Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میر بھی شام اپنی سحر کر گیا: بیاد شمس الرحمان فاروقی

ارسلان راٹھور

میر بھی شام اپنی سحر کر گیا: بیاد شمس الرحمان فاروقی

ارسلان راٹھور

MORE BYارسلان راٹھور

    اللہ اللہ! تاریخ کا شکم بھی کیسی کیسی عبرتوں سے پُر ہے۔ معروف ہے: جب یوسف علیہ السلام کو مصر کے بازار میں فروخت کرنے کے واسطے بولی لگائی جا رہی تھی تو جہاں امرا و عمائد نے دیدہ و دِل پیش کیا، وہیں ایک عجوزہء کامگار کہ اپنی آنکھوں کو زمانے کے آثار سے پرانا کر چکی تھی، اِس مخملِ عرش کے عوض سوت کی اَنٹی لے آئی، جانتی تھی کہ یہ مقام سود و زیاں کا نہیں، خواہانِ گوہر کی زنجیرکے حلقہ بننے کاہے،

    ہم وَے ہیں جن کے خوں سے تری راہ سب ہے گل

    مت کر خراب ہم کوتو اوروں میں سان کر

    میرے قلمِ خام کی شوخی دیکھیے کہ ہوائے معدن سے مَس ہوئے بغیر کیسی اُجلی چاندی اُگلنے کا آرزو مند ہے، کہاں شمس الرحمن فاروقی، کہاں میں، مگر مجھ سے کھوٹے سکے کی کم سوادی کو ہمیشہ سابقین کی ناموس نے بچایا، آج بھی وہی ہاتھ تھامیں گے،

    جمال ہم نشین صحبت اثر کرد

    وگرنہ من ہمان خاکم کہ ہستم

    فاروقی صاحب کے چاہنے والے حد سے سِوا تھے اور ہیں، لکھنے والوں نے ان پر خوب جم کر لکھا، میں اس میں کیا ہی اضافہ کر سکتا ہوں۔ میں تو ان کے خوشہ چینوں کی قطار میں ہوں۔ ان کی تحریروں نے مجھے کہاں کہاں رسوا ہونے سے بچایا، یہ تو میرے دانا احباب جانتے ہیں، لیکن اُن کے نام سے میں نے کیا کیا رفعتیں پائیں، یہ شاید لوگ نہ جانتے ہوں، میں بہت کھلے دل اور کشادہ سینے کے ساتھ اعتراف کرتا ہوں: جو کچھ کہ میں ہوں اور جو لفظ و بیان، میری دسترس میں ہیں، اس میں سے یک فیصدی بھی میرا کمال نہیں، یا اگلوں کی دھوپ سے سینہ تاپنے کے طفیل ہے یا شمس الرحمن فاروقی کے حرف و معنی کا مستعیر۔

    فاروقی صاحب سے میری شناسائی چکوال کی مردم زا سر زمین میں ہوئی۔ یہ بات غالباً 200ء کے اوائل کی رہی ہو گی، سِن کے اعتبار سے میں تیرہ چودہ برس کاتھا مگر والد ہ صاحب کی ابتدائی روک ٹوک اور استادِ صد رشک، جنا ب اشرف آصف کی بیٹھکوں نے کتاب خوانی کی زَڑ لگا دی تھی، صبحوں اور شاموں پر بھاری کتابوں کے ہلکے ہلکے سائے پڑتے تھے۔ چکوال شہرمیں کشمیر بُک ڈِپو نے ہمارے خون سوا سیر کر رکھے تھے، یہ مکتبہ، سچ پوچھیے تو باغِ کتاب ہے اور پھلوں سے لدا۔، فرش تا سقف، جہاں دیکھو، کتابوں کی نہ ختم ہونے والی رَوشیں، تس پر لطف یہ کہ ہر کتاب نصف قیمت پر مہیا۔ مکتبوں کاعلم تو خیر ہمیں بہت بعد میں ہوا، لیکن اس سے بڑھ کر اس دکان کی کتاب نوازی کیا ہو گی کہ سنگِ میل ایسے جیب گراں مطبع کی کتابیں بھی پچاس فیصد رعایت پر دستیاب تھیں (اور یہ سہولت تاحال ہے۔) عصر کی نماز مسجد میں مولوی صاحب کی پیش امامت میں ادا کرنے کے بعد میں روز ایک نئی کتاب تھامتا اور خوشی خوشی اشرف آصف صاحب کی موٹر پر سوار، دورقرمزی پہاڑوں کے بسیط دامن میں ان ڈھابوں کی راہ لیتا، جن کے خستہ مٹی والے پیالوں نے چائے کی راہ بہت کچھ وہ وہ گھول کر پلایا کہ آج بھی اس کا کھاتے ہیں۔

    ہمارا جیب، اس روز افزوں شوق کی کفایت کہاں تک کرتا، بالآخر، ہم نے شہرکے واحد سرکاری کتب خانے کی ممبر شِپ لے لی (اصل میں ہم نے استادیم اشرف آصف کا لائبریری کارڈ داب لیاتھا۔) بس کیا تھا: اب ہم تھے اور سر خوشی ء شہر ِآرزو! روز جھولی بھربھر کر کتابیں گھر لاتے، اور باراِن پستکوں کا اعصاب پر ذری نہ پاتے، کمرے کو کمرا کاہے رہنے دیا تھا، مامون الرشید کا بیت الحکمہ بنا رکھا تھا۔ کتب خانے سے ان دنوں احتشام حسین کی کتابیں ہاتھ آنے کے سوا، جو نادیدہ گوہر ہاتھ لگا، وہ فاروقی صاحب کی ’شعر، غیر شعر اور نثر‘ تھا۔ یہ باریک تقطیع کا پرانا نسخہ تھا، شاید چَھپائی الہ آباد ہی کی تھی۔ لطف کی بات یہ تھی کہ کتاب کھولتے ہی جو صفحہ سامنے آیا، اس پر لکھا تھا، ”سید احتشام حسین مرحوم کے نام“، نیچے ہاتھ سے لکھے کچھ انگریزی مصرعوں کی نقل تھی۔ یہیں سے ہمیں احتشام صاحب کے باقی نہ رہنے کی صدمہ اندوز خبر بھی ہوئی۔ میرامعمول ہے نئی کتاب پڑھنے سے پہلے اسے آغازو انجام اور درمیان سے کئی جگہیں سے کھول دیکھتا ہوں، اس وقت بھی ایسا کیا۔ جس مضمون پر نظر جم گئی، اب بھی کچھ کچھ یاد ہے۔

    آغاز کچھ یوں تھا: آپ کو مشکل سے یقین آئے گا لیکن سچ یہی ہے کہ میں نے بچپن میں نہ کبڈی کھیلی نہ گلی ڈنڈا، نہ گولیاں پھینکیں نہ پتنگ اُڑایا، نہ درختوں پر چڑھے نہ کوند پھاند کی۔۔۔

    بس مطالعے کی اُڑتی بہتی بہلی یہاں سے بے قابو ہوئی اور اس جگہ جا کر دم لیاجہاں یہ چودہ پندرہ صفحے کا مضمون ختم ہوا، اس روزکے بعد فاروقی صاحب کی تحریر سے عشق ہوگیا۔

    مجھے یہ کہنے میں فخر ہے، فاروقی صاحب ادب میں میرے پہلے اور مستقل محبوب ٹھہرے، باقی جن جن نگینوں کومیں نے حرزِ جاں بنایا، ان میں سے اکثر انھی کے تراشیدہ و چنیدہ تھے۔ اگلے پانچ سات برسوں میں ان کے قلم سے تراوش سبھی کِھلتی بڑھتی پھلواریوں کی سیر کی، ایک سے بڑھ کر ایک گلِ تر، پہلے سے سوا دوسری شاخ نہال۔ اس زمانے میں فاروقی صاحب کی ساری کتابیں پاکستان میں دستیاب نہیں تھی، لہذا جمع آوری کے لیے بڑے کِسالے کھینچنے پڑے۔

    صرف دو کتابوں کے خریدنے کی داستان نقل کرتا ہوں۔ قیاس کن ز گلستانِ من بہار مرا!

    شعر و شور انگیز میں نے بی اے میں پڑھی تھی۔ اوریئنٹل کالج کے کتاب خانے کا نسخہ تو مانو ہضم ہوگیا تھا۔ کتاب خانے میں ایک ہی سیٹ تھا، روز جی میں آتی کہ چرا لوں اور ایسا کر بھی لیتا مگر دیانت داری کی بجائے ازلی کم ہمتی نے راہ کھوٹا کیا۔ قصہ کوتاہ، اب دن رات یہی ٹوہ رہتی کہ کسی طرح یہ چہارکتبِ راشدین مل جائیں تو دل کو ہدایت ہو۔ اُن دنوں کو آپرا آرٹ گیلری جانے کا اتفاق ہوا، کیا دیکھتا ہوا کہ چوبی الماری میں یہ چاروں اپنی چھَب دکھا رہی ہیں۔ فوراً کاؤنٹر کو بھاگا، لیکن قیمت جو پتا کی، توسالم اٹھارہ سو اور میرے پاس تو یہ آدھے بھی نہ تھے۔ میرا بھولپن دیکھیے کہ جو صاحب کاؤنٹر پر تھے، ان کے سر ہو گیا کہ آج ہی چاہییں لیکن پیسے چار دن بعد مہیا کروں گا، وہ میری سرگشتگی دیکھتے رہے، دامن نہ دارم جامہ از کجا آرم، میں نے جھٹ سے اپنا بستہ ان کو دیا، بستے میں پانچ کتابیں تھیں، چار کے بدلے پانچ، گویا ایک درجہ اوپر کی ضمانت تھی۔ باور کرایا چار دن بعد رقم آ کر دے جاؤں گا اور بستہ لے جاؤں گا۔ ان کے دل میں رحم کا چھینٹاپڑ گیا، کہالے جاؤاور پیسے لے آنا، یقین مانیے آنکھ کے کنار ے پھوٹ بہے، یوں لگ رہا تھا کہ کل اثاثہ یہی ہے، چوتھے کی بجائے تیسرے روز ان کو پیسے جا تھمائے، وہ دن اور آج کا دن، ان سے صاحب سلامت چلی آ رہی ہے۔

    دوسری کتاب، جس کی یافت کو خاصے پاپڑ بیلنے پڑے ”ساحری، شاہی اور صاحب قرانی (داستانِ امیر حمزہ کا مطالعہ)“ تھی، اس کتاب کی اس وقت چار جلدیں تھیں (ہندوستانی ایڈیشن میں اب غالباً ایک جلد کا اضافہ ہو چکا ہے۔) میں اس وقت بھی اور اب بھی اس کتاب کو فاروقی صاحب کی دوسری اہم ترین تنقیدی کتاب جانتا ہوں (پہلی بلا شبہ شعرِ شور انگیز ہے۔) میں اس کتاب کو نہ صرف پڑھ چکا تھا، بل کہ کالج میں جماعتی پیش کش کے نام پر ایک گھنٹہ دیگر طلبا پر رعب بھی جھاڑ چکا تھا۔ یہ کتاب صفدر رشید صاحب کے پاس تھی، اس زمانے میں میری ان سے شناسائی نہ تھی، کتاب خریدنے کے معاملے میں فیس بُک پر ان سے رابطہ ہوا تھا۔ بعد میں علم ہوا وہ راولپنڈی میں پورب اکادمی نامی مکتبہ چلاتے ہیں، ان دنوں شمس الرحمن فاروقی پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ چکے تھے اور اس کا کتابی صورت میں مجلس ترقی ادب سے چھپنا متوقع تھا (اب چھپ چکا ہے۔) خیر ملاقات کا دن طے پایا، کتاب کی خریداری الگ، میں اس واسطے بھی پر جوش تھا کہ یا خدا کیسا آ دمی ہو گا جو فاروقی کے علم کو اپنے دام میں لاتا ہے، وہی،

    یزدان بکمند آور اے ہمت فرزانہ

    ملاقات علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے چائے خانے میں ہوئی، تا دیر فاروقی صاحب پر گفت گو ہوئی، میری زبان، حسبِ معمول مقراض بنی رہی، مخاطب اشتیاق کے اظہار کے طور پر سر کو برابر ہلائے جاتے تھے، مجھ پر چھایا رعب دونا ہو گیا، گفتگو کَم کَم کُنی کہ پِیر ای! حیرت اس وقت ہوئی جب انھوں نے اپنی دستکی جزدان سے نکالی اور میری باتیں لکھنے کو پَر تولنے لگے، پوچھنے پر بتایا: اگرچہ میری کتاب چھپنے کو چلی گئی ہے لیکن آپ کے نکتوں کا دیباچے میں اندراج بہت اہم ہو گا۔ ادھر میری حالت یہ کہ کاٹو تو لہو نہیں، بو علی اندر غبارِ ناقہ غم، یا الہی، جن صفات کو میں فاروقی کی تنقید کی سرسوتی جانتا ہوں ا س مہان سے جاننے کو کاہے رہ گئی ہیں وہ بھی اس صورت میں کہ درجنوں کتابیں ان کی پڑھ چکا ہے بل کہ ان پر حکم بھی لگا چکا ہے۔ بہر صورت موصوف کی کتاب چھپ کے آئی، دیانت داری کی داد لازم ہے، انھوں نے نکات کا اضافہ کر دیا (للہ الحمد میرا نام سر خرو نہ ہوا۔) رخصت کی گھڑی انھوں نے یہ بھی کہا، دل تو نہیں چاہتا کہ آپ سے کتاب کی قیمت وصول کی جائے مگر۔۔۔ چوں کہ میں نے یہ کتاب ہندوستان سے اپنے ذاتی مطالعے کے لیے منگوائی تھی، اس لیے تقاضا کر رہا ہوں (معلوم ہوا کہ اب اس اس کارِ دشوار سے سبک دوشی ہو چکی ہے۔) خدا انھیں خوش رکھے، دمِ تحریر یہ جلدیں میں نے برکت کے لیے سامنے رکھ لی ہیں۔

    اب یہ اور دیگر کئی کتابیں خود فاروقی صاحب کے منحنی، قدرے شکستہ مگر آرٹ سے بھرے پُرے خط میں میرے نام دانائی کی دعاؤں کے ہمراہ دستخط شدہ ہیں۔ تاریخ درج ہے 19نومبر 2015ء، لمز، لاہور، یہ دن بھی کیا دن تھا، میری کیا بساط تھی مگر،

    گو نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید

    پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کُھلا

    تاسف اس کا کہ پھر روبروئی کا موقع نہ پایا، بہجت اس کی کہ یہ فخر بھی ہماری پیڑھی کے کتنوں کو ملا۔ فاروقی صاحب کچھ دنوں کے لیے لاہور آئے تھے، جائے قیام لمز تھا، وہاں دو نہایت عمدہ لیکچرز متعین تھے،۔ لمز میں جو طویل اور خلوت کی ملاقات ان کے شبستان ِسرور میں ہوئی، وہ بھولنے کی شے نہیں۔ جادہء عمر کی یہ متاع، ہمارے دوست علی اکبر ناطق کی رہین تھی۔ ناطق صاحب کے باعث ہم نے کئی کندہ ناتراشوں کے بیر مول لیے، اور چند اصیل ہیروں کی بھڑک سے آنکھ کا نور بڑھایا، خدا ان کی عمر درازکرے اور سینہ ادب کی برکات کے واسطے یونہی باز رکھے۔ اس دورے میں مہر افشاں فاروقی صاحب کے ہمراہ تھیں۔ فاروقی صاحب کی صحت مستحکم تھی مگر لائقِ رشک نہ تھی، یہی وجہ ہے کہ بھیر بھاڑ میں مہر افشاں قدم قدم پر ان کی دستگیری کرتی تھیں۔ غالب کے متروک کلام کی انگریزی شرح کرنے کی مناسبت سے مہر افشاں کا سیشن بھی تھا۔ بہر صورت فاروقی صاحب کے سیشن سے پہلے والی شام ناطق صاحب ہمیں پہلو میں لیے اس کمرے میں جا پہنچے جہاں فاروقی صاحب ٹھہرے تھے، مجھے بالکل یوں محسوس ہوا کہ جیسے قرون وسطی کے بغداد اور موصل میں الف لیلی کے طرازوں سے سامنا ہوا چاہتا ہے۔ کمرے میں داخل ہوئے کیا دیکھتا ہوں، ایک بڈھا مگر مستحکم شخص نہایت وقار سے گھماؤ کرسی پربیٹھا ہے۔ سہ پہر کا وقت تھا، فاروقی صاحب کو کھانا پیش کیا جا رہا تھا، کمرے میں ہم سے پہلے ایک آدھ ملازم اور ایوب خاورموجود تھے۔ ناطق کو دیکھ کر فاروقی صاحب باغ باغ ہو گئے، اب ان کی گفتگو چہکار میں بدلنے لگی، لیکن میری سماعتوں میں ان کی بلند آواز دھیمی ہوتی گئی، اورمیری آنکھیں ان کے سراپے میں گم ہو گئیں۔ گندمی رنگ، کشادہ ماتھا، ناک پتلی لیکن بائیں طرف سے کم گھیر، متحرک، ککڑی سی انگلیاں، اُجلی ململ کا کرتا اور کُھلا علی گڑھ کَٹ پاجامہ، موسم کی مناسب سے پستئی اونی شال جو شال کم اور سوزنی زیادہ معلوم ہوتی تھی، کھلی سیاہ پیزار۔ لیجیے ظاہری حلیہ مکمل ہو گیا، پہلی ہی نگاہ میں کھل گیا کہ وہ ان نادر اور خوش ظاہر و باطن لوگوں میں ہیں جو ہر محفل کی جان ہوتے ہیں۔ ناطق کو جس تپاک اور محبت سے ملے، لطف آ گیا، کھانا بہت کم کھا رہے تھے، اپنے اونچے قہقہوں کے ساتھ غپ اُڑانے میں مگن تھے، کئی بانس اونچے ہوتے یہ قہقہے ہمیشہ ان کی پہچان رہے۔ اچانک کسی سبیل سے بات تاریخ پر جا نکلی، تو کمال کشادہ دلی سے ناطق کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے، ”دیکھ لو یہ ہمارے مائی باپ کو برا کہتا ہے اورہم اس کے چاہنے والے ہیں“، ناطق بھائی کے اطوار میں بھی ان کے سامنے اعتراف و اقبال سے مملو جو اخلاص ہم نے دیکھا، اس کے بعد کسی شخص کے ساتھ یہ رویہ د یکھنے میں نہ آیا، ہائے،

    یہ تو اس شخص کی آنکھوں ہی میں جادو ہے سلیم

    اک نظر دیکھ لیا اور خزانہ ہوئے لوگ

    خدا جانے دِلّی میں ناطق بھائی نے انھیں حضرت علی اور مرحب کے معرکے سے منسوب کیا خاص پنجابی انداز کا لطیفہ سنایا تھا کہ دوبارا سننے پر مصر ہو گئے۔ مجھے ”نقلِ کفر کفر نباشد“ کے معنی خوب پتہ ہیں لیکن جان کو عزیز رکھتے ہوئے لطیفہ حذف کر رہا ہوں۔ ادھر لطیفہ ختم ہوا، ادھر فاروقی صاحب کی ہنسی کا مت پوچھو، بلیوں اچھلتے جاتے ہیں، کچھ تو لطیفے کے سبب اور کچھ فاروقی صاحب کو ہنستے دیکھ کر قہقہوں کے فواروں نے ماحول کو عطر بیز اور زعفران زار کر دیا۔ وہیں ناطق صاحب نے میرا بہت محبت بھرا تعارف کروایا۔ میں فاروقی صاحب کی کرسی کے پایے سے لگ کر بیٹھ گیا اور ان کی پنڈلیاں دابنے لگا۔ جو لوگ فاروقی صاحب کے مزاج سے آگاہ ہیں، جانتے ہیں کہ وہ ان تکلفات کو مطلق پسند نہیں کرتے، لیکن اس وقت کمال شفقت سے چمکارنے لگے۔ تھوڑی دیر گزری تو کہا، ”بھئی اس لونڈے کے ساتھ میری تصویریں لے لو، یہ تو سچ مچ ہماری محبت میں ڈوبا ہے“، وہ تصویریں کس نے لیں، اور فاروقی صاحب کا مخاطب کون تھا، مجھے علم نہ ہو سکا، علم کاہے ہوتا، محویت کا عالم ہی اور تھا،

    ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں

    میں جاتے ہوئے فاروقی صاحب کی کچھ کتابیں بغل میں داب لے گیا تھا، ان کی توجہ پاتے ہی سامنے رکھ دیں، انھوں نے سب پر بہت ملاطفت سے دستخط کیے اورحکمت کی دعائیں لکھیں۔ اس ملاقات میں میں نے دبے لفظوں میں ان سے میر صاحب اور شعر شور انگیز کے حوالے سے کچھ کہا سنا۔ ان وقتوں میں مجھ پر نفسیات اور فلسفے کا نشہ غالب تھا، دو ایک پرانی کام کی چیزیں بھی ہاتھ لگی تھیں۔ فاروقی صاحب نے شعر شور انگیز میں ایک جگہ میر کی فارسی غزل میں رنگوں کے امتزاج و صَرف پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میر کے کلامِ فارسی میں، اگر کوئی رنگوں کو جاننے والا ہو، تو باقاعدہ محسوس ہوتا ہے کہ ا نھوں نے قلم کی جا مُوقلم پکڑ رکھا ہے اور رنگوں کی روَوں سے سات کمانیاں بناتے جاتے ہیں۔ میں نے فاروقی صاحب کے سامنے رنگوں کی نفسیات اور اس کی دو ایک نفسیاتی تھیوریوں کے بارے میں بات کی اورپوچھا کہ کیا کلامِ فارسی کا رنگوں کی نفسیات کے تناظر میں مطالعہ ہو سکتا ہے، پہلے تو ہنسنے لگے، پھر کہا میری باتیں خوب یادہیں تمہیں، ضرور مطالعہ کرو، ہمیں بھی بتانا۔ جانے ان کے ذہن میں کیا سمائی، فوراً پوچھا میر کے ایسے کچھ فارسی شعر یاد ہیں تو سناؤ، رب نے عزت رکھ لی، تین شعر میرے ذہن میں فوراً تازہ ہو گئے، لکھے دیتا ہوں، شاید کسی کے لیے مہمیز کا کام کر جائیں،

    از داغ گل بہ سینہ من دستہ دستہ است

    وز اشک لالہ گوں مژہ غنچہ بستہ است

    (میرا سینہ زخم سے دستہ دستہ گل بن گیا ہے اور لالہ گوں اشک سے میری مژہ خوں بستہ ہے۔)

    حیف باشد کہ رود دل پئے لعل و یاقوت

    سیر خوش رنگی دل برگ ترش می باشد

    (حیف ہو گا کہ دل لعل و یاقوت کی جستجو کرے، اس کے تازہ گل برگ (غالباً لب) کی خوش رنگی کی سیر کرنی چاہیے۔)

    بے ترشح بادہ گل رنگ بے کیفیت است

    دامن ابرے سوئے گلزارمی باید کشید

    (ہلکی ہلکی بارش کے بغیر بادہ گل رنگ بغیر کیفیت کے ہے، ابر کا دامن گلزار کی طرف کھینچنا چاہیے۔)

    اب کیا تھا، فاروقی صاحب واہ واہ کہتے ہیں اور ہماری تعریف کیے جاتے ہیں۔ شناسائی کی راہ خوب نکل آئی۔ میں خوش تھا کہ حافظے نے آبرو بگڑنے نہ دی۔ یہ نشست کم سے کم ڈھائی تین گھنٹوں کو محیط تھی، بیچ بیچ میں دوسرے چاہنے والوں کا تانتا بھی بندھا رہا، ا تنی گفت و شنید سے فاروقی صاحب کچھ تھک سے گئے تھے، مہر افشاں بھی کسی لاہوری قرابت دار کی طرف اندرون کو نکل گئیں تھی۔ ہم نے یہی مناسب جانا کہ اب انھیں آرام کی ضرورت ہے۔ کیا عمدہ ملاقات تھی۔ وقت چٹکیوں میں اُڑ گیا،

    خوش ولے دولتِ مستعجل بود

    اگلے دن جُھٹپٹے سے کچھ پہلے لمز میں ان کا کلاسیکی ادب پر لیکچر تھا۔ سٹیج سیکڑری کا منصب محترم استاد ڈاکٹر ضیا الحسن صاحب کو حاصل تھا۔ فاروقی صاحب سٹیج پر بڑی لطف اندوزی سے کوئی نادیدہ گولی چبا رہے تھے، میں ان کے اس انداز سے بہت محظوظ ہو رہا تھا، مجھے یقین تھایہ گولی ان کے لیے وہی کام کرے گی جو غالب پیمانہء صہبا کو سامنے رکھ کر نکالتے تھے۔ لیکچر سے قبل سٹیج سیکڑری نے فاروقی صاحب کے بارے میں دو چار کلمات کہے اور حسنِ نیت سے فراق صاحب کا شعر پڑھا،

    آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو

    جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق کو دیکھا ہے

    اب فاروقی صاحب فراق صاحب کے کلام کو کیسا ناپسند کر تے ہیں، ایک دنیا جانتی ہے۔ خدا جانے استاد ِمحترم کو کس لمحے میں سوجھا کہ فراق کا شعر پڑھا جائے، کہاں یہ کہ فاروقی صاحب کا چہرہ بشاش تھا، کہاں یہ عالم کہ اب تکدّر کی ہوائیں چلنے لگیں۔ دو ایک جملے بگڑ کر چُست بھی کیے۔ اول تو مجھے وہ فقرے صحت سے یاد نہیں کہ میں سٹیج سے سات آٹھ فٹ دور تھا، اور اس وقت ان کا مائیک آن نہیں ہوا تھا، بالفرض یاد بھی ہوتے تو لکھتا کون؟

    ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم

    بہر حال لیکچر بھر پور تھا۔ دو ایک باتیں یاد رہ گئیں۔ جنھیں دہرانا مجھ ایسے لوگوں کے لیے افادے سے خالی نہ ہوگا۔ ہماری کلاسیکی شاعری کی وہ تنقید جو بیسویں صدی میں مرتب ہوئی، اس میں ایک تنقیدی اصطلاح، تغزل، کا بہت استعمال ہوا ہے، مجھ ایسے کم سوادوں نے ہر شاعر کے تعارف میں پڑھ بھی رکھا ہے کہ فلاں شاعر کے ہاں تغزل بہت ملتا ہے، فلاں کے ہاں کم۔ فاروقی صاحب کا کہنا یہ تھا خود ہمارے کلاسیکی شاعرتغزل کی اصطلاح ہی سے سرے سے ناواقف تھے۔ یہ لفظ نا صرف نیا ہے بالکل غلط بھی (بظاہر یہ انگریزی اصطلاح لِریکل کا جواب معلوم ہوتا ہے)، ہماری کلاسیکی تنقید غزل مانتی ہی اس کو ہے جس میں تغزل ہو، تغزل کے بغیر تو غزل کا وجود ہی مشتبہ ہے، ہاں صحیح لفظ روانی ہے (جس کو خسرو نے غرۃ الکمال میں شعر کی دیگر شرائط کے ساتھ اولین طور پر نقل کیا ہے)، لہذا تغزل کا استعمال ہماری روایت کے منافی ہے۔ ا سی نوع کا موقف انھوں نے علامت کی اصطلاح کے بارے میں بیان کیا، جس کے بارے میں بہت سوال جواب ہوئے۔

    اس موقع پر فاروقی صاحب کسی سوال کے جواب میں میر کے شعر کا مصرع بھول گئے، شعر بھی ایسا تھا کہ شریف گھرانے کی بہو بیٹیوں کو پسینہ آنے لگے، خالص شاہد بازی کا شعر، لطف یہ کہ مجھے شعر یاد تھا، لیکن بھرے مجمع کے سامنے ایسا شعر دہرانا خالی از خطرنہ تھا، خیر شوق نے اندیشے پر فتح پائی، میں نے شعر با آوازِ بلند پڑھ دیا، پورا شعر یہ تھا،

    باہم ہوا کریں ہیں دن رات نیچے اوپر

    یہ نرم شانہ لونڈے ہیں مخملِ دو خوابا

    فاروقی صاحب نے مجھے غور سے دیکھا اور سٹیج سے بولے، بھئی واہ، کیا عمدہ ہے میری لکھی ہر بار مجھ سے زیادہ اس چھوٹے راٹھور کو یاد ہے۔ میرے لیے اس وقت بھی اور آج بھی ان کا سٹیج پر یہ کہنا اعزاز تھا۔ یہ زمانہ وہ تھا کہ ابھی گوگل ایپز عام نہ ہوئی تھیں یا میری دسترس میں نہ تھیں کہ جھٹ سے ایک مصرع دیکھ کے دوسرا بتا دیا جائے۔

    ایسی محفلوں کی ایک دقّت یہ ہے کہ کچھ ُپڑھے لکھے ‘بڑ ی شخصیتوں پر لمبے چوڑے سوال داغتے ہیں اور مشتاقوں کا وقت کھا تے ہیں، اس سے انھیں دو فائدوں کی توقع ہوتی ہے، اول، لوگوں پر رعب طاری ہو، دوم مخاطب خود مرعوب ہو جائے اور ان دونوں باتوں سے ان صاحبان کو خود بے بہاتسکین ملے۔ جن لوگوں نے فاروقی صاحب کے ویڈیو لیکچرز سنے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ایسے سائلین کو ضرور جھاڑ پلاتے ہیں۔ اس مجلس میں بھی ایسا ایک واقعہ ہوا، اورئینٹل کالج کے ایک عالم فاضل سدا بہارطالب علم نے (ان کا نام لینا اس لیے نامناسب ہے کہ وہ نام ان کا اپنا ہے ہی نہیں، دو ایک ناموں کا مرکب ہے)فاروقی صاحب سے پانچ منٹ کا سوال کیا، فاروقی صاحب سخت چین بچیں ہوئے اور اپنے لہجے میں کہا، ”بھائی مجھے نہ پڑھاؤ، سیدھی بات کرو“، اب ان کی شامت جو آئی تو کہنے لگے، ”فاروقی صاحب! مجھے ایرا غیرا نہ جانیے میں ایک سرکاری ادارے میں اردو کا لیکچرر ہوں“، بھلا ہو اس جملے کا، فاروقی صاحب اس معصوم جواب کو سن، ہنس ہنس کے دہرے ہوگئے اور بات رفت و گزشت ہو گئی،

    سادہ دلی ہی آخرش ہم کو بچا لے گئی

    اگلے دن کا سیشن الحمرا میں تھا اور فاروقی صاحب کی گفتگو میر پر تھی، میر ان کی زندگی کا حاصل تھا، لہذا شاندار جلسہ ہوا، بس وہی عالم تھا،

    وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

    ہال ایسے بھرا تھا کہ تھالی پھینکی جاتی تو سروں کے میناروں پر ہی آگے بڑھتی۔ اس جلسے میں ایک اہم بات میر کے کلام میں شیعت کے غالی عناصر پر ضمنی اور غیر ارادی گفتگو تھی۔ مجھے یاد ہے فاروقی صاحب ایسے راسخ العقیدہ سنی (ایسا ان کی تحریروں سے لازماً متبارد ہے)نے کس آرزو مندی سے کہا تھا، ”میر، میرا عشق ہے لیکن اسے پڑھتے ہوئے بڑا احساس ہوتا ہے، کاش وہ یہ تبرائی شعر نہ کہتا“۔ اس جلسے کے اختتام میں ہمارے ایک نکتہ ساز عالم استاد نے، کہ خرابی آواز کے باعث شریک ِمحفل نہ تھے، مجھ سے کال پر پوچھا”فاروقی صاحب نے کس موضوع پر گفتگو کی“، میر پر ہونے والی بحث کا سن کر برافروختہ ہوگئے، کہنے لگے، ”فاروقی صاحب کے پاس میر کے مال کے سوا بیچنے کو کچھ نہیں رہ گیا؟“ میں نے بڑی لجاجت سے کہا، ”سر اب اسّی سال کے بڈھے سے کسی نئی بات کی کیا توقع کی جا سکتی ہے؟“

    آج کل ہمارے عدیم المثال ڈاکٹر صاحب عین اپنی ادبی جوانی میں کُل برصغیر میں ادب کے ہر گنبد پرایک سا کَلس چڑھاتے ہیں اور ہم سے کم ہمتوں کو ڈراتے ہیں، یا مظہر العجائب!

    ان نشستوں کے علاوہ پاک ٹی ہاؤ س اور جی سی یونی ورسٹی میں علیحدہ علیحدہ اجلاس تھے، جی سی میں اس زمانے میں ہماری شنوائی نہ تھی اور پاک ٹی ہاؤس والے جلسے میں وہ شور تھا کہ چھت اڑی جاتی تھی، ہر کہ و مہ تصویر اتروانے کی حسرت میں تھا، میں نے پنجوں کے بَل فاروقی صاحب کی حالتِ زار دیکھی اور ہنستے ہوئے مال روڈ پر نکل آیا۔

    اگلے دن فاروقی صاحب غالباً کراچی سے ہوتے ہوئے ہندوستان واپس چلے گئے پر یوں کہ دل ان کی محبت سے مزید گھائل اور نظریں سِوا مشتاق ہو گئیں تھی، میں طویل عرصہ اس ملاقات کی سرشاری میں رہا،

    یہی کم ہے بے کیف شاموں میں گریہ نواز آ گیا تھا

    اِدھر کی ہوا میں تری اوڑھنی کا گداز آ گیا تھا

    اس دن سے لے کر سناؤنی تک ان سے ٹیلیفونک رابطے کی دو تین سبیلیں ہوئیں۔ البتہ ای میل پر مستقل رابطہ رہا۔ علی اکبر ناطق کی غزلوں کا مجموعہ ”سبزبستیوں کے غزال“ چھپ کر آیا تو اس میں غزلوں کے حجم سے کچھ ہی چھوٹا میرا ایک مضمون تھا”شعر کہے تو چاند بنائے، بات کرے تو پھول“، مضمون کاہے کو تھا، ناطق کی شاعری سے ہماری معاملت کا محبت نامہ تھا۔ ناطق صاحب نے کتاب کی کچھ کاپیاں ہندوستان میں فاروقی صاحب کو بھی بھیجوائیں، انھوں نے غزلوں کے ساتھ میرا مضمون پڑھا، اور فون پر خاص طور پر تعریف کی، بل کہ ایک فرمائش بھی کی کہ اس مضمون کو بڑھا کر سو صفحے تک لے جاؤ تاکہ اسے جدید زبان میں شعر فہمی کا صحیح آغا ز مانا جائے (یہ الفاظ انھی کے ہیں)، افسوس کہ میری دائمی سستی سے وہ مضمون اسی حالت سے آگے نہ بڑھ سکا۔ (اصل مضمون پینتیس صفحے کا ہے۔)

    ای میل کا جواب دینے میں فاروقی صاحب حیرت انگیزحد تک تک برق رفتار تھے۔ ان کی وفات کے بعد اشعر نجمی کی کتاب ”سرِ آسماں وہ جو چاند تھا“ پڑھ کر ان کی ای میل لکھنے کی شتاب رفتاری معلوم ہونے پر عقل گم ہوگئی اور یقین ہو گیا کہ انسان دھن کاپکا ہو تو گوشہ گیر ہونے کی نہیں، منضبط ہونے کی حاجت ہوتی ہے۔

    خوش باطن انسانوں کی طرح آرٹ کے رفیع نمونے بھی مخصوص اوقات میں کھلتے ہیں۔ دو چار سال ادھر کی بات ہے، مجھے یونی ورسٹی کے کچھ لونڈے لپاڑوں کی صحبت میں ناران جانے کا اتفاق ہوا، راستے میں ان رنگین اندیشوں نے وہ غُل غپارا مچایا کہ بس کے پہیے بادلوں سے بندھے معلوم ہونے لگے۔ موسیقی کی ایسی ایسی دُھنیں بجائی گئیں کہ غریب تان سین سنتا تورُوں رُوں کرتا اپنے مرقد میں اکڑوں بیٹھ جاتا۔ جب رات کا تیسرا پہرگزر گیا تو ان شریر روحوں پرنیند کی دیویوں کا غلبہ ہو ا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم بالا کوٹ کے سانپ ایسے بل کھاتے پہاڑی دروں میں سے گزر رہے تھے، خاموشی کی سر سر اہٹ کان کے پردوں کو لرزا رہی تھی۔ چاند کبھی صنوبر کے آسماں گیر اور گپھے دار جنگلوں میں چھپ جاتا تو کبھی بادل کے نقرئی پارچوں سے منھ دکھاتا، ماحول پر ہوش رُبا کا طلسم بندھا تھا۔ میں نے ڈرائیور کو راحت فتح علی خان کی ”غالب قوالی“ دھیمی آواز میں چلانے کو کہا۔ ماحول کا اثرتھا یا مِیُوز ز دیوی نے اپنے پَر پھیلائے تھے، معنی کا دودھیا جَھرنا بہنے لگا۔ چھوٹے خاں صاحب شعر پڑھ رہے تھے،

    موت کا ایک دن معین ہے

    نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

    ہم نے اس شعر کو ہر طرح سے پڑھ رکھا تھا اور سیدھا سا، زبان کی صفائی اور روزمرہ کا شعر جانتے تھے۔ لیکن اس دن جو معنی سمجھ میں آئے، روح نہال ہو گئی۔ پورا سفر اسی سرشاری میں کٹ گیا، انگریزی میں غالباً ایسے ہی اہتزاز کے لیے serendipityکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ صبح اٹھتے ہی فاروقی صاحب کو الہ آباد فون کیا اور معنی بتائے، یقین مانیے، ان کی آواز میں ایسی دل آویز مسرت تھی جو ماں باپ یا چُھٹپنے کے استاد میں اپنے خُردوں کو بڑھتے کر جنم لیتی ہے۔ فاروقی صاحب نے مجھے باقاعدہ مبارک دی۔ معنی لکھے دیتا ہوں،

    میری دانست میں اس شعر میں محاورے کے مروجہ استعمال (جس میں مجازی معنی مراد ہوتے ہیں)کی جُون بدلی گئی ہے۔ کسی ہونی یا انہونی کا دن معین ہونا، یہ محاورہ سامنے کی بات ہے اور اس کاواضح مفہوم طے شدہ، مخصوص یا معینہ وقت ہے۔ یہاں دن سے مراد چوبیس گھنٹوں کی کوئی بھی مخصوص گھڑی ہو سکتی ہے۔ غالب نے یہ کمال کیا ہے کہ آنکھ بچا کر محاورے کے حقیقی معنی مراد لے لیے ہیں، جس کا نتیجہ دوسرے مصرعے سے خفیف تضادکے طور پر سامنے آتاہے، اسی لطیف نکتے سے غالب، غالب بنتا ہے۔ اب غور کیجیے، موت کا دن معین ہے، ہم رائج معنوں میں پَو پھوٹنے سے شفق پھولنے تک کے دورانیے کو دن کہتے ہیں۔ شعر کے اندر موت کے بارے میں طے ہو گیا کہ یہ اس دورانیے (یعنی سورج نکلنے سے ڈوبنے تک) کے عرصے میں آنی ہے۔ جب ہونی شدنی کا وقت دن کے پہر میں ہے تو رات میں پریشانی کرنا تو گویا بے وقوفی ہوئی، کیوں کہ شب کے پہروں میں تو اس نصیب جلی نے آنا ہی نہیں۔ لہذا رات گھوڑے بیچ کے سویا جائے، عیش کی جائے، کوئی چِنتا نہیں۔ یوں دیکھیے تو عمومی سرزنش یا ترکِ دنیا کے مفہوم سے ہٹ کر شعر کا متکلم ایسا کھلا کھلایا مسخرہ معلوم ہونے لگتا ہے، جو ہے تو لہو و لعب کا مارا لیکن ا لمیے کے سامنے بھی سینہ تان کے کہہ سکتا ہے: ہنوز دلی دور است! قصہ طول پکڑ گیا۔ لیکن یہ قصہ یہ دکھانے کے لیے اہم ہے کہ فاروقی صاحب کو اپنے ہم سروں یا خود سے چھوٹوں کی بھی صحیح بات ماننے میں عذر نہ ہوتا تھا۔

    ایک بارہمارے ایک دل چسپ لگے بندھے نے بتایا کہ فاروقی صاحب کا ناول ”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ پڑھ کر میں نے انھیں ای میل کی کہ آپ نے حوالے کی کتابوں میں داؤ د رہبر کی مرزا داغ پر مشہور ِزمانہ کتاب کا تو ذکر ہی نہ کیا، فاروقی صاحب نے کچھ ہی دیر بعد جواب دیا اور اپنی کم علمی کا اعتراف کیا۔ اس سے مجھے خود فاروقی صاحب ہی کی زبانی قصہ یاد آیا، جب انگریزی میں پہلے پہل سیموئل جانسن کا وقیع لغت چھپ کر آیا توایک خاتون نے اس سے گِلہ کیا کہ فلاں لفظ تو داخلِ لغت ہونے سے رہ گیا، جانسن نے بڑی معصومیت سے جواب دیا، ”لا علمی، محترمہ، مکمل لا علمی!“

    آخری دنوں میں فاروقی صاحب کلاسیکی ادب کے اہم ترین لغت ”تضمین الغات‘‘ کی تالیف کا کام کر رہے تھے، اس کی دو تین طویل قسطیں شائع بھی ہوئیں، میں نے ان قسطوں کو بار بار پڑھا اور بہت کچھ نیا سیکھا تھا۔ کچھ دن بعد ان کو ایک مختصر سا ای میل بھی بھیجا جس میں کچھ بچگانہ سوالات تھے۔، مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ میری ای میل کا اتنا جلد جواب دیں گے، وہ بھی ایسا مسکت، واضح اور حوصلہ افزا کہ کئی نئی راہیں سوجھنے لگیں گی، خدا مرحوم کو بہشت مکین کرے!

    کرونا وبا کے پہلے سال میں اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران میں نے انھیں اپنی دس نئی غزلیں بھیجیں اور لکھا کہ آپ برصغیر میں واحد آدمی ہیں جو مجھے بے آبرو ہونے سے بچا سکتے ہیں، جواب میں انھوں نے جولکھا، وہ ملاحظہ ہو،

    ”بھئی تمہاری غزلوں نے مجھے حیران اور ای میل نے پریشان کیا ہے۔ میں نے انھیں دو چار بار پڑھا ہے۔ معنی یابی کے لیے تمہارے پاس نئی پرانی بہت سی کا رگزاریاں ہیں۔ یہ میرے نزدیک کا میابی کا بڑا جواز ہیں۔ منیر کے شعر میں جو حزنیہ اور کہیں کہیں ڈراؤنے نقشے ہیں، تمہاری غزل میں ان کا پڑاؤ ایک قدم آگے ہے۔ لیکن ایسے کہ بہت سی وحشت، تھوڑا خوف اور ڈھیرسا را اسلوب سب اوپر نیچے جمع ہو گیا ہے۔ میرے لیے سب سے اہم بات لفظ سے تمہاری گہری واقفیت ہے جو تمہاری نسل میں تو خیرزیادہ نہیں دیکھی۔۔۔“

    یقین مانیے میں اس رائے کو اتنا ہی عزیز جانتا ہوں جتنا مصحفی نے میر کی طرف سے مکرر شعر پڑھنے کی فرمائش کو جانا تھا، اس قطعی فرق کے ساتھ کہ فاروقی صاحب میں کہیں نہ کہیں میر کا عکس ضرور تھا لیکن میں غریب تو مصحفی کی چَھب تک سے بھی محروم ہوں۔ کاش فاروقی صاحب زندہ ہوتے تو شاید میری غزل کی کتاب، ”پھولوں کی آگ“ (جو ایک مہینہ پہلے ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور سے چھپی ہے۔) کو علی اکبر ناطق اور عرفان عارف خستہ سے آگے تیسرا قاری مل جاتا۔ اس کے بعد میرا ان سے رابطہ نہیں ہوا یہاں تک کہ وہ گھڑی آ گئی جس سے مہلتِ فرار نہیں، ان کی موت کی خبر نے ادھ موا کر دیا، اس سانحے کے لیے میری زنبیل میں کوئی لفظ نہیں بجز، انا للہ و انا اللہ راجعون!

    ایک بات طے ہے کہ اردو ادب میں کوئی دوسرا فاروقی نہیں پیدا ہوگا، اگر ہماری نسل نے صرف ان کی تحریریں پڑھ کر ادب کو جینے کا سلیقہ ہی سیکھ لیا تو سمجھیے بہت غنیمت ہے،

    ہم خانہ بیدل، ہم سایہ عنقا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے