Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خواجہ احمد عباس

راجندر سنگھ بیدی

خواجہ احمد عباس

راجندر سنگھ بیدی

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    خواجہ احمد عباس میرے دوست نہیں۔ ان معنوں میں جن میں کہ دوست ہوتا ہے اور میرے خیال میں اسے ہونا چاہیے۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں نے ہمیشہ انہیں اپنا بزرگ اور پیش رو مانا اور یوں احترام کرتے ہوئے ٹال دیا۔ کچھ اسی قسم کا سلوک انہوں نے بھی میرے ساتھ کیا۔ ادبی سلسلے میں بارہا میری پیٹھ ٹھونکی، تحریری طور پر مجھے تسلیم کیا اور اس کے بعد ٹکسال باہر کر دیا۔ حال ہی کی بات ہے جب کہ میں نے انہیں اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تو بلاتکلف انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’’تم رہتے کہاں ہو؟‘‘

    عباس صاحب کی ہمدمی کا شرف بھی مجھے حاصل نہیں ہوا، جس میں میرا قصور ہے تو ان کا بھی۔ میرے خیال میں انہوں نے میری طرح دوستوں کا انتخاب امتیازی نظریہ سے نہیں کیا۔ ایک واضح ارادے سے کسی صحیح آدمی کو تو قریب لانے کی کوشش نہیں کی۔ جی ہاں صحیح آدمی کے سلسلے میں اگر میرا اشارہ خود اپنی طرف ہے تو چند دوسرے لوگوں کی طرف بھی جو نقدونظر سے عباس صاحب کی بہتری کا سامان کر سکتے تھے اور خود بھی ان سے سیکھ سکتے تھے۔ جو بھی ان کے پاس آیا، انہوں نے آنے دیا۔ یہی نہیں۔ جو ان کے پاس سے گیا اسے جانے بھی دیا۔ پاس آنے والوں میں کچھ تو پہلے ہی پیر مغاں تھے اور اگر نہیں تھے تو عباس صاحب کے حسن سلوک نے ہمیشہ کے لیے ا نہیں بنا دیا۔۔۔ اور جانے والوں کا تو ذکر ہی کیا؟

    اس مودّب فاصلے کے باوجود میں کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم مجھے ان کی ہم مشربی کا فخر حاصل ہے جس سے ہمدمی اور دوستی کہیں دور کی بات نہیں۔ پھر تھوڑا جاننے والے میں اتنا انکسار تو ہوتا ہے کہ وہ کسی کو جاننے کا حتمی دعوا نہیں کرتا۔ برخلاف اس کے ہمیشہ ساتھ رہنے والا اس سلسلے میں بڑی بونگی باتیں کرتا ہے۔ جن سے پتا چلتا ہے کہ جو آدمی جتنا قریب ہوتا ہے، اتنا ہی دور بھی۔

    زندگی میں کم ہی آدمی آپ نے ایسے دیکھے ہوں گے جن کی شکل پیدایش سے لے کر آخر دم تک ایک ہی سی رہی ہو۔ جس کی وجہ سے وہ بہت سے جرائم نہیں کر سکتے۔ میں نے عباس صاحب کو ان کے بچپن میں تو نہیں دیکھا لیکن اپنے فزیالوجی کے محدود علم کی بناپر کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت بھی عباس صاحب اپنے اس لائبریری اڈیشن کا پیپربیک ہوں گے۔ اور کچھ نہیں تو پچھلے پچیس برس سے تو میں ان کا منہ دیکھ رہا ہوں۔ جہاں ذہنی طور پر ان کا قد بڑھا ہے، جسمانی طور پر آپ وہی کے وہی ہے ہیں۔ چہرے پر جس فہم و فراست کے نشان پہلے تھے، وہی اب بھی ہیں۔ ویسے ہی نگاہ اچٹ کر سامنے والے پہ پڑتی ہے۔ وہی مونچھوں کی ہلکی سی تحریر جس کے نیچے پتلے سے ہونٹ جو خفگی یا کھسیانے لمحوں میں کچھ اس طرح سے ہلتے ہیں کہ انہیں پھڑپھڑانا کہا جا سکتا ہے اور نہ بھینچنا۔ ان کی ہنسی بے ساختہ ہے مگر ریشمی، جسے استعمال کرتے ہوئے وہ ایکا ایکی رک جاتے ہیں۔ معتبر آدمی کو زیادہ ہنسنا نہیں چاہیے!سر پر کے بال پہلے ڈھائی تھے، اب دو رہ گئے ہیں۔ اس کے باوجود سکھوں کے خلاف نہیں۔ بلکہ کئی دفعہ میں نے انہیں کسی سکھ کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پایا ہے۔

    لباس میں سادگی ہے اور استغنا کا فن بھی۔ ان کی عام نشست و برخاست کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ زندگی میں تاکید تکلفات پر نہیں، کچھ اور ضروری باتوں پر ہے، جس میں ادب، صحافت، فلم، سیاست اور دوسری بیسیوں قسم کی سماجی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ دنیا کے موجودہ سیاسی نظام میں اگر انہیں اسرائیل اور متحدہ عرب جمہوریہ کے درمیان چننے کا حق دیا جائے تو وہ یقیناً عرب جمہوریہ کو چنیں گے۔ صدر جمال عبدالناصر کی پیروی کریں گے لیکن شکل ہمیشہ اسرائیل کے بین گورین سے ملےگی۔

    میں نے عباس صاحب کو پہلی بار لاہور میں دیکھا جہاں وہ اپنے صحافی دوست ساٹھے کے ساتھ کوئی فلم بنانے کے سلسلے میں آئے تھے۔ یہ دونوں دوست انڈین پیپلز تھیٹر کی تحریک کا حصہ تھے، جس کے ایک جلسے میں، میں عباس صاحب کو دیکھنے چلا گیا۔ ان دنوں لاہور کے لارنس باغ میں ایک نیا اوپن ایر تھیٹر قائم ہوا تھا جہاں خوب ہی ہنگامہ تھا۔ معلوم ہوتا تھا کمبھ نہیں تو اردھ کمبھی ضرور ہے۔ چنانچہ عباس صاحب کو دیکھنے کے سلسلے میں مجھے خوب دھکے پڑے۔ خیر، دھکوں کی بات چھوڑیے، وہ تو زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم سب دھکے کھاتے ہیں۔ کبھی مل کر اور کبھی الگ الگ۔ ایک بار پہلے بھی جب لاہور کے بر یڈ لا ہال میں مہاکوی ٹیگور کو دیکھنے گیا تھا تو اس سے بھی برا سلوک ہوا۔ بھگدڑ میں سیکڑوں پیروں کے نیچے دَلا گیا۔ جب بھی میں نے یہی سوچا تھا کہ کیا بڑے آدمی کو دیکھنے کے لیے خود چھوٹا ہونا ضروری ہے؟

    اس جلسے میں عباس صاحب ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ باقی کے فضول اور بےکار قسم کے مرد تھے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں اور عباس صاحب سب سے ملتے اور سب سے باتیں کرتے پھر رہے تھے، جسے صحافت کی زبان میں کہا جاتا ہے، ’’اور وہ آزادانہ مہمانوں میں گھومتے اور ان سے ملتے جلتے رہے۔‘‘

    ایسا معلوم ہوتا تھا عباس صاحب کسی کا دل توڑنا نہیں چاہتے۔ ایسا کریں گے تو ان کا اپنا دل ٹوٹ جائےگا۔ اس عمل میں انہیں کتنا ہی بولنا، کتنا ہی وقت ضائع کرنا پڑا۔ وہ اس بات کو بھول ہی گئے اور آج تک بالعموم بھولے ہوئے ہیں کہ جب تک وہ کسی کا دل نہیں توڑیں گے، بات کیسے بنےگی؟(دل ’’بدست آور‘‘ کہ حج اکبر است!)

    جب عباس صاحب کے چہرے پر ایسی ہی طمانیت برستی تھی، جس سے پتا چلتا تھا کہ بعد میں وہ ’’آزاد قلم‘‘ ہو جائیں گے اور فلموں میں رہے تو ’’آزاد فلم۔‘‘ ایک نقطہ اور بھی کم۔ ان کے چہرے پر سب سے اوپر عقیل اور آزاد روی کے نقوش تھے۔ اس سے نیچے پی سی جوشی کی پارٹی لائن اور سب سے نیچے مہاتما گاندھی کی ’تلاش حق۔ پوری کی پوری، جو چھٹپٹاکر سب سے اوپر چلی آئی تھی۔

    اسی دن مجھ پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ کسی آدمی کی بڑائی سے بچنے کے لیے اس سے ذاتی طور پر مل لینا ضروری ہے۔ اسے چھوکر دیکھنا لابدی ہے، چاہے وہ ہاتھ ملانے کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ اس عمل میں اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ وہ بھی ہماری ہی طرح کا انسان ہے۔ صرف اس نے زندگی کے خاص شعبے میں حد سے زیادہ محنت اور ریاضت کی ہے اور ہم نے نہیں کی۔ کریں تو ذہنی طور پر بھی ہم ان سے ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ ورنہ ہم اپنے ذہن میں ایسے آدمی کو کچھ ایسے مافوق الفطرت انتسابات دے دیتے ہیں کہ وہ خواہ مخواہ ہمیں بامن اوتار سو گزا معلوم ہونے لگتا ہے۔ پھر اسے انسان کی تربیت میں دیکھ کر، عام انسانوں کی سی حرکتیں کرتے پاکر ہمارا طلسم ٹوٹ جاتا ہے، جس میں اس بچارے بڑے آدمی کا تو کچھ بگڑتا نہیں، ہمارا اپنا قد پہلے سے بھی چھوٹا ہو جاتا ہے۔

    عباس صاحب سے مصافحے کے بعد کم از کم ایک بات کی تسلی تو ضرور ہوئی کہ جسمانی طور پر ان کا قد مجھ سے بڑا نہیں۔ البتہ رنگ گورا ہے۔ لیکن کبھی تو افریقی قومیں میرا ہاتھ پکڑ کر اٹھیں گی اور گوروں کا جوا اتار پھینکیں گی (چنانچہ آج میری پیشین گوئی کتنی پیغمبرانہ ثابت ہو رہی ہے!) رہی ذہنی قد کی بات تو ورزش سے وہ بھی ٹھیک ہو جائےگا۔

    ان دنوں عباس صاحب نے ابابیل نام کی ایک کہانی لکھی تھی جس کا مجھ پر بہت رعب پڑا تھا۔ لائم اوفلاہرٹی نے پرندوں کے بارے میں کچھ خوبصورت افسانے لکھے تھے، لیکن عباس صاحب کا افسانہ ’’ابابیل‘‘ ان پر بیس تھا۔ جب میں ڈاک خانے میں بابو (بیک نقطہ پیش، یا بوشود!) تھا اور میرے نزدیک کاؤنٹر پر منی آرڈر بک کروانے والے سے لے کر عباس صاحب تک، سب انگریز وائسرائے کی ایگزیکٹیو کونسل کے ممبر تھے۔ چنانچہ میں نے لکنت سے پٹی زبان میں افسانے کی تعریف شروع کی۔ عباس صاحب خوش تو ہوئے لیکن پھر انکسار میں ٹال گئے اور میری کہانیوں کی باتیں کرنے لگے اور میں بھول ہی گیا کہ ابھی مجھے ان کی ایک اور کہانی ’’ایک پاؤلی چاول‘‘ کی بھی تعریف کرنا ہے۔ میں خود بھی اپنے افسانوں کی باتیں کرنے لگا۔ میں کس قدر گرا پڑا ہوں گا، کہ انکسار ان دنوں میرے لیے بہت بڑی عشرت کی بات تھی، جیسے عباس کی تعریف میرے نزدیک بہانہ محض تھی۔ اپنی باتیں کرنے کے لیے جب میں عباس صاحب سے مل کر آیا تو مجھے پتا چلا کہ میرے اس وقت جانے بوجھے بغیر انہوں نے اپنی عظمت کا کچھ حصہ مجھے بھی دے دیا ہے۔ میں گورا نہیں ہوا تو لمبا ضرور ہو گیا ہوں۔

    اور یہ عباس صاحب میں امتیازی بات ہے۔ ادیبوں میں (میرے سمیت) کم آدمی آپ کو ایسے ملیں گے جو اپنی باتیں کم کریں گے اور دوسروں کی زیادہ۔ ایک دوسرا شخص جو لوگوں کو بظاہر ’’انا‘‘ سے معمور معلوم ہوتا ہے، وہ۔۔۔ اوپندرناتھ اشک۔ میں جب بھی ان دوستوں سے ملاہوں، مجھے پتا چلا ہے کہ ادب کے آسمان پر کوئی نیا ستارہ طلوع ہوا ہے۔ یہ اسی کا تذکرہ کرتے ہیں، اس کی چیزیں پڑھ کر سناتے ہیں یا پڑھواتے ہیں۔ تھوڑی سی بحث کے بعد مان بھی جاتے ہیں کہ وہ ستارہ ابھی طلوع ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میں ڈر، محض ڈر کے جذبے سے اس ادیب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ چونکہ ڈر کوئی اثباتی جذبہ نہیں، اس لیے یا تو وہ ادیب مجھے تالستائی اور چے خف سے بھی بڑا معلوم ہونے لگتا ہے اور یا پھر اپنے سے بھی چھوٹا۔ میری طرح کے جاگیردارانہ ذہن رکھنے والے اور بھی بہت سے ادیب ہیں لیکن ایک فرق ہے۔ میں اپنی اس کمزوری کو جانتا ہوں اور اسے دور کرنے کی کوشش بھی کرتا ہوں لیکن ان میں سے اکثر جانتے ہیں، نہ کوشش کرتے ہیں۔ خیر، وقت بڑے بڑوں کو ٹھیک کر دیتا ہے اور میں اپنے آپ سے مایوس نہیں۔

    یہ بات نہیں کہ عباس صاحب اور اشک میں انا نہیں۔ ارے صاحب ہے اور بہت ہے۔ لیکن اسی قدر جس قدر اسے تخلیقی عمل کے لیے ہونا چاہیے اور وہیں جہاں اسے ہونا چاہیے، جیسے ا کثر لوگوں کا سیکس تمام تر سر میں ہوتا ہے اور ایک معزز خاتون کے مطابق۔۔۔ وہاں نہیں جہاں اسے ہونا چاہیے۔ عباس صاحب میں انا اتنی ہی ہے جس میں وہ اپنی ذات کو پہچان سکیں۔ دوسروں سے الگ، اور دوسروں کے بیچ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بہت سے ادیب ساتھی لکھاڑ ہی بہت ہیں۔

    میں نے عباس صاحب کے بہت سے افسانے پڑھے جن میں سے کچھ یاد ہیں اور کچھ بھول گیا۔ بھول جانا شعور کے سلسلے میں رائے ہو تو ہو لیکن انسانی دماغ ایک کمپیوٹر نہیں۔ اس سے بہت بلند ہے جس کی تفصیل یا بحث اس مضمون کا حصہ نہیں۔۔۔ عباس صاحب کا افسانہ ’بارہ بجے تو میں بھول ہی نہیں سکتا۔ ایک تو اس لیے کہ اس سے میرا براہ راست تعلق ہے (اگرچہ میں داڑھی کاٹنے اور سگریٹ پینے والا سکھ ہوں) دوسرے اس لیے کہ یہ افسانہ پنجاب کے فسادوں سے متعلق تھا جن میں سے میں بھی گزرا ہوا ہوں اور ریل کی چھت پر ننگے بدن بیٹھ کر تقسیم کے وقت ہندستان پہنچا ہوں۔ اس افسانے میں عباس صاحب نے اپنے ہی طرز کی حسابی مساوات میں برابر کے سکھ اور مسلمان مارے تھے۔ لیکن اس پر بھی سکھوں کی تسلی نہ ہوئی اور مجھے اپنی قوم سے غداری کرتے ہوئے عباس صاحب کے حق میں بیان دینا پڑا۔ آخر میں عباس صاحب کی جان بچ گئی۔ اب، آپ نے بھی عباس صاحب کو پڑھا ہے، ان کی فلمیں دیکھی ہیں۔ آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ میں نے اچھا کیا یا برا؟

    جب تک عباس انڈین پیپلز تھیٹر کے دوسرے ساتھیوں سے مل کر ہندستانی فلم کلاسیک ’’دھرتی کے لال‘‘ بنا چکے تھے۔ نہ صرف یہ کہ ’’دھرتی کے لال‘‘ پہلی ہندوستانی REALISTIC فلم تھی بلکہ اس نے اپنے ملک کے سوئے ہوئے لوگوں کو جھنجھوڑ ا اور بیرون ملک کے باشندوں کی توجہ اس المیے کی طرف دلائی جس کا نام اس زمانے کا ہندستان تھا۔ ’’آج کل‘‘ بھی تکمیل پا چکی تھی۔ اس میں بھی عباس صاحب کے ان افسانوں اور ناولوں کی قسم کا ایک پیغام تھا جو تائید کی کثرت سے پیغام نہیں رہ جاتا، آدمی کو چڑا دیتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو بدصورت نہیں سمجھنا چاہتا۔ ’’انہونی‘‘ پہلی غیرجانب دار فلم تھی جو بہت حد تک کامیاب رہی۔

    تقسیم کے بعد میں بمبئی چلا آیا تو اکثر عباس صاحب سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ہماری ترقی پسند تحریک ان دنوں شباب پر تھی۔ عباس صاحب اس کے راہبر تھے اور راہی بھی۔ کبھی انہیں اس تحریک کی زیادتی معلوم ہوتی تھی اور اکثر کمی۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب کہ غریبوں اور ناداروں کے حق میں ایک مبلغ کی حدتک شور مچانے والے عباس صاحب کو پارٹی مینڈیٹ کے مطابق تحریک سے عاق کر دینے کی کوششیں ہونے لگیں۔ تب میں نے پہلی مرتبہ عباس صاحب کو اس قدر غصے میں دیکھا جب ان کے ہونٹ بھنچ بھی رہے تھے اور پھڑپھڑا بھی رہے تھے۔ چہرہ لال ہو رہا تھا اور وہ تیز تیز باتیں کیے جارہے تھے۔ آواز جو پہلے ہی کھسیائی ہوئی تھی اور کھسیا گئی لیکن پانی پت کا ہونے اور اپنے آپ کو پنجابی کہلوانے کے باوجود عباس صاحب کے منہ سے ایک بھی گالی نہ نکلی۔ کیونکہ وہ تہذیب کا تقاضا نہ تھا۔

    ان دنوں ہم ’’چور‘‘ کا رول ادا کر رہے تھے اور دیکھ رہے تھے کہ جس طرف پلڑا بھاری ہو، جھک جائیں۔ کچھ ہمت اور شخصیت کی کمی اور کچھ دماغی ابطال۔ بس جو اسٹالن نے کہہ دیا وہ آسمانی صحیفہ ہے۔ کبھی کبھی محسوس بھی کرتے تھے کہ یہ سیل (CELL) کیا بلا ہے؟ جس میں بیٹھے ہوئے لوگ عالم کل ہیں، ہمیں سنے بغیر ہی ہماری قسمت کا فیصلہ کر ڈالتے ہیں؟ جس کے سامنے سر جھکانا ہی پڑتا ہے ورنہ آپ تحریک سے خارج، حالانکہ آپ کی تحریک کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، کم از کم براہ راست نہیں۔ اس پہ طرفہ یہ کہ غلط فیصلہ کرنے کی صورت میں بچ بھی نکلتے ہیں۔ کیونکہ وہ فیصلہ ایک آدمی کا نہیں، کئی پنچوں کا ہوتا ہے اور آپ تو جانتے ہیں پنچ پرمیشور ہوتا ہے۔ پھر ہوشیاری کا یہ عالم کہ ان پنچوں میں ایک ادیب قسم کا آدمی بھی ہوتا ہے۔ ایسا آدمی جو ادب اور فن اور اس کے عوام کے لیے مفید یا غیرمفید ہونے کی سب حدیں جانتا ہے اور پھر اس قدر لوچ بھی ہے کہ برسوں بعد پارٹی لائن کے غلط ہونے پر بھی معافی مانگ سکے۔۔۔

    میں تو اپنی ناسمجھی اور کمزوری کی وجہ سے خائف تھا لیکن دوسرے بھی خاموش تھے، جو مجھ سے بھی زیادہ ڈرے ہوئے تھے۔ وہ عباس صاحب کے منہ پر کھری کھری سناتے تھے اور بعد میں اس کا تذکرہ کر کرکے خوش ہوتے تھے۔ اپنی ہمت پہ خود حیران۔ لیکن عباس صاحب کو ان کی اور اپنی تحقیق کی بہ نسبت اپنے جذبے پر یقین تھا۔ اس لیے نہیں کہ وہ اسٹالن سے لے کر کیفی اعظمی تک اپنے آپ کو زیادہ قابل سمجھتے تھے، بلکہ اس لیے کہ حقیقت پر پہنچنے کے لیے ان کے پاس ایک ہی کسوٹی تھی۔۔۔ محبت۔۔۔ جسے صحیح آدمی کبھی کبھی خود بھی شک اور شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے اور سرکس کے روپ واکر کی طرح زندگی کے رسے پر اپنے آپ کو فکر اور جذبات کے درمیان متوازن رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ بہرحال اپنے آخری تجزیے میں وہی کسوٹی نسبتاً ٹھیک اترتی ہے کیونکہ اس کے پیش نظر ادب اور سیاست ریاضی کے گنجلک سوال نہیں رہ جاتے اور نہ انسان کے سیدھے سادے مسئلوں کی توضیح و تفہیم اسٹالن کے پرجز کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور نہ چاؤ ماؤ کی طرح ہندستان پر حملے کی۔ تاکہ روس کے کان ہوں۔۔۔ چنانچہ ان سب باتوں کے باوجود عباس صاحب کے قدم اپنے رستے سے نہ ڈگمگائے۔ لیکن، جب تک، بقول شخصے، بہت سا پانی ہمارے دریاؤں میں بہہ گیا تھا۔

    ہمارے دوسرے بہت سے دوستوں کی طرح عباس صاحب بھی مقصدی ادب کے قائل ہیں۔ اس سلسلے یں اگر کوئی دل اور دماغ کو ہم آہنگ کرکے لایا تو نتیجہ اچھا نکلا ورنہ محض آواز ہوکر رہ گیا، بلکہ شور۔۔۔ عباس صاحب کے کئی افسانے اور دوسری تحریریں ایسی بھی ہیں جو مؤثر نہیں ہوتیں اور اگر ہوتی ہیں تو کردار کے اعتبار سے سخت خارجی، ہنگامی پہلو لیے ہوئے، جس کے باعث ان کی گونج جلد ہی معدوم ہو جاتی ہے۔ لیکن ان کے مقصد اور دوسروں کے مقصد میں بھی فرق ہے۔ انہوں نے لڑکی کے سہارے تو ایک طرف، لکڑی کے سہارے بھی انقلاب تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی اور نہ اس عمل میں بہت سوں کی طرح منقلب ہوئے ہیں۔ نہ انہوں نے زبان اور جمالیات کو اپنے معنی پہنائے ہیں بلکہ اپنے مقصد کی جستجو میں کچھ یوں سیدھے گئے ہیں کہ ادھر ادھر بھی نہیں دیکھا۔ حالانکہ نظروں سے راستے کی تزئین کرتے جانا عین فن ہے۔

    ان کی بہت سی تحریریں پڑھ کر مجھے یوں لگا جیسے عباس صاحب بہت جلدی میں ہیں۔ انہیں ایک کام تھوڑا ہی ہے؟ سیکڑوں ہیں۔ ان کے پاس وقت نہیں اور زمانہ ہے کہ تیز سے تیزتر ہوتا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ اپنی رفتار قائم رکھنا ایک خالص سائنسی عمل ہے۔ میں اس بات کو فلسفیانہ سطح پر لاتے ہوئے عرض کروں گا کہ وقت کو تھامنا ہی پڑےگا۔ ورنہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ جیسے ہمارے بڑوں نے مٹسون کے ذریعے گویائی تھام لی تھی اور یکسوئی اختیار کرکے کالی بھگوان کی مار سے بھی پرے چلے گئے تھے، اسی طرح کا عمل ہمیں بھی روا رکھنا ہوگا۔ ہم ادیبوں کا کاواسٹاک اور ہمارا راکٹ یہی ہے کہ جس پر سوار ہوکر مہروماہ سے بھی اوپر جا سکتے ہیں۔۔۔ ایک دن آئےگا جب کہ جدلی مادیات کے دعویداروں کو بھی مقصد کی تحلیل اور اس کے اندرونی تضادات کو خاطر میں لانا پڑےگا۔

    عباس صاحب کی نجی زندگی کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں کہ ان کی بیگم۔۔۔ مرحومہ بھی ایک نہایت ہی پیار کرنے والی عورت تھیں۔ ہم ادیبوں سے وہ بھائیوں کا سا سلوک کرتی تھیں۔ جو ہو میں میرا ایک کمرہ ہوا کرتا تھا، جہاں میں بیٹھ کر اپنا کام کیا کرتا۔ عباس صاحب کا گھر راستے میں پڑتا تھا۔ کبھی ان کے ہاں رکتا تو وہ بڑی شکایت کرتیں کہ قریب سے گزر جاتے ہو، آتے تک نہیں۔ ان کی وفات سے ہمیں قلق ہے، تو عباس صاحب کے بارے میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔

    جنسی زندگی کے بارے میں عباس صاحب کا نظریہ ایک عام، نارمل مہذب آدمی کا نظریہ ہے۔ وہ زندگی کے اس حصے کو بالکل منفرد سمجھتے ہیں۔ انگریزی قول کے مطابق نہ تو وہ کسی کے گندے کپڑے پبلک میں دھوتے ہیں اور نہ اپنے دھونے دیتے ہیں۔ مطلب، اگر ان کے پاس ایسے کپڑحے ہیں تو۔۔۔! (ضرور ہوں گے)

    ایک چیز جس نے عباس صاحب کے سلسلے میں مجھے ہمیشہ درطہ حیرت میں ڈالا ہے، وہ ہے ان کے کام کرنے کی حیرت انگیز طاقت و قوت۔ کہانی لکھ رہے یں اور ناول بھی۔ قومی یا بین الاقوامی سطح پر فلم بھی بنا رہے ہیں اور صحافت کو بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ بلٹز کا آخری صفحہ تو بہرحال لکھنا ہی ہے، لیکن ساتھ ہی خروشچوف کی سوانح بھی ہو گئی۔ پنڈت نہرو سے بھی مل آئے جن سے عباس صاحب کے ذاتی مراسم ہیں۔ پھر پینتیس لاکھ کمیٹیوں کا ممبر ہونا سماجی ذمہ داری کا ثبوت ہے۔ اور یہ بات ممبر شپ تک ہی محدود نہیں۔ ہر جگہ پہنچیں گے بھی تقریر بھی کریں گے۔

    پورے ہندستان میں مجھے اس قسم کے تین آدمی دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ ایک پنڈت جواہر لال نہرو، دوسرے بمبئی کے ڈاکٹر بالیگا اور تیسرے خواجہ احمد عباس۔ جن کی یہ قوت اور استعداد ایک عام آدمی کی نہیں۔ چنانچہ جب میں نے ایک بار عباس صاحب کے سامنے اس حیرت کے جذبے کا اظہار کیا تو انہوں نے معمول کے رسمی انکسار سے ٹال دیا اور بولے، ’’جبھی تو ہر بات میں پتلاپن ہے‘‘ اور پھر مسکراکر میری طرف دیکھتے ہوئے بولے، ’’آج کل کیا لکھ رہے ہو؟‘‘

    بیچ میں کسی نے ٹوک دیا۔ اس لیے عباس صاحب نے میری آنکھیں نہ دیکھیں جو نمناک ہو گئی تھیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات اور اس ملاقات میں بیس پچیس برس کا وقفہ آ چکا تھا اور میں اپنے بارے میں کم بات کرنا سیکھ چکا تھا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے