زبان تو ایک ہی ہے
(شمس الرحمٰن فاروقی سے یہ گفتگو مشہور ہندی ادیب نیلابھ نے ہندی رسالے ’وسودھا‘ کے لیے کی تھی)
نیلابھ: اگر ہم زبان سے ہی شروع کریں تو آپ کی ایک کتاب آئی ہے جو ہندی اور اردو کی ترقی کا ایک حساب کتاب پیش کرتی ہے اور اس میں آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ جہاں تک اردو کے تعلق سے آپ ہندی کی بات کرتے ہیں تو آپ اس کو، یعنی ’’ہندی‘‘ کو، ’’جدیدہندی‘‘ سے علیحدہ کرکے دیکھتے ہیں اور آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ کسی اردو والے نے یہ نہیں کہا کہ ہندی تو اردو کا ایک اسلوب ہے، تو ہم آپ سے یہ جاننا چاہیں گے کہ ایک ہی خطے میں دوزبانوں کا ارتقا کیوں کر ہوا؟
شمس الرحمٰن فاروقی: ایسا ہے کہ دوزبانیں تو ہیں نہیں، زبان تو ایک ہی ہے۔ اب اس کو، جیسا کہ میں نے کتاب میں دکھایا ہے، کچھ سیاسی مصلحت کی بناپر، کچھ انگریزوں کی ناسمجھی کی بناپر، کچھ اس بنا پر کہ اس ملک میں جو قومیت کا جذبہ انگریزوں کے آنے سے پیدا ہوا، پہلے نہیں تھا، اس کی بناپر زبان کو دو حصوں میں بانٹ دیاگیا۔ اس لیے کہ ہمارے یہاں ہمارے کلچر میں، ہندوکلچر میں، مسلم کلچر میں، کوئی چیز نیشن (Nation) نام کی نہیں ہے۔ اسپیس Space ہے، کہ ہم اس ملک میں رہتے ہیں۔ Nation تو جدید تصور ہے جو کہ انگریزوں کے آنے سے ہمارے یہاں پھیلا۔ جب یہ پھیلا تو اس سے بھی یہ ایک سوال اٹھا کہ صاحب، اگر قومیں ہیں تو قوموں کی زبان بھی ہوگی۔ تو ان تمام چیزوں نے مل کر کے پچھلے دوسو برس میں ایک بہت بڑا نقلی سا جال پیدا کردیا جس میں یہ کہا گیا کہ دوزبانیں ہیں۔ اور ان میں ایک زبان ایسی ہے جو کہ ہندوؤں سے خاص ہے، جس کو ہم ہندی کہیں، اور ایک زبان ایسی ہے، جو کہ مسلمانوں سے خاص ہے، جس کو ہم اردو کہیں۔ اس میں پہلا جھوٹ یہ ہے، جیسا کہ میں نے کتاب میں بھی لکھا ہے، کہ ’’اردو‘‘ تو زبان کانام تھا ہی نہیں کبھی۔ ’’اردو‘‘ کے معنی تو تھے، دلی کا شہر یعنی بادشاہ کا کیمپ، جہاں بادشاہ رہتا ہے۔ جب اکبر نے ۱۵۸۵ میں فتح پور سیکری چھوڑی، تو کئی سال تک وہ ایک طرح کا رولنگ ہیڈ کوارٹر (Rolling Headquarters) لے کر چلتا رہا۔ اس میں سارا سامان تھا، جیسا کہ تاریخ نگاروں نے لکھا ہے۔ لاکھوں گز تو اس میں قالین اور صوفے اور کرسیاں اور خیمے، چمڑے کے، لکڑی کے، کینوس کے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی میں پورا خزانہ تھا، اسی میں توپ خانہ، اسی میں پورا دفتر، اس کو ’’اردوئے شاہی‘‘ کہتے تھے۔ (Royal Camp, Royal Encampment) اب جب ۱۶۴۸ میں پچاس ساٹھ سال بعد شاہ جہاں نے دلی بنائی، اپنی دلی، شاہ جہاں آباد تو وہ روایت اردوے شاہی کہنے کی چلی آرہی تھی، تو شاہ جہاں آباد کو ’’اردوے شاہی‘‘، ’’اردوے معلاے شاہی‘‘ وغیرہ کہا گیا، مطلب شاہ جہاں آباد۔ اور جیسا کہ بہت سے لوگوں کو دھوکا ہے کہ ’’اردو‘‘ بمعنی ’’فوج‘‘ ہوتا ہے، تو یہ غلط ہے۔ ’’اردو‘‘ کے معنی ’’فوج‘‘ نہیں۔ نہ ترکی میں ہے، نہ عربی میں ہے، نہ فارسی میں ہے نہ خود اردو زبان میں۔ ’’اردو‘‘ کے معنی ہیں،
Encapment, Army encampment, Army market وغیرہ تو اس اعتبار سے دلی کے حوالے سے بھی لفظ ’’اردو‘‘ کا استعمال ہوا۔ چنانچہ میرامن تک کی باغ و بہار میں لفظ ’’اردو‘‘ کو اسی معنی میں رکھا گیا ہے، یعنی اردو =دہلی۔ تو اب چونکہ ظاہر ہے کہ وہاں کی زبان، جو وہاں کے پڑھے لکھے لوگوں کی زبان تھی، اشرافیہ کی زبان، وہ فارسی تھی۔ تو فارسی کو ’’زبان اردوے شاہ جہان آباد‘‘ کہا جانے لگا۔
ہم تم آج جس زبان کو بول رہے ہیں، جسے ہم آسانی کے لیے ہندی کہتے ہیں، اردو کہتے ہیں، اس کا اصل نام اردو تھا ہی نہیں۔ ہوا یہ کہ شاہ عالم جب یہاں سے اٹھ کر، الٰہ آباد سے اٹھ کر خسروباغ اور قلعہ سے اٹھ کر دلی گئے ہیں، ۱۷۷۲ میں، تو چونکہ وہ سنسکرت خوب جانتے تھے، اردو خوب جانتے تھے، تو اردو یا ہندی کہیے اس کو، اس زمانے میں زبان کا نام ’’ہندی‘‘ تھا، اس ہندی کے وہ شاعر تھے۔ ایک داستان بھی بعد میں انہوں نے لکھی تھی 1 پورب میں بہت رہے تھے وہ، اس لیے ’’ہندی‘‘ بولتے بہت تھے۔ یہ زبان وہ آپس میں بولا کرتے تھے۔ تو اس طرح اپنے دربار میں تو نہیں، لیکن گھر میں اور آپس میں اردو یا ہندی جو کہیے، اسے وہ بولنے لگے۔ تو دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ ایک آویزش Conflict پیدا ہوگئی کہ اب اردوے معلیٰ کی زبان ہے کیا، فارسی ہے کہ ہندی ہے؟ تو خان آرزو نے لکھا ہے کہ ہندی نہیں، فارسی ہے۔ میر نے اسی زمانے میں مقبول تصور، جو ہمارا آپ کا View تھا، پیش کیا کہ نہیں صاحب زبان اردوے معلاے شاہ جہاں آباد تو وہ ہے جسے ہم ریختہ یا ہندی کہتے ہیں۔
تو اس طرح دھیرے دھیرے چلا یہ سلسلہ، کہ بادشاہ کی وجہ سے اور لوگ بھی یہ زبان بولنے لگے۔ جیسے ہم لوگ بھی پہلے بہت آپس میں انگریزی بولتے تھے۔ لیکن اب آہستہ آہستہ انگریزی چھوڑ رہے ہیں، کیونکہ انگریز چلے جاچکے ہیں یہاں سے۔ تو ایسا ہی وہاں پر بھی ہوا، کہ فارسی کے بجائے ’’ہندی‘‘ کو اردوے معلیٰ کی زبان کہا جانے لگا، اس طرح سے کئی سال کے بعد پہلا، جسے کہنا چاہیے (Authentic) بیان جو ملتا ہے وہ گلکرسٹ کا اپنا بیان ہے ۱۷۹۶کا۔ گلکرسٹ کہتا ہے کہ میں ’’ریختہ‘‘ زبان سے کچھ مثالیں آپ کے سامنے پیش کروں گا جس کو کہ ’’اردو‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور جس کے معنی ہوتے ہیں Language of the Exalted Court of Camp مصحفی نے اسی زمانے میں (۸۵۔ ۱۷۸۸) ایک آدھ شعر کہا ہے، جس میں کہیں پر ’’اردو‘‘ کے معنی ہیں ’’دہلی کا شہر‘‘ اور کہیں پر ’’اردو کے معنی ہیں وہ زبان، جو دلی شہر میں بولی جاتی ہے۔ تو اس طرح سے اتنی دیر میں کہیں جا کرکے یہ نام اردو کا چلا۔ انگریزوں نے جب اس کو پکڑا تو پہلے تو انہوں نے یہ کہا کہ ہندی۔۔۔؟ اچھا، تو یہ ہندو کی زبان ہونی چاہیے، کہ اس کا نام تو ’’ہندوؤں والا‘‘ ہے، یعنی ’’ہندی/ہندوی‘‘ تو انہوں نے ایک پوری کہانی گڑھی۔ ہال ہیڈ (Nathaniel Brassey Halhed) نام کے ایک صاحب تھے، بنگالی کی جنہوں نے گرامر لکھی ہے، انہوں نے ایک پوری کہانی گڑھی کہ ایک لینگویج تھی، جو مسلمانوں کے آنے سے پہلے یہاں بولی جاتی تھی، جس کا نام ہندی یا ہندوی تھا اور جب مسلمان آئے تو انہوں نے اس کے اوپر اپنا زور جمایا، اس کے ا ندر فارسی، عربی ٹھونسی اور اس طرح سے ایک اور زبان بنی، جس میں سے ایک تو وہ ہے جو مسلمان بولتے ہیں اور وہ لوگ بولتے ہیں جو مسلمانوں کے وہاں کام کاج کرتے ہیں۔ جھوٹی بات ہے بالکل۔ ظاہر ہے کہ سراسر غلط ہے۔
ہال ہیڈ کی دیکھا دیکھی گلکرسٹ نے یہ کہا کہ صاحب دراصل وہ تو تھی ہندی جو کہ ہندوؤں کی زبان تھی، سنسکرت سے بھی پہلے سے موجود تھی، اور مسلمانوں کے آنے سے پہلے موجود تھی۔ اور چونکہ وہ ہندوؤں کی زبان ہے، لہٰذا اس کو ہندی کہا جائے گا اور اس کے لیے کوئی رسم الخط تو نہیں ہے، لیکن اس کو ہم ابھی رسم الخط دیے د یتے ہیں کہ دیوناگری رسم الخط میں لکھو۔ یہ اپنا مذہبی رسم الخط ہے۔ اور وہ زبان جس میں عربی فارسی زیادہ ہے اس کو ہم کہیں گے ہندوستانی۔ کیونکہ وہ ہندوستان بمعنی اپر انڈیا (Upper India) جسے کہیں گے، نرمدا کے اوپر، وہاں کی زبان ہے۔ یہ لفظ چلا نہیں مگر۔ اگرچہ پہلے زمانہ میں ہندی یا ریختہ کو کہیں کہیں ہندوستانی بھی کہا گیا ہے، لیکن یہ لفظ چلا نہیں۔ اور ہندوستانیوں نے آہستہ آہستہ خود اس کو چھوڑ دیا پھر اس بیچ یہ چل گیا سلسلہ کہ گلکرسٹ نے دریافت کیا کہ صاحب، اب (یعنی ۱۷۹۶) میں، اس کو تو کبھی کبھی ’’اردو‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس طرح سے ۱۸۰۰ کے آس پاس جاکر کہیں ’’اردو‘‘ بطور اسم لسان ایک ٹرم term بنا۔
تم کو سن کر حیرت ہوگی کہ ۱۸۳۴ میں جو ڈکشنری لکھی ہے شیکسپیر John Shakespeare نے، ’’اے ڈکشنری آف ہندوستانی‘‘، اس میں اردو لفظ کا معنی لینگویج نیم (Language Name) دیا ہی نہیں ہے۔ یعنی As late as 1830 بھی شیکشپیر کو اس معاملے میں تامل ہے کہ ’’اردو‘‘ کسی زبان کانام بھی ہے۔ تو یہ سب اس طرح سے ہوا ہے۔
مجھے یاد ہے، کچھ دن پہلے کی بات ہے جب ہم لوگ ایک کانفرنس میں بیٹھے تھے، اسٹورٹ میک گریگر (Stuart Mac Gregor) جو جانتے ہی ہو، ہندی کے بڑے عالم ہیں کیمبرج میں، ابھی رٹائر ہوگئے ہیں، تو ان سے وہیں کانفرنس میں بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اصل میں ایک ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک زبان ایسی بھی ہو کہ جو کہ ہندوؤں سے اسپشلائیزڈ (Specialized) قرار دی جائے۔ میں نے پوچھا کہ یہ ضرورت کس کو محسوس ہوئی؟ وہ چپکے سے بولے، انگریزوں کو۔ چپکے سے کہا۔ خود انگریز ہیں لیکن کہا انہوں نے۔ تو اصل میں لینگویج نیشلزم Nationalism سب سے زیادہ گندا نیشنلزم ہے۔ اور سب سے آخر میں یہ پیدا ہوا۔ پہلے نہیں تھا۔ اور اس لینگویج نیشنلزم کو ایکسپلائیٹ Exploit کرنے کے لیے انگریزوں نے یہ صورت بنائی کہ انہوں نے صاف کہا کہ ایک وقت وہ آئے گا، جب مسلمان سارا کا سارا فارسی/عربی والی اردو بولے گا اور لکھے گا، اور ہندو جو ہیں، وہ سنسکرت آمیز زبان میں لکھے گا اور الگ الگ دوزبانیں بن جائیں گی۔ تاراچند نے کہا ہے کہ دس پندرہ برس کے اندر اندر دومکھڑے تیار کردیے گئے کہ ایک کامنھ دائیں ہے اور ایک کا بائیں۔ ایک مورت دوسری سے بات نہیں کرتی۔ آج بھی یہ صورت ہے۔
سوال: جھگڑا تو صرف حروف تہجی کو لے کر نہیں ہے، رسم الخط کو لے کر بھی ہے۔ اب دیکھیے، جائسی اودھی میں ’’پدماوت‘‘ لکھتے ہیں لیکن ان کا جو رسم الخط ہے وہ فارسی کہلایا۔ اور وہی اودھی زبان تلسی لکھتے ہیں تو وہ ناگری رسم الخط میں ہے۔ لیکن جہاں وہ بولی جانے لگتی ہے تو رسم الخط سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
جواب: بے شک، فرق نہیں پڑتا ہے۔
سوال: لیکن اردو اور ہندی کے اس جھگڑے میں جو آگے چل کر اور بڑھا تو اس میں رسم الخط بھی ایک فیکٹر بن گیا۔
جواب: ہاں، بالکل بنا۔
سوال: دوسری چیز یہ کہ اگر یہ مان لیں کہ عربی اور فارسی کا جو اثر آیا، جو Influence آیا، ادھر سے آیا۔ ادھر سے جو لوگ آئے تو جس بھی وجہ سے لائے ہوں، لیکن لائے۔ تو وہ صورت پنجابی میں، بنگلہ میں، مراٹھی میں، وہاں کیوں نظر نہیں آتی؟ یہاں کیوں ہندی اور اردو خیمے الگ الگ ہیں اور وہ بھی جیسا کہ آپ نے تاراچند جی کے حوالے سے کہا کہ دومنھ ایک بائیں اور ایک دائیں۔ یہ صورت یہاں کیوں پیدا ہوئی؟
جواب: اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ تلسی کا کوئی مسودہ تو ہے نہیں ہمارے پاس۔ ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے لکھا بھی کہ نہیں اسے، شاید زبانی ہی پڑھتے رہے ہوں۔ یہ اس لیے کہتا ہوں کہ اس زمانے میں زبانی پڑھنے سنانے کا بہت رواج تھا۔ بعد میں تلسی کے سو ڈیڑھ سو برس بعد، دو سو برس بعد، کسی نے اسے لکھا ہو، ہم تو ابھی نہیں کہہ سکتے، کہ انہوں نے ناگری ہی رسم الخط میں لکھا ہو۔ شاید انہوں نے کیتھی میں لکھا ہو، کیتھی اس زمانے میں بہت چل رہی تھی۔ کیتھی کو اور مڑیا کو بھی انگریزوں نے مروایا تھا۔ یہ بھی تم جانتے ہو، تو پہلی بات یہ ہے کہ چونکہ ہمارے اپر انڈیا میں، جس کو کہ ہندوستان کہا جاتا ہے، یہاں پرانے زمانے میں ناگری رسم الخط، یعنی سنسکرت، برہمن اور جین لوگ استعمال کرتے تھے۔ اوروں کے پاس کوئی رسم الخط تھا نہیں۔ کیا اودھی کیا پوربی کیا بھوج پوری، کیا مگدھی، کیا بندیل کھنڈی، کیا برج ان کے لیے کوئی رسم الخط تو تھا نہیں۔ تو جب کبھی لکھنے کی ضرورت پڑی تو جس کو جو اچھا لگا، اسی میں لکھ دیا انہوں نے۔ مثلاً جائسی نے اس کو ہندی کہا ہے، کہا ہے کہ میں ہندی میں لکھ رہا ہوں۔ لیکن ان کا رسم الخط وہی نام نہاد ’’فارسی‘‘ ہے۔
تو چونکہ رسم الخط کا زبان کے ساتھ کوئی وائیٹل Vital تعلق ہے نہیں، جیسا تم نے خود کہا، لیکن جب اس میں ادب پیدا ہونے لگتا ہے اور ادب کو لوگ لکھنے پر آجاتے ہیں تو پھر سوچتے ہیں کہ اس کے لیے رسم الخط استعال کیا جائے۔ اچھا، اب یہ جو so called فارسی رسم الخط ہے، وہ سب کے لیے مہیا تھا۔ کسی پر پابندی نہیں ہے۔ ہندو ہو، مسلمان ہو، کوئی ذات ہے، کوئی مذہب ہے کہیں بھی ہے، اپنا اپنا لکھو بھائی۔ تو اس لیے یہ آسان پایا گیا کہ اس میں لکھا جائے۔ مراٹھی بھی شروع شروع میں اسی میں لکھی گئی۔ مراٹھی، بنگالی، پنجابی، سب اسی رسم الخط میں لکھی جاتی رہی ہے، سندھی، کشمیری اور پشتو تو لکھی ہی جاتی ہے اس میں، براہوی بھی لکھی جاتی ہے جو دراوڑ زبان ہے۔ ان سب میں جہاں جہاں رسم الخط نہیں تھا، Nationalism کا بھیدبھاؤ پیدا کرکے انگریزوں نے ناگری کو فروغ دیا۔ جیسے کہ ہمارے اور تمہارے زمانے میں نارتھ ایسٹ میں جہاں کہ بہت سی بڑی بڑی زبانیں پائی جاتی ہیں، لیکن ان کی کوئی رسم الخط نہیں ہے، ان سب کو انگریزوں نے رومن رسم الخط میں ٹھونس دیا، اور اب وہ اسی میں لکھی جارہی ہیں، جتنی بھی ہیں، انگامی ہے اور زبانیں ہیں، ناگا ہے، میزو ہے۔ یہ سب کی سب جو زبانیں ہیں، وہ رومن میں لکھی جارہی ہیں، کیونکہ آج سے پچاس، سو برس پہلے تک ان کے یہاں رسم الخط نہیں تھا۔ جب ان کو رسم الخط لکھنے کا پرابلم درپیش ہوا تو انگریزوں (یا ان کے نمائندوں) نے کہا کہ رومن سیکھ لیجیے۔
تو جہاں کوئی رسم الخط نہ ہو، وہاں وہ رسم الخط سکھا دیا جاتا ہے، جو آسان ہو یا جو مروج زیادہ ہو۔ تو اس لیے مراٹھی میں یا پنجابی میں یا سندھی میں، کشمیری میں، پشتو میں یہ جھگڑا اس لیے اٹھا کہ فارسی رسم الخط تو ضرورت کی چیز تھی، اپنا لی گئی۔ یہاں پر ہندوستان جسے کہہ رہے ہو تم، یہاں تو یہ رسم الخط چل رہا تھا جس کو کہ تم چاہے فارسی کہو، چاہے عربی کہو، چاہے کوئی نام دو، وہ چل رہا ہے اور جو سب کے لیے اوپن Open ہے، یعنی ناگری کے برخلاف جو کہ بہت ہی کم لوگوں کے لیے اوپن ہے، یہ سب کے لیے اوپن ہے۔ تو جب ایسے رسم الخط کے ہوتے ہوئے جب ایک دوسرارسم الخط آپ لائیے گا تو جھگڑا ضرور پیدا ہوگا۔
اچھا، اور یہ تم کو سن کر تھوڑا تعجب ہوگا کہ اس جھگڑے کو شروع سے ہی مذہب پر مبنی رکھا گیا۔ راجیندر لال متر نے تو صاف لکھا، وہ بنگال کے بہت بڑے ماڈرن رائیٹر تھے، اور ہندتو کے آئیڈیا کے بہت بڑے، بہت ہی پرانے چاہنے والے تھے، انہوں نے صاف لکھا کہ صاحب، یہ تو مذہب کا معاملہ ہے۔ ہم ہندو ہیں، ہمارا رسم الخط تو ناگری ہے۔ اور پھر اس میں بھارتیندو جیسا آدمی نظر آتا ہے، جو کہ ۱۸۷۱ میں ببانگ دہل کہہ رہا تھا کہ میری اور میرے گھروالوں کی بولی اردو ہے، جو کہہ رہا ہے کہ مجھے یہ بنارس والوں کی پوربی سمجھ میں نہیں آتی۔ وہی بھارتیندو جیسا تخلیقی فن کار ۱۸۸۲ میں ایجوکیشن کمیشن میں کہتا ہے کہ صاحب یہ فارسی رسم الخط کے سب چمتکار مسلمانوں کے پھیلائے ہوئے ہیں، لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے۔ لکھتے بیس ہیں پڑھتے تیس ہیں۔ لکھتے کِس ہیں، پڑھتے ہیں کَس۔ اور انہوں نے لکھا ہے کہ ہر میجسٹی کی گورنمنٹ سے میری یہ درخواست ہے کہ اس پر غور کرے کیونکہ ہمارے مذہب کامعاملہ ہے۔ تو جس طرح سے مذہب کی بنیاد پر زبان انگریزوں نے بنائی، اسی طرح سے مذہب کی بنیاد پر رسم الخط کا بھی انہوں نے شروع کیا کہ یہ باہر کا رسم الخط ہے، ایران سے آیا ہے۔ ارے بھائی، انگریزی کا رسم الخط کوئی ان کے گھر سے آیا ہے؟ انگریزی کا رسم الخط تو رومن Roman تھا، اب بھی رومن کہلاتا ہے اور یہ اصلاً لیٹن Latin سے لیاگیا ہے۔
تو رسم الخط تو وہ چیز ہوتی ہے جو آسانی کے لیے، مروج ہونے کی بنا پر، یا اور کسی وجہ کی بنا پر اس کو adopt کرلیا جاتا ہے۔ زبان کی جان اس میں نہیں ہے۔ ہمارے یہاں Historically بڑی آگ اس کے اندر بھر دی گئی ہے۔ لیکن صحیح بات یہی ہے کہ جان کچھ نہیں ہے۔ رسم الخط سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق تب پڑتا ہے (جیسے کہ اب پڑے گا) اب تم اگر اردو رسم الخط بدل کر ناگری یا کوئی اور بھی کردو، روسی کردو، لیٹن کردو، چائینیز کردو، تو یہ چھ سات سو برس میں جو لکھا گیا ہے یہ کہاں جائے گا؟ یہ پرابلم ہے نہ؟ تو جو زبان، ا تنی پچھڑی ہوئی زبان ہے کہ اس وقت ہمارے پاس میر کا کوئی قابل اطمینان کلیات نہیں ہے۔ ایک رام نرائن لال کا ہے تیس سال پرانا جس میں غلطیاں ہیں ہر صفحے پر۔ میر انیس کا بھی کوئی کمپلیٹ ورکس available بالکل نہیں ہے سوائے نول کشور پریس کے، جو سو برس پرانا ہے اور جس میں بے شمار غلطیاں ہیں۔ تو جس زبان کا یہ عالم ہے، اتنی پچھڑی زبان ہے، جس کے بڑے بڑے کلاسیک جیسے پریم چند کا کمپلیٹ ورکس available نہیں ہے جو کل کی بات ہے۔ 2 اپیندر ناتھ اشک کا پورا ورک available نہیں ہے جو کہ سامنے کی بات ہے تو جس زبان میں اتنی پس ماندگی آچکی ہو، for reasons that I don’t want to go into now اس میں تم اگر اچانک کہو کہ بھائی آج سے یہ سب لوگ ناگری پڑھیں، تو پڑھیں گے، یا رومن پڑھیں، تو پڑھیں گے۔ لیکن یہ جو سات سو برس میں لکھا گیا اس کو کون پڑھے گا؟ تو جب معاصر ادب جو تمہارے سامنے کا ہے، پریم چند ہیں اور اشک ہیں، کرشن چندر ہیں، اقبال ہیں اور بیدی ہیں، ان کا سارا کام ابھی ناگری میں نہیں آسکا ہے تو پرانوں کا کیا پوچھنا ہے۔ رسم خط کی تبدیلی میں یہ پہلی پرابلم ہے، ورنہ باتیں اور بھی ہیں۔
سوال: یہ تو ہوئی رسم الخط کی بات، لیکن دوسری صورت وہ ہے جس میں آپ کہتے ہیں تاراچند جی کے حوالے سے کہ دومنھ بن گئے۔۔۔ تو وہ دومنھ بنگلہ میں یا پنجابی میں کیوں نہیں ہے؟
جواب: اس لیے نہیں بنے کہ جہاں کوئی ویکیوم (Vacuum) نہیں تھا وہاں ایک ویکیوم بنایا گیا۔ یہاں تو یہ تھا کہ بھائی ایک ہی رسم الخط ہے، چاہو لکھو چاہو نہ لکھو۔ اب دیکھو بنگلہ کی مثال لے لو۔ بنگال میں تین طرح کے رسم الخط چل رہے تھے۔ جو کاروباری، خاص کر مارواڑی لوگ تھے ان کا مڑیا رسم الخط تھا جو کہ کیتھی سے برآمد کیا گیا تھا۔ وہ لوگ اس کو لکھتے تھے۔ اب بھی لکھتے ہیں، بہت سے لوگ اب بھی لکھتے ہیں۔ جو ہماری آپ کی طرح مڈل کلاس کے پڑھے لکھے لوگ تھے، اگر وہ فارسی عربی پڑھتے تھے تو گھر کے باہر اسے ہی لکھتے رہے تھے۔ اگر گھریلو معاملات لکھ رہے تھے، یا عورتوں کو کچھ پڑھا لکھا رہے تھے تو اس میں وہ کیتھی لکھ رہے تھے۔ اس لیے وہاں کوئی ویکیوم نہیں تھا۔ یہاں تو یہ خلا پیدا کیا گیا ہے۔ یہاں پر ایک زبان جو بولی جارہی ہے، جیسا کہ بیلنٹائن (Ballantyne) جو پرنسپل تھا بنارس سنسکرت کالج کا (۱۸۴۴)، اسے پتہ لگا۔ اس نے کالج کے طالب علموں سے پوچھا کہ تم لوگ ہندی کیوں نہیں پڑھتے؟ بیلنٹائن سے وہاں کے بچوں نے کہا کہ صاحب، یہ کس ہندی کی بات کر رہے ہیں آپ؟ ہماری بہن جو کچھ بولتی ہے، ہماری نانی جو کچھ بولتی ہے، ہماری بہوبیٹیاں جو کچھ بولتی ہیں، سبھی کوہندی کہتے ہیں۔ ہندی نام کی کوئی اسٹینڈرڈائیزڈ Standardized زبان تو ہے نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس زمانے میں ایک ویکیوم تھا، ایک خلا تھا۔ اس ویکیوم میں لا کر تم نے ڈال دیا ایک رسم الخط کہ یہ لو، یہ ناگری رسم الخط ہے، تم جو لکھ سکتے ہو اس میں لکھو۔ تو یہ جو پرابلم پیدا ہوا تو اس لیے پیدا ہوا کہ خالی جگہ کو بھرنے کے لیے رسم الخط کو ڈال دیا گیا تھا۔
سوال: آپ کی کتاب کے دو باب 3 چھپے ہیں، کسوٹی، (ہندی کا رسالہ جو پٹنہ سے نکلتا ہے) میں۔ ان میں دوسرے باب کا عنوان دیا ہے۔ ’’تاریخ کی تعمیر اور تمدن کی تعمیر نو۔‘‘ مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ جہاں تک بنگلہ ہے، پنجابی ہے وہاں مخلوط تمدن چونکہ بہت Predominant ہے اس لیے وہاں Integration بہت آیا ہے جیسے کہ پنجابی میں دیکھیے، خدا کو ’’رب‘‘ کہتے ہیں۔ پربھو یا ایشور یا پرماتما بھی چلتا ہے، لیکن زیادہ تر تو ’’رب‘‘ ہی کہتے ہیں۔ یہ تو مدھیہ دیش ہے جس کو آپ ہندی خطہ کہتے ہیں، اس میں چونکہ کلچرل موومنٹ بہت prominent نہیں رہا اس کی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ یہ دقتیں پیدا ہوئیں۔
جواب: نہیں، اس میں نیلابھ دیکھو دو باتیں ہیں۔ زبان کس طرح سے کون کون سے لفظ کو حاصل کرتی ہے اس کی مثال دینے کے لیے جیسے تم رب کی، پربھو کی اور بھگوان کی جو بات کہہ رہے ہو تو اردو میں ظاہر بات ہے کہ مسلمانوں کے جو مذہبی ارکان ہیں وہ عربی سے ہیں، یعنی ان کو اسلام نے رائج کیا اس زمانے میں جب تمام مسلمانوں کی زبان عربی ہی تھی۔ جیسے نماز روزہ۔ ہندوستان میں اردو بولنے والوں نے ان ارکان کے نام بدل دیے۔ ’’نماز‘‘ عربی کا لفظ نہیں ہے، نہ ’’روزہ‘‘ عربی کا لفظ ہے۔ جو عربی کا لفظ ’’نماز‘‘ کے لیے ہے، یعنی ’’صلواۃ‘‘، وہ ہمارے یہاں برے معنی میں آتا ہے۔ ’’صلواتیں سنانا‘‘، یعنی برا بھلا کہنا۔ ’’حج‘‘ اور ’’زکوٰۃ‘‘ کے لیے کوئی لفظ نہیں تھا فارسی میں اس لیے لوگ ’’حج‘‘ اور ’’زکوٰۃ‘‘ ہی بولتے ہیں۔ تو میرا کہنے کا مطلب یہ کہ جو لفظ سب سے آسانی سے پکڑ میں آجاتا ہے زبان اس کو لے لیتی ہے کیونکہ زبان تو آدمی کی بنائی ہوئی چیز ہے اور آدمی ہے کام چور جانور۔ تو وہ یہ نہیں دیکھتا ہے جو میں لارہا ہوں اس کی تقدیس کیا ہے، یہ لیٹن سے آرہی ہے کہ گریک سے آرہی یا کہاں سے آرہی ہے؟ جیسے ’’اللہ‘‘ اور ’’خدا‘‘ ہے ہمارے یہاں۔ اب ۹۹فی صد لوگ ’’خدا‘‘ لکھتے ہیں۔ ’’خداقسم‘‘ اگر کہیے تو وہ برا نہیں مانیں گے اور اگر ’’اللہ قسم‘‘ کہیے تو برامان جائیں گے کہ واہ صاحب واہ یہ اللہ قسم کیا چیز ہوتی ہے؟ صرف عورتیں ’’اللہ قسم‘‘ بولتی تھیں، اب وہ بھی نہیں بولتیں۔ حالانکہ لفظ ’’اللہ‘‘ تو گویا وہ پتھر ہے جس پر پوری عمارت کھڑی ہے اسلام کی۔ One and the Only One جو کہ ’’اللہ‘‘ کہلاتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجابی ہیں تو شاید اس وجہ سے کہ صوفی لوگ موجود تھے، اپنے بلہے شاہ تھے، وارث شاہ تھے اور بابا فرید تھے، بڑے بڑے لوگ تھے۔ تو وہ لوگ جو کچھ کہہ رہے تھے اپنا اپنا تو ان سے ہم لوگوں نے لے لیا۔
اچھا ہمارے یہاں یک جہتی کا معاملہ یہ ہے کہ اگر دیکھو تو دو طرح دیکھو۔ ہندوؤں کے نام دیکھو اقبال بہادر، تو یہ کہاں سے آیا؟ اقبال تو عربی ہے بہادر فارسی ہے بلکہ ترکی ہے۔ کتنے ہی اس طرح کے نام ہیں : تمہارے شہر کے مشہور وکیل صحت بہادر صاحب، صحت اور بہادر، اور شیرا میر سنگھ، شہزاد کمار، اس طرح کے کتنے نام ہندوؤں میں ملتے ہیں۔ یعنی یہاں پر جو لین دین ہے وہ زیادہ تر مسلمانوں سے ہندوؤں کی طرف گیا۔ کیونکہ مسلمانوں کے طریقوں کو شاید اس لیے کہ وہ Dominant سمجھا گیا ہو، اچھا مانا گیا ہو، زیادہ Sophisticated ماناگیا ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے ہندوؤں کے نام نہیں لیے۔ ارے بھائی بہادر شاہ ظفر کا ایک تخلص ’شوق رنگ‘ تھا۔ اور پرانے صوفیوں میں شیخ عبدالقدوس گنگوہی صاحب، الکھ داس اپنانام لکھتے ہیں وہ۔ رام داس ایک شاعر تھے، راجہ رام ایک شاعر تھے ۱۸ویں صدی میں گجرات میں۔ تو وہ راجہ رام لکھتے ہیں اپنے نام کو۔ کوئی جانتا بھی نہیں ہے کہ وہ مسلمان تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان تھے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہندو۔ تو ایسا نہیں ہے کہ لین دین ہوا نہیں۔ دونوں طرف چلا معاملہ۔ جس زبان کو میں اپنی زبان سمجھتا ہوں اس زبان کے نام رکھوں گا، دھرم سنسکار اسی زبان میں رکھوں گا۔ تو ظاہر ہے کہ اوپر جن لوگوں کا نام میں نے لیا وہ ’’ہندی‘‘ یعنی ’’اردو‘‘ کو اچھی زبان سمجھتے تھے۔
لیکن یہ بھی ہے کہ جس زبان کا لٹریری کلچر حاوی ہوجاتا ہے اس زبان سے زیادہ لوگ حاصل کرتے ہیں اور ان میں غیرزبان کے بھی لوگ ہوتے ہیں۔ اس میں یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ لینے والا ہندو ہے یا مسلمان۔ مثلاً جیسے ابھی ایک جگہ بات چل ہی رہی تھی کہاوتوں اور محاوروں کی، تو ایک صاحب نے کہا کہ یہ جو کہاوت ’’منہ میں رام بغل میں چھوری‘‘ ہے یہ مسلمانوں نے اس لیے بنائی ہے کہ ہندوؤں کو گویا ڈاؤن کرنے کے لیے کہ ہندو بڑے ریاکار ہوتے ہیں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ جناب اردو میں پچاسوں تو ایسی کہاوتیں اور محاورے ہیں، جو مسلمانوں کے خلاف جاتے ہیں۔ ’’نو سو چوہے کھاکے بلی حج کو چلی‘‘، یہ کون سے ہندو کے لیے کہا جائے گا؟ ’’قاضی کے گھر کے چوہے بھی سیانے ہوتے ہیں‘‘، یہ کس ہندو کے لیے کہا جائے گا؟ جس وقت جو استعاراتی Metaphorical صورت حال پیدا ہوتی ہے اس حساب سے آدمی اس کو اپنی تہذیب یا ماحول کے لحاظ سے بنالیتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اگر ’’منہ میں رام بغل میں چھوری‘‘ کہا ہے تو ہندوؤں کو ڈاؤن کرنے کے لیے کہا، یا ’’مفت کی تو قاضی کو بھی حلال ہوتی ہے‘‘ یہ مسلمانوں کو ڈاؤن کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ بلکہ ایک کلچرل صورت حال ہے، اقتدار کا Equation ہے جس میں کچھ لوگ اچھے ہیں یا اچھے سمجھے جارہے ہیں، کچھ کو برا سمجھاجارہا ہے۔ اس حساب سے زبان بنا رہی ہے اپنے کو، اور کچھ نہیں ہے اس کے علاوہ اس میں۔
سوال: فاروقی صاحب یہ بتائیے کہ یہ جو تاریخ آپ نے بتائی، اور جس خطے میں یہ زبانیں ارتقاپذیر تھیں۔۔۔ اور ہم کو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ ہندی اور اردو کو ایک ہی چیز مان رہے ہیں۔ بلکہ ذاتی طور پر پوچھیے تو میں اسے مانتا ہی ہوں۔ لیکن اس میں لوک بھاشا اور بولیوں کا کیا کردار یا یوگ دان رہا ہے؟
جواب: دیکھو لوک بھاشا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کہ Test کرکے لائی جائے کہ صاحب یہ لوک بھاشا ہے۔ کل کی لوک بھاشا آج کی ادبی زبان بن جاتی ہے۔ جب کسی زبان میں اتنا ادب پیدا ہونے لگے کہ لوگ اسے یاد نہ رکھ پائیں تو وہ پھر لوک بھاشا سے آگے بڑھ کر تہذیبی زبان، ادبی زبان، جو بھی نام دیا جائے، وہ چیز بن جاتی ہے۔ جیسے انگریزی کی مثال لو تم کہ انگریزی میں پہلی کتاب جو ہم جانتے ہیں ’’بے اوولف‘‘ (Beowulf) وہ ہزار سال پرانی ہے گیارہ سو برس کے آس پاس۔ تو انگریزی زبان اس سے زیادہ پرانی ہوگی، یہ ظاہر بات ہے۔ پانچ سو برس اور جوڑلو اس کے اوپر۔ تو دھیرے دھیرے بہت سے لوگوں نے انگریزی میں لکھنا شروع کیا اور پھر پندرہویں صدی تک آتے آتے بہت سا ادب انگریزی میں لکھا جانے لگا۔ تو جو زبان پہلے لوک بھاشا تھی وہ بڑھتے بڑھتے ’’زبان‘‘ کا رتبہ حاصل کرلیتی ہے۔ اس میں ایک بات اور بھی ہے کہ۔۔۔ افسوس کی بات ہے کہ انسانی تہذیب کا جو ارتقا ہے، وہ زبانی سے تحریری کی طرف جارہا ہے، جو غلط ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے ہمارے خیال میں۔ لیکن ہو رہا ہے۔ آج سے نہیں ہو رہا ہے بہت پہلے سے ہو رہا ہے اور اس کے بڑے بڑے گھاٹے بھی ہیں۔ بہرحال، تو جس طرح سے کہ زبانی سے تحریری کی طرف جاتا ہے کلچر، اس اعتبار سے وہ زبان جس میں کہ وہ کلچر گویا اپنے کو بیان اور ظاہر کر رہا ہے وہ تہذیبی اور ادبی زب ان کہلانے لگتی ہے۔ کوئی ایسا چوکھٹا یا خانہ نہیں ہے کہ جس کی بناپر ہم مثلاً بھوج پوری کو ادبی زبان نہ کہیں۔ کیوں نہ کہیں؟ اسے لوک بھاشا ہی کیوں مانیں؟ لوگ لکھ رہے ہیں اس میں، اگرچہ ناگری رسم خط میں لکھ رہے ہیں۔ اس کا طریقہ بولنے کا بالکل مختلف ہے۔ ہم تم جانتے ہی ہیں کہ اگر کوئی ٹھیک سے بولے بھوج پوری تو تمہارے تو ایک دم پلے نہیں پڑے گی کہ کیا کہا جارہا ہے۔ یہ کہنا کہ بھوج پوری صرف بولی ہے، زبان نہیں یہ تو بالکل غلط بات ہوجائے گی۔
اور آج تک کسی بھی شخص نے، جو بڑے بڑے لنگوئسٹ ہیں، انہوں نے بھی کوئی ایسا چار خانہ نہیں بنایا کہ اس چار خانے میں جو فٹ ہوجائے وہ زبان ہے جو فٹ نہ ہو وہ لوک بھاشا ہے یا بولی ہے۔ اردو ہندی جو بھی کہو اسے، ریختہ کہو، اس کا معاملہ یہ ہے کہ شروع سے ہی بالکل صاف بات رہی ہے کہ جو زبان بولی جارہی تھی اس کو لوگ عام طور پر ہندی کہتے تھے۔ یعنی یہ ’’ہند‘‘ یا ’’انڈیا‘‘ کی زبان ہے۔ اور جو زبان لکھی جارہی تھی اس کے لیے لوگوں نے اپنے اپنی جگہ کے لفظ بنالیے۔ جیسے کہ دلی والے کہتے تھے، دہلی کی زبان ہے یہ، ’’دہلوی‘‘ ہے۔ گجرات پہنچے تو لوگ جو اس کو پہلے ’’دہلوی‘‘ کہتے تھے وہی پھر دھیرے دھیرے اس کو ’’گجری‘‘ کہنے لگے۔ دکن پہنچے تو پہلے ’’گجری‘‘ کہتے تھے، پھر ’’دکنی‘‘ کہنے لگے۔ ہماری طرف جب آئے، پورب میں، جہاں کے ہم رہنے والے ہیں، اعظم گڑھ کے اور مغربی بہار کے، تو اس کے لیے ’’پوربی‘‘ کا لفظ کہا جانے لگا۔
پھر اس بیچ میں ایک نئی چیز پیدا ہوگئی کہ ایک نیا Genre پیدا ہوا ادب میں، جس میں کہ زبانیں ملاکر کے بولی جاتی ہیں۔ جیسے ہم لوگ انگریزی اردو میں ملاکر بولتے ہیں نہ کہ ’’ارے بھئی کم سون کیا کر رہا ہے؟‘‘ اس طرح کی ایک چیز پیدا ہوئی۔ اس کو ’’ریختہ‘‘ کہنے لگے یعنی ’’ملا ہوا۔‘‘ پھر ہونے یہ لگا کہ اب اس ریختہ طرز میں کچھ لوگوں نے لکھنا شروع کردیا۔ تو اس کو کہنے لگے صاحب کہ یہ ایک لٹریری فارم ہے اور پھر یہ لٹریری فارم اس زبان کا بھی نام ہوگیا یعنی کہ اس کے لیے جو ہندی کہلاتی تھی، ’’ریختہ‘‘ بھی کہا جانے لگا۔ اس طرح سے دلی میں Spoken Language کے لیے عام طور پر ہندی اور Written Language کے لیے عام طور پر ’’ریختہ‘‘ کا نام استعمال ہونے لگا۔ لیکن ایسا نہیں کہ بالکل اور ہر جگہ ایسا تھا۔ مثلاً اب جیسے میر نے کہا کہ،
’’آیا نہیں ہے لفظ یہ ہندی زبان کے بیچ۔‘‘ اب ظاہر ہے کہ یہاں ’’ہندی‘‘ سے ان کی مراد Spoken Language ہے۔ اگر بہت ہی موٹے طور سے کہا جائے تو یہ کہا جائے گا صاحب کہ ایک عام خیال اس زمانے میں لوگوں کے دل میں رہا ہوگا کہ جب ادبی تحریر کے لیے استعمال کریں تو اپنی زبان کو ’’ریختہ‘‘ کہیں، اور جب آپس کی بول چال کے لیے استعمال کریں تو اسی زبان کو ’’ہندی‘‘ کہیں۔ غالب تک آتے آتے یہ فرق بالکل ٹوٹ گیا۔ غالب نے چنانچہ صاف لکھا ہے کہ بھائی مجھے اپنا ہندی کلام بھول گیا ہے، یا مجھے اپنے ہندی کلام کی کبھی خبر نہیں رہی، میں نے کبھی جمع نہیں کیا۔ فلاں فلاں لوگ جمع کرتے تھے وہ مر گئے، کھپ گئے، غدر میں لٹ گئے، ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ تو وہاں صاف ظاہر ہے کہ ہندی/ اردو ہندی/ ریختہ میں غالب کچھ differentiate نہیں کرتے۔
ہمارا کہنا یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا یہ بالکل غلط خیال ہے جن میں ہمارے ترقی پسند بھائی خود شامل تھے کہ اردو ایک Urban Culture کی زبان ہے، شہرو ں میں پیدا ہوئی، وہیں پلی بڑھی۔ لیکن سچ پوچھو تو یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ کسی شہر میں کوئی زبان بن سکتی ہی نہیں ہے اس لیے کہ شہر میں اتنا فلکس (Flux) ہوتا ہے کہ زبان وہاں ٹھہرے گی نہیں۔ مثال جیسے بمبئی ہی لے لو کہ سو ڈیڑھ سو برس سے ایک زبان ممبئی میں بولی جارہی ہے جو اب تک زبان بن ہی نہیں سکی، لیکن بولی جارہی ہے : بوم مارنا، چوتھے مالے میں چڑھ جانا، صاحب جی کیا آپ نے بیل (Bell) مارا ہے؟ یہ ایسے لفظ ہیں جو کہ صرف ممبئی میں بولے جاتے ہیں۔ ممبئی کے باہر کوئی نہیں جانتا۔ تو شہر کی زبان سے کبھی زبان نہیں بنتی ہے۔ زبان ہمیشہ بنتی ہے وہاں جہاں لوگ Static ہیں، دیر تک موجود ہیں جنہیں وقت مل رہا ہے اپنی زبان کو پریکٹس کرنے کا، اس کی باریکیوں کو دیکھنے کا، اچھے برے کو پسند کرنے کا، تو کوئی زبان ایسی ہوگی ہی نہیں کبھی جو اصلاً Urban Origin کی ہو۔ شہروں میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، وہاں زبان کیسے بنے؟ اردو تو ’’شہری‘‘ ہوسکتی ہی نہیں ہے کبھی، کہ اس کے بولنے والوں میں ہر طرح اور ہر طبقے کے لوگ شروع سے شامل رہے ہیں۔
سوال: اپنی کتاب میں آپ نے ایک جگہ ذکربھی کیا ہے کہ ۱۸۸۰ کے بعد سے اردو کی جو لٹریری ہسٹری لکھی گئی اس میں لوگوں نے زبان کی یہ جو ساری پیچیدگی ہے، جو ترقی ہے، اس پر خیال نہیں کیا، غور نہیں کیا، اپنے ڈھنگ سے اس کو دیکھا۔ تو اس میں ہماری بھی ایک ہندی جو آج ہے، جس کو آپ جدید ہندی کہتے ہیں یا اس کو اردو کا ایک اسلوب کہہ لیجیے، کہ ہندی اردو میں لفظیات کا فرق ہے وغیرہ وغیرہ۔ فعل تو ایک ہی ہیں دونوں زبانوں میں، تواس میں کیا ہے کہ دوزبانیں بن گئیں؟ آپ نے ہندی کی بولیوں کاذکر کیا تو اب ہندی کی بولیاں کیوں؟ یہ برج ہے، اودھی ہے، بھوج پوری ہے، وغیرہ۔ اس نئے کلچر میں ہوا یہ کہ برج بھاشا میں شاعری بند ہوگئی، اودھی میں بھی بند ہوگئی اور بھوج پوری میں بھی کتنی دور تک چلے گی، تھوڑا سا اس میں بھی شک ہے۔ تو اب کیا ہوا کہ ان زبانوں کو آپ نے ماردیا، اور جو کھڑی بولی تھی اس کو آپ نے لاکر بیٹھا دیا زبان کے طور پر۔ اور اس کے پیچھے انگریز رہے ہوں، سیاست رہی ہوں، یا جو بھی وجہ رہی ہو لیکن اس میں نقصان اس ملک کا ہوا ہے۔
جواب: اس میں نقصان بے شک اس ملک کا ہوا ہے اورتم صحیح کہہ رہے ہو کہ یہ سراسر پولیٹیکل مرڈر Political Murder ہے کہ ایک تو ہندی خود ہی کوئی زبان نہیں ہے۔ مانا کہ یہ ہماری نیشنل لینگویج ہے، لیکن وہ الگ بات ہے۔ لسانیات کے نقطۂ نظر سے دیکھو تو یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ اودھی اس کی بولی ہو، یا برج اس کی بولی ہو، بندیل کھنڈی اس کی بولی ہو، ماگدھی اس کی بولی ہو؟ اور اگر ایسا ہے تو راجستھانی اس کی بولی کیوں نہیں ہے؟ ہریانی پنجابی اس کی بولی کیوں نہیں ہے؟ بولی کی پہچان اگر کوئی رکھی جاتی ہے تو وہ صرف اتنی ہے کہ جس زبان میں ادب زبانی ہی رہتا ہے، اس کو ہم بولی قرار دیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر دوزبانیں Mutually Comprehensible تو پھر ہم ان کو ایک ہی ماں کی اولاد، یا سگے بھائی بہن مان سکتے ہیں بہت بہت۔ جیسے مان لیجیے کہ پنجابی اور اردو/ ہندی، اور پنجابی اور اردو/ہندی تقریباً Mutually Comprehensible ہیں۔ تم پنجابی بولو میں سمجھ لوں گا کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ میں اردو بولوں گا اور تم سمجھ لوگے چاہے تم پنجابی ہی جانتے ہو گے اردو نہیں جانتے ہوگے۔ ڈچ اور انگریزی بہت قریبی ہیں۔ لیکن Mutually Comprehensible نہیں ہیں۔ تو Mutually Comprehensible ہونا بھی لسانی طور پر کوئی اہم چیز نہیں ہے۔ اگر مان لو کہ برج بولنے والا تمہارے کھڑی بولی سمجھ لیتا ہے ایک بہت مشکل بات یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ گوالیار کا برج بولنے والا مظفر نگر کی کھڑی بولی سمجھ لیتا ہے کہ نہیں۔ مظفر نگر میرٹھ کی بولی میری سمجھ نہیں آتی تو اس کی سمجھ میں کیا آئے گی۔ تو یہ زبانیں بھوج پوری، برج وغیرہ، جو بھی ہوں، کھڑی بولی ہندی کی بولیاں (Dialect) نہیں ہیں۔ اس میں صاف صاف بات یہ ایک طرح سے ہندی سامراجیہ تھا جس کو انگریزوں نے بڑھایا اور جس کو سنہ سینتالیس کے بعد بڑی ترقی لوگوں نے دی اور ہندی ہارٹ لینڈ دیش اور ہندی جاتی اور ہندی صوبہ جیسی اصطلاحیں وجود میں آئیں۔ یہ تو صاف صاف اقدام قتل تھا کہ جن زبانوں میں سات سات، آٹھ، نو نو سو برس سے ادب کی تشکیل ہو رہی تھی ان کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ تو بولیاں ہیں، ان کی ضرورت ہی نہیں۔ اماں یعنی کھڑی بولی ہندی تو موجود ہے، بیٹی کیا کرے گی۔ حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ ماں بیٹی کا کوئی تعلق ان زبانوں میں نہیں ہے۔
سوال: میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جو لوگ ہندی بولتے ہیں یا اردو بولتے ہیں، یا جو ہردوزبانیں بولتے ہیں وہ کئی بار برج نہیں سمجھ پاتے۔ بالکل صحیح بات ہے آپ کی، انہیں بہت دقت ہوتی ہے۔ یہ جو نئی پود ہے، اس کے لیے جائسی کی اودھی سمجھنا تو بہت ہی دشوار ہے۔ کیونکہ وہ بہت ہی ٹھیٹھ اودھی ہے۔ تو پھر اس کو بولی کہنا بڑا عجیب لگتا ہے کہ ہم اس کو سمجھ تو پاتے نہیں، لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ اسی سے ہم نکلے ہیں، یہ عجیب Irony ہے۔
جواب: یہی تو اس میں مزے کی بات ہے۔ اسی لیے ناتسی لیڈر گوبلس (Goebbelas) نے کہاتھا کہ جتنا بڑا جھوٹ بولیں گے، اتنا ہی زیادہ وہ سچا مانا جائے گا۔ ہندی، جدید ہندی، جس کو آلوک رائے نے نیشنل ہندی، ہندی نیشنلزم کے نام سے پکارا ہے، کوئی نام دو، بہرحال، وہ برج اور اودھی سے پرانی نہیں، بعد میں آئی۔ برج اور اودھی پہلے تھیں۔ ہو یہ رہا ہے کہ برج کو اور اودھی کو بیٹی کہا جارہا ہے اور ہندی کو اماں کہا جارہا ہے جو خود بیٹی ہے۔ بیٹی نے اماں کو باہر نکال دیا ہے۔
سوال: فاروقی صاحب آپ ہمیں یہ بتائیے کہ اس میں آپ نے ایک پہلو جو انگریزوں کی سازش ہے اس کی طرف تو بہت ہی زور دے کر اپنی کتاب میں اشارہ کیا لیکن کیا اس کے پیچھے فرقہ وارانہ طاقتوں کا بھی ہاتھ ہے؟
جواب: میں نے اس پر نیلابھ بہت سوچاہے۔ ایسا نہیں ہے کہ۔۔۔ لکھا بھی ہے۔ اس کتاب کو مجھے لکھنے میں پانچ برس لگے اور سوچنے میں اور بھی دن لگے حالانکہ کتاب مشکل سے دو سو صفحے کی ہے۔ دیکھو کمیونلزم وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں دھرم کے نام پر کوئی فرق پیدا کیا جائے۔ اب تو خیر میں بہت دن سے گیا نہیں ہوں، لیکن میں دس برس پہلے تک عام طور پر ہمارے دیہات میں کوئی نیا آدمی جاتا ہو تو اس کا تعارف پوچھتے تھے۔ لیکن یہ کبھی نہیں کہا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ وہ پوچھتے تھے، ’’کون ذات ہو تم؟‘‘ برہمن ہو، چھتری ہو، کائستھ ہو کہ سید ہو کہ پٹھان ہو، ملکی ہو یا شیخ ہو۔ تو ہندو دھرم کہیں آپ، ہندوکلچر کہیں، ہندوفلاسفی کہیں، اس کی یہ بہت ہی بڑی خوبی ہے جو کسی اور کلچرمیں میں نے نہیں دیکھی کہ وہاں کبھی اس کا سوال نہیں اٹھتا کہ آپ کس دھرم کے ماننے والے ہیں؟ وہ دھرم کے معنی لیتے ہیں کہ آپ کا Way of Life کیا ہے؟ جس معنی میں دھرم کو لیا جاتا ہے، تم جانتے ہو کہ دھرم کے جو معنی ہندوفلاسفی میں ہیں وہ Way of Life کے ہیں۔ آپ کا Total World View کیا ہے؟ اس سے مطلب نہیں کہ آپ ویشنو ہیں کہ آپ شوجی کے بھکت ہیں کہ آپ کرشن جی کے ماننے والے ہیں۔ جو اس میں نقصان تھے وہ یہ کہ چار گروپ تھے اور یہ ورن الگ الگ اپنی اپنی دنیا تھے۔ نیچے کے ورن کو مشکل ہی سے جینے کاحق تھا۔ لیکن وہ الگ بات ہے۔ ہندوؤں میں ذات پات کا زہر تھا، لیکن کبھی مذہبی تعصب کا زہر نہیں رہا۔ کمیونلزم اس میں ڈالی گئی۔ اس طرح کہ تمہیں بتا رہا ہوں میں کہ بھارتیندو جیسا آدمی، جو کہ فارسی اردو پڑھ کرکے، مسلمانوں میں اٹھ بیٹھ کے، کھیل کود کے پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہتا ہے کہ صاحب دیکھیے کہ یہ مسلمانوں کے دھرم میں ہے کہ اپنے رسم خط کے ذریعے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ بیس لکھتے ہیں تیس پڑھتے ہیں، لین دین میں ہیرپھیر کرتے ہیں۔ پھر راجندر لال متر نے کہناشروع کیا کہ صاحب دیوناگری تو منو کی زبان ہے، دیوتاؤں کی زبان ہے اور ان کی بانی ہے اس میں۔ اب کیا ہوتا ہے کہ۔۔۔
سوال: فاروقی صاحب اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھائی جائے، آپ نے بھارتیندو کا ذکر کیا، لیکن دوسری طرف اپنی کتاب میں آپ نے شبلی کا کوٹیشن دیا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی قومی زبان ہے۔ یا پھر سرسید جس طرح سوچتے ہیں۔۔۔
جواب: Exactly تو میں اسی پر آرہا ہوں کہ اب کیا ہوگا؟ اب کیا ہو رہا ہے، اب سے میری مراد کہ after this یعنی ۱۸۸۰ء میں جہاں سے کہ ہم شروع کرتے ہیں Modern Literary Historiographyپر اب بھی پہلی اور سب سے مشہورکتاب ’’آب حیات‘‘ ہے، ۱۸۸۰ میں چھپی۔ تم خود جانتے ہو اور میں نے لکھا بھی ہے کہ یہ اتنی بڑی کتاب ہے کہ اردو کا Canon یعنی فہرست استاد بنانا اس کا سب سے بڑا قدم ہے۔ لیکن اس کتاب میں لے دے کے ایک ڈیڑھ ہندو کا نام آتا ہے۔ کیوں بھائی؟ تو صاف بات ہے کہ کیوں؟ There are two things۔ ایک تو یہ کہ لکھنے والے کے دل میں فرقہ وارانہ تعصب ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ہندو کے پاس زبان نہیں ہے، یا ہوگی تو غیر معیاری ہوگی، یا جیسی بھی ہوگی، ہم کا ہے کو کہیں اس کے بارے میں۔ دوسری بات یہ کہ اس سے انگریز نے کہہ دیا کہ دیکھ بے، دھیان رکھنا، یہ زبان تیری ہے۔ اس کو ہندوؤں کے حوالے مت کردینا۔ یا ممکن ہے کہ دونوں باتیں ہوں۔ کچھ تو یہ بھی ہو کہ اچھا ہم ہیں مسلمان، یعنی ہم ہیں، ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں، ادب ہماری میراث ہے، اور ایک تو یہ کہ اچھا صاحب کاحکم بھی ہے کہ اس زبان کو اپنی اور صرف اپنی جانو۔ یعنی چھ سو صفحے کی کتاب میں گھوم پھر کے ڈیڑھ دو ہندو کا نام آتا ہے۔ وہ بھی بالکل مارجن پر آتا ہے۔
اچھا اب دوسری مثال دیکھو۔ حالی جیسا آدمی، جس سے زیادہ بہی خواہ پوری ہندوستانی قوم کا کوئی بھی شاید پیدا نہیں ہوا ہوگا اس زمانے میں، وہ بالکل معصومیت سے کہہ رہا ہے کہ ’’جناب ہندوؤں کی کچھ کلچرل مجبوریاں ہی ایسی ہے کہ وہ معیاری اردو نہیں سیکھ بول پاتے۔‘‘ جب کہ حالی سے کوئی تقریباً ستر اسی برس پہلے ’’دریائے لطافت‘‘ میں انشا actually condemn کر رہے ہیں ان مسلمانوں کو بھی اور ہندوؤں کو بھی، جو دلی کی بولی نہیں بول پاتے ہیں۔ ان کو condemn کر رہے ہیں کہ باہر والا چاہے مسلمان ہو، چاہے ہندو ہو، اس کو کیا پتہ ہے کہ دلی میں کیسی اردو بولی جاتی ہے؟ وہ یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ لکھنؤ میں صرف ان گھروں کی بولی قابل اعتبار ہے جن کے گھر پچاس برس سے کم پرانے ہیں۔ یعنی جو ابھی ابھی دلی سے منتقل ہوکر آئے ہیں۔ اگرچہ انشا نے کہیں کہیں پر چھینٹا مارا ہے کہ ارے وہ ہندو بنئے اردو کیا جانیں، تو یہ تو ذات پات کا معاملہ ہے۔ شروع سے چل رہا ہے۔ تم کو سن کر تعجب ہوگا کہ مسلمانوں کے بڑے بڑے مذہبی علامہ لوگوں نے بھی نام نہاد پچھڑے ہوئے مسلمان پیشہ وروں، جیسے جولاہوں، دھنیوں، بہشتیوں، وغیرہ کے بارے میں شک ظاہر کیا ہے کہ ان میں کوئی عالم بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ لیکن پرانے تذکروں کو دیکھو تو ان میں نام نہاد پچھڑے ہوئے پیشہ ور طبقوں کے درجنوں لوگ نظر آئیں گے، کیا مسلمان اور کیا ہندو، جو اردو کے شاعر تھے۔
لیکن انیسویں صدی کے آخری Quarter میں ہندو مسلم کے درمیان لکیریں صاف صاف بننا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایجوکیشن کمیشن اس میں ہاتھ ڈالتا ہے، اس کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا ہے۔ انگریزوں کا خیال مسلمانوں اور ہندوؤں میں پھیلتا ہے کہ صاحب ہماری بھی کوئی قوم ہوتی ہے، اور ہر قوم کی زبان اور رسم الخط الگ ہونا چاہیے۔ سرسید نے لندن سے ایک خط میں لکھا بھی ہے اس زمانے میں، کہ ہمارے خاص دوست یعنی جے کشن داس جیسے لوگ جو ہیں وہ اب یہ پرچار کرنا چاہتے ہیں کہ صاحب ہماری زبان ہندی ہو اور وہ ناگری میں لکھی جائے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس میں نقصان تو دونوں کا ہوگا اور دونوں سے مجھے پوری محبت ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہندو پھر بھی کچھ کرلے گا۔ مسلمان کچھ نہ کرپائے گا۔ اور تم دیکھتے ہو کہ آج سرسید کی بات سچ ثابت ہو رہی ہے۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان کہہ دیا گیا، لیکن مسلمان اس کی پوری حفاظت نہ کرپائے۔
سوال: میں اب ایک سیدھا سوال پوچھوں کہ اس کے پیچھے اٹھارہ سو ستاون کے غدر کا کچھ ہاتھ ہے؟
جواب: دیکھو، پھر قطع کلام ہوتا ہے، تم اس بات کو بالکل بھول جاؤ۔ ۱۸۰۴ کی ہے میرامن کی کتاب ’’باغ و بہار‘‘ ۱۸۵۷ سے پچاس باون برس پہلے کی ہے۔ اس کے لفظ لفظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اردو کے بارے میں اس میں جان بوجھ کر لکھا گیا ہے۔ وہ شخص یہ تو کہہ رہا ہے میں نے گلکرسٹ صاحب بہادر کے حکم سے اس کتاب کو ’’اردو کی زبان‘‘ (یعنی دہلی کی زبان) میں لکھا ہے، جسے ہندو مسلمان، بوڑھے، بچے، عورتیں مرد سب بولتے ہیں۔ وہ یہ سب لکھتا ہے لیکن نہیں لکھتا تو یہ بات کہ اس زبان کا نام ہندی ہے۔
انگریزوں نے اس بات کو ۱۸۵۷ سے بہت پہلے سمجھ لیا تھا۔ دیکھو وہ جانتے تھے کہ دو صورتیں ہوسکتی ہیں، یا تو یہ کہ پورے ملک کو ایک کردیا جائے اور میں اپنا ڈنڈا بٹھادوں، اس کے اوپر راج کروں۔ تو وہ تو ہو نہیں سکتا ہے۔ Certainly not by the end of the century ٹیپو کو مار کر جنوب کا بڑا علاقہ اپنے ہاتھ میں کرلیا لیکن شمال میں ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ جنوب و مغرب میں اگرچہ مادھوراؤ سندھیا مرچکے ہیں پھر بھی مراٹھوں کا اتنا رعب ہے کہ اٹک سے کٹک تک ان کا نام چل رہا ہے۔ تو وہ جانتے تھے کہ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اتنے بڑے ملک میں اتنے بڑے بڑے لوگوں کو وہ اکٹھا مارسکیں۔ لہٰذا مار نہ سکو تو بانٹو۔ میں تو کہہ رہا ہوں کہ ۱۷۹۸ میں یہ صاحب کہہ رہا ہے گلکرسٹ کہ ایک دن وہ آئے گا جب دو طرح کی زبانیں ہوں گی۔ ایک زبان اردو بولی جائے گی جسے مسلمان بولیں گے، ایک زبان ہندی بولی جائے گی جسے ہندو بولیں گے۔ یہ ستاون سے بہت پہلے کی بات ہے۔
سوال: فاروقی صاحب، جو ہماری نئی بیداری ہے جس کو So called نئی بیداری کہیے، تو ظاہر ہے کہ یہ نئی بیداری کا معاملہ اس پورے حصۂ ملک کا اور ایک خطے کا ایک زبان کا اورایک پورے ادب کا ہے۔ تو اسے آپ اردو کو الگ کرکے تو نہیں دیکھ سکتے۔
جواب: نئی بیداری کا اس سے کیا مطلب بھائی؟ یہ تو ایک بالکل۔۔۔ دیکھو نہ یہ تو چانس کی بات ہے۔ ہر برے کے ساتھ اچھی چیزیں بھی آتی ہیں۔ سرسید نے بہت ساری غلطیاں کیں، لیکن ظاہر بات ہے کہ وہ اگر یونیورسٹی نہ بناتے تو مسلم قوم کو، خاص کرکے ناردرن انڈیا کے ہندومسلمانوں کو، عام طور پر ویسٹرن نالج کے بارے میں بہت کم معلوم ہوتا۔ دیر میں معلوم ہوتا۔ تو وہ چیزیں ویسٹرن نالج سے فائدے میں آئیں ہم کو، وہ ضرور آئیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ویسٹرن نالج کے لانے میں جو ہماری بنیادوں کو ڈھادیا گیا ہے یا کھودیا گیا اس کو ہم کیا کہیں گے کہ ایسا نہیں ہو رہا ہے؟ وہ ہو رہا ہے۔ کئی سال پہلے انسائیکلوپیڈیا آف انڈین لٹریچر کے ایڈیٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ اردو نشاۃ الثانیہ Renaissance in Urdu پر انسائیکلوپیڈیا کے لیے ایک مضمون لکھ دیجیے۔ میں نے کہا کہ میں نہیں لکھوں گا تو کہنے لگے، کیوں۔ تو میں نے کہا Renaissance in Urdu کیا ہوتا ہے؟ کہاں سے ہوتا ہے Renaissance in Urdu؟ آپ تو میری روایتوں کو کھود رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ Renaissance in Urdu ہو رہا ہے۔ رنیسانس کے معنی تو یہ ہوتے ہیں نا کہ جو پرانی سائنس ہے، جو آرٹ ہے، جو فرہنگ ہے، جو فلاسفی ہے، جو پرانے Ideas ہیں ان کو زندہ کیا جاتا ہے۔ کہاں زندہ کر رہے ہیں آپ؟ آپ تو انہیں کونے میں ڈال رہے ہیں۔ اس کی جگہ جو آپ ہم کو پڑھوا رہے ہیں وہ وکٹوریائی سائنس اور سیاست ہے، اور پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان میں Renaissance ہو رہا ہے۔ تو جس چیز کو تم Renaissance کہہ رہے ہو دراصل وہ کچھ نہیں ہے صرف ایک طرح کا Westernization ہے۔ یقیناً اس کے بہت سے فائدے ہیں، میں کہہ رہا ہوں۔ وہ نہ ہوتا تو ہم بھی آج نہ ہوتے، یہاں پر نہ بیٹھے ہوتے۔ لیکن وہ ہمارا Renaissance نہ تھا، اس نام کے ذریعہ ہم کو بہلاوا دیا گیا کہ ہم تمہاری کھوئی ہوئی میراث واپس لا رہے ہیں۔
سوال: ایک دوسری طرح کا Renaissance آپ کو بھارتیندو میں ملتا ہے، جس میں ہندو overtones بھی ہیں، لیکن اگر وہ ہندو overtones نہ ہوتے، اور اپنی آزادی کے لیے ہم جو لڑائی لڑنا چاہتے تھے اس کا جو فہم ہے وہ اگر بغیر ان overtones کے ہوتا تو پھر اس میں صورت دوسری ہوتی شاید۔
جواب: ہاں، مگر ایسا ہوا نہیں نہ، بھائی دیکو، بھارتیندو یا اور جو ان کے ساتھ کے لوگ ہیں، یا جو ان کے ساتھ ہوگئے، جے کشن داس وغیرہ، تو ان کے بڑے آدمی ہونے سے میں انکار نہیں کرتا اور انہوں نے یقیناً ہندوستانی Revival میں کردار ادا کیا۔ اس معنی میں کہ ایک قوم جو بالکل پسی ہوئی تھی، اس کو کہا کہ بھائی، تو اتنی پسی ہوئی نہیں ہے۔ تو کسی سے کم نہیں ہے۔ ترے اندر بھی کچھ کس بل ہے، اس معنی میں اگر لیتے تو یقیناً Revival تھا۔ اس نئی بیداری کے، جیسا میں نے کہا، Positive پہلو تھے اگرچہ یہ Positive پہلو بھی۔۔۔ ان کے پیچھے جو سازش تھی وہ الگ بات، لیکن تھے یہ Positive۔ اس سے میں بالکل انکار نہیں کرتا۔
سوال: اب دیکھیے، آپ نے شیو پرشاد ستارۂ ہند کا ذکر کیا ہے تو ان کا پہلا جھگڑا تو بھارتیندو سے زبان پر ہی ہوا۔
جواب: ہاں ہوا۔
سوال: لیکن بعد میں وہ پھر بدل گئے۔
جواب: ہاں بدل گئے۔
سوال: لیکن ہم کو بھی یہ بہت Ironical لگتا ہے۔
جواب: اس میں Ironical کچھ نہیں ہے۔ یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ جوآدمی کہ بھارتیندو سے جھگڑا ہی اسی بات پر کر رہا ہے کہ ناگری رسم خط اور گاڑھی ’’ہندی‘‘ کی ضرورت نہیں، کل کو وہی آدمی بھارتیندو سے دوقدم آگے نکل جاتا ہے۔ دس برس میں کیسے ایسا ہوگیا بتاؤ؟ اسی لیے ہوا نا کہ دس برس کے اندر اندر پندرہ برس کے اندر اندر ایسی organized ہوا چلی کہ خیالات بدل گئے۔ پھر جیسا کہ آلوک رائے نے کہا ہے اپنی کتاب میں، یہ جو چالاکی انگریزوں نے کی ۱۸۳۵ میں، کہ انہوں نے پہلے فارسی کو گول کردیا اور سارے بہار میں اور بنگال میں اور جس کو اس زمانے میں کہتے تھے بنگال پریسیڈنسی، بہار، بنگال، اڑیسہ، اس میں فارسی کو صاف کردیا۔ نتیجے کے طور پر لاکھوں مسلمان بیکار ہوئے، اس لیے کہ اور کچھ وہ جانتے ہی نہیں تھے۔ بے چارے۔ انگریز نے کہا ہم تو صاحب، آپ کا فائدہ کر رہے ہیں، اور غیرزبان ہٹاکر آپ کو اردو ہندی جو کچھ بھی ہے، وہ دے رہے ہیں۔
پھر ۱۸۹۰ کے آس پاس میک ڈانل (MacDonnell) نے، جس کم بخت کے نام سے سڑک ہے پٹنہ میں، جہاں کہ ہم رہا کرتے تھے، اس نے بہار سے شروع کیا یہ کام، کہ ناگری کو بھی اردو رسم الخط کے ساتھ سرکاری منظوری دلادی۔ تو اب یہ ہوا کہ صاحب اگر آپ ناگری لکھ سکتے ہیں تو آپ بھی سرکاری ملازمت کے لیے eligible ہوسکتے ہیں۔ یہ بہت بڑا ایک لالچ دیا قوم کو، جو قوم ظاہر بات ہے کہ Disfranchize ہوسکی ہے، جس کے پیشے ختم ہوئے ہیں، سلطنت ختم ہوگئی ہے، جس کی گھریلو صنعت اور انڈسٹری ختم ہوچکی ہے، جو کہ اب بھیک مانگنے تک پہنچ رہی ہے اس سے وہ کہہ رہے ہیں کہ ابے تو آٹھویں تک پڑھ لے، تجھ کو فوراً نوکری دے دیں گے، تو منشی بن جائے گا۔۔۔ یہ بہت بڑی چالاکی انہوں نے کی۔ اس کی وجہ سے بھی ایک فرق پیدا ہوا۔ مسلمان شور کر رہا ہے۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ ۱۹۰۱ تک کتنا چلایا مسلمان یہاں کہ صاحب، یہ کیا ہو رہا ہے؟ ہماری نوکریوں میں دوسروں کو حقدار بنایا جارہا ہے۔ پھر ظاہر ہے ہندو نے بھی تیور بدلے کہ مسلمان ہی کیوں؟ اب تو ناگری ہے، ہمارا رسم خط ہے، ہندوؤں کا رسم خط ہے۔ اگر نوکری کے دروازے ناگری جاننے والے پرکھولے جارہے ہیں تو کون سا غضب ہو رہا ہے؟ سرکاری نوکریاں سب مسلمانوں کی تو ہیں نہیں۔ تو ہوا یہ کہ جو چیز چاہتے تھے انگریز وہ Suddenly اپنے آپ ہوگئی کہ دونوں کو Divide کردیا جائے۔
جب مسلمان نے کہا کہ بھائی، چار تو نوکریاں ہیں، اور چار میں ساڑھے تین ہندو ہیں۔ تو ہمیں کیا ملے گا پھر؟ تو وہ چلائے کہ نہیں صاحب، ہم نہیں مانتے، یہ غلط بات ہے۔ اس میں مسلم ہندو کے بیچ تفریق اور پیدا ہوگئی۔ اس لیے میں نے کہا نا کہ دیکھو ۱۸۷۱ میں بھارتیندو نے کہا ہے کہ میری اور میرے گھروالوں کی عورتوں کی زبان اردو ہے۔ مجھے بنارس ونارس کی بولی بالکل نہیں آتی اور ۱۸۸۲ میں وہ یہ کہہ رہے کہ واہ صاحب واہ، ہندی اور ناگری تو دھرم ہے ہمارا۔ یہ تو ہمارا تمدن ہے۔
سوال: اب اگر اس لحاظ سے ہم آج پھر نظر ڈالیں تو یہ دونوں زبانیں جو ہیں، ان میں تضاد جو ہے، وہ بہت بڑھا ہے۔
جواب: بڑھا بھی ہے، نہیں بھی بڑھا ہے، دونوں چیزیں ہیں۔
سوال: دوسری چیز یہ ہے کہ آج جو صورت حال ہے، اس میں بہت سے لوگ مانتے ہیں، یا اس کا خیال ہے کہ بھائی چونکہ اب پاکستان بن گیا ہے اس لیے اب اردو کا معاملہ تو اس کے ذمے رہا۔ باقی اب ہم کو اپنا لے کر چلنا چاہیے۔
جواب: بہت اچھی بات کہی تم نے۔ پاکستان کا ابھی تو خیر نیا Census ہوا نہیں ہے، مگر جو پہلی مردم شماری ہوئی تھی آج سے کوئی بیس برس پہلے اس میں کہا گیا کہ اردو تو مہاجروں کی زبان ہے، پاکستانی زبان ہے ہی نہیں۔ جن لوگوں کو کہ آپ اردو کے جوہر سمجھتے ہیں، جیسے فیض احمد فیض، وہ تو جھنڈا لے کر کھڑے ہوئے تھے کہ ہم اردو نہیں، پنجابی بولتے ہیں۔ فخر زماں جو کہ پنجابی کے بہت بڑے رائیٹر ہیں، ان کا کہا ہوا موجود ہے، بالکل تحریری موجود ہے، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اردو امپیریلزم کو ہم نہیں چلنے دیں گے، ہم پنجابی کو پنپنے دیں گے، اور بڑھائیں گے، یہ اردو کیا چیز ہوتی ہے؟ یہ تو بھیا یہ بھی ایک سیاسی کھلواڑ ہے کہ اردو جانے اور پاکستان۔
سوال: لیکن یہ سیاسی لوگ جو ہیں، جو لوگ اس بات کو کہتے ہیں کہ پاکستان بن گیا اب اردو ان کے حوالے، تو وہ اس کے سینسس کو د یکھتے نہیں۔
جواب: لیکن یہ جو کہہ رہے ہیں جھوٹ کہہ رہے ہیں۔
سوال: تو یہ تو اپنی Political پالیسی ہوئی۔۔۔
جواب: Exactly آخر یہ کس نے کہا، کس نے یہ بات کہی کہ صاحب پاکستان اس لیے بن رہا ہے کہ وہاں اردو بولی جائے گی۔ ارے وہاں کروڑوں بنگالی ہیں، وہاں جو بنگالی بولتا ہے وہ اردو کے خلاف جھگڑا بھی کرتا ہے۔ اردو کی وجہ سے تقسیم ہوگئی ملک کی، تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ پنجابی کا حال تو میں نے بتادیا کہ فخرزماں، جو پنجابی اور اردو کے اتنے بڑے رائیٹر ہیں، ناولسٹ ہیں، شاعر ہیں اور Political ہیں، منسٹر رہ چکے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اردو کی فرقہ پرستی اور سامراجی سازشوں کو نہیں چلنے دیں گے۔ ملتانی اپنی الگ بول رہا ہے۔ سرائیکی والا الگ بول رہا ہے، براہوی والا اپنے بول بول رہا ہے۔۔۔ یہ کوئی نہیں کہہ رہا ہے وہاں کہ بلوچی اور پشتو کو تم چھوڑدو، اردو کو لے لو۔
ہم مسلمان بھائیوں کا حال یہ ہے کہ شروع شروع میں اردو پر اپنی چودھراہٹ جمائی۔ لیکن جب ان کے عقل میں یہ بات آئی کہ ارے، باپ رے باپ، سنہ ۱۹۴۷ میں، یا جب بھی کبھی، یہ دیس آزاد ہوگا تو ملک کی بڑی آبادی تو نان مسلم ہوگئی تو اب یہ بڑا گربڑ ہوجائے گا کہ ہماری زبان کون بولے گا؟ تب جاکر ہم لوگوں نے دھیرے دھیرے پھر یہ کہنا شروع کیا کہ ارے صاحب اردو تو مشترکہ زبان ہے، مشترکہ تہذیب ہے۔ لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ مسلمان یقیناً شریک ہیں، اس سازش میں، اس بے ایمانی میں، اس جھوٹ میں، مسلمان شریک رہا پچاس ساٹھ برس تک اور یہ کہتا رہا کہ صاحب، اردو ہماری زبان ہے۔ ہندوؤں کی زبان نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ اب تک ہم اردو والے بھگت رہے ہیں۔
سوال: یہ بتائیے کہ اس حالت میں ہندی اور اردو کا جو مستقبل ہے اس کا کیا ہوگا؟
جواب: بھائی، مستقبل کا تو مجھے پتہ نہیں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ اب ہندی ایک زبان ہے اور قائم ہو چکی ہے۔ اس وقت ہندی زبان بہت اچھی طرح پھل پھول رہی ہے اور مجھے اس بات کی بہت خوشی بھی ہے اور بلکہ سچ کہوں تو تعجب بھی ہے کہ ہندی میں نثر Prose بہت کم تھی جسے تم آج ہندی گدھیہ کہتے ہو۔ نثر بہت کم تھی اور کسی بھی زبان کے عروج، اور اس کے مقبول ہونے کی پہلی پہچان یہ ہوتی ہے کہ اس میں نثر کتنی ہے؟ اس میں طنز و مزاح کا عنصر کتنا ہے؟ ان تینوں میں ہی بالکل خالی تھے آپ لوگ۔ لیکن پچھلے پچیس تیس برس میں آپ کے وہاں طنز و مزاح اور اچھی نثر کا بہت اچھا لکھنے والا بڑا طبقہ پیدا ہوگیا۔
سوال: فاروقی صاحب، آپ نے تو ہندی کا ایک سنہرا مستقبل دکھایا ہے۔ اور اردو کے مستقبل کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: اردو کا مستقبل پہلے سے بہت اچھا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اب فضا کچھ ہموار ہو رہی ہے۔ تم تو خیر بہت چھوٹے ہو، مجھے وہ دن یاد ہییں، سنہ سینتالیس (۴۷) آتے ہی معلوم ہوا کہ صاحب، اردو تو ہے ہی نہیں یہاں کہیں۔ لوگ اردو بولنے سے ڈرنے لگے۔ ہائی اسکول کے امتحان ہم لوگوں نے انگریزی میں لکھے، اردو ہندوستان سے گئی۔ اور خاص کر کے ہمارے جو بڑے بڑے مہارتھی لوگ تھے، انہوں نے فوراً چھوڑی دی، پروگریسو لوگوں نے فوراً چھوڑی دی، زیادہ تر مولویوں نے چھوڑدی، اپنے بچوں کو ہندی پڑھانے لگے۔ تو ایک زمانہ تو بڑا خراب گزرا۔
بہت آہستہ آہستہ وہ زمانہ بھی بیتا۔ کچھ ہم لوگوں نے، اردو کے اپنے بولنے والوں نے زور لگایا، کچھ اس میں تھوڑا سا مذہبی معاملہ بھی لایا گیا، ارے بھائی مسلمانوں کی تعلیم اس زبان میں بہت پائی جاتی ہے، نماز کون پڑھے گا، اور روزہ کیسے رکھا جائے، یہ سب باتیں اردو میں لکھی ہوئی ہیں، تو اس کو سکھایا جائے۔ تو دینی تعلیمی کونسل نے بلا کسی شور غل کے د یہاتوں میں اسکول کھولے بغیر کسی سے امداد لیے ہوئے۔ آخرکار عام اردو والوں کی بھی سمجھ میں آگیا کہ سرکار سے مانگنے سے کچھ ملتا ولتا نہیں ہے، یہ تو لڑکے ملے گا۔ لیکن وہ بھی بیکار ہے، اگر تم اس کو روک نہ پاؤ۔ اگر مارپیٹ کے لے بھی لیا، لیکن اگر روک نہ پاؤگے تو بے کار رہے گا۔ روکنے کے معنی یہ ہیں کہ اپنے گھروں میں اردو پڑھو اور پڑھاؤ۔ اب پہلے سے فرق پڑگیا ہے۔
ایک بالکل ذاتی بات بتانا چاہتا ہوں۔ دیکھو ہم لوگ دونوں طرف سے بہت ہی پرانے، عالم، بہت ہی پڑھے لکھے مولانا، فارسی عربی اردو کے بڑے لوگوں کی فیملی کے ہیں۔ میرے باپ، ظاہر ہے کہ فارسی خوب جانتے تھے، اردو خوب جانتے تھے، عربی جانتے تھے۔ انگلش تو جانتے ہی تھے۔ ہم کو انہوں نے بتایا کہ فارسی اور اردو وغیرہ گھر میں پڑھا کرو۔ تو اسکول جانے سے پہلے ہم لوگوں نے گھر پر پڑھی۔ عربی تھوڑی ہی میں نے خود سیکھی۔ مجھے خوب اردو آتی ہے۔ میں نے سنہ ۱۹۴۹ میں ہائی اسکول پاس کیا تھا۔ جو میرا چھوٹا بھائی ہے، پانچ سال چھوٹا ہے وہ بھی اردو پڑھ لکھ لیتا ہے بہت اچھی طرح سے۔ جو بیچ کے تین بھائی اس کے بعد کے ہیں وہ اردو پڑھ لکھ تو لیتے ہیں لیکن اس میں Competent نہیں ہیں۔ وہ غالب اور اقبال کا شعر explain نہیں کرسکتے۔ پھر میرے آخری دو بھائی جو ہیں، وہ پھر کچھ ٹھیک سے اردو پڑھ لیتے ہیں، ایک کو فارسی بھی آتی ہے۔ اس طرح سے فرق پڑا ہے، ایسے گھرانے میں جس میں کہ اردو کے بارے میں خیال تھا کہ یہ تو گھر کی لونڈی ہے جی، گھر بیٹھے پڑھو۔ اسکول میں انگریزی پڑھو، تم کو افسر بننا ہے۔ اس گھر میں یہ ہوا کہ میرے تیسرے اور چوتھے سگے بھائی جو آج دونوں بڑے بڑے افسر ہیں دونوں آئی اے ایس میں ہیں، وہ بالکل اسکولی بچوں کی سطح کی اردو پڑھتے لکھتے بولتے ہیں۔ غالب اور اقبال تو نہیں آتا، ہماری کہانیاں پڑھ لیتے ہیں۔ یہ ضرور بات ہے کہ ہماری جب بھی کہانی چھپتی ہے وہ پڑھ لیتے ہیں۔ یہ فرق پڑا ہے۔ جو میرے فوراً بعد کا ہے، وہ پی سی ایس میں تھا۔ اردو خوب جانتا ہے جو بالکل بعد کے ہیں وہ بھی خوب جانتے ہیں۔ بیچ میں ذرا خالی ہے۔ اس روداد کے آئینے میں تم اردو کاحال کچھ دیکھ سکتے ہو۔
ہاں، جو نسل میرے بعد کی ہے، یعنی ہمارے بیٹیاں بیٹے، تو ان سب کو اردو آتی ہے، کسی کو بہت کم، کسی کو خوب اچھی طرح۔ یہ ان کے والدین کی دلچسپی پر منحصر ہے۔
سوال: اچھا اب میں ذرا سا زبان سے ہٹ کر ادب کی طرف آؤں تو اگر ہم یہاں سے شروع کریں کہ اردو میں آج بھی پابند شاعری پر بہت زور ہے تو آخر کچھ تو وجہیں ہوں گی کہ اس میں فارم کے لحاظ سے بہت تجربے نہیں کیے گئے؟
جواب: نہیں۔ پابند شاعری پر زور ایسا نہیں ہے کہ کوئی آدمی پابند شاعری نہ کرے تو اس کو لوگ شاعر نہ مانیں۔ پانچ کو میں اپنے زمانے کے بڑے شاعروں میں مانتا ہوں جدید شعرا میں۔ فیض صاحب نے بہت آزاد نظم لکھی ہے۔ راشد صاحب نے تو کبھی پابند نظم یا غزل بھولے سے شاید ہی کہی ہو، میراجی نے دونوں طرف کام کیا ہے۔ گیت بھی لکھا ہے، غزل بھی لکھی ہے، فری ورس بھی لکھی ہے۔ مجید امجد نے بہت کم غزل لکھی ہے۔ زیادہ تر انہوں نے فری ورس لکھی ہے۔ اخترالایمان نے صرف نظم کہی، کچھ پابند کچھ آزاد۔
تو ایسا تو نہیں ہے کہ اردو میں تجربے نہیں ہوئے۔ بلکہ اگر صحیح بات پوچھو تو، معرا کہو، کچھ بھی اس کا نام دو، فری ورس کہو، یا اس کو بلیک ورس کہو، تینوں ایک طرح کی چیزیں ہیں، پروز پوئم کہو تو یہ چوتھی چیز ہے۔ ان سب کی ہسٹری اردو میں کم سے کم سوبرس پرانی ہے۔۔۔ لیکن جو بات کھڑی بولی میں ہے، جس میں ہندی بھی شامل ہے کہ کھڑی میں تم پنگل لگاکر کے ایسی لائن بناسکتے ہو جو وزن میں ہو لیکن جسے کسی میٹر یعنی بحر میں آپ بیان نہ کرسکیں کہ صاحب یہ سویا ہے، یہ دوہا ہے، یہ کوت ہے۔ اردو میں یہ Possible نہیں، کیونکہ اردو میں پنگل اتنا لگتا نہیں ہے۔ پنگل کو کھڑی پر لگاکر کے تم لوگوں نے ایک نئی چیز گڑھ لی ہے ورنہ اردو میں اگر پنگل کے مطابق پڑھا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ آپ بگڑی ہوئی پروز پڑھ رہے ہیں۔ مگر یہ ایک بات ہے کہ کھڑی (یعنی اردو) کی خوبصورتی یا کمزوری یہ ہے کہ کوئی لائن اس کی نان میٹریکل (Non-metrical) ہوسکتی ہی نہیں ہے۔ انگریزی میں ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ایسی لائن جو Totally Free ہو یعنی جو موزوں ہو لیکن کسی بحر میں نہ ہو، یہ اردو میں ممکن نہیں ہے۔ That’s all.
سوال: لیکن اب جیسے ہندی میں تو شاعری تقریباً پروز کے نزدیک پہنچ گئی ہے۔۔۔
جواب: پہنچ گئی تھی، اردو میں بھی۔ بہت کچھ لکھا گیا۔ اردو میں جدید شعرا نے سب سے پہلے تو سب سے پہلے تو نہیں خیر، ہاں سب سے پہلے زیادہ Prominent سجاد ظہیر نے لکھا ہے۔ انہوں نے پورا ایک مجموعہ بنایا ’’پگھلا نیلم‘‘ نام کا ۱۹۶۴ء میں، جس میں زیادہ تر شاعری پروز میں تھی، تو پروز پوئم یہاں بالکل Well established ہے۔ اگرچہ میں اس کی بہت امید نہیں کرتا کہ یہاں چلے گی بہت دنوں تک۔ اردو میں تو اردو کا Rhythm چاہتا ہے کہ اس میں ایک طرح کا اٹھان اور بہاؤ ہو۔ بلکہ میں نے پروز پوئم کے فیور میں سب سے پہلا پیپر لکھا تھا، آج سے کوئی چالیس سال پہلے۔ اور میں نے یہ کہا تھا کہ پروز کی پوئم کا جو یونٹ ہوتا ہے وہ پیراگراف ہوتا ہے اور جو Metrical Poem ہے، اس کا یونٹ ایک مصرع ہوتا ہے اور جس طرح سے مصرعے کی Rhythm کو آپ دہراسکتے ہیں، اسی طرح نثری نظم کے پیراگراف کے آہنگ کو آپ دوسرے پیراگراف میں دہراسکتے ہیں۔ لیکن ہماری زبان کی کشش وزن اور بحر کی طرف ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں جتنی ہماری کہاوتیں ہیں سب وزن میں ہیں۔ کہیں سے کھینچ کر لائیے۔ ’’اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئی کھیت۔‘‘ اب دیکھو اس میں دونوں ملا ہوا ہے۔ اس میں اودھی اور کھڑی ملی ہوئی ہے لیکن جو لفظ آیا ہے میٹر میں آیا ہے۔
سوال: لیکن اب جیسے فیض ہیں فیض کی وہ جو نظم ہے جو نثر جیسی لگتی ہے لیکن اس میں بھی ایک لے ہے۔ ’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیرہ سحر‘‘، تو اس میں بالکل ایک لے سی آپ کو۔۔۔
جواب: ہاں، لیکن یہ تو Purely metrical ہے۔
سوال: لیکن آگے چل کر ہندی میں یہ تو بہت ہی حدتک ٹوٹ گیا ہے۔
جواب: ہاں، ہندی میں ٹوٹ گیا ہے۔ لیکن تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہندی میں اس کا بہت اچھا اثر بھی نہیں پڑا ہے۔ اب ایسے لوگ بھی ہیں کہہ رہے ہیں کہ ارے بھائی میٹریکل تو کہہ کر دکھاؤ، پھر نثری نظم لکھنا۔
سوال: چھندوں کی واپسی۔
جواب: ہاں چھندوں کی واپسی۔ کل ہی کی تو بات ہے، جب ماڈرن پینٹنگ شروع ہوئی جس کو کہ ایبسٹریکٹ پینٹنگ Abstract Painting کہا جاتا ہے۔ اس وقت Abstract Painting والے صاف صاف کہا کرتے تھے کہ پہلے لکیر کھینچنا سیکھو۔ تو ایسا ہی ہم بھی کہتے ہیں کہ پہلے چھند میں کہنا سیکھو، تب بغیر چھند کی بات کرو۔ اگر چھند کا سینس نہیں ہے دماغ میں تو تم چھند سے بری کیسے ہوسکتے ہو؟
سوال: فاروقی صاحب، اس سلسلہ میں ایک اور چیز نظر آتی ہے۔ آپ ہندی اور اردو دونوں ادب سے واقف ہیں تو آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے کہ اردو تو آج بھی اپنی بولی کی روایت پر قائم ہے کہ بھائی جو ہم لکھ رہے ہیں وہی ہم پڑھ رہے ہیں۔ مثلاً شعر کے لیے ’’کہنا‘‘ ہی کہا جاتا ہے لیکن ہندی تو بول چال اور تحریری زبان، یہ دو فرق ہوتے چلے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تو کوی سمیلن اور اس طرح کے پلیٹ فارم کی شاعری ہوگئی، اور دوسری طرف وہ شاعری جو کتابوں میں چھپی ہوئی ہے۔ پتہ چلا کہ نظم میں دو بھید ہوگئے۔ پڑھنے والے اور سننے والے ہیں۔ قاری ہیں اور سامعین ہیں۔ تو اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: اس میں ہندی کی بڑی کمزوری ہے۔ اور جو تم نے شروع میں بات پوچھی اور جو میں کہنے والا تھا کہ نثرکی جو ترقی ہندی میں ہوئی ہے۔ یہ بڑی اچھی چیز ہے کہ شاید وہی اس کمزوری کو دور کردے۔ وہ کمزوری ہی ہے کہ اردو میں چاہے اسے اچھا کہیں یا برا کہیں، میں تو ایک حدتک اس کو برا بھی مانتا ہوں، اردو میں یہ اچھائی ضرور تھی کہ Standard Literary Language کا ایک National Norm ہے۔ بولنے میں بہاری کچھ بولے گا، پنجابی کچھ بولے گا، دکن والا کچھ بولے گا، میسوری کچھ بولے گا، مراٹھی کچھ بولے گا، ہم تم کچھ بولیں گے، لیکن اردو جب لکھی جائے گی تو کوئی لکھنے والا اس Standard Literary Language سے بہت زیادہ انحراف نہیں کرے گا۔ تھوڑا بہت کرے گا، بہت زیادہ نہیں کرے گا۔ ہندی میں ابھی یہ بات نہیں ہے۔ وہاں ایسے لفظ ہم سنتے ہیں کہ ہم کو ہنسی آتی ہے۔ کسی کو مہاویر چکر دیا جارہا ہے تو اس کو کہا جارہا ہے کہ ’’وہ گھس پیٹھیوں کی چپیٹ میں آگئے‘‘ تو ہم کو ہنسی آنے لگتی ہے کہ اس طرح کا جملہ ہماری Standard Literary Language میں بالکل نہیں ہے۔ جدید ہندی کی ایک بڑی کمزوری ہے کہ اس میں Standard Literary Language ابھی تک بن نہیں پائی۔ بنتے بھی ہیں تو وہ چلے جاتے ہیں سنسکرت میں۔ جو ہے نہیں، کبھی بھی نہیں تھی۔ نہیں بنتے ہیں تو ’’چپیٹ کھاجاتے ہیں‘‘ جیسا فقرہ بول دیاتے ہیں جو مذاقیہ معلوم ہوتا ہے، چاہے گھور گمبھیر موقعے کے لیے کیوں نہ کہا گیا ہو۔ تو ہندی والوں کو بے شک کسی طرح کا کوئی طریقہ اپنانا چاہیے کہ کوئی ایسا نیشنل نارم National Norm ہو جس کے مقابل رکھ کرکے ہم دیکھ سکیں کہ کوئی جملہ ہندی ہے کہ نہیں۔ جیسے ’’کھڑا میں رہا‘‘، کون سی ہندی ہے بھائی، لیکن ہندی نثر یا شاعری میں آپ کو جگہ جگہ مل جائے گا۔ لفظوں کی ترتیب بدل کر بولنا اردو/کھڑی بولی ایک بڑا Powerful element ہے۔ اور اس سے جو پاور حاصل ہوتاہے اس کے بارے میں یہاں دوسو برس سے لوگ لکھ رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں۔ انگریزی والے بھی اب جاکر سمجھ پائے ہیں۔ لیکن اس کی بنیادی بات ہے کہ قاعدے نہیں ہیں، پرکھوں کے چلن اور اپنے good sense پر بھروسا کرنا پڑتا ہے۔ ’’رہا میں کھڑا‘‘ اردو میں کبھی نہیں بولا یا لکھا جائے گا۔ ہندی میں ایسی بات ابھی نہیں آئی ہے۔
سوال: یہ بتائیے کہ اس کے پیچھے استادوں کی جو روایت رہی ہے وہ اردو میں تو بہت مضبوط رہی ہے اور ہندی میں نہیں رہی تو اسے آپ کس نظریے سے دیکھتے ہیں؟
جواب: ہندی میں اس لیے نہیں رہی ہے کہ ہندی میں شاعر کہاں تھے؟ شاعر تو اب پیدا ہوئے ہیں تمہارے یہاں کھڑی بولی میں۔ پہلے تو زبانی ہی شاعری ہوا کرتی تھی۔ استادوں کی روایت کو میں نے دونوں طرح سے دیکھاہے۔ تعریف بھی کی ہے برائی بھی کی ہے۔ برائی میں نے یہ کی ہے کہ ان لوگوں نے اپنے اوپر یہ اوڑھ لیا کہ صاحب زبان کو ریگولیٹ Regulate ہم کریں گے۔ یہ ان کا اختیار نہ تھا۔ وہ زبان سے سیکھتے ہیں زبان ان سے نہیں سیکھتی ہے۔ یہ انہوں نے بڑی زیادتی کی کہ خود کو زبان کا مالک اور زبان کو اپنے گھر کی لونڈی تصور کیا۔ اس کے نتیجہ میں اردو کا بہت گھاٹا ہوا۔ اور اب بھی گھاٹا ہو رہا ہے۔
مگر انہوں نے اچھا کام یہ کیا کہ جو زبان انہوں نے حاصل کی تھی اپنے فوری ماحول سے کہ عورتیں ایسے بولتی ہیں، دوکان دار ایسے بولتا ہے، مولوی ایسے بولتا ہے، فلاسفر ایسے بولتا ہے اور ان کے کیا کیا حدود ہیں، کیا کیا ان کے دائرے ہیں، وغیرہ۔ وہ سب انہوں نے اپنے شاگردوں کو زبانی تعلیم کردیے۔ اب تم کو میرے پاس اٹھتے بیٹھتے پچیس تیس سال ہو رہے ہیں، تم سے میرے مرنے کے بعد کوئی پوچھے گا تو تم کہہ سکوگے کہ فاروقی صاحب فلاں لفظ نہیں بولتے تھے۔ لیکن میں نے تم سے کبھی کہا نہیں کہ فلاں لفظ مت بولنا۔ بس یہ ہے کہ تم نے لاشعوری طور پر نوٹ کرلیا کہ فاروقی صاحب یہ لفظ نہیں بولتے تھے۔ یہ بہت بڑی چیز تھی اورل Oral لین دین کی۔ استاد نے شاگرد کو اپنا علم اور سلیقہ عملاً پہنچایا، کتاب یا کلاس میں سکھایا نہیں۔ اور اس کلچر میں یہ تھا کہ استاد سے جو مل رہا ہے وہ مشکوک نہیں سمجھا جائے گا۔ اس کی ایک حکایت شاید میں نے لکھی بھی ہے، یا نہیں لکھی ہے لیکن میں سنادیتا ہوں۔ ناسخ کے پاس ایک صاحب گئے کہ سرکار، فلاں لفظ اس طرح ہے کہ ایسے ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اس طرح سے ہے۔ تو پوچھنے والے نے کہا کہ سرکار ذرا غور کرلیں کتاب میں تو اس کو ایسے ہی لکھا ہے۔ ناسخ ڈنڈا اٹھاکر کہنے لگے کہ ابے کتاب دیکھتے دیکھتے ہم خود کتاب ہوگئے ہیں بھاگ یہاں سے۔ تو وہ تصور ہی نہیں تھا کہ استاد کی بات کو معرض سوال میں لایا جائے۔ جو مل گیا ہے اس کو لے لینا چاہیے۔ اس میں خرابیاں بھی ہوں گی لیکن اچھائیاں بھی ہوں گی ہی۔ جیسا میں نے کہا نا کہ ایک بہت بڑا نوشنل Notional معیار بن گیا ہے کہ اردو اس کے باہر نہیں ہوگی۔
میر کے پاس ایک صاحب گئے قمرالدین منت، سید آدمی تھے، بڑے اچھے گھرانے کے تھے، رہنے والے مگر نارنول کے تھے۔ تو وہ میر کے پاس گئے کہ صاحب شاگرد بنالیجیے ہمیں۔ میر صاحب نے کہا اچھا کیا نام ہے اور ذات کیا ہے اور کہاں کے رہنے والے ہیں؟ جب قمرالدین منت نے بتایا کہ نارنول کا ہوں، تو میر نے کہا کہ چھوڑئیے، اپنی فارسی وارسی کہہ لیا کیجیے، اردو کی زبان آپ کے بس کی نہیں ہے۔ اردو کی زبان یعنی دہلی کی زبان جس کو ان دنوں ہندی کہتے تھے۔ یعنی اردو والوں نے ایک معیار بنالیا تھا، جو کچھ اس کے باہر ہے، وہ ہوگا بڑا اچھا، بڑا پیارا۔ عربی ہو، فارسی ہو، چائنیز ہو، ہوگا اپنی جگہ لیکن وہ ہماری زبان نہیں ہے۔
سوال: آپ نے اپنی کسی کتاب میں ایک جگہ پریم چند کا حوالہ دیا ہے۔ پریم چند تاریخی نقطہ نظر سے بھی اہم ہیں اور ویسے بہت سے عالم فاضل لوگوں کی بہ نسبت اردو کی جانکاری انہیں زیادہ تھی۔ اب یہ دیکھیے کہ پریم چند کی روایت ہے، جسے ہم کہیں گے Grounded in Urdu۔ لیکن ۴۷ کے بعد کا جو ہندی کا کہانی ادب ہے وہ basically ہندو ایتھاس (Ethos) اور ہندو تہذیب کا ادب ہے۔ بہت سے لکھنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ بھائی ہمیں جس چیز کی جانکاری نہیں ہے اس کے بارے میں کیسے لکھیں؟ لیکن یہ جو پورا ایک طرح کا divide پیدا ہوا ہے نہ صرف اس بات کے لحاظ سے کہ ہندی ناولوں میں مسلم کردار نہیں ہیں یا مسلم ماحول نہیں ہے، بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ پوری زبان جو ناول میں لکھی جارہی ہے وہ سنسکرت زدہ اور دقیق ہندی ہے جو کہ عام طور پر فکشن کی زبان نہیں مانی گئی ہے۔ تو اس کو آپ کس طور پر دیکھتے ہیں؟
جواب: ٹھیک ہے، میں اس کو بہت برا سمجھتا ہوں۔ اور دیکھو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہم جانتے نہیں تو لکھیں کیسے۔ جانتے تو خوب ہیں لیکن یہ ہے کہ ہندی میں، یا جو جدید ہندی کہا جائے یا جو بھی کہا جائے اس کو جسے کہ آلوک نے ہندی نیشنلزم کے نام سے پکارا ہے، تو ہندی نیشنلزم نے ایک سوچا سمجھا موقف اختیار کیا کہ ہم تو ہندی ہندو ہندوستانی یہی تین چیزیں جانتے ہیں۔ ہندوستانی کے برابر ہندو، ہندو کے برابر ہندی۔ تو ہندو کے باہر ہندی نہیں ہے۔ ورنہ اردو میں تم دیکھتے ہو کہ اشک صاحب نے مجھے یاد ہے کہ ان کا جو پہلا ناول تھا، ’’ستاروں کے کھیل‘‘ اسے پڑھ کر اتنا میرے دل پر اثر ہوا کہ آج پچاس برس سے زیادہ ہوگئے اسے پڑھے ہوئے، وہ اب بھی باقی ہے۔ اس میں سب ہندو کیریکٹر تھے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا کہ اردو میں ہندو کیوں لکھ رہا ہے۔ بھائی تھا یہ کہ جتنے پنجاب کے لکھنے والے ہیں، ان میں جو لوگ اردو کے تھے انہوں نے وہاں کے بارے میں لکھا۔ بہار کے اردو والے نے بہار کے بارے میں لکھا۔ سہیل عظیم آبادی نے، اختر اورینوی نے جو لکھا اس میں ہزاروں سیکڑوں ہندو گھوم رہے ہیں۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ تم اردو میں ہندو کو کیوں لکھ رہے ہو بھائی۔ تو اگر آج کے ہندی رائیٹر نے ایک سوچی سمجھی پوزیشن کے طور پر اس کو اختیار نہیں کیا تو اور کیا کیا؟ ظاہر ہے کہ کوئی مجبوری نہ تھی، اور نہ ہی روایت ان کے خلاف ہے۔
سوال: میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ میں نے جب یہ سوال لوگوں سے کیا تو وہ کہنے لگے کہ واہ واہ صاحب ہے کیوں نہیں، ہندی ناول میں مسلمانوں کی بات ضرور ہے۔ ’’سات آسمان‘‘ دیکھیے، ’’آدھا گاؤں‘‘ دیکھیے۔ لیکن کس نے لکھا ہے یہ سب؟ وہ میں نے کہا کہ بھائی یہ تو اصغر وجاہت نے لکھا، راہی معصوم رضا نے لکھا، عبدل بسم اللہ نے لکھا، مطلب یہ کہ آپ نے مسلم کلچر کی عکاسی کا جو فریضہ ہے، وہ مسلمانوں کے حوالے کردیا۔
جواب: بے شک، بھلے ہی وہ ہندی میں لکھ رہے ہوں۔ لیکن ہیں تو مسلمان۔ باقی جو ہندی ناول آرہے ہیں، ہندی فکشن آرہا ہے، چھوٹی کہانیاں آرہی ہیں ان میں مسلمان کلچر غائب ملتا ہے۔ نہ صرف غائب ملتا ہے بلکہ زبان کے لحاظ سے۔۔۔ جو زبان کئی لوگ لکھ رہے ہیں فکشن میں، اسے دقیق اور سنسکرت زدہ کر رہے ہیں، یہ تو صاف ہی ہے اور اس کو تو چھپا ہی نہیں سکتے۔
سوال: بالکل، اس میں چھپانے کا سوال نہیں ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ یہ سب سے بڑا دکھ ہے کہ بابا آپ آج بھی پریم چند کو مان کر چلتے ہیں، لیکن آپ نے ان کے سارے اصولوں کو طاق پر رکھ دیا ہے۔
جواب: ہاں، مان کر چلتے ہیں، بالکل۔ آپ نے ان کی پوری جو فلاسفی ہے نثر بنانے کی، اس کو آپ نے بند کرکے رکھ دیا کونے میں کہ صاحب آنکھ سے لگالیں گے، منہ سے چوم لیں گے لیکن پڑھیں وڑھیں گے اس کو نہیں۔۔۔
مگر مجھے جو بات اچھی لگی، ادھر کے ہندی لوگوں کو میں نے دیکھا، نام تو خیر یاد نہیں ہے، نام لینا بھی ٹھیک نہیں ہے، ورنہ کہیں گے کہ فلاں کا نام نہیں لیا صاحب اور فلاں کانام لیا۔ بہرحال، اچھی بات یہ ہے کہ ڈائرکٹ اردو کی مین لائن، یعنی کھڑی بولی، اس کی پٹ نئے ہندی فکشن میں بہت آرہی ہے۔ بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ کچھ ایسے بھی لفظ ہیں جو اردو والے ذرا گھبرانے لگے ہیں کہ ارے بھائی، یہ ذرا پرانا لفظ ہوگیا، لیکن جو ہمارے ہندی کے جو نئے لکھنے والے ہیں وہ ان لفظوں کو برت رہے ہیں۔ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ ابھی جو ملا جلا معاشرہ یا مسلمان معاشرہ ٹھیک سے نہیں آیا ہے ہندی فکشن میں، تو کچھ لوگوں کے یہاں میں نے دیکھا ہے کہ تھوڑا بہت آیا بھی ہے۔ ٹھیک سے نہیں آیا ہے، وہ تو میرے خیال میں اگلا قدم ہوگا۔ پہلا قدم تو یہی ہے کہ تم زبان کو Imbibe کرو، یعنی جس زبان میں وہ کلچر پھل پھول رہا ہے اس زبان کو اپنے اندر جذب کرو۔ پھر اس کے بعد اس کلچر کے Practitioners کو Imbibe کرو۔ تو یہ ہوجانا چاہیے۔ اگر نہیں ہوتاہے تو یقیناً یہ ہندی کے لیے بہت بڑی کالی گھٹا ہے تباہی کی۔
سوال: آپ نے اپنی ذاتی مثال سے تو ایک بات کہی، جو آپ نے اپنے بھائیوں کا ذکر کیا، تو ہوسکتا ہے کہ آپ یہ جو تبدیلی د یکھ رہے ہیں ہندی کے لکھنے والوں میں کافی اردو کے الفاظ آنے لگے تو شاید یہ وہی تبدیلی ہے جس کے تحت آپ کے سب سے چھوٹے بھائی ہیں وہ اردو سیکھ گئے ہیں۔
جواب: ایک اور بات بھی ہے۔ میرے گھر میں اردو سب جانتے ہیں لیکن یہ ہے کہ کوالٹی کا فرق ہے Competence کا فرق ہے۔ ہندی کا جدید لکھنے والا خاص کر کے اس بات کو سمجھ گیا ہے کہ ہندی ہے کھڑی بولی اور کھڑی بولی کا خزانہ ہے اردو۔ تو اردو سے کٹ کرکے ہندی چلے گی نہیں، چاہے جیسے ہی تم اس کو لاؤ۔ چاہے تم اس کو ناگری میں لکھو، چاہے تم اس کو چائینیز میں لکھو، لیکن یہ ہے کہ اردو سے کٹ کر ہندی کی کوئی ترقی جس طرح سے تم چاہتے ہو ویسی نہیں ہوگی۔ پھر وہی جھگڑے پیدا ہوجائیں گے کہ اس میں اودھی کتنی ہے، ماگدھی کتنی ہے، راجستھانی کتنی ہے اور پوربی کتنی ہے۔ اس لیے کھڑی بولی کی ہی بنیاد پر چلیں گے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑی اچھی ڈسکوری ہندی کے نئے لکھنے والوں نے کی ہے۔۔
سوال: میرا خیال ہے کہ زبانوں کا استعمال عام طور پر لوگوں کو جوڑنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ ایک ٹریجیڈی ہی کہی جائے گی کہ اس خطے میں زبانوں کا استعمال لوگوں کو توڑنے کے لیے، تفرقہ پیدا کرنے کے لیے ہوا ہے۔ تو اگر ہم آپ سے پوچھیں کہ آپ تو مدیر ہیں، ادیب ہیں، شاعر بھی ہیں، بہت سی چیزوں کو آگے بڑھ کر کے دیکھتے ہیں، زبان پر بھی سوچتے ہیں، تو آگے ایسے کون سے قدم ہو سکتے ہیں جن سے یہ گڑبڑی دور ہوسکے؟
جواب: سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم وہی کریں جو کہ تمام دنیا میں اب ہو رہا ہے، جھک مارکر ہو رہا ہے۔ بھائی جب تم دیکھ رہے ہو کہ اردو پڑھانے کے لیے یو۔ کے۔ کی گورنمنٹ پیسہ دے رہی ہے لوگوں کو کہ بھائی اردو پڑھ لے، پیسہ لے لے مجھ سے۔ ولش زبانوں کو، اسکاٹش زبان کو، وہ زبانیں کہ بالکل گھروں میں بند ہوکر رہ گئی تھیں، ان کے بولنے والے کم ہوتے جارہے تھے، تو ان کو ترقی دی جارہی ہے۔ آئرلینڈ میں گیلک کو، کناڈا میں تو ہر طرح کی زبان کو پیسہ دے رہے ہیں کہ لو میاں اپنی زبان پڑھو۔ تو دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ یہ جو Multiculturalism ہے، Multilingualism ہے وہ اچھی چیز ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہے کہ سب اچھا ہے جی، کہ ہاں بھائی آپ بھی ٹھیک ہیں جی، اور آپ بھی ٹھیک۔ چائنیز بھی اچھی ہو، جاپانی بھی اچھی ہو، سندھی بھی اچھی ہو اور ہندی اچھی ہے، ہندی اچھی ہے تو فارسی اچھی ہے، وغیرہ۔ ایک کی اچھائی سے دوسری کی اچھائی پیدا ہوتی ہے۔ وہ سمجھ گئے ہیں اس بات کو۔ اور اگر ہمارے ملک میں یہ نہ کیا گیا، اگر ہمارے ملک میں ان چھوٹی چھوٹی زبانوں کو جنہیں ہم نے بولی کہہ کر ڈال دیا ہے کونے میں، بہار دیا ہے، جھاڑو دے کر نکال دیا ہے، ان کو اگر ہم نے actively promote نہیں کیا، چاہے ہم ان کو ڈرامے میں کریں، چاہے ہم ان کو سانگ میں کریں، چاہے ہم ان کو تحریر میں کریں، چاہے جیسے کریں، اگر یہ تم نے نہیں کیا تو یقیناً یہ جو تقسیم ہے اور جو پہلے سے چلی آرہی ہے، وہ بڑھے گی۔
ان کے دل میں اب کیا ہے یہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن ۱۵سال پہلے جب میں بہار میں تھا تو، بہار کے بھوج پوری اور ماگدھی وغیرہ بولنے والوں میں کھڑی بولی ہندی کے خلاف بہت ہی Strong resentment تھا کہ صاحب یہ ہمارے اوپر کہاں سے آگئی۔ اور آج جو مانگ کر رہے ہیں بھوجپوری والے اور لوگ وہی مانگ کریں گے۔ اچھا دیکھو پھر ہو کیا رہا ہے۔ ایک چیز ہے جو کہ مشترک ہے، Natural Resource میں اور زبان میں، وہ یہ کہ یہ دونوں مرتے بہت جلدی جلدی ہیں۔ اب اس وقت اس دنیا میں کوئی پانچ ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جب کہ ایک زمانے میں کوئی تیس ہزار زبانیں رہی ہوں گی۔ ہمارے ملک میں دو سو بائیس زبانیں رجسٹرڈ اور سرکاری طور پر متعارف تھیں۔ گریرسن کے زمانے سے اب کم ہوتے ہوتے ۱۶۰ کے قریب رہ گئیں۔ کچھ کے بولنے والے پانچ یا چھ ہی رہ گئے ہیں۔ تو ایک بہت بڑا Resource آئیڈیا کا، کانسپٹ کا، تخیل کا، جو کہ زبان کے ذریعہ ہم کو حاصل ہے، وہ ہم گنواتے چلے جارہے ہیں۔ اب دیکھو، ’’مار گوری نجریا چٹک جائے بدری‘‘، یہ کھڑی میں نہیں کہہ سکتے ہو۔ چاہے آپ کہیں کہ صاحب کہ یہ کیا گنوار پن ہے، ’’نجریا‘‘ کہہ رہاہے بجائے ’’نظر‘‘ کہنے کے، لیکن یہ کہ اس میں جو خوبصورتی ہے نجریا میں، اور گورے مکھڑے اور کالی بدلی میں اور بجلی کی چمک سے بادل نہیں بلکہ بدری کے پھٹ جانے نہیں بلکہ چٹک جانے میں۔ یہ سب تم گنوادو گے۔ اگر تم بھوجپوری کو پرموٹ نہیں کروگے تو یہ نکل جائے گا ہاتھ سے۔
سوال: یہ تقریباً ویسے ہی ہے جیسے مارے نظریا کے تیر، کوئی نہیں کہے گا۔
جواب: نہیں، کوئی نہیں کہے گا۔ بالکل صحیح بات ہے۔ ابھی تو، معاف کرنا، ہندی امپیریلزم کا نشہ لوگوں میں ہے اور اس وجہ سے وہ لوگ یا تو گھبرا رہے ہیں یا سمجھ رہے ہیں کہ ہم پیس لیں گے ان کو، اور دبالیں گے ان کو۔ یہ ہندی صوبہ ہے، یہ ہندی ہارٹ لینڈ ہے، ہندی جات ہے، اور پتہ نہیں جانے کیا کیا ہے۔ لیکن جو نقصان اس کا ہوگا وہ سامنے ہے۔ اور ایک تو نقصان تم خود دیکھ رہے ہو کہ جو تم کہتے ہو کہ جائسی کی اودھی پڑھنے والا کوئی مل نہیں رہا ہے۔ ملا داؤد تو بہت پرانے ہیں، میر منجھن کو پڑھنے والا کوئی نہ ملے گا۔ ہندی کے نام پر بچوں کو ایک دو بول زبردستی پڑھا دیے جائیں گے جنہیں وہ اسکول چھوڑتے ہی بھول جائیں گے اور کہیں گے کہ جانے دو، بہت ہوگیا۔ یہ ہونے والا ہے۔
حاشیے
(۱) شاہ عالم کی داستان کا نام ’’عجائب القصص‘‘ ہے۔ جس کے چار دفتر ہیں لیکن اب تک کی تحقیق کے مطابق صرف دو دفتر دستیاب ہیں۔
(۲) پریم چند کا Complete works کلیات پریم چند کے نام سے ۲۴ جلدوں میں قومی کونسل براے فروغ اردو زبان نئی دہلی، بھارت نے شائع کردیا ہے۔
(۳) یہ کتاب (اردو کا ابتدائی زمانہ) ہندی میں راج کمل پرکاشن، نئی دہلی سے شائع ہو رہی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.