Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چودھری محمد علی ردولوی

انیس قدوائی

چودھری محمد علی ردولوی

انیس قدوائی

MORE BYانیس قدوائی

    سُرخ و سفید رنگ، خوب گھنی سیاہ بڑی بڑی مونچھیں، ململ کا کرتا، اس پر انگرکھا، بڑی مہری کا لٹھے کا پاجامہ، کبھی شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ۔ ایک شاندار ملازم ساتھ، لڈوؤں کی ہانڈی، شراب کی بوتلیں اور سوڈے کا کیس تھامے ہوئے۔ بڑے بے تکلفانہ انداز میں پھاٹک سے داخل ہوتے۔ ان کی غیرمعمولی شوخی و ظرافت اور کھلے ہوئے ہاتھ کی بدولت بچوں، بوڑھوں اور نوکروں سبھی کو ان کی آمد کی خوشی ہوتی۔ بزرگوں تک کو تحفہ تحائف سے نوازتے، نوکروں پر انعام و اکرام کی بارش ہوتی اور بچے مٹھائی کی ہانڈیاں فوراً اچک لیتے۔

    میرے والد سے ان کی دوستی کی ابتدا ان دنوں ہوئی تھی جب وہ نئے نئے علی گڑھ سے وکالت پاس کرکے بارہ بنکی آئے تھے اور پریکٹس شروع کی تھی۔ محمد علی چچا کا علاقہ کورٹ تھا اور وہ کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح علاقہ واگذار ہوجائے۔ برٹش گورنمنٹ ہر راجا یا تعلق دار کے نابالغ لڑکے کو اپنی سرپرستی میں لے کر اس کا علاقہ کورٹ آف واڈس کے سپرد کردیتی تھی۔ اگر بیٹا ناخلف نکلا تو ضبطی کابہانہ مل جاتا تھا۔ ورنہ اکثر جوان ہوتے ہی لوگ اپنی جائداد چھڑانے کی کوشش کرتے تھے اور زیادہ تر کامیاب بھی ہوتے تھے۔

    محمد علی چچا بھی کامیاب ہوگئے۔ ریاست چھٹی تو وہ بھی تمام بندھنوں سے رہاہوگئے۔ کالوِن اسکول (جو اب کالج ہے) راجاؤں اور تعلق داروں کے بچوں کے لیے مخصوص تھا، وہیں تعلیم پائی تھی۔ والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ ایک بڑی بہن تھی جس کی شادی ہوچکی تھی۔ اس لیے گھر میں سارا لاڈ پیار، شان، رنگ رلیاں ان کی تھیں۔

    سنتی ہوں، رودولی کی دو حسین ترین بیگمات میں سے ایک ان کی والدہ تھیں۔ حالاں کہ میں نے جب دیکھا ضعیف ہوچکی تھیں اور حلیہ بدل چکا تھا۔ بس آثار کہہ رہےتھے کہ عمارت عظیم رہی ہوگی۔ بڑے کلّے ٹھلّے کی بیوی تھیں۔ انیسویں صدی کے دل پھینک تعلق دار کی ان گنت محبوباؤں کے ہوتے ہوئے بھی بیگم کا رعب و دبدبہ اور عزت و احترام مثالی تھا۔

    ایک داقعہ ان ہی لوگوں کی زبانی سنا ہوا یاد ہے کہ تعلق دار مرحوم کا قاعدہ تھا کہ بیگم کو خوش کرنے اور راضی بہ راضا رکھنے کے لیے اکثر نفیس زیورات اور ملبوسات تحفے میں دیا کرتے تھے۔ خاص طور پر اگر بائی صاحبان کے لیے کوئی زیور خریدتے تو بالکل اسی طرح کا بیگم کے لیے بھی آتا یوں چاندی سونے کی بارش کرکے بیوی کے غیظ و غضب کو ٹالا کرتے تھے۔

    ایسے ہی ایک موقع پر اربابِ نشاط میں سے کسی نے خواہش کی کہ میرا آپ کی طرح اچکن پہننے کو جی چاہ رہا ہے۔ فوراً لکھنؤ کے کاریگروں سے زردوزی سےمرصع اچکن سلوائی مگر ایک نہیں دوعدد۔ ایک فرمائش کرنے والی کو عنایت ہوئی دوسری خود لے کر خوش خوش بیوی کے پاس پہنچے۔ بیگم نے کھولی، دیکھا اور اپنا سر پیٹ لیا۔

    ‘‘میں کہتی ہوں، تمہاری غیرت کو کیا ہوگیا ہے۔ اللہ کی شان اب مجھے موئی نکاہیوں اور ناچنے والیوں کا سا لباس پہناؤگے۔ ایسا دیدہ ہوائی ہے کہ شریف زادیوں اور کمینیوں کا فرق بھی مٹ گیا۔ ایسے پہننے والیوں پر اللہ کی مار، بس اور کیا کہوں لو دیکھو۔’’

    اور یہ کہہ کر جھٹ کپڑوں کو دیا سلائی دکھادی۔ اچکن جل کر خاک ہوگئی اور میاں بے چارے ایک لفظ بھی نہ بول سکے۔

    ہاں تو صاحب وہی مرتضائی بیگم ہمارے محمد علی چچا کی والدہ تھیں۔ بہت سخت مذہبی تھیں، اس لیے محمد علی چچا کی سنی بیوی کے آتے ہی انہوں نے برابر کے مکان میں رہائش اختیار کرلی اور انہیں آزاد چھوڑ دیا۔ دن میں دوچار بار آکر بیٹے بہو کو ڈانٹ ڈپٹ جاتیں۔ باقی اپنے حصے میں نذر ونیاز، مجلس، تعزیہ داری، ماتم سب کرتی رہتی، کیوں کہ محمد علی چچا نے آخر عمر میں تعزیہ داری بند کردی تھی۔

    محمد علی چچا کے مصاحبین میں حکیم نعمت رسول (جو ان کی بیوی کے حقیقی چچازاد بھائی بھی تھے)، منیجر نوشاد علی صاحب اور خاصے کی چیز میاں مِٹھو ملازم تھے۔ اور چچا کا حکم تھا کہ پرانے نوکروں کو دادا، چچا، ماموں کہہ کر بُلایا جائے، تاکہ ان کو یہ محسوس ہو کہ وہ بھی خاندان کے ایک فرد ہیں۔

    میرے والد (ولایت علی صاحب) کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں میں سب سے زیادہ محبت و خلوص ہمیں ان ہی سےملا۔ خود کہا کرتے تھے کہ دو آدمیوں نے میرے زندگی تلخ کردی، ایک ولایت، دوسرے بیوی۔والد کے انتقال کے بعد بھی وہ ہم سے ملنے مسولی آیا کرتے تھے اور میرے چھوٹے بھائی ردولی بھی پہنچتے تھے۔

    پھر جب لکھنؤ میں ہمارا قیام ہوا تو اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ہزاروں قصے ان کے پاس تھے، اور سننے والوں کا کثیر مجمع۔ سارے لڑکے لڑکیاں ان کو گھیر لیتے اور اس وقت کوئی دیکھتا ان کی ‘گل افشانی گفتار’۔ لکھنوی اور قصباتی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ فارسی اور انگریزی میں بھی برق تھے۔ ‘امامن مہری’ کے فلسفیانہ خیالات لکھ کر ساری عورتوں پر بیگماتی زبان کے ماہر ہونے کا سکہ انہوں نے بٹھادیا تھا۔ رئیس زادے ہوتے ہوئے بھی عوام میں گھل مل کر اَودِھی زبان کے لطیفے، مثالیں اور کہانیاں بھی ازبر کرلی تھیں۔

    کپڑے، زیورات، تمیز تہذیب اور معاشرتی رکھ رکھاؤ ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ مجھے یاد ہے جب انہوں نے ‘صلاح کار’ لکھی ہے تو ہم لوگ خوب ہنستے تھے کہ خدا کی شان! نوجوانوں کے صلاح کار محمد علی چچا بن گئے، جن کے دل پھینک اور دل نواز ہونے کے چرچے سارے ضلع میں پھیلے ہوئے تھے۔

    انگریزی تہذیب سے مرعوب تھے اور اپنی تہذیب کے عاشق۔ اسلامی اور ہندوستانی کلچر نے ان کا دل موہ لیا تھا۔ خاص طور سے مسلمان عورتوں کو وہ چاہتے تھے کہ اس راہ سے قدم نہ ہٹائیں۔ ویسے تعلیم نسواں کے ان دنوں بہت بڑے چمپین تھے۔ ایک روز کہنے لگے، بھئی بیوی کو تو ایسا ضرور ہونا چاہیے کہ اپنے شوہر کی خوش ذوقی و سخن شناسی کی قدراں ہو اور اسے سمجھ سکتی ہو۔ تمھیں معلوم ہے؟ فلاں صاحب کا کیا لطیفہ ہوا۔ اتنا بڑا شاعر سارا وقت فکرِ سخن میں کھویا رہنے والا۔ اس نے بیوی سے نکھٹّو کا خطاب پایا۔ ایک دن ان کے دماغ میں ایک مصرع آیا۔ مصرع بڑا زوردار تھا۔ دن گزر گیا، رات آگئی، چراغ پاس رکھے اور قلم ہاتھ میں لیےبیٹھے ہیں مگر دوسرے مصرع کا تک ہی نہیں بیٹھ رہا تھا۔ ایک بارگی روشنی نمودار ہوئی اور دوسرا مصرع برجستہ نکل پڑا، زور سے پکار اٹھے وہ مارا۔ کیا لاجواب شعر ہوا ہے۔

    بیوی سو چکی تھی۔ آواز سُن کر چونک پڑی، اے ہے کیا ہوا۔ کیوں چلائے۔ عاجزی سے کہا، بیگم بس سُن لو۔ کیا معرکے کا مطلع ہوا ہے۔ شعر کچھ اس قسم کا تھا (اگرچہ انہوں نے سُنایا تھا یاد نہیں رہا) باغ تھا، بہار تھی شبنم نےرات کو موتی لٹائے تھے اور وہ سروِناز نظارۂ صبح میں محو تھی۔ تشنہ لبانِ دیدار ہم جلو تھے وغیرہ وغیرہ۔

    بیوی نے شعر سُن کر کروٹ بدل لی ‘‘میں کہتی ہوں تم جھوٹ کتنا بولتے ہو’’۔ یہ داد ملی۔ بے چارے کا منہ اتنا سا رہ گیا۔

    ایک دن اپنی نئی نئی شادی کا اور بیوی پر فریفتگی کا قصہ بیان کرنے لگے کہ میری بیوی کے پیٹ میں زور کا درد اٹھا۔ میں دواؤں پر دوائیں دے رہا تھا اور وہ مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔ اتنے میں قصبے کی ایک بیوی ملنے کو آگئیں۔ وہ کراہ رہی تھیں اور میں بے تاب ہو رہا تھا۔ درد کی شدت سے انہوں نے ایک چیخ ماری اور میں دیوانہ وار یہ کہتا ہوا ان پر جھک پڑا، ‘‘جانِ من میں کیا کروں کیسے تمھاری تکلیف دُور کروں۔’’

    مہمان بیوی نے جو یہ سماں دیکھا تو دوپٹے سے اپنا آدھا چہرہ ڈھک لیا۔ اور بولیں ‘‘بھیّا مجھے کوئی ڈولی بُلادو میں اپنے گھر جاؤں، اب یہاں جانِ من وانِ من ہونے لگا ہے۔’’

    مولانا کرامت حسین نے اسکول کھولا تو پہلی لڑکیاں محمد علی چچاکی داخل ہوئیں۔ میرے والد کو شاید وہ راضی نہ کرسکے اس لیے میری حسرت پوری نہ ہوسکی۔

    دوہی سال کے اندر ماں نے آفت مچادی اور دونوں بڑی لڑکیاں واپس بلائی گئیں۔ تب ان کی تعلیم کے لیے ایک حسین نوجوان انگریزی لیڈی کا تقرر ہوا، جو انھیں لکھنا، پڑھنا اور بولنا سکھاتی تھی۔

    لڑکیاں تو برائے نام تعلیم حاصل کرسکیں مگر چچا کے تعلقات اتنے بڑھ گئے کہ چچی کو اندیشہ پیدا ہوگیا اور والدہ تو شمشیر برہنہ ہوگئیں۔ ناچار ٹیچر صاحبہ کو رخصت کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے اور بچی کے گذارے کا دعویٰ دائر کردیا۔ آخر کار وکلاء نے درمیان میں پڑ کر خطیر رقم ماں بچی کی کفالت کے لیے دے کر چھٹکارا دلوادیا۔

    بیوی بڑی خدا ترس، مرنجاں مرنج اور مذہبی تھیں۔ حج کو جانے لگیں تو چچا بمبئی تک چھوڑنے گئے۔ جدائی کے وقت بیوی کے آنسو نکل پڑے۔ پھر کیا تھا۔ دوڑ دھوپ کرکے جہاز پر جگہ حاصل کی اور خود بھی حج کو روانہ ہوگئے۔ یہ خبر سُن کر سب حیران رہ گئے۔

    واپس آئے تو ہم نے کہا: چچا آپ اور حج۔ یہ معجزہ کیسے ہوگیا۔ کہنے لگے یہ بیوی تھی جو مجھے اس دربار میں لے گئی مگر مدینے پہنچ کر بہت ہی دل خوش ہوا۔ بے حد لطف آیا۔

    حج سے آنے کے بعد نماز بھی پڑھنے لگے۔ انہوں نے ایک کتاب ‘میرامذہب’ بھی لکھی اور اسے پڑھ کر مجھ سے خاصا الجھاوا رہا۔ میں نے کہا، مجھے اس پر اعتراض نہیں کہ آپ شیعہ فقہ پسند ہیں، کیوں کہ میں دونوں فقہ سے نابلند ہوں۔ مگر سوال یہ ہے کہ شیعہ فقہ میں آپ کو صرف متعہ اور تقیہ ہی کیوں پسند آیا۔ اگر تقیہ شریعت کی چیز تھی اور جائز تھی تو حضرت علیؓ نے، حضرت امام حسنؓ و امام حسینؓ نے اور حضرت زینبؓ نے کیوں تقیہ نہیں کیا؟

    کہنےلگے، امام تقیہ نہیں کرسکتا۔ یہ تو عوام اور کمزوروں کے لیے جائز ہے، بہت دیر اس پر بحث رہی مگر نہ وہ مجھے قائل کرسکے نہ میں انہیں۔

    شادی بھی سُنّی بیوی سے ہوئی۔ اور ایسی کٹر کہ سب صعوبتیں سہہ لیں مگر ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ آخرکار چچا نے خاندان والوں سے ان کا پیچھا چھڑایا اور سب کو اس پر راضی کرلیا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑدو۔

    دوسرا نکاح بھی سُنّی عورت ہی سے کیا۔ شیعہ اور سُنّی فقہ سب پڑھ ڈالیں، قرآن اور حدیث کا وِرد رکھا۔ ادبی ذوق کی تکمیل کے لیے تمام شعراء اور ادیبوں سے تعلقات بڑھائے۔ اچھا کتب خانہ جمع کر رکھا تھا۔ ہر موضوع پر اور ہرزبان میں پڑھتے تھے۔ اس لیے بہت وسیع معلومات تھیں۔

    ۱۹۲۱ء سے ۱۹۳۰ء تک کانگریس سے بھی بہت دلچسپی رہی۔ جواہر لال جی سے دوستانہ تعلقات رہے۔ ایک پہیے دار چرخا بھی ایجاد کیا تھا۔ مجھے بھی تحفہ دیا تھا اور اس کا نام ‘‘چمروچرخا’’ رکھا تھا۔ چمرو ان کے نام کا جزو تھا جسے فخریہ استعمال کرتے تھے۔ ان کی ماں کے بچے نہیں جیتے تھے۔ ایک کثیر الاولاد چمار کے ہاتھ انہیں ٹکے میں بیچ دیا تھا۔ اس لیے ‘چمرو’ ان کا تخلص بن کر رہ گیا تھا۔ اس چمار کے خاندان پر ہمیشہ نظرعنایت رہی۔

    محمد علی چچا، جیسا کہ میں پہلے کہہ چکی ہوں، بیوی کے عاشقِ زار ہوتے ہوئے بھی بلا کے حسن پرست تھے۔ خوبصورت کپڑا، حتی کہ کراکری اور فرنیچر تک دیکھ کر لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے۔ اپنے بچوں سے شدید محبت تھی اور دوستوں کے بچوں سے بھی گہرا لگاؤ۔

    اکثر ان کی حسن پرستی کے قصے زبان زدِ عوام ہوتے۔ چچا سے پوچھو تو کبھی انکار نہ کرتے۔ جب یوپی کونسل میں زنانِ بازاری کے اخراج اور ان کو لائسنس عصمت فروش نہ دینے کا سوال آیا تو محمد علی چچا نے مخالفت میں بڑی زوردار تقریر کی اور کہا کہ ہمیشہ سے رؤسا کے بچے علمِ مجلس سیکھنے کے لیے طوائفوں کے یہاں جاتے رہتے ہیں۔

    اور ہم لوگ یہ پڑھ کر ان سے جھگڑ پڑے۔ بہت دیر گرما گرمی رہی، ہنس ہنس کر انہوں نے بہت سے لطیفے سُنائے۔ مگر یہ ایک بات بڑے پتے کی کہہ گئے کہ اگر یہ اڈے ختم کردیے گئے، جہاں سوسائٹی کا فاسد عنصر نکال کر ڈالا جاتا ہے تو ہرگھر میں ایسے اڈّے کھل جائیں گے اور شریف زادیوں کی اصلاح ختم ہوجائے گی۔

    لطف یہ ہے کہ اپنی بیوی، بیٹیوں اور تمام رشتہ داروں، عورتوں کے لیے وہ اخلاق، شرافت، شوہروں سے وفاداری وغیرہ لازمی سمجھتے تھے۔ مگر پُرانے جاگیردارانہ نظام میں پرورش پانے کا اتنا گہرا اثر تھا کہ مردوں کے لیے نظربازی و شاہد پرستی میں کوئی بُرائی نہیں سمجھتے تھے۔ محمد علی چچا عجیب معجونِ مرکب تھے۔ میرے والد کے تقدس و معصومیت کے قائل تھے، مگر کسی مجتہد یا مولوی کی برتری و بزرگی پر برافروختہ ہوجاتے تھے۔

    وہ بہ یک وقت صوفی منش بھی تھے اور رنگین مزاج بھی۔ ان کی ذات میں تلون، سخاوت، خوش مزاجی اور مغلوب الغضبی کاحیرت انگریز امتزاج تھا۔ رسولؐ اور آلِ رسولؐ سے محبت رکھتے ہوئے بھی نکاح خود بیٹھ کر پڑھ لیتے اور اس کو جائز سمجھتے اور بلامتعہ کیے کسی عورت سے ملنا گناہ سمجھتے تھے۔

    ہم لوگ ایک آدھ بار رات کو بھی ردولی پہنچے۔ مگر پوری پوری خاطر مدارات سے مستفیض ہوکر رات کے بارہ ایک بجے واپس لوٹے۔ اس وقت ان کی خوشی قابلِ دید ہوتی تھی۔ چاہتے تھے کہ کیا کچھ ہمیں کھلادیں اور کتنی خاطر کریں۔

    بلاکے ذہین، غیرمعمولی خوش مزاج، کھلا ہوا دل، کھلا ہوا ہاتھ، وسیع مطالعہ اور زندگی کا بھرپور تجربہ، کیوں کہ انہوں نے جی بھر کے زندگی سے لطف اٹھایا تھا، بلا کسی دغدغے کھٹکے کے زندگی کی بہاروں میں ہر پھول سے رس نچوڑا تھا۔

    اور پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ وقت نے چہرے پر اپنے نشان ثبت کردینے شروع کردیے۔ سیاہی سفیدی سے، سُرخی تانبے سے اور اعضا کی توانی فالج کی مار سے بدلی۔

    پہلی بیوی کے انتقال کو عرصہ ہوگیا تھا۔ مگر ایک دن سج بن کر باہر نکلے تو ایک کاشت کارنے ٹوکا۔ چودھری صاحب کیا بیاہ کرنے والے ہو اور پھر سچ مچ انہوں نےایک جوان عورت سے نکاح کرلیا۔

    ایک بار لکھنؤ آئے تو کہنے لگے۔ بھئی میں تو بڈھیا ہوں اور یہ ہیں بالکل جوان۔ اس لیے وجو (میرے بھائی) دیکھو اگر میں نہ رہوں، تو تم ان کی سرپرستی کرنا۔

    میرے منہ سے بے ساختہ نکلاہائے چچا چوٹٹی کتیا اور جلیبیوں کی رکھوالی۔ محمد علی چچا بہت محفوظ ہوئے۔ جاکر سب لڑکیوں کو بتایا کہ آج انیس نے یہ جملہ کہا ہے۔ مگر قیصر (ان کی نئی بیوی) رودیں۔ انہوں نے بہت شکایت کی کہ تم نے میرے لیے ایسا کیوں کہا۔

    آخرزمانے میں مسوری میں کافی دن ساتھ رہا۔ نچلی منزل ان کے پاس تھی۔ اوپر کی میرے پاس۔ انہی دنوں ایک صاحب مع برقع پوش خاتون کے چچا کے پاس آئے اور طالبِ مدد ہوئے کہ مسوری میں جیب کٹ گئی ہے۔ بہت پریشان ہوں۔ نہ پیسہ پاس ہے نہ رہنے کا ٹھکانااور زنانہ ساتھ ہے۔ چچا بے ساختہ بولے ‘‘اور زنانہ بھی اپنا نہیں پرایا ہے’’۔ اتنا سننا تھا کہ ان کا چہرہ فق ہوگیا۔ چچا نے کچھ رقم ہاتھ پر رکھ دی اور وہ فوراً چل دیے۔ ہم لوگوں نے کہا کہ آپ کو کیسے اندازہ ہوا کہ زنانہ پرایا ہے۔ بہت ہنسے کہنے لگے: ‘‘دریافت کرلو۔ دوسرے ہی کا نکلے گا’’۔ بعد کو معلوم ہوا کہ ان کا اندازہ صحیح تھا۔ واقعی زنانہ کہیں سے اڑالائے تھے۔

    پہاڑیوں کے رسم و رواج کا ذکر ہو رہا تھا۔ کہنے لگے بھئی نینی تال میں ایک پہاڑی میرے پاس آیا۔ کہنے لگا۔ صاحب! آپ پڑھا لکھا آدمی ہے۔ ہمارا ایک کاغذ لکھ دو۔ میں نے قلم سنبھالا اور کہا بتاؤ کیا لکھوں۔ اس نے کہا ہمارے پاس دو عورت ہے اور اسکا عورت مرگیا ہے۔ مگر اس کے پاس ایک گھوڑی ہے۔ ہم ایک عورت اس کو دے دیا ہے اور یہ اپنا گھوڑی ہم کو دے گا۔ اس کا پکا کاغذ لکھ دو۔ اور یہ عہد نامہ میں نے لکھ دیا۔

    عجیب باغ و بہار شخصیت تھی۔ خالص جاگیرداری ماحول کی پیداوار۔ نہ اب کسی کو اتنے مواقع ہیں نہ فرصت۔ اس لیے میں نے سوچا ایک ہلکا سا خاکہ پیش کردوں۔ کیوں کہ اس دور میں نہ ایسی شخصیتیں بنیں گی، نہ ان کی ضرورت ہے۔ ایک بات اور بتادوں۔ بوالہوسی سے سخت نفرت کرتے تھے۔ اور فنکارانہ عیاشی کو آرٹ سمجھتے تھے اور اپنا پیدایشی حق۔

    خدا مغفرت کرے۔ جب تک جئے خوش رہے۔ دوسروں کو خوش رکھا اور سب کو خوش دیکھنا پسند کیا۔ آخر میں فالج سے معذور ردولی میں بیٹھ رہے تھے۔ بچے سب پاکستان چلے گئے تھے۔ دو چھوٹے لڑکے پاس تھے۔ اس میں ایک خبط الحواس تھا۔ دوسرا ابھی پڑھ رہا تھا۔ اس وقت وہی ردولی میں ان کا نام لیوا ہے۔ بڑی حسرت و غم سے پاکستان جانے والے لڑکے و لڑکیوں کو یاد کرتے تھے۔

    محفلوں کی رونق، جلسوں کے صدر نشین، دوستوں کے محبوب اور مذہبی حلقوں سے برسرِ پیکار۔ یہ تھے محمد علی چچا!

    وہ صاحب طرز ادیب اور افسانہ نگار بھی تھے۔ افسانوں کے دو مجموعوں کےعلاوہ ان کے نام کو زندہ رکھنے والی متعدد کتابیں بھی ہیں۔ مثلاً اتالیق بیوی، صلاح کار، حیاتِ کرامت حسین، میرا مذہب اور کشکول محمد علی شاہ فقیر وغیرہ۔ آرٹ کی پرکھ پر ایک مختصر سا کتابچہ ‘‘نقادی کے نکتے’’ کے نام سے اور دوسرا فیملی پلاننگ پر ‘پردے کی بات’ کے نام سے لکھا تھا، اگر چہ اس وقت فیملی پلاننگ کا کسی کو خیال بھی نہ آیا تھا۔ ‘گویا دبستان کھل گیا’ کے نام سے ان کے خطوط کا ایک مجموعہ ان کی بیٹی ہما بیگم نے، ان کی زندگی ہی میں لاہور (پاکستان) سے شائع کیا تھا۔ اب ان کی کتابوں کے نام سے بھی بہت کم لوگ واقف ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے