شمس الرحمن فاروقی سے بے تکلف گفتگو
(ماہنامہ ’’کتاب نما‘‘ نئی دہلی کے لیے شمس الرحمن فاروقی سے احمد محفوظ اور سراج اجملی کی گفتگو)
شرکاء: سراج اجملی۔ احمد محفوظ
سراج اجملی: انسان ہی ادب کی تخلیق کرتا ہے اور زندگی کے معاملات ہی ادب کی تخلیق کا باعث بنتے ہیں تو زندگی سے ادب کے تعلق کو آپ کس حد تک اہم سمجھتے ہیں؟
فاروقی: ادب اور زندگی کے تعلقکے بارے میں کوئی نئی یا غیر معمولی بات کہنا ناممکن ہے کیونکہ دنیا میں انسان کے جو تمام اعمال اور مصروفیتیں ہیں ان سب کی ایک پوری شکل ہے۔ ان میں ادب بھی شامل ہے اور نوکری اور بزنس وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ایسا ضروری نہیں کہ ہم الگ سے ثابت کریں کہ ادب زندگی کا حصہ ہے یا ادب کو زندگی کا ترجمان ہونا چاہیے۔ مشکل وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں ہم یہ اصرار کریں کہ ادب کو زندگی کا ایک خاص طریقے سے ترجمان ہونا چاہیے۔ یا ہم ادیب پر کوئی پابندی عائد کریں کہ تم زندگی کی ترجمانی اس طرح سے کرو جس طرح سے کہ ہم چاہتے ہیں۔ اس وقتیقیناً ادیب میں اور ان لوگوں میں جو اس طرح کا مطالبہ کرتے ہیں، ایک بنائے اختلاف پڑسکتی ہے۔ ورنہ یہ ثابت کرنا ضروری نہیں ہے کہ ادب زندگی کا اظہار کرتا ہے اور زندگی کا ایک عمل ہے۔ کیونکہ جیسا میں نے عرض کیا زندگی کے تمام اعمال کا ایک دوسرے سے نامیاتیOrganic تعلق ہوتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ آپ بزنس کو زندگی سے الگ قرار دے لیں یا محبت کرنے کو اس سے الگ سمجھیں یا پھر مذہب کو زندگی سے الگ کردیں۔ یہ سب ایک ہے۔ یہ ایک بہت بڑا نظام ہے جس میں ہر چیز اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے۔ ادب کی بھی اپنی جگہ ہے تو اس لیے یہ ضروری نہیں کہ ہم اس میں کوئی تحقیق یا موشگافی کریں اور اس کا باقاعدہ اعلان کریں کہ ادب کا تعلق زندگی سے ہے۔
مثلاً میر کا کھڑکی کے باہر باغ کو نہ دیکھنے والا مشہور واقعہ ہی لے لیجیے۔ یہ واقعہ سچا ہو یا نہ ہو لیکن بہت سے لوگوں نے اس واقعہ کو یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا کہ ہمارے کلاسیکی شاعروں کو اس زندگی سے جسے آج کی زبان میں ’’واقعی زندگی‘‘ یا ’ ’حقیقی زندگی‘‘ کہتے ہیں، کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ محض لفظوں کی دنیا میں کھوئے رہتے تھے اور انہیں اصل چمن، پھول، پتیوں اور ابر و باراں وغیرہ سے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ دنیا سے دور اور معاشرے سے کٹے ہوئے لوگ تھے جو اپنے ہی ا ندر گم تھے۔ حالانکہ دراصل یہ واقعہ جو بات ثابت کرتا ہے وہ یہ نہیں ہے۔ اور ہم یہ فرض بھی کرلیں کہ وہ دنیا سے کٹے ہوئے تھے تو بھی کوئی بری بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان کے ذہن میں شاعر کا منصب زیادہ واضح تھا آج کے مقابلے میں۔ اب توخیر پہلے جیسا ماحول نہیں کیونکہ آج وہ تلوار جو پہلے شاعر کے سرپر لٹکی رہتی تھی ایک حدتک ہٹ گئی ہے اور تازیانہ لیے جو سیاسی لوگ کھڑے رہتے تھے وہ بھی اب پیچھے ہٹ گئے ہیں یا ختم ہوگئے ہیں۔ ورنہ انگریزی اثر کی وجہ سے اور ترقی پسند نظریات کے اثر کی وجہ سے یہ بات عام تھی کہ ادیب سے مطالبہ کیا جائے کہ تم ’’حقیقی زندگی‘‘Real life کے خدمت گزارہو۔ اورتمہارا فرض ہے کہ تم سماج کی خدمت کرو وغیرہ وغیرہ۔ تو ان کلاسیکی شعراء اور بطور خاص میر کو شاعر کے منصب کا زیادہ خیال تھا۔ کیونکہ شاعر کا منصب یہ نہیں ہے کہ وہ ہر پتی اور ہر پھول کو جاکر جانچے اور ان کے بارے میں لکھے بلکہ ان لوگوں کی نظر میں شاعر کا منصب یہ تھا کہ وہ انسانی زندگیکے بنیادی حقائق کو بیان کرے۔
دوسری بات یہ کہ چونکہ شاعری زبان کا فن ہے اور زبان سے بڑھ کر کوئی دوسرا انسانی عمل نہیں ہوسکتا، نیز انسان کی پوری انسانیت یا اس کا وجود ہی زبان کا مرہون منت ہے، اس لیے وہ فن جو زبان کو برتتا ہے اور زبان کے ذریعے اپنے کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اس سے زیادہ کوئی اور فن زندگی اور انسان سے منسلک نہیں ہوسکتا۔ (تیز لہجے میں ) لہٰذا شاعر کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ زندگی سے اپنے تعلق یا اپنے انسان پن کو ثابت کرنے کے لیے سڑک پر جاکر جھنڈا اٹھائے اور نعرہ لگائے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ باغ میں جاکر پھول کو د یکھے کہ اس میں کتنی پتیاں اور کتنے رنگ ہیں۔ شاعر کو اس کی بھی ضرورت نہیں کہ وہ کوئی سوشل ورک کرے یا سماجی کارکن بن جائے۔
اجملی: لیکن فاروقی صاحب شاعر سماج کا ایک فرد بھی ہے۔ سماج کے مسائل اورChallenges سے جگہ جگہاس کا سامنا ہے اور جب آپ کسی مسئلہ میں Involve ہوتے ہیں تو اس کا اظہار آپ کے عضو عضو اور پور پور سے ہوتا ہے۔ پھر اگر وہ ادب میں بیان ہو رہا ہے تو اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
فاروقی: ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ میں نے تو ابھی ابھی کہا اور شروع سے وہی کہتا آرہا ہوں۔ میرے بارے میں جو لوگ کہتے ہیں کہ شمس الرحمن صاحب سماجی عناصر اور سماجی شعور کے عناصر کو ادب سے خارج کرنا چاہتے ہیں ان لوگوں نے دراصل مجھے پڑھا نہیں ہے کیونکہ میں تو ہمیشہ سے یہ کہتا چلا آرہا ہوں کہ میں تو ادب کی خودمختاری اور ادیب کی آزادی کا قائل ہوں۔ جب میں ادیب کی آزادی کا قائل ہوں تو اس لیے یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ تم یہ نہ کہو اور وہ نہ لکھو میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ ادیب پر آپ درہ لے کر نہ کھڑے ہوجائیے۔۔۔
اجملی: جی یعنی ’’یہی لکھو‘‘
فاروقی: جی ہاں، کہ ’’یہی لکھو‘‘۔ چلیے میں چند لمحوں کے لیے اسے بھی مان لیتا۔ لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ میں نے ایک جگہ لکھا بھی ہے کہ اس طرح کے انضمام اور انضباط سے آمریت کے راستے کھلتے ہیں۔ ابھی تو آپ نے یہ کہا کہ سماجی مسائل پر ہی لکھیے۔ پھر آپ یہ کہیں گے کہ جیسے میں کہتا ہوں ویسے لکھیے۔ اس کے بعد آپ یہبھی حکم دیں گے کہ ایسا نہ لکھیے جیسا کل لکھا تھا اور اپنے گزشتہ کو کالعدم قرار دیجیے۔ یہ تمام چیزیں نکلتی ہیں اس ایک حکم صادر کردینے سے کہ تم اس طرح لکھو اور اس طرح نہ لکھو۔ اچھا اب فرض کیجیے کہ میں کسی بادشاہ کا ملازم ہوں، یا آپ کوئی رئیس ہیں اور میں آپ کا مصاحب ہوں۔ اب اگر آپ کی بیٹی کی شادی ہوئی تو میں ضرور رخصتی لکھ کر لے جاؤں گا۔ آپ کے بیٹے کا ختنہ ہوا تو میں ضرور نظم لکھ دوں گا۔ یہ تو گویا میراprofession ہوگیا۔ جس طرح کوئی ٹیچر، کوئی بزنس مین اور کوئی سرکاری نوکر ہے۔
ان چیزوں کی بنا پر ہم لوگ اپنے شاعروں کو برا بھلا کہتے تھے کہ صاحب یہ بات کیا ہوئی کہ کسی کے ختنے پر شعر لکھ دیا، کسی کی شادی میں سہرا لکھ د یا؟ وغیرہ۔ دراصل یہ روزی کمانے کا طریقہ ہے۔ جیسے کہ آپ روزی کمانے کے لیے کوئی اور کام کرتے ہیں۔ اب اس میں یہ پوچھنا مہمل ہے کہ جب آپ حکم دے کر لکھوارہے ہیں تو اس میں ذاتی اظہار کہاں سے آئے گا؟ میں یہ کبھی نہیں پوچھتا۔ آپ نے غور کیا ہوگا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ شاعر یا ادیب کو آزادی اظہار کا پورا پورا حق ہے۔ اس پر آپ کوئی پابندی عائد نہ کریں۔ اس پر یہ حکم نہ لگائیں کہ تم یہ لکھو اور یہ نہ لکھو کیونکہ اس سے شاعری یا ادب کی روح۔۔۔
اجملی: مجروح ہوتی ہے؟
فاروقی: ختم ہوتی ہے، Ultimately ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ آپ کسی کی موت پر مرثیہ لکھیں تو اس میں بھی آپ کے دل کی آواز ہو۔ وہ کہاں سے ہوگی کیونکہ معاف کیجیے گا آپ کا بیٹا یا باپ تو مرا نہیں ہے۔ میں اس بات کو نہیں مانتا۔ یہ بدعت ہمارے یہاں انگریزی سے آئی اور حالی نے شروع کی اور ترقی پسندوں نے بہت عام کی۔
اجملی: (ہنس کر) جدیدیوں نے بھی خوب لکھا ہے۔
فاروقی: نہیں، یہ نہیں لکھا۔ کم از کم میں نے نہیں لکھا کہ محسوس کیا ہوا تجربہ ہی بیان کیا جائے بلکہ (ہنستے ہوئے ) میں نے تو کہیں لکھا ہے کہ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ اگر میں مرد ہوں تو عورتوں کے تصورات بیان نہیں کرسکتا کیونکہ میں عورت تو ہوں نہیں۔
ادب میں یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ محسوس کی ہوئی باتیں ہی لکھی جائیں ادب تو زبان کا معاملہ ہے۔ زبان میں جو اظہار ممکن ہے وہ ادب کا اظہار ہوسکتا ہے۔ اگر میں کسی رئیس کا ملازم ہونے کی بناپر اس کا مرثیہلکھوں یا اس کے لڑکے کی شادی میں سہرا لکھوں تو اس کو جانچنے کے معیار الگ ہوجائیں گے کہ وہ اچھا مرثیہ یا سہرا ہے یا نہیں؟ اور شرط یہ نہیں ٹھہرے گی کہ میں اس میں اپنے ذاتی خیالات بھی لکھوں لیکن اگر لکھ دیے تو اس میں کوئی ہرج بھی نہیں۔ ذاتی خیالات کی مثال کے طور پر یہ دیکھیں کہ مومن کا مرثیہ اپنی معشوقہ کے بارے میں ہم لوگوں کے خیال میں تصنع سے بھرا ہوا ہے اور اس کے مقابلے میں غالب کے مرثیہ عارف میں عربی فارسی الفاظ بھی کم ہیں اور تصنع بھی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ مومن کو اپنی معشوقہ کے مرنے کا غم نہیں تھا اور غالب کو عارف کا غم تھا۔ یہ تو اپنے اپنے کہنے کے طریقے ہیں۔
اجملی: فاروقی صاحب! ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی سے متعلق بحث کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اور ادب برائے ادب کوBalance کس طرح کیا جائے؟
فاروقی: ادب برائے ادب کس نے کہا؟ یہ تو کوئی چیز ہی نہیں ہے۔
اجملی: پھر لوگ کیوں اتنا شور مچاتے ہیں؟
فاروقی: وہی تو میں نے کہا کہ ادب کی تحسین کے جو طریقے پرانے زمانے میں ہمارے یہاں مقرر تھے جب ہم نے وہ کھودیے اور غیرزبان یا غیرتہذیب کے طریقے ہم نے مستعار لینا چاہے تو ہم یہ نہ سمجھ پائے کہ ان طریقوں کو کس طرح سے ہم اپنے یہاں استعمال کریں اور برتیں؟ پھر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ وہ ادب جس میں اصلاح معاشرہ، سماجی مسائل کا اظہار اور سیاسی یا اگر سیاسی نہیں تو زمانے کا شعور۔۔۔
اجملی: عصری حسیت۔۔۔
فاروقی: جی۔ عصری حسیت پائی جائے تو وہ ادب برائے زندگی کہلائے گا۔ کیونکہ ادب کا مقصد یہ ہے کہ ادیب زندگی کے مسائل کو پیش کرے اور اگر ممکن ہو تو ان کا حل پیش کرے۔ (ہنس کر) بلکہ بعد میں تو یہ کہا جانے لگا کہ وہ حل ہی پیش کرے۔ چنانچہ منٹو اور بیدی کو اسی لیے مطعون کیا گیا کہ ان کے یہاں مسائل کا حل نہیں ملتا۔ عصمت آپا کو بھی مطعون کیا گیا کہ عورتوں کے بارے میں لکھتی تو ہیں مگر حل پیش نہیں کرتیں۔
اس وقت یہ دوCategories قائم کی گئی تھیں یعنیart’s sakeاورArt for life’s sake۔ اس سے ان لوگوں کی مراد ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی تھی۔ لیکنArt for art’s sake کا انگریزی میں جو نعرہ لگایا گیا تھا اس سے ان کی مراد صرف یہی تھی کہ سب سے پہلے فن کو فن ہونا چاہیے۔ اور فن کا کوئی تفاعل نہیں ہے۔ اس سے آپ کوئی کام لے لیں، یہ الگ بات ہے۔ لیکن اس کا کوئی تفاعل نہیں ہے کہ اسے فلاں کام میں لگانا ضروری ہے یا اس سے فلاں کام لیا جاسکتا ہے اور اگر نہ لیا جائے تو یہ اس کی کمزوری ہے۔ اس زمانے میں جب وہاں (مغرب میں) یہ بحث چلی تھی کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ادب کو ہم خالص ادب بناکر رکھیں؟ تو وہاں یہی نتیجہ نکلا کہ خالص ادب کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہاں یہ سوال ضرور اٹھ سکتا ہے کہ ادب اور فن جو ہم بنارہے ہیں اس کا اصل مقصود کیا ہے؟ (یعنی ہم اس پر گفتگو کرسکتے ہیں۔) اور اصل مقصود یہ ہونا چاہیے اور ہے کہ ہم ادب بنا رہے ہیں۔ یہ مقصد نہیں ہے کہ اس سے ہم کوئی کام لے رہے ہیں یعنی ادب کو حرفت سے الگ ہونا چاہیے۔ مثلاً آپ لکڑی کاٹ رہے ہیں، چھیل رہے ہیں۔ آپ سے کوئی پوچھے کہ کیا بنا رہے ہو؟ تو آپ کہیں کہ کرسی بنارہے ہیں اور کرسی اس لیے بنارہے ہیں کہ لوگ اس پر بیٹھیں گے۔ لیکن ادب کے تعلق سے آپ یہ سوال نہیں پوچھ سکتے کہ کیا غزل کہہ رہے ہو؟ (ہنس کر) اچھا تو کیوں کہہ رہے ہو؟ کیا اسے پڑھ کر کوئی مسلمان ہوجائے گا؟ یا اسے پڑھ کر کسی کا پیٹ بھر جائے گا؟ توArt for art’s sake سے مرادیہ تھی کہ فن کی تخلیق فنی محاسن کے لیے کی جائے اور فن پارے سے اگر کوئی اور کام لیا جاسکتا ہے تو آپ لے لیجیے، آپ کی مرضی۔ لیکن اسے کسی کام کا پابند نہ کیجیے۔ جب فن پارہ بنایا جائے گا تو اس کا بنیادی مقصد یہ ہوگا کہ وہ فن پارہ بنے۔ یہ نہیں کہ وہ کرسی بنادی جائے جس پر کوئی بیٹھ سکتا ہو۔
اجملی: لیکن مقصدی ادب کے ردعمل میں جو اردو شاعری ہوئی اس کو بانس پر چڑھانا کہاں تک درست تھا؟ جذباتی ردعمل کی بات بالکل الگ ہوتی ہے۔ آپ تو سنجیدہ ناقد ہیں اور ہم آپ سے یہی توقع بھی کرتے ہیں۔ میں مثال پیش کرتا ہوں۔ جیسے صلاح الدین پرویز کی نظم کا ایک مصرع ہے۔ ’’پیتل کی ٹونٹی سے ٹپکیں گے رام‘‘ میری سمجھ میں آج تک نہ آیا کہ پیتل کی ٹونٹی سے رام کیسے ٹپکیں گے اور اس سے ان کی کیا مراد ہے؟
فاروقی: آپ نے سوال خلط ملط کردیا۔ آپ تو یہ پوچھنا چاہتے تھے کہ مقصدی شاعری کے ردعمل میں جو شاعری ہوئی اس کو قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ پھر آپ نے اس میں یہ ملادیا کہ یہ نظم میرے لیے۔۔۔
اجملی: جناب، مقصدی شاعری کے ردعمل میں ہی ایسی نظمیں کہی گئیں۔
فاروقی: نہیں ایسا تو نہیں ہے۔ آپ ذرا وضاحت کریں۔
اجملی: میں عرض کرتا ہوں۔ Art for art’s sakeکی جو بات آپ نے کہی تو اس کا مطلب میری سمجھ میں اردو والوں نے خاص طور پر چھٹی دہائی میں یہ لیاکہ شاعری وہ ہے جس کا کوئی مطلب نہ ہو، جو قطعی ناقابل فہم ہو اور اگر کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے؟ تو جواب ملے کہ صاحب ہم اپنے لیے کہتے ہیں۔ ہماس کا مطلب بتائیں یا نہ بتائیں۔ آپ سے مطلب؟ چھپوائیں گے اور ایسا ہی لکھیں گے اور ع ’’ذات کے بیت الخلا میں ہوں اسیر‘‘ میں بیت الخلا کا مطلب ہم خالی مکانلیتے ہیں۔ آپ کو کیا؟ تو اس رویے کو آپ کس حد تک صحیح قرار دیتے ہیں؟
فاروقی: کسی رویے کو درست قرار دینا میرا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تو آپ کو دیکھنا ہے کہ جو فن پارہ آپ کے سامنے ہے وہ آپ کے لیے کسی قدر کا حامل ہے کہ نہیں؟ اگرنہیں ہے تو اس کو مسترد کردینا چاہیے۔ مسترد کرنے کی وجہ یہ ہوگی کہ یہ فن پارہ میرے لیے کسی قدر کا حامل نہیں ہے۔ یہ وجہ نہیں ہوگی اور نہیں ہونی چاہیے کہ چونکہ ہمارے ردعمل میں لکھا گیا ہے لہٰذا ہم اسے فن پارہ نہیں مانیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ردعمل کے طور پر میں کوئی چیز بنادوں جو آپ کی چیز سے اچھی بنے یا خراب بنے تو اس ردعمل کے پیچھے ایک قوت ہوئی جو مجھ کو دوڑا رہی ہے۔ لیکن اس قوت کو Judgeکرنا آپکا کام نہیں ہے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں جو بنا ہے اگر وہ آپ کے فنی معیار سے آپ کے تاثرات کے اعتبار سے کامیاب ہے تو آپ کہیے کہ ہاں صاحب آپ نے کامیاب نظم کہی ہے۔ کامیاب فن پارہ بنایا ہے اور اگر کامیاب نہیں ہے تو کہیے کہ ردی ہے۔ لیکن اس بناپر آپ ردی نہ کہیں کہ صاحب آپ نے چونکہ ردعمل میں کہی ہے لہٰذا یہ نظم ردی ہے۔
اجملی: اب آپ دیکھیں کہ جو نام کسی خاص تحریک یا رجحان سے جڑے ہوئے تھے ان کے سنجیدہ کلام کو آج اس آخری دہائی میں مختلف نقاط نظر کے ناقدین Appreciateکر رہے ہیں۔ لیکن بعض کی صورت حال ایسی نہیں۔ مثال کے طور پر میں ایک نام آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں نیاز حیدر کا۔ ان کی نظموں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
فاروقی: بھئی نیاز حیدر صاحب، ظاہر ہے کہ میں ان کا بہت نیازمند تھا اور لحاظ کرتا تھا۔ لیکن ان کی شاعری کو میں اچھی شاعری نہیں سمجھتا۔۔۔ اس کی وجہ کیا ہے، اس کی تفصیلبیان کرنے کا وقت نہیں۔ لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ میری طرح کی شاعری کے تقاضے نہیں پورے کرتے۔ ہوسکتا ہے کسی اور طرح کی شاعری کے تقاضے پورے کرتے ہوں لیکن جس طرح کی چیز کو میں شاعری سمجھتا ہوں وہ مجھے ان کے وہاں بہت کم ملتی ہے۔ اچھا اب اس کی کئی وجہیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کی پوری ڈگر ہی غلط تھی۔ انہوں نے یہ سیکھا اور سمجھا تھا کہ شاعری کا کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف راغب کرے۔ شاعری میں نعرے بازی، گرم جوشی، گھن گرج اور شور و غل ہو۔ شاعری عوامی ہو۔ نام نہاد عوامی کہہ لیجیے۔ حالانکہ ’’عوامی‘‘ کیا چیز ہے، یہ میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔ (قہقہہ) لیکن بہرحال عوامی شاعری کا کوئی تصور شاید ان لوگوں کے ذہن میں رہا ہوگا، یا پھر یہ کہ وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ شاعری وہی اچھی ہے جس میں کوئی انقلابی مقصد ہو یا جس میں انقلاب کی ترغیب دی گئی ہو اور اس کا مژدہ سنایا گیا ہو۔ مطلب یہ کہ اس طرح کی چیزیں غالباً ان کے ذہنمیں تھیں جن کی بنا پر انہوں نے ایسی شاعری کی۔ تو میں ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ اس لیے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی شعر اچھا ہو یا شعر خراب ہو۔ کیونکہ نظم یا شعر کے جو محاسن ہوں گے ان کو بیان کرنے، برتنے اور قائم کرنے کے لیے یہ باتیں کافینہیں ہیں۔ ان کے برعکس جو چیزیں شعر کو شعر بناتی ہیں وہ کچھ اور ہیں۔
اجملی: آپ نے ابھی فرمایا کہ میری طرح کی شاعری یا میرا معیار نقد۔ تو اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ آپ کس طرح کی چیز کو شاعری سمجھتے ہیں؟
فاروقی: میں کس چیز کو شاعری سمجھتا ہوں یہ تو نہیں بیان کرسکتا کیونکہ شاعری کے قاری کے طور پر میری اپنی کوئیIdentgity نہیں ہے۔۔۔
اجملی: میرا سوال ناقد شمس الرحمن فاروقی سے ہے۔
فاروقی: ناقد شمس الرحمن فاروقی کی بھی کوئیIdentity نہیں ہے جب تک کہ ناقد فاروقی خود کو اپنی پوری زبان کے پس منظر میں اور زبان میں جو ادب لکھا گیا ہے اور جس طرح کے ادب سے وہ ادب خود متاثر ہوا ہے اس کے پس منظر میں رکھ کر نہ دیکھیں۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی بھی ناقد، چاہے میں ہوں یا مجھ سے بھی بڑا کوئی ناقد ہو وہ کوئی ایسا معیار یا ایسے اصول مرتب کردے جو بالکل آسمانی ہوں اور الگ سے لائے گئے ہوں۔ ادب کے اصول آفاقی نہیں ہیں۔ جو بھی اصول ہوں گے وہ ہمیشہ اس ادب سے مستخرج کیے گئے ہوں گے جس ادب کا میں ادیب اور قاری ہوں۔ تو اس مقام سے میں کہہ سکتا ہوں کہ میری تہذیب یا روایت میں جس چیز کو شاعری کہا جاتا ہے اس کی پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ الفاظ کی جو تخلیقی جہتیں ہیں ان کو پوری طرح برتا جائے یعنی الفاظ اپنی جگہ مردہ یا نیم مردہ ہیں۔ ان کو پھر سے زندہ کیا جائے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ الفاظ میں جو معنی کم ہوگئے ہیں یا ان کے معنی جو بعض اوقات کھوئے گئے ہوتے ہیں ان کو فن پارے میں اس طرح برتنا کہ وہ دوبارہ معنی خیز ہوسکیں اور زیادہ بامعنی ہوجائیں، اگر ان میں معنی نہیں ہیں تو معنی پیدا ہوں اور اگر معنی کم ہیں تو زیادہ ہوجائیں۔ یہاں میری مراد اس طرز سے ہے کہ جب زبان کو تخلیقی طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو وہ الفاظ بھی جو اپنی معنویت کھوچکے ہیں یا جن کی معنویت کم ہوچکی ہے ان میں دوبارہ معنی کی چمک آجاتی ہے اور نئی جان پڑجاتی ہے۔
دوسری بات میں یہ دیکھتا ہوں کہ جو فن پارہ میرے سامنے ہے۔ اس میں جو بات کہی گئی ہے (جو تجربہ یا خیال، فلسفہ یا محض خیال) وہ میرے لیے کس قدر بامعنی ہے آج کے Context میں۔ یا جہاں میں بیٹھا ہوا ہوں اس کے علاوہ بھی ایکContext ہوگا۔ ایک تو یہ کہ میں آج یہاں موجود ہوں مثلاً میرے کچھ مسائل ہیں جو ذاتی ہیں اور جس شخص نے نظم (فن پارہ) کہی ہے اس کو ان مسائل سے کوئی واقفیت نہیں رہی ہوگی۔ اور اگر تھی بھی تو (ہنس کر) اس کو کیا مطلب کہ شمس الرحمن صاحب کے دانت میں درد ہے یا وہ نوکری سے نکالے جانے والے ہیں یا بیٹی کی شادی نہیں ہوئی؟ اس سے اس کو کیا مطلب؟ وہ تو اپنی نظم کہے گا۔ فرض کریں بعض فوری مسائل میرے سامنے ہیں۔ مثلاً ایک یہ ہے کہ میں انقلاب کا سپاہی ہوں، مجھے انقلاب کا نعرہ لگانا ہے یا انقلابیوں کی فوج جمع کرنی ہے اور ان کو لے کر جانا ہے تویہ میرے فوری مسائل ہیں۔
ان کے علاوہ بھی میری شخصیت ہے۔ وہ یہ کہ میں کسی تہذیب کا ایک فرد ہوں، کسی روایت کا ایک حصہ ہوں۔ دنیا میرے لیے معنی خیز اسی وقت ہوتی ہے اور اسی لیے ہوتی ہے کہ میں اس دنیا کو اپنی تہذیب اور اپنی روایت کے حوالے سے دیکھتا ہوں۔ اپنی تہذیب اور روایت کے حوالے سے اگر میں نہ دیکھوں تو دنیا میرے لیے بامعنی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آپ میرے بزرگ ہیں۔ مجھے آپ کو کوئی چیز پیش کرنی ہے۔ تو ایک طریقہ یہ ہے کہ میں نے وہ چیز اٹھاکر آپ کی طرف پھینک دی کہ لیجیے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ میں نے ہاتھ بڑھاکر کہا کہ لیجیے۔ ایک یہ کہ میں اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور دونوں ہاتھ سے وہ چیز پیش کی اور کہا یہ حاضر ہے، ایک یہ ہے کہ میں نے کوئی سینی، کوئی ٹرے منگائی۔ اس پر رکھا اور آپ کو پیش کیا اور ایک یہ کہ میں اس کو سر پر رکھ کر لے گیا۔ یہ تمام چیزیں ہیں جن میں سے کچھ چیزیں صرف میری تہذیب میں ممکن ہیں۔ اور کوئی تہذیب خواہ وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو اس کے لیے یہ سب چیزیں بامعنی نہیں ہوں گی۔ مثلاً دونوں ہاتھوں پر رکھ کر کسی چیز کو پیش کرنا میری تہذیب میں تو معنی خیز ہے لیکن غیر تہذیب میں معنی خیز نہیں ہے اور سر پر رکھ کر لے جانا تو بہت کم تہذیبوں میں معنی خیز ہوگا لیکن ہمارے یہاں معنی خیز ہی نہیں بلکہ انتہائی ادب و احترام کی علامت ہے۔
تو دنیا کی ہر چیز جو میں دیکھ رہا ہوں اور انہیں جس طرح بیان کر رہا ہوں یعنی میرے دیکھنے کا طریقہ اور میرا بیان کرنا یہ دونوں چیزیں مجھے اس لیے حاصل ہیں کہ میں کسی تہذیب اور کسی روایت کا حصہ ہوں۔ اور ممکن ہے کہ میری تہذیب اور روایت کے باہر دنیا کو دیکھنے اور بیان کرنے کا وہ طریقہ نہ ہو جو میرا ہے۔ اس میں جو نکتے کی بات ہے وہ یہ کہ ایسا ضروری نہیں ہے کہ دنیا کو ہم اسی طرح بیان کرتے ہیں جس طرح وہ ہمیں نظر آتی ہے۔ بلکہ دنیا کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے جس طرح بیان کرنے کی رسومیات ہیں۔ یعنی بیان کرنے کے جو طریقے اور ’’حقیقت‘‘ کو منظم کرنے کے جو اصول کسی تہذیب میں رائج ہیں۔ مثال کے طور پر ٹوپی کی بہت سی شکلیں ہیں۔ کشتی نما ٹوپی، رام پوری ٹوپی، دوپلی ٹوپی اور گول ٹوپی وغیرہ لیکن کوئی ٹوپی کسی تہذیب میں مقبول ہے اور کوئی کسی میں۔ مطلب یہ کہ دنیا کو بیان کرنے کے جو بھی طریقے ہوتے ہیں وہ مخصوص رسومیات اور تہذیبی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ یعنی انگریزوں کی نظر میں جو چیز ٹوپی تھی وہ چیز وہ نہیں تھی جو میری ٹوپی ہے۔ انگریزووں کی ہیٹ کو ہم نے اس لیے اپنایا اور قبول کیا کیونکہ وہ ہمارے حاکم تھے۔ فرض کیجیے کہ انگریز ہمارے حاکم نہ ہوتے اور وہ اپنی ہیٹ کے استعمال پر ہمیں آمادہ کرنا چاہتے تو ہم ہرگز اسے قبول نہ کرتے۔ لطف یہ کہ ہماری ٹوپی کو بھی انگریزی میں Hat ہی کہتے ہیں، جب کہ ہمارے یہاں Hat کے معنی ہیں انگریزی ہیٹ۔ ہم گاندھی کیپ کہتے ہیں، گاندھی ہیٹ نہیں کہتے۔ انگریز مگر اسے ہیٹ ہی کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ دنیا کو بیان کرنے کے اپنے اپنے طریقے ہیں۔ کوئی طریقہ نہ دوسرے طریقے سے بہتر ہے اور نہ کم تر۔
اس طرح جب کوئی نظم، شعریا فن پارہ میں نے بڑھایا وہ میرے سامنے لایا گیا تو پہلی بات یہ دیکھی جائے گی کہ الفاظ کی تخلیقی جہتیں کس حدتک بروئے کار آئی ہیں اس سے میری مراد یہ ہے کہ روز مرہ کی گفتگو اور بول چال میں الفاظیا تواپنے معنی کھو بیٹھتے ہیں یا ان کے معنی کم ہوجاتے ہیں، شاعر ان میں پھر سے معنی پھونکتا ہے اور انہیں زندہ کرتا ہے جس کو والیری نے یوں کہا تھا کہ نثر تو عام بول چال کی زبان ہے اور اس سے شاعری کی زبان کو وہی رشتہ ہے جو معمولی چال کو رقص سے۔ ہاتھ پیر کے وہی حرکاتMovements ہیں جو ہماریعام زندگی میں استعمال ہوتے ہیں لیکن ان میں وہ معنویت یا وہ تخلیقی سرگرمی نہیں ہوتی جو رقص میں پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب میں کسی فن پارے کو دیکھتا ہوں تو اس تہذیب کا حصہ ہو کر دیکھتا ہوں جس میں فنکار فن پاروں کو بناتے رہے ہیں اور وہ تہذیب ان کو فن پارہ سمجھتی رہی ہے یا فن پارہ نہیں سمجھتی رہی ہے۔ تو میں دیکھنا یہ چاہتا ہوں کہ اس تہذیب کے پس منظر میں یہ فن پارہ میرے لیے کہاں تک معنی خیز ہے۔ اب نیاز حیدر صاحب ہوں یا کوئی اور صاحب ہوں اگر ان کی شاعری میں یہ دوعناصر کم نظر آئے یعنی اگر ان کے یہاں مجھے الفاظ میں معنی یا معنویت کم نظر آئی یا جس تہذیب میں میں پلا بڑھا ہوں اور جس تہذیب نے مجھے بتایا ہے کہ شاعری ایسی ہوتیہے اور شاعری ایسی نہیں ہوتی اسے غزل کہتے ہیں اور اسے غزل نہیں کہتے تو اس تہذیب کے نمائندے کی حیثیت سے اس نظم نے مجھے کیا دیا؟ اس نظم کے ذریعہ مجھے کہاں تک اس تہذیب میں داخلہ ملتا ہے؟ اس کو آپ معیار کہہ لیجیے۔ اس کے علاوہ باقی باتیں تفصیلی ہیں یعنی استعارے کا استعمال کیسا ہے، پیکر کیسا ہے؟ وغیرہ لیکنان کے لیے تفصیل چاہیے۔
اجملی: فاروقی صاحب اگر آج آپ سے کوئی کہے کہ غزل کے دس معتبر شعرا کا نام لیجیے اور آپ ان میں ایک نام سراج اجملی کا لیں تو اس سے کیا مراد لی جائے گی؟
فاروقی: (قہقہہ) یہ تو آپ اس سے پوچھیے جس نے ایسا کام کیا ہو۔
اجملی: آپ سے اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ آپ نے اپنی کتاب ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ میں شعراء کے ذکر میں فیض اور راشد کے ساتھ مجاز کا نام لیا اور بعد میں آپ نے مجاز کو بالکل رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس لائق بھی نہیں کہ پانچ آدمی کمرے میں بیٹھ کر ان کے تعلق سے باتیں کریں اس کا کیا سبب ہے؟
فاروقی: مجھے یاد نہیں کہ میں نے مجاز کا نام وہاں لیا ہو۔۔۔
اجملی: یہ تو ’’افسانے کی حمایت میں‘‘ میں لکھا ہوا موجو دہے۔
فاروقی: اگر لکھا ہوا ہے تو ضرور ہوگا مگر اس وقت مجھے یاد نہیں آرہا ہے اور کتاب بھی سامنے نہیں ہے جو میں عرض کرسکوں۔ لیکن میں تو مجاز کو ہمیشہ سے بہت معمولی شاعر سمجھتا رہا ہوں۔ مجاز گویا میریTragedy ہیں۔ میں مجاز اور ساحر اور اس طرح کے کچھ شعرا کا لڑکپن میں بہت مداح تھا۔ بچپن میں پڑھا ہوا مجاز کا بہت سارا کلام مجھے آج بھی زبانی یاد ہے۔ اسی طرح ساحر کا بہت سا کلام بھی بغیر یاد کیے ہوئے اب تک ذہن میں رہ گیا ہے اور تقریباً پچاس سال گزرنے کے بعد بھی میں وہ کلام نہیں بھولا ہوں۔ لیکن جب میں بڑا ہوا تو اس بات کا احساس ہوا کہ لڑکپن کی ایک لہر ہوتی ہے کہ بعض چیزیں اچھی لگتی ہیں اور بعض چیزیں اچھی نہیں لگتیں۔ تو وہ لڑکپن کی ا یک لہر تھی ورنہ مجاز یا ساحر میرے خیال میں دونوں معمولی شاعر ہیں۔ اس لیے مجھے تو یقین نہیں آرہا ہے کہ میں نے مجاز کا نام راشد کے ساتھ لیا ہوگا اور وہ بھی راشد اور فیض کے مرتبے کا شاعر سمجھ کر ان کا نام لیا ہوگا۔ میں تو فیض کو بھی راشد سے بہت کم سمجھتا ہوں میں نے پہلے بھی کہا ہے اور آج بھی کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ مجھ سے ان پانچ بڑے نظم گویوں کا نام پوچھیں جو ہم لوگوں کی نسل سے پہلے اور اقبال کی نسل کے بعد کے ہیں یعنی میراجی، راشد، اخترالایمان، فیض اور مجید امجد تو میں ان میں مجاز کیا سردار جعفری جو مجاز سے ہزار درجہ بہتر ہیں کا نام بھی نہیں لے سکتا۔ اگر مذکورہ کتابسامنے ہوتی (1) تو میں عرض کرتا کہ ایسا میں نے کیوں کہا؟ ممکن ہے میں نے مقبول شعراء کا ناملیا ہو اور ان میں مجاز کا نام بھی لے لیا ہو۔ ایسا ہوسکتا ہے۔
(1) فاروقی صاحب کی اصل عبارتیہ ہے،
’’اقبال نے جب شاعری شروع کی تو داغ اور امیر کا غلغلہ تھا۔ اور جب ختم کی تو حسرت، فانی، یگانہ، جوش اور اختر شیرانی کا طوطی بول رہا تھا۔ جگر اور فراق اچھی طرح جم چکے تھے اور ن۔ م۔ راشد، میراجی، مجاز، فیض کا ذکر ہونے لگا تھا۔‘‘ (افسانے کی حمایت میں۔ ص۹) ظاہر ہے کہ یہ بیان ادب کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا مدعا صرف یہ ہے کہ اقبال نے جب شاعری ختم کی تو جو نئے شاعر سامنے آرہے تھے ان میں مجاز بھی شامل ہیں۔ اس بیان سے مجاز کی شاعرانہ وقعت اور حیثیت پر کوئی تبصرہ مراد نہیں ہے۔ (مرتب)
اجملی: بحیثیت شاعر نشور واحدی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
فاروقی: نشور صاحب میرے بزرگ تھے اور عزیز بھی تھے۔ لیکن میں نے ان کو بھی کبھی اچھا شاعر نہیں سمجھا سوائے اس کے کہبچپن میں سمجھا ہو تو سمجھا ہو لڑکپن میں جہاں مجھے بہت سے شاعر اچھے لگتے تھے جن میں سے کچھ نام آپ کے سامنے آئے بھی، ان میں ایک حدتک نشور صاحب بھی شامل تھے۔ لیکن بعد میں جب میرے اندر اپنے خیال میں شاعری سمجھنے کی تھوڑی بہت اہلیت پیدا ہوئی تو میں نشور صاحب سے بہت مایوس ہوا۔ بہرحال یہ کہ وہ کوئی بڑے شاعر نہیں تھے۔ بہت سے لوگ ان کو بڑا شاعر مانتے ہیں اور مجھ سے بحث بھی کرتے رہتے ہیں لیکن میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ یہ میری رائے ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ آپ مجھ سے متفق ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ لوگ اس پر ناراض ہوں لیکن سچ بات میں نے کہہ دی کہ میرے خیال میں وہ بڑے شاعر نہیں تھے بلکہ میں انہیں معمولی شاعر سمجھتا ہوں۔
اجملی: آپ نے پچھلے دنوں مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھی کی شاعری پر ایک مضمون لکھا ہے۔
فاروقی: جی۔
اجملی: اس کی وجہ؟ آپ کا ان سے وہ تعلق خاطر جو عقیدت مندانہ اور نیاز مندانہ ہے یا بحیثیت ناقد شمس الرحمن فاروقی جو کسی کی لگی لپٹی نہیں رکھتا؟
فاروقی: محمد احمد پرتاپ گڑھی کے ساتھ دونوں باتیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ شاعر اچھے تھے۔ ایک خاص طرز اور محدود طرز ہی کے سہی لیکن تھے اچھے شاعر۔ صوفیانہ تصوف اور عشق رسول ان کے یہاں بہت موج زن ہے۔ انہوں نے نہ خود کو کبھی پروفیشنل شاعر کہا اور نہ کبھی میں نے ان کو ایسا سمجھا۔ ان کے کلام کو سامنے رکھ کر جو ردعمل ذہن پر مرتب ہوا وہ میں نے بیان کردیا۔۔۔
اجملی: ان (محمد احمد پرتاپ گڑھی) کا ایک شعر ہے۔
مے سے غرض نشاط ہو جس روسیاہ کو
لاحول پڑھ کے مارنا دولات چاہیے
اور یہ ان کی غزل کا شعر ہے۔ آپ ان کی غزلوں کی تعریف کر رہے ہیں۔ اس شعر کے تعلق سے آپ کا کیا خیال ہے؟
فاروقی: یہ شعر ممکن ہے انہوں نے کہا ہو۔ ان کی عادت یہ تھی کہ وہ مقبول اشعار کی تحریف کیا کرتے تھے اور کوشش یہ کرتے تھے کہ اس تحریف کے ذریعہ کوئی اصلاحی یا صوفیانہ نکتہ بیان ہوجائے تو ممکن ہے انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہو۔
اجملی: لیکن جس روسیاہ کو مے سے غرض نشاط ہو اسے لاحول پڑھ کر دولات مارنا چاہیے۔ اس میں کوئی صوفیانہ نکتہ تو نہیں ہے۔
فاروقی: اصلاحی نکتہ تو ہے۔ اگر انہوں نے کہا ہے تو اصلاح کے لیے کہا ہوگا۔ لیکن یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ کسی شخص نے اگر کوئی خراب شعر کہا ہو تو اس کے باقی شعر بھی خراب ہی ہوں۔ صوفیانہ نکتہ بھی ہے کہ ’’مے‘‘ دراصل ’’مے عرفان‘‘ ہے جس سے نشاط نہیں بلکہ سوز پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ شعر ایک بزرگ کا ہے اور اگر خطا بھی ہے تو خطاے بزرگاں گرفتن خطااست۔ یہ تو آپ بھی خوب جانتے ہیں کہ مرشد زادے ہیں۔
اجملی: میں نے آپ سے دو متواتر سوالات کیے ہیں۔ ایک نشور واحدی کے تعلق سے اور دوسرا محمد احمد صاحب کے تعلق سے۔ اگر آپ سے کہیں کہ ان دو شعراء کا تقابل کیجیے تو؟
فاروقی: دیکھیے نشور صاحب کا جو معاملہ تھا اور ان کے یہاں جو کمزوری تھی وہ اس نسل کے اکثر شعرا کے یہاں ہے۔ نشور صاحب اس میں اکیلے نہیں ہیں۔ مصرع تو وہ اچھاکہہ لیتے تھے لیکن دو مصرعے مربوط کرنا ان لوگوں کے لیے مشکل ہوجاتا تھا۔ پتہ نہیں کیا معاملہ تھا؟ فراق کی بھی یہی کمزوری تھی۔ یگانہ اور فانی کو چھوڑ کر اس زمانے کے اکثر شعرا کے یہاں عام طور پر یہ کمزوری تھی۔ اور ایسا غالباً اس لیے تھا کہ ان لوگوں کو غزل کی گرامر کا پوری طرح ادراک نہیں تھا۔ غزل کی گرامر سے مراد یہ کہ غزل کہنے کے طریقے یعنی دو مصرعوں میں پوری بات بیان کرنا، مصرعوں کو مربوط رکھنا، مصرعے برابر کے ہوں، برابر کے نہ ہوں تو کم از کم تقریباً برابر کے ہوں۔ یہ نہیں کہ ایک مصرع تو آسمان پر ہو اور دوسرا زمین پر، جو فراق کے یہاں اکثر ہوتا ہے۔ یہ اس نسل میں بہت عام بات تھی۔ معلوم نہیں کیوں؟ لیکن میں یہی سمجھتا ہوں کہ غزل کی گرامر سے لوگ غالباً کم واقف تھے۔ نشور صاحب کے یہاں یہ بات بہت تھی۔ وہ پہلا مصرع اکثر عمدہ نکالتے تھے لیکن دوسرا مصرعہ یا تو بے ربط ہوتا تھا یا بہت پست۔
اجملی: ردتشکیل کا نظریہ اردو ادب میں کس حدتک نافذ ہوسکتا ہے یا ہمارے ادب سے یہ کہاں تک مطابقت رکھتا ہے؟
فاروقی: (ہنس کر) بات کہاں سے کہاں لے گئے آپ۔ بہرحال مطابقت کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔ ردتشکیل اصطلاح کچھ مناسب نہیں بعض لوگ اسے رد تعمیر کہتے ہیں، بعض لوگ کچھ اور کہتے ہیں۔ لا تشکیل میں نے تجویز کیا تھا لیکن یں اس پر اصرار نہیں کرتا۔ یہ تو ادب کو سمجھنے کا ایک طریقہ ہے ایک طریق کار ہے۔ پرکھ آپ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کے یہاں پرکھنے کی کوئی شرط نہیں ہے اور نہ ان کے یہاں یہ شرط ہے کہ آپ ادب ہی کے بارے میں بات کریں۔ وہ صرف متنText کی باتیں کرتے ہیں خواہ وہ اخبار ہو، کوئی اشتہارہو، کوئی لکچر ہو، کوئی فلسفیانہ تحریر ہو یا شاعری ہو تمام متن ان کے یہاں برابر ہیں۔ ان کے یہاں ادب کی کوئی قید نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ متن کو پڑھنے کا ایک ایسا طریقہ ہونا چایے جس سے ہم یہ دکھا سکیں کہ متن دراصل ایکConstruct ہے یعنیکوئی نامیاتی بنیادی وحدت نہیں ہے بلکہ یہ بنایا ہوا ہے۔
اسی لیے انہوں نے اس طریقے کار کو کہا کہ یہDeconstruction ہے یعنی جو چیز کہ جوڑ کرتیار کی گئی ہے، جس میں کوئی نامیاتی اصلیت نہیں ہے ہم اسے الگ الگ کر کے آپ کو دکھادیں گے کہ یہ اس کے الگ الگ ٹکڑے ہیں اور ان کو جوڑ کر یہ تیار کیا گیا ہے یعنی متن میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے ہم حقیقی یا نامیاتی Organicسچائی کہہ سکیں۔ وہ دراصلمختلف چیزوں کو ملاکر بنائی ہوئی ایک چیز ہے اور اس کے ٹکڑوں کو ہم الگ الگ کرکے دکھاسکتے ہیں اور جب انہیں الگ الگ کرکے دکھائیں گے تو ممکن ہے کہ یہ پتہ لگے کہ پہلی قرأت میں اس کے جو معنی ہم سمجھ رہے تھے یا اس کے جو معنی عام طور پر سمجھے جاتے ہیں وہ غلط تھے بلکہ اصل معنی اس کے الٹے نکلیں یا یہ معلوم ہو کہ معنی کی کوئی مرکزی جگہ نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ جس چیز کو ہم ضمنی سمجھ رہے ہوں وہ بنیادی چیز نکلے اور مرکزی معلوم ہو اور جس کو ہم بنیادی اور مرکزی سمجھ رہے تھے وہ ضمنی نکلے تو یہ ایک طریق کار ہے جس کو آپاستعمال کرسکتے ہیں۔ اگر آپ اس فن سے پوری طرح واقف ہیں تو ممکن ہے کہ اسے کامیابی سے استعمال کرسکیں اور ان اصولوں کی روشنی میں آپ ثابت کرسکیں کہ فلاں فن پارے میں یا فلاں تحریر میں یا فلاں متن میں کوئی مرکزیت نہیں ہے۔
میں ادب کے طالب علم کی حیثیت سے دیکھتا ہوں تو میرے خیال میں اس طریق کار میں دو کمیاں نظر آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس میں یکسانیت بہتہے مثلاً جب یہ اصول پہلے ہی سے معلوم ہوگیا کہ معنی کا کوئی مرکز نہیں ہے یاجس چیز کو ہم ضمنی قرار دے رہے ہیں وہ مرکزی ہوسکتی ہے اور جس کو مرکزی قرار دے رہے ہیں وہ ضمنی ہوسکتی ہے یا ممکن ہے اس میں کوئی معنی سرے سے ہوں ہی نہیں یا ممکن ہے کہ جو معنی ہم عام طور پر بیان کر رہے تھے Deconstruct کرنے پر اس کے با لکل مخالف معنی برآمد ہوں۔ تو جب یہ پہلے سے معلوم ہے کہ جب کسی متن یا فن پارے کا تجزیہ کیا جائے گا تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا تو گویا پرچہ پہلے سے ہی آوٹ ہے۔
مثال کے طور پر ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے بارے میں عام طور پر معلوم ہے کہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ مرد مومن جب عشق اختیار کرتا ہے تو وہ ایسا کارنامہانجام دیتا ہے جو لافانی اور لازوال ہوتا ہے۔ مرد مومن وہ انسان ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول کی تعلیمات کو اپنے اندر جذب کرچکا ہے اور ان تعلیمات کو جذب کرنے کے بعد ان کی روشنی میں جو بھی عمل وہ کرے وہ عشق ہے عام طور پر اس نظم کے یہ معنی سمجھے جاتے ہیں۔ اس پر حاشیہ آرائیاں ہوسکتی ہیں۔ مگر بنیادی معنی یہی سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہمDeconstruction کے نقطہنظر سے اس نظم کو یہ سمجھ کر پڑھیں کہ اس کے معنی وہ نہیں ہیں جو عام طور پر لوگ سمجھتے آئے ہیں، بلکہ اس کے بالکل مختلف معنی ہیں اور وہ مختلف معنی آپ نے بیان کردیے تو اس کے آگے آپ کہاں جائیں گے؟ بات ختم ہو گئی۔ اس میں آگے امکانات نہیں ہیں اور یکسانیت بہت ہے۔ اس میں Predictability بہت ہے۔ کیا کہا جائے گا یہ پہلے سے معلوم ہے۔
دوسری کمزوری اس میں یہ ہے کہ مختلف متون میں یہ کوئی درجہ بندی نہیں کرتی۔ ظاہر ہے کہ جس شخص نے اس کو ایجاد کیا ہے، یا اس کو معروف کیا ہے وہ خود کوئی ادبی نقاد نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر وہ فلسفی ہے۔ خود اس نے نہیں کہا کہ میں ادبی تنقید کے واسطے کوئی طریقہ ایجاد کر رہا ہوں۔ اس نے تو پوری زبان اور زبان میں جو فکر ظاہر اور نمایاں کی جارہی ہے یا کی جاتی ہے اور زبان کی نوعیت کے بارے میں جو رائج تصورات تھے ان سے ایک طرح سے اختلاف کرکے اپنا تصور قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تصور بہت نیا تو نہیں ہے لیکن بعض لوگ اسے نیا سمجھتے ہیں۔ بہرحال اس کا کہنا یہ نہیں ہے کہ میں ورڈ زورتھ، والیری اور اقبال کی نظموں یا مولیئر کے ڈراما یا جوائس کے ناول کے بارے میں بات کر رہا ہوں یا یہ کہہ رہا ہوں کہ میں ان چیزوں کو ادب سمجھتا ہوں اور اخبار کے اداریے کو ادب نہیں سمجھتا۔ بلکہ وہ تو یہ کہہ رہا ہے کہ یہ تمام چیزیں متنText کے اعتبار سے ایک ہیں۔ کیونکہ اگر وہText کی درجہ بندیکرے تو اپنی ہی نفی کرے گا۔ اس لیے کہDeconstruction کا موید یہ کہتا ہے کہ معنی کی کوئی اصل نہیں ہے اور الفاظ معنی کے حامل نہیں ہوتے۔ اس معنی میں کہ الفاظ صرف چیزوں کے دال Signifiers ہیں لہٰذا یہ نہیں ہے کہ الفاظ میں کوئی شیئت یا کوئی معنی پہلے سے موجود اور قائم بالذات ہیں۔ تو جب یہ بات طے ہے کہ الفاظ میں کوئی ایسی شیئت نہیں ہے کہ جس شے کا وہ بیان کر رہے ہیں، اس شے کی اصلیت بھی اس لفظ میں آگئی ہو تو چاہے وہ بس کا ٹکٹ ہویا فلمی گانا، جوائس کا ناول ہو یا میر کا شعر ہو سب برابر ہیں، کیونکہ سب میں الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اگر دریدا یاDeconstruction کا کوئی موید یہ کہے کہ میں متون کی درجہ بندی بھی کرنا چاہتا ہوں، یا کرتا ہوں، یا کروں گا تو وہ اپنی ہی نفی کرے گا۔ اس لیے وہ کبھی یہ کہتا ہی نہیں۔
اس طرحDeconstruction سے میرا اختلاف دو بنیادوں پر ہے۔ ایک تو یہ کہ ادبی مطالعہ میں Deconstruction کوئی امداد نہیں بہم پہنچاتا۔ کیونکہ وہ متون کی درجہ بندی میں ممد نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ اسکا طریق کار بہت ہیPredictable ہے اور فوری طور پر ہم اس کے بارے میں جان سکتے ہیں کہ کسی فن پارے کے بارے میں کیا کہا گیا ہوگا۔ اس کی زندہ مثال دیکھیے۔ پال دمان جو دریدا کا دوست تھا اس نے اپنے مضامین میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فن پارہ وہ نہیں کہتا جو بظاہر ہم سمجھتے ہیں۔ اس نے کبھی اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ جن چیزوں کو وہ فن پارہ سمجھ کر پڑھ رہا ہے وہ فن پارہ کیوں ہیں؟ لیکن اس کو چھوڑیے۔ وہ تو یہ کہتا تھا کہ زبان دراصلRhetoric ہے یعنی وہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کا طریقہ ہے۔ اس کا ترجمہ میں ’’بدیعیات‘‘ کرتا ہوں اور عربوں نے ترجمہ کیا تھا ’’ریطوریقا‘‘ اس سے وہ فن مراد ہے جس کے ذریعے مقرریا کوئی وکیل مجمع میں یا عدالت میں کھڑا ہوکر اپنے موکل کی صفائی پیش کرتا ہے یا لوگوں کو کسی خیال کی طرف راغب کرتا ہے۔ تو پال دمان کا یہ کہنا تھا کہ زبان کا چونکہRhetorical role ہے اور لوگوں کو آپ اس کے ذریعہ اپنا ہم خیال بناتے ہیں اس لیے Rhetoric کے جتنے بھی طریقے ہیں متن کو ان کی روشنی میں پڑھنا چاہیے۔ W.B.Yeats جو انگریزی کا عظیم جدید شاعرتھا اس کی ایک نظم ہے “Among School Children”۔ یہ نظم ان دو مشہور مصرعوں پر ختم ہوتی ہے،
O body Swayed to music, O brightening glance,
How can we know the dancer from the dance?
یعنی ہم رقص سے رقاص کوکیسے الگ کرسکتے ہیں جب کہ دونوں بالکل مل کر ایک ہوگئے ہیں؟ عام طور پر اس دوسرے مصرعے کو استفہام انکاری کہا گیا ہے یعنی ہم الگ نہیں کرسکتے، کیونکہ ایک موقع پر فن اور فنکار دونوں واحد ہوجاتے ہیں اس پر پال دمان نے جو مضمون لکھا ہے اس میں انہوں نے اپنی پوری ریطوریقا صرفکرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ دراصل یہ استفہام انکاری نہیں ہے۔ بلکہ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ کیا کوئی طریقہ ایسا ہے کہ ہم رقاص کو رقص سے الگ کر سکیں؟یعنی یہ صرف استفہام ہے۔ ظاہر ہے کہ نظم کی اس تعبیر پر اعتراضات بھی ہوئے۔ لیکن پال دمان کا مضمون اتنا گٹھا ہوا ہے اور اس میں اس نے اپنی منطقی اور تجزیاتی فکر کی پوری قوت استعمال کی ہے جس سے اس کا اثر بہت سے لوگوں پر پڑا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ئیٹس کی مذکورہ نظم کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ اس کا اختتام استفہام انکاری پر ہے۔ Deconstruction کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اس کا طریق کار یہ ہے کہ جو عام معنی کسی متن کے قرار دیے جائیں ان کے برخلاف معنی ہی نکلیں گے۔ پال دمان کے مضمون سے ثابت ہوا کہ اس میں Predictability بہت ہے۔ کیوں کہ استفہام کی دو ہی شکلیں ہیں، استفہام محض اور استفہام انکاری۔ اگر استفہام انکاری نہیں ہے تو استفہام محض ہوگا۔ Yeats کی نظمکے بارے میں عام خیال ہے کہ اس میں استفہام انکاری ہے۔ لہٰذا پال دمان کہے گا ہی کہے گا کہ نہیں یہاں استفہام محض ہے۔ یہ بات تو معلوم ہی ہوگئی کہ مضمون کا نتیجہ کیا نکلنا ہے۔ اس سے پال دمان کے مضمون کی وقعت کو کم کرنا میرا مقصود نہیں ہے کیوں کہ اکثر لوگوں نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں بڑیBrilliance ہے اور بہتہی پرزور مضمون ہے لیکن بس بات یہ ہے کہ نتیجہ پہلے سے معلومہوچکا ہے کہ مضمون میں کیا کہا گیا ہے۔
اجملی: ساختیات اور پس ساختیات سے اردو ادب کے افہام و تفہیم میں کس حد تک مدد مل سکتی ہے؟
فاروقی: اس میں بھی پہلی بات یہ ہے کہ ساختیات تو ایک طریق کار ہے۔ اسے کوئی بھی استعمال کرسکتا ہے خواہ وہ Left wingerہو، Marxist ہو، Right winger ہو، ہم ہوں، آپ ہوں، کوئی بھی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ ساختیات کوئی ایسی چیز ہے جو صرف ایک ہی طرح برتی جاسکتی ہے۔ یہ توDeconstruction کی طرح ایک طریق کار ہے۔ یہ کوئی تنقیدی اصول نہیں بلکہ چیزوں کو پڑھنے کاایک طریقہ ہے۔ یہ واقعات، متن، رسوم اور رواج اور فیشن کا تجزیہ کرنے اور انہیں بیان کرنے کا ایک طریق کار ہے۔
پس ساختیات یاPost structuralism دراصل مختلفافکار مجموعہ ہے۔ یعنی وہ افکار جوStructuralism کے بعد اس کے تقریباً ساتھ ساتھنمایاں ہوئے لیکن ذرا الگ راستے پر نکل کھڑے ہوئے۔ ان میں مختلف سیاسی اور سماجی اثرات نمایاں ہیں۔ آج سے ۲۰۔ ۲۵ سال یا ۳۰ سال پہلے بعض فلسفیانہ اصول زندگی میں کم و بیش کارفرما تھے، مثلاً مارکسزم۔ اس پر بڑے بڑے سوالیہ نشان قائم ہو رہے تھے اور ہوچکے تھے لیکن مارکسزم پھر بھی فکری سطح پر لوگوں کے لیے ایک چیلنج تھا۔ یافرائڈ کا اصول تحلیل نفسی اور اس کے نتیجہ میں دوسرے ماہرین نفسیات کے افکار، عورتوں کے حقوق اور ان کے مسائل کو دیکھنے کا نیا طریقہ، یعنی وہ طریقہ جو عورتوں کا اپنا طریقہ ہے۔ یعنی مردوں کے برخلاف عورتیں کسی چیز کو کس طرح پڑھتی، سمجھتی اور دیکھتی ہیں۔ عام خیال تھا کہ کسی فن پارے کو پڑھنے کا کوئی طریقہ ہوگا تو وہی ہوگا جو مرد استعمال کرتے ہیں، کوئی ضروری نہیں ہے کہ عورت کا طریقہ ہم سے الگ ہو۔ تانیثیت کا خیال تھا کہ یہ ہوسکتا ہے، بلکہ ہے، کہ عورتیں اسی فن پارے کو کسی اور طریقہ سے پڑھیں اور اس سے کوئی اور نتیجہ نکالیں۔
اس طرحFeminism جسے میں تانیثیت کہتا ہوں، اس کا اثر بڑھا، تو یہ تمام چیزیں بہت زور و شور سے چل رہی تھیں۔ ان کی روشنی میں کچھ سیاسی اور سماجی تصورات سامنے آئے۔ یہ تصورات ان تمام چیزوں مثلاً نئی مارکسزم اور ساختیات کی بعض بصیرتوں کا جوزبان کے بارے میں تھیں اور جو سوسیئر سے یورپ والوں کو حاصل ہوئی تھیں ان کا مجموعہ تیار کرکے نئے رنگ میں پیش کیے گئے۔ مثلاً یہ سوال اٹھایا جانا کہ کیا یہ ممکن بھی ہے کہ کوئی ایسا فلسفہ حیات ہو جو تمام زمانے میں تمام ملکوں پر بیک وقت اور بیک قلمحاوی ہوسکے؟ اس کو فرانس کے ایک فلسفی لیوتار نے le grand recit یعنیGrand narrative کہایعنی کیا دنیا کا کوئی ایسا بیان ممکن بھی ہے جس میں تمام مسائل کو حل کرنے کا امکان موجود ہو؟ جیسے قرآن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہیہ انسانوں کے بارے میں گراں رسی ہے یعنی قرآن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہر انسان کے واسطے ہر مسئلہ کو حل کرنے کا طریقہ موجود ہے۔
قرآن میں یہ تو نہیں لکھا ہے کہ پانی کیسے گرم کیا جائے اور ریڈیو کیسے ٹھیک کیا جائے۔ لیکن تمام علم کے اصول اس میں موجود ہیں۔ یہ مسلمان کہتے ہیں۔ تو لیوتار نے یہ پوچھا ہے کہ کیا اب بھی اس طرح کے Grand narrative ممکن ہیں؟اس کی سب سے آخری مثال مارکسزم تھی۔ وہ بھی یہی کہتی تھی کہ ہمارے دامن میں سارے علم کا اصول موجود ہے۔ اس کی روشنی میں ہم ہر علم کو بیان کرسکتے ہیں چاہے وہPhysics ہوChemistry ہوPsychology ہویا شاعری ہو۔
اجملی: لیکن گراں رسی (grand recit) والی بات تو میرے خیال میں مارکسزم نے نہیں کہی؟
فاروقی: انہوں نے بالکل کہا، چاہے یہ لفظ استعمال نہ کیا ہو۔ یہ اصطلاح تو لیوتار کی ہے۔
اجملی: لیکن انہوں نے اپنی بات کو حرف آخر تو نہیں کہا بلکہ یہ کہا کہ ایک طریقہ یہ بھی ہے اور اس میں تبدیلیاں ممکن ہیں۔
فاروقی: یہ تو آپ آج ۱۹۹۳ کے اواخر میں کہہ رہے ہیں۔ پہلے یہ کبھی نہیں کہا گیا بلکہ مارکسزم کی بنیاد ہی اس پر تھی کہ مارکسزم ایک سائنس ہے اور سائنس کے دو بنیادی پہلو ہوتے ہیں۔ ایک توExperimentation یعنی ہر چیز کو تجربے کی روشنی میں دیکھا جائے اور دوسرے Prediction یعنی پیش گوئی، کہ ایسا ہوگا تو ایسا ہوگا، اور ایسا نہ ہوگا تو ایسا نہ ہوگا۔ ساریMarxist theory اسی پر مبنی ہے۔ چنانچہ اردو میں بھی جو مارکسزم تھوڑی بہت ٹوٹی پھوٹی آئی ہے اس میں بھی یہی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہم سائنسی تنقید لکھ رہے ہیں۔ سائنسی فکر استعمال کر رہے ہیں اور تنقید ایک سائنس ہے۔ مثلاً یہ تمام پریشانیاں اٹھائی جانے لگیں کہ صاحب غزل کب پیدا ہوئی؟ جواب دیا گیا کہ اس زمانے میں پیدا ہوئی جب سماجی حالات جاگیردارانہ نظام کے تابع تھے۔ وہ نظام ختم ہوجائے گا تو غزل بھی ختم ہوجائے گی۔ وہ ختم ہوگیا اس لیے غزل بھی ختم ہوگئی۔ چنانچہ ترقی پسندوں نے شروع شروع میں غزل کو انگیز نہیں کیا بلکہ اس سے انکار کیا اور اس لیے انکار کیا کہ ان کے مطابق غزل ان سماجی حالات کی پروردہ تھی جو جاگیردارانہ نظام کے زیر اثر تھے۔ اب وہ نظام ختم ہوگیا اور غزل انقلابی کاموں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ مارکسزم نے ہمیشہ یہی کہا کہ میں ایک گراں رسیgrand recit ہوں جس کے تحت تمامباتیں بیان ہوسکتی ہیں بلکہ روس میں تو عرصہ تکMarxist Physics اورMarxist Chemistry جیسی چیزوں کا بھی چکر چلایا گیا اور کہا گیاجو چیزیں ان میں نہیں آتیں انہیں نہیں پڑھایا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
ساختیاتی فکر بھی ایک حد تک گراں رسی کی قائل تھی، اس معنی میں کہ وہ کہتی ہے کہ میرے پاس بعض طریقے ہیں۔ اگر ان کو تم عمل میں لاؤگے تو تم فن پارے کو یا متن کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکوگے۔ سماج بھی ایک متن ہے اور سماج کے رسوم بھی ایک متن ہیں۔ Post structuralist لوگ مثلاً لیوتار کہتے ہیں کہ آج کی دنیا میں گراں رسی ممکن نہیں ہے Post structuralism کوئی طریق کار نہیں ہے بلکہ طرز فکر ہے اور یہ طرز فکر ان تمام طرز فکر پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے جو پہلے قائم تھے۔ اس میں نقاد بھی شامل ہے مثلاً خود رولاں بارت جس نے شروع شروع میں خود کوStructuralist کہا، اس کے بعض خیالات کو یا بعض تحریروں کو لوگوں نے کہا کہ یہ پس ساختیاتی ہیں۔ دریدا کے بارے میں جیسا کہ آپ سے عرض کیا کہ وہ فلسفی ہے لیکن اس کی تحریروں کو ادب پر استعمال کیا گیا۔ اس نے بعض چیزیں ایسی لکھی بھی ہیں جن کو آپ کہہ سکتے ہیں کہLiterary criticism میں شامل ہیں۔ تو اس کو بھی پس ساختیاتی مفکر کہا جاتا ہے۔ یہ سوال کہ ان افکار کا ہمارے لیے کیاRelevance ہے؟ توRelevance یہ ہے کہ اگر کوئی گراں رسی(grand recit) ممکن ہیں ہے یا بقول دریدا اگر سچائی کا کوئی مرکز نہیں ہے تو اس کے معنی پھر یہ ہوئے کہ روایت کا بھی کوئی مرکز نہیں ہے اور تہذیب کا بھی کوئی مرکز نہیں ہے۔ اسی لیے بعض لوگوں نے کہا کہ یہ ساراDeconstruction اورPost structuralism کا فلسفہAnti humanist ہے۔ Humanism سے مراد یہ نہیں کہ انسان دوستییعنی غریبوں کو کھانا کھلاؤ اورپیاسوں کو پانی پلاؤ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام افکار یا نظام افکار جن میں کہ انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ گویا انسان مقصود کائنات ہے۔ انسان اگر علم حاصل کرے اور سوچے اور کوشش کرے تو وہ کائنات پر حاوی ہوسکتا ہے وغیرہ۔ تو دراصل یہHumanism ہے جس میں انسانمقصود کائنات ہے، اور اسے یہ منصب حاصل ہے کہ وہ اپنے لائحہ عمل کو مرتب کرے، اپنی حالت کی اصلاح کرے اور اپنے کو بہتر بنائے۔ Deconstruction اورPost structuralism کو اس لیے Anti humanist کہا جاتا ہے کہ پورے Humanist thought کیبنیاد اس بات پر تھی کہ کہیں پر کوئی حقیقت ہے جس کو حاصل کرنے کی کوشش انسان کو کرنی چاہیے۔ دنیا کو بیان کرنے کا کوئی ایسا طریقہ ہوسکتا ہے جس میں مطلق سچائی ہو۔ یہ نہیں کہ صاحب یہ محفوظ صاحب نے لکھا ہے، ان کا نقطہ نظر ہے اور صحیح ہے یہ سراج صاحب نے لکھا ہے، یہ ان کا نقطہ نظر ہے اور یہ بھی صحیح ہے بلکہ یہ کہ جو محفوظ، سراج اور الف اور ب سے آگے چلاجائے اور بالکل مطلق ہوجائے۔ سچائی کا ایسا کوئی پیمانہ ہوسکتا ہے، دنیا کو بیان کرنے کا کوئی ایسا طریقہ ہوسکتا ہے جس میں ایکUniversal reality یا آفاقی صداقت ہو۔
ابھی دو مثالیں میں نے پیش کیں لیوتار اور دریدا کی۔ دریدا تو بنیاد پر حملہ کرتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ معنی کا کوئی مرکز ہی نہیں ہے اور معنی اورTruth میں کوئی برابری نہیں ہے۔ الفاظ انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔ لہٰذا جو بھیTruth بیان ہوگاوہ انسان کا بنایا ہوا ہوگا اور ظاہر ہے کہ انسان خطا و نسیاں کا مرکب ہے لہٰذا سچائی کہیں نہیں ہے۔ جس چیز کو ہم سچائی سمجھتے ہیں وہ مختلف چیزوں کا ایکConstruct ہے۔ جب اس کے ٹکڑے الگ کریں گے تو اسConstruct کا پول کھل جائے گا۔ اس معنی میں یہ لوگ Anti humanist ہیں۔ اسی لیے انہیں Nihilist یا عدمیت پرست بھی کہا گیا ہے۔ کیونکہ ان کا کوئیمثبت رویہ نہیں ہے۔ Todorov نے ایگلٹین سے پوچھا ہے کہ جب آپHumanity کے تصور کوDeconstruct کرتے ہیں تو انسانی حقوق کا دفاع کیوں کر ہوگا؟
اجملی: جو لوگ انہیں Anti humanist سمجھتے ہیں کیا آپ بھی ان میں شامل ہیں؟
فاروقی: ہاں میں بھی شامل ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ Deconstructionیا اس طرح کے تمام فلسفے جن میں انسان کو یا انسانی کوششوں کو مرکزی حیثیت حاصل نہ ہو رائج ہوجائیں تو ہم کس حوالے سے اپنی تشخیص کریں گے؟ اگر ہم مسلمان ہیں اور مذہب کے پابند ہیں تو ہمارا حوالہ قرآن ہے۔ اگر ہم ہندو ہیں اور مذہب کے پابند ہیں تو ہمارا حوالہ گیتا، وید اور اپنشد میں سے کوئی ضرور ہوگا۔ لیکن فرض کیجیے کہ ایک لمحہ کو ہم ہندومسلمان کی حد بندیوں سے الگ رکھ کر بطور انسان خود کو دیکھیں۔ یعنی اگر میں خود کو بطور انسانDefine کرنا چاہوں اور مذہبی اور فلسفیانہ Categoryسے الگ رکھ کر Define کرنا چاہوں تو کیسے کروں گا؟ کوئی نہ کوئی بنیاد تو ہونی چاہیے اور اگر بنیاد ہی نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ فلسفہ جو یہ کہہ رہا ہے کہ کوئی بنیاد نہیں ہے وہ یقیناًAnti humanist ہے۔
اجملی: اس نقطہ نظر کو آپ Anti humanist کہہ رہے ہیں اور رد کر رہے ہیں۔ جو لوگ اس نقطہ نظر کے حامی ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ کی تنقید کی عمارت جن بنیادوں پر کھڑی ہے اگرStructuralism اورPost structuralism وغیرہ کو تسلیمکرلیاگیا تو وہ بنیادی متزلزل اور مسمار ہوجائے گی۔
محفوظ: آج کی جو موجودہ تنقید ہے، اسے مابعد جدید تنقید کہہ لیجیے۔ کچھ لوگ مذکورہ بالا نظریات کو اس کے مقابل رکھ کر دیکھتے ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا موجودہ تنقیدی اور ادبی صورت حال میں ایسا کوئی معاملہ ہے؟
فاروقی: دوباتیں الگالگ ہوگئیں۔ ایک وہ جو محفوظ صاحب نے کہی اور ایک جو سراج صاحب نے کہی۔ سراج صاحب کی بات کا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی ایسی تنقید جس کا فن پارے سے براہ راست رشتہ ہو وہ مسمار نہیں ہوگی۔ یہ ہوکستا ہے کہ آپ کہیں کہ یہ تنقید فن پارے کی جو تعبیر کر رہی ہے میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ لیکن دراصل تنقید چونکہ آپ کو فن پارے کے قریب لے جانے کی کوشش کرتی ہے اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ جس تعبیر سے آپ مطمئن نہیں ہیں یا جس کو آپ غلط سمجھ رہے ہیں وہ بھی آپ کو فن پارے کے قریب لے جارہی ہو کیونکہ اس سے آپ کو یہ تو معلوم ہوا کہ میں اس تعمیر کو نہیں مان سکتا۔ یہ تعبیر غلط ہے۔ اس حدتک وہ تعبیر بھی آپ کے لیے کارآمد ہے، کہ اس سے کسی بات کا استحکام تو ہوا، وہ منفی ہی سہی۔ دوسری بات یہ کہ وہ تنقید جو فن پاروں کی درجہ بندی کرنا چاہتی ہے وہ کبھی مسمار نہیں ہوسکتی، کیونکہ یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ ہر چیز کی درجہ بندی کرتا ہے یعنی فلاں چیز اچھی ہے اور فلاں چیز بری ہے یا فلاں چیز زیادہ قیمتی ہے اور فلاں چیز کم قیمتی ہے۔ انسان کی جبلت میں کوئی نہ کوئی بے چینی ایسی ہے جو قیمت(value)مقرر کرنا چاہتی ہے، اور جس تنقید کا تصور valueسے منسلک ہو گا وہ کبی ختم نہیں ہوسکتی۔ انسان کو قدر(value) کے حوالے سے کائنات کی نقشہ بندی کرنے میں آسانی ہوتی ہے کہ اس کائنات میں وہ کس چیز کو کتنی جگہ دے اور کہاں رکھے؟ حتی کہ میری اپنی جو چھوٹی سی کائنات ہے، میری شخصیت ہے، اس میں میں بڑا حصہ بیجو باورا فلم کے گانے کو دوں یا بڑاحصہ میر کی غزل کو دوں یہ میرے لیے زندگی کا مسئلہ ہوجاتا ہے۔ اسی لیے میں نے لکھا ہے کہ کسی فن پارے کے بارے میں یہ بات کرنا کہ وہ کیسا ہے، زندگی کا معاملہ ہے۔ It’s a matter of life.تو جو تنقید فنی اقدار سے بحث کرتی ہے اور فن پارے کے قریب لے جاتی ہے، وہ مسمار کبھی نہیں ہوگی۔ مزید یہ کہ جو تنقید آپ کو فن پارے کے بارے میں غیرمتوقع بصیرت عطا کرے وہ بھی مسمار نہیں ہوسکتی لیکن جس تنقید کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ متوقع بات کہتی ہے۔ اس کو تو وہی کہنا ہی کہنا ہے جو وہ پہلے کہہ چکی ہے، یعنی جس میں نتیجہ پہلے ہی معلوم ہو، اس پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔
اب رہی باتPost modernism کی۔ دیکھیے Modernism کا جو تصور انگریزی یا مغربی ادب میں تھا اس میں چند باتیں تھیں جن کو ہم لوگ اکثر بھول جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں شروع شروع میں تو یہ باتیں تھیں لیکن اب یہاں بھی لوگ بھولنے لگے ہیں۔ ان میں ایک تو یہ تھی کہ یہ معلوم ہوگیا تھا کہ فلسفہ یا مذہب کی حیثیت گراں رسیgrand recit کی اب نہیں رہ گئی ہے۔ یعنیاب لوگوں کو ان چیزوں پر وہ آفاقی اعتقاد نہیں رہ گیا ہے جو پہلے تھا۔ یہ ۱۹۳۰ کی بات میں آپ کو بتارہا ہوں۔ اس وقت تک روس میں لوگوں کے ذہنوں پر سے انقلاب کا ملمع اتر چکا تھا، یا اترنا شروع ہوگیا تھا۔ باہر کے جو لوگ وہاں گئے تو انہوں نے دیکھا کہ یہاں تو دنیا کچھ اور ہی طرح کی ہے۔ سماجی انصاف وغیرہ کا وہاں نام و نشان نہیں تھا۔ رسل جیسے لوگوں نے بھی وہاں جاکر دیکھا کہ انقلاب کے اثرات ختم ہوچکے ہیں۔ اس وقت یہ محسوس کیا گیا کہ کوئی گراں رسی(grand recit) اب نہیں رہ گیا ہے۔ مارکسزم کا دعوی تھا کہ ہم سائنس ہیں اور مذہب و فلسفہ کا بدل ہیں۔ سائنس کو بھی دعویٰ تھا کہ ہم فلسفہ و مذہب کا بدل ہیں۔ لیکن دوسری جنگ عظیم آتے آتے لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ دونوں ہی دعوے کھوکھلے اور غلط ہیں۔ لیکن یہ ممکنہے کہ فنکار اپنا گراں رسی خود بنالے۔ یعنی فنکار ایسی چیز بنائے جوgrand recit کا بدل ہوسکے۔ جس میں وہی آفاقیت اور سچائی ہو جو مذہب یا سائنس سے متوقع تھی۔ ہم لوگ شروع میں کہا کرتے تھے کہ انسان کو اس کائنات میں سائنس تنہا چھوڑ کر چلی گئی لیکن اس کے ساتھ فلسفہ اور مذہب تھے۔ اب وہ بھی نہیں تو کیا ہوا، فن اورشعر اس کے ساتھ ہیں۔ تو یہ اہم ترین پہلوWestern modernism کا تھا، کہفن سب کچھ ہے۔ پھر اس میں یہ تمام باتیں شامل ہوئیں کہ شاعر یا فنکار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی دنیا آپ بنائے۔ اسے یہ ضرورت نہیں ہے کہ وہ نقل کرے۔ واقعیت سے انکار اسی لیے کیا گیا کہ واقعیت کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ تو محض ایک مفروضہ ہے۔ جس طرح ہم بیان کریں وہی واقعی ہے۔
Post modernist thought جو یورپ میں ہے وہ انہیں چیزوں کی نفی کرتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ اب وہ بات بھی ممکن نہیں ہے کہ جیمس جوائس نے اپنے ناول میں لکھا کہ وہ وقت جو گزرگیا، بھول گیا، کھوگیا، اس کو میں پھر اپنے ناول میں زندہ کرتا ہوں۔ اب جوائس یہ بات نہیں لکھ سکتا۔ ہم لوگوں کے زمانے میں خیال تھا کہ سب فریب شکست ہوچکے لیکن یہ ایک عقیدہ یا خوش فہمی یا وہم و خیال یا یقین جو بھی آپ آج کی روشنی میں کہہلیجے، باقی تھا کہ صاحب فن ایک زندہ چیز ہے اور زندہ رہنے کا طریقہ ہے۔ Post modernist thought یہ کہتا ہے کہ ہمیں یہاں بھی بہت بڑا سوالیہ نشان لگانا پڑے گا کہ ایسا ہے یا نہیں؟ مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس بات کو بہت کم لوگ سمجھتے ہیں کہ Post modernist thoughtہے کیا؟
اجملی: لیکن ایک بات ہے کہ ہمارے یہاں یہ اصطلاح بہت چل رہی ہے۔ لوگ ہمارے شعر و ادب کے حوالے سے اسے خوب استعمال کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔
فاروقی: (ہنس کر) لوگ غالباً یہ سمجھ رہے ہیں یا آپ کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ ایسا ہے کہ گھنٹہ بجا، فرسٹ پیریڈ ختم ہوگیا اور سکنڈ پیریڈ شروع ہوگیا۔ پہلے تاریخ تھی اب جغرافیہ کے ٹیچر آگئے۔ اس طرح سے ادب میں نہیں ہوتا۔ (قہقہہ)
محفوظ: عام طور پر آج لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے عروج کے زمانے ختم ہوگئے اور ان میں جو اعتدال کا راستہ تھا وہ آج کی مابعد جدیدیت نے اختیار کیا ہے۔
فاروقی: یہ ہوسکتا ہے کہ ہمPost modernism کی کوئی تعریف متعین کریں جوہمارے اپنے لیے ہو۔ یعنی ہماری تعریف یہ ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کامطلب یہ نہ ہونا چاہیے کہ یہPost modernism وہ ہے جوWestern اور یوروپینThought میں ہے۔ مثلاً ہم اردو والوں نے ترقی پسندی کی جو تعریفلکھی ہے وہ ترقی پسندی کی اس تعریف سے مختلف ہے جو یورپ میں تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر تہذیب کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنی اصطلاحیں بنائے یا اپنے طور پر اصطلاحوں کی تعریف متعین کرے۔ اگر آج کوئی اردو و الا یہ کہتا ہے کہ ہم Post modernism ہیں اور ہماری تعریف یہ ہے کہ ہممیں ترقی پسندوں اور جدیدیت پسندوں کیExtremism نہیں ہے تواس کو مان لیجیے لیکن یہ نہ کہیے کہ یہ Post modernism وہی ہے جو ساتویں اور آٹھویں دہائی میں یورپ میں تھی۔ اور یہ جو محفوظ صاحب نے کہا کہ جدیدیت اور ترقی پسندی کیExtremism کے مابین کوئیModerate راستہ ہے اور اس کو آج کے لوگ اختیار کر رہے ہیں۔۔۔
محفوظ: آج عام طور پر لوگ ایسا ہی کہہ رہے ہیں۔
فاروقی: ہاں، عام طور پر کہتے ہیں تو مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا ہے۔ مجھے تو نہیں معلوم ہے۔ آپ لوگ مجھے بتائیں تو بڑی اچھی بات ہے۔
محفوظ: مثال کے طور پر یہ کہنا کہ جدیدیت کے عروج کے زمانے میں فن پاروں میں اس قدر ابہام ہوتا تھا کہ ان کا سمجھنا تقریباً محال تھا۔ اس کے برعکس ترقی پسندی جب اپنے عروج پر تھی تو براہ راست اور واضح اظہار اپنی آخری منزل پر پہنچ گیا۔ آج صورتحال اعتدال پسندی کی ہے۔ یعنی آج فن پارے نہ اتنے مبہم ہیں اور نہ بالکل واضح۔
فاروقی: یہ تو ادبیproduction کی صورت حال ہے۔ اس کو فکری بنیاد نہیں قرار دے سکتے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ آج جو نظمیں لکھی جارہی ہیں، جو افسانہ لکھا جارہا ہے اور جس کو آپ سمجھ رہے ہیں کہ معتدل ہے یا اس میں Extremism نہیں ہے اور جدیدیت کے عروجکے زمانے میں تحریریں سمجھ میں نہیں آتی تھیں وغیرہ تو یہ نہ بھولیے کہ ممکن ہے کہ جو آج ۱۹۹۳ میں لکھا جارہا ہے اگر یہ تب لکھا گیا ہوتا یعنی ۱۹۶۳ میں تو وہ اس وقت لوگوں کی سمجھ میں نہ آتا۔ یعنی ۱۹۹۳ میں جو آپ پڑھ رہے ہیں اس کے پیچھے ۳۰ برس کی تاریخ بھی تو پڑھ رہے ہیں۔
ادب زمانوں میں اس طرح بٹا ہوا نہیں ہے جیسا لوگ سمجھتے ہیں۔ وہ تو ایک بالکلContinuous معاملہ ہے۔ آپ کے سامنے جب تک پرانا نہ ہو اور پرانے کو آپ نہ پڑھیں تو آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ترقی پسند لوگ پرانی شاعری کو ٹھیک سے نہیں پڑھ سکے تھے۔ آج جو آپ پڑھ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آسان ہے اور سمجھ میں آرہا ہے تو اس وجہ سے کہ آپ کے پیچھے ۳۰ سال کی تاریخ بھی ہے۔
محفوظ: فاروقی صاحب! آج کے ادبی منظرنامہ میں مجھے یہ بات تو بالکل صاف لگتی ہے کہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے ادوار گزرگئے۔ آج کے ادبی تناظر کے بارے میں آپ کا مجموعی تاثر کیا ہے؟
فاروقی: (سوچ کر) ابھی کم از کم میرے ذہن میں کوئی صاف تصویر نہیں آئی ہے۔ ابھی میرے خیال میں یہ کہنا مشکل ہے کہ جدیدیت کے جو بڑے نام تھے وہ آجIrrelevant ہوگئے ہیں جس طرح ترقی پسندی کے بڑے نام، جب ہم لوگوں نے لکھنا شروع کیا تو Irrelevant ہوچکے تھے یا ہم لوگوں نے ان ناموں کو Irrelevant کردیا۔ اور یہی نہیں، ثابت بھی کردیا تھا کہ یہ لوگ Irrelevant ہیں۔ اب آج اگر کوئی یہ کہے کہ جدیدیت کے جو بڑے نام تھے وہ آج Irrelevant ہوگئے تو یہ بات اس وقت صحیح ہوسکتی ہے جب کوئی بتائے کہ وہ کون سے نام ہیں جنہوں نے ’’نئے نام‘‘ کے سب ناموں کو Irrelevant کردیا ہے؟
اجملی: گویا آپ کے خیال میں ناسخ ادب ابھی نہیں آیا ہے؟
فاروقی: میرے خیال میں ایسا ہی ہے۔ ہم لوگ ڈنکے کی چوٹ پر کہا کرتے تھے کہ سردار جعفری، نیاز حیدر، مخدوم محی الدین وغیرہ Irrelevant ہوگئے اورہم نے اسے ثابت بھی دو طرح سے کیا۔ ایک تو یہ کہ تنقیدی اور نظریاتی طور پر ثابت کیا کہ ترقی پسندوں نے جس طرح کی چیزیں لکھی تھیں وہ اب Irrelevant ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ ہم لوگوں نے خود اس طرح کی چیزیں لکھیں جو منہ سے بول رہی تھیں کہ یہ آج کی چیزیں ہیں۔ اب جو نسل ہم لوگوں کے بعد کی ہے اور جو ظاہر ہے کہ لکھ بھی رہی ہے اور پڑھ بھی رہی ہے، اور اسمیں شک نہیں کہ وہ نسل بڑی زندہ اور توانا ہے۔ لیکن ابھی میں نے اس کی زبان سے نہیں سنا کہ جدیدیت Irrelevant ہے۔ یا یہ کہ یہ لوگ Irrelevant ہوچکے ہیں، اور میرا جو کام ہے وہ منہ سے بول رہا ہے کہ یہ آج کا کام ہے۔ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر جدیدیت نہ ہوتی اور ترقی پسندی کا ہی دور دورہ آج بھی ہوتا، تو آٹھویں اور نویں دہائی کے توانا نام ادب کی فہرست میں داخل ہی نہ ہوتے۔ سلام بن رزاق کو کوئی افسانہ نگار نہ کہتا اور پرتپال سنگھ بیتاب کو کوئی شاعر نہ کہتا۔
محفوظ: گویا وہ تسلسل ابھی قائم ہے۔
فاروقی: تسلسل تو ہمیشہ قائم رہے گا۔ لیکن ہوتایہ ہے کہ ایک لہر اونچی آئی۔ دوسری اس سے اونچی پہنچی اور پچھلی لہر کو برابر کرتی ہوئی نکل گئی۔ تو میں یہ کہوں گا کہ ابھی وہ اونچی لہر آئی نہیں ہے۔
(یہ گفتگو شمس الرحمٰن فاروقی کی قیام گاہ میگھ دوت، بھون نئی دہلی میں ۱۰/اکتوبر ۱۹۹۳ کو ریکارڈ کی گئی۔)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.