اس نے کہا ہے کہ ناتھو رام بہت اچھا آدمی تھا۔ اگر گاندھی میرے سامنے آئے تو میں اسے پھر قتل کروں گا۔ 

    ارشد لطیف: اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فیض صاحب میں کوئی امتیاز نہیں۔ اس قسم کی خوبیاں دوسرے کئی شاعروں میں مل جائیں گی۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی: اصل میں ہر زمانے کی شاعری اور ادب کا ایک لہجہ ہوتا ہے جو کم و بیش تمام شاعروں میں مشترک ہوتا ہے۔ میر کا کوئی لہجہ ایسا نہیں جو ان کے ہم عصروں کے پاس نہ ہو۔ لیکن میر کے پاس اس لہجے کے ساتھ ساتھ کچھ اور چیزیں بھی ہیں۔ اتنی لمبی بات کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ہم لوگ فیض کی جن خوبیوں پر سردھنتے ہیں وہ خوبیاں کم و بیش ان کے معاصرین میں موجود ہیں۔ فیض صاحب کا کلام بہت محدود ہے۔ اس میں تنوع بہت کم ہے۔ انہوں نے چالیس پچاس الفاظ کو بار بار استعمال کیا ہے، جیسے کہ فراق کے یہاں جاناں، مقتل، دوست اور کوئے یار جیسے الفاظ بہت زیادہ ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ تجربے کا جو غیر معمولی پھیلاؤ راشد یا میراجی کے یہاں ملتا ہے وہ فیض کے یہاں نہیں ہے۔ میں ادب کا کوئی پیغمبر یا امام نہیں ہوں لیکن اپنی سمجھ کے مطابق کہتا ہوں کہ اقبال کے بعد ہمارے زمانے میں جو پانچ بڑے شعرا ہیں ان میں میراجی، راشد، اخترالایمان، مجید امجد کے بعد فیض کا نام آتا ہے۔ 

    سردار عباس علی خاں: آپ اگر میر کے ایک شعر کی تشریح کردیں تو مہربانی ہوگی۔ 

    اس قدر جور و ستم خوش نما نہیں 
    ایسا سلوک کر جو تدارک پذیر ہو

    ساقی فاروقی: شعر کچھ غلط پرھا آپ نے۔ 

    شمس الرحمٰن فاروقی:

    حد سے زیادہ جور و ستم خوش نما نہیں 
    ایسا اسلوک کر جو تدارک پذیر ہو

    تدارک پذیر کے معنی ہیں، اصلاح کے قابل، رد کیے جانے کے قابل۔ یہ میر کے اس طرح کے شعروں میں سے جن کا میں نے بہت ذکر کیا ہے اپنی کتاب میں۔ یہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ میر بہت رونے دھونے والے غمگین اور دل شکستہ تھے۔ لیکن میر کا ایک رنگ جو زیادہ نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ اپنے محبوب سے جھگڑنے لڑنے، مارنے پر بھی تیار رہتے ہیں۔ میر (یا اس شعر کا متکلم) کہہ رہا ہے کہ ٹھیک ہے میاں زیادتی تو کر رہے ہو، ظلم کر رہے ہو، بے وفائی کر رہے ہو وغیرہ۔ لیکن یہ رویہ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ میاں معشوق ایسا کام کرو جن کی اصلاح بھی ہوسکے۔ تم حد سے باہر نکلتے جارہے ہو۔ ٹھیک ہے ظلم کرنا تمہارا حق ہے۔ لیکن اتنا ظلم نہ کرو کہ ہم تم سے بالکل منحرف ہوجائیں۔ 

    ڈاکٹر آغاشکیل: اچھا ادیب اور شاعر بننے کے لیے کیا یہ ضروری ہے کہ عشق میں ناکامی ہو؟

    شمس الرحمٰن فاروقی: ہرگز نہیں۔ یہ کس نے آپ سے کہہ دیا؟ (قہقہہ) بھئی شاعر بننے کے لیے عشق کرنا ہی ضروری نہیں، ناکام ہونا یا کامیاب ہونا تو بعد کی بات ہے۔

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے