میر ناصر علی
اللہ بخشے میر ناصر علی دلّی کے ان وضعدار شرفا میں سے تھے۔ جن پر دلّی کو فخر تھا۔ عجب شان کے بزرگ تھے۔ ‘‘بزرگ’’ میں نے انہیں اس لیے کہا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں بزرگ ہی دیکھا۔ سوکھ کر چمرغ ہوگئے تھے۔ خش خشی ڈاڑھی پہلے تل چاولی تھی، پھر سفید ہوگئی تھی۔ کتری ہوئی لبیں، پوپلا منہ، دہانہ پھیلا ہوا، بے قرار آنکھیں، ماتھا کھلا ہوا، بلکہ گدّی تک ماتھا ہی چلا گیا تھا۔ جوانی میں سروقد ہوں گے، بڑھاپے میں کمان کی طرح جھک گئے تھے۔ چلتے تھے تو پیچھے دونوں ہاتھ باندھ لیتے تھے۔ مستانہ دار جھوم کے چلتے تھے۔ مزاج شاہانہ، وضع قلندرانہ۔ ٹخنوں تک لمبا کرتا۔ گرمیوں میں موٹی ململ یا گاڑھے کا، اور جاڑوں میں فلالین یا وائلہ کا۔ اس میں چار جیبیں لگی ہوتی تھیں جنہیں میر صاحب کہتے تھے۔ ‘‘یہ میرے چار نوکر ہیں’’ گلےمیں ٹپکایا گلوبند، سر پر کبھی کپڑے کی پچخ گول ٹوپی اور کبھی صافہ۔ گھر میں رَدی کا کنٹوپ بھی پہنتے تھے اور اس کے پاکھے الٹ کر کھڑے کرلیتے، جب چُغہ پہنتے تو عمامہ سر پر ہوتا۔ اک بَرا پاجامہ، ازار بند میں کنجیوں کا گچھا۔ پاؤں میں نری کی سلیم شاہی، کسی صاحب بہادر سے ملنے جاتے تو انگریزی جوتا پاؤں میں اڑا لیتے۔
آپ سمجھے بھی یہ میر ناصر علی کون ہیں؟ یہ وہی میر ناصر علی ہیں جو اپنی جوانی میں بوڑھے سرسید سے الجھتے سُلجھتے رہتے تھے۔ جنہیں سرسید ازراہِ شفقت ‘‘ناصحِ مُشفق’’ لکھتے تھے۔ ‘‘نہذیب الاخلاق’’ کے تجدد پسند رُجحانات پر انتقاد اور سرسید سے سخن گسترانہ شوخیاں کرنے کے لیےآگرہ سے انہوں نے ‘‘تیرہویں صدی’’ نکالا، اور نیچریوں کے خلاف اِس دھڑلےّ سے مضامین لکھے کہ ان کی دھوم مچ گئی۔ ‘‘تیرہویں صدی’’ بند ہوا تو ‘‘زمانہ’’۔ ‘‘زمانہ’’ کے بعد ‘‘افسانۂ ایام’’ اور ‘‘افسانۂ ایام’’ کے بعد ‘‘ناصری’’ نکالا۔ یہ بعد کے دونوں پرچے میر صاحب کے چھوٹے بھائی میر نصرت علی کے نصرت المطابع میں چھپتے تھے۔ جب میرصاحب پنشن لے کر دلّی ہی میں رہنے لگے تو انہوں نے اپنا ایک ہینڈ پریس لگالیا اور اس کا نام ‘‘مطبع ناصری’’ رکھا۔ ۱۹۰۸ء میں اسی مطبع سے میر صاحب نے ‘‘صلائے عام’’ شائع کرنا شروع کیا جو ان کے سالِ وفات ۱۹۳۳ء تک چھپتا رہا۔ یہ سب پرچے اعلیٰ اردو لٹریچر کے لیے وقف تھے اور ان میں بیشتر مضامین میر صاحب ہی کے ہوتے تھے۔
‘‘صلائے عام’’ کے دو مستقل عنوان تھے ‘‘پیرایۂ آغاز’’ اور ‘‘مضمونِ پریشاں’’۔ ‘‘پیرایۂ آغاز’’ رسالے کا دیباچہ ہوتا تھا جس میں میر صاحب مضامین نظم و نثر کاتذکرہ بڑے انوکھے انداز میں کرتے تھے۔ ‘‘مصمونِ پریشاں’’ ٹکڑے ٹکڑے مضمون ہوتا تھا جس کا ہر ٹکڑا ایک مکمل خیال پیش کرتا تھا۔ اسے دلِ صد پارہ یا ہزارجامہ سمجھنا چاہیے۔ میر صاحب پچیس سال تک اِن عنوانوں کے تحت خود لکھتے رہے۔ اور نِت نئی بات کہتے رہے۔ نازک خیالی اور پاکیزہ بیانی ان کا شیوہ تھا۔ صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ان کے اندازِ تحریر پر بہت سوں کو رشک آیا۔ بعض نے کوشش کرکے نقل اتارنی چاہی۔ تو وہ فقرے بھی نہ لکھے گئے اور خون تھوکنے لگے۔ اردو میں انشائیے لطیف کے موجد میر صاحب ہی تھے۔ ان کا اندازِ بیان انہی کے ساتھ ختم ہوگیا۔ غضب کی علمیت تھی ان میں۔ انگریزی، فارسی اور اردو کی شاید ہی کوئی معروف کتاب ایسی ہو جس کامطالعہ میر صاحب نے نہ کیا ہو۔ کتاب اس طرح پڑھتے تھے کہ اس کے خاص خاص فقروں اور پاروں پر سُرخ پنسل سے نشان لگاتے جاتے تھے اور کبھی کبھی حاشیے پر کچھ لکھ بھی دیا کرتے تھے۔ ہزاروں لاکھوں شعر فارسی اور اردو کے یاد تھے، حافظہ آخر تک اچھا رہا۔ انگریزی اچھی بولتے تھے اور اس سے اچھی لکھتے تھے۔ ساٹھ پینسٹھ سال انہوں نے انشا پردازی کی داد دی۔
نمک کے محکمے میں ادنی ملازم بھرتی ہوئے تھے، اعلیٰ عہدے سے پنشن لی۔ حکومت کی نظروں میں بھی معزز ٹھہرے ‘‘خان بہادر’’ کا خطاب ملا، دلّی میں آنریری مجسٹریٹ رہے، اور پاٹودی میں نو سال چیف منسٹر۔
میر صاحب فارسی اور اردو اور انگریزی کے بہت بڑے عالم تھے مگر عربی واجبی ہی جانتے تھے۔ ان کے باپ دادا نہایت جید قسم کے علماء میں شمار ہوتے تھے۔ اور مناظرہ کرنے میں انہوں نے اتنی شہرت پائی تھی کہ امام المناظرہ کہلاتے تھے۔ مگر میر صاحب کو مذہبیات سے کوئی طبعی مناسبت نہیں تھی۔ انہوں نے باپ سے چھپ کر انگریزی پڑھنی شروع کی تھی۔ جب ان کے والد کو اس کی سُن گُن ملی تو بہت ناراض ہوئے اور انہیں سختی سے منع کیا۔ مگر میر صاحب کا مطالعہ جاری رہا اور اس کی پاداش میں انہیں گھر سے علیحدہ کردیا گیا۔ فرماتے تھے کہ ‘‘گھر سے نکلنے کے بعد ہم نے عرب سرا میں پانچ روپے مہینے کی ٹیوشن کرلی۔ عرب سرا آنے جانے میں بہت وقت لگتا تھا، اس لیے ہم یہ کرتے تھے کہ گھر سے دو کتابیں لے کر چلتے۔ ایک کتاب جاتے میں ختم کردیتے اور دوسری آتے میں۔ یوں ہمارا راستہ بھی کٹ جاتا اور ہمارا مطالعہ بھی ہوجاتا۔’’ مطالعہ کی عادت انہیں ساری عمر رہی اور ساری دُنیا کا ادب اور فلسفہ انہوں نے چاٹ لیا۔
میر صاحب کو بحث مباحثہ کی عادت بالکل نہیں تھی۔ ‘‘سچ کہتے ہو، سچ کہتے ہو’’ کہہ کر ٹال جاتے تھے۔ اگر اتفاق سے کہیں الجھنا ہی پڑ جاتا تو ان کے علم کے سمندر میں جوار بھاٹا آجاتا۔ بس پھر حریف کا جب تک بیڑا غرق نہ کرلیتےانہیں چین نہ آتا۔ عربی کی کمی کو بعض دفعہ بُری طرح محسوس کرتے تھے۔ معقولات میں تو بھلا کون ان سے جیت سکتا تھا۔ البتہ جب کوئی منقولات پر اتر آتا تو میر صاحب ایک دم سے خاموش ہوجاتے۔ فرماتے تھے کہ ‘‘مولوی صاحب عربی کے حوالے دینے لگتے ہیں، میں اس لیے خاموش ہوجاتا ہوں کہ ان کی بات میری سمجھ میں نہیں آتی، اور وہ یہ سمجھ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ دیکھو کس دھڑلے سے قائل کیا۔
میر صاحب جب باتیں کرتے تو مسکراتے بھی جاتے۔ ان کی باتیں عموماً ہنسی مذاق ہی کی ہوتی تھیں۔ انہیں کبھی کسی سے سنجیدہ گفتگو کرتے یا علمی بحث کرتے میں نے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ ظرافت کی کوئی بات کہتے، اوروں کو ہنساتے اور خود بھی ہنستے، مگر ان کی ہنسی میں آواز نہیں ہوتی تھی۔ مولویوں کا مذاق اکثر اڑاتے تھے۔ ایک دفعہ نہ جانے مولویوں کی برات میں کیسے جاپھنسے۔ دلہن والوں نے برات کو کھانا بھی دیا تھا۔ میر صاحب دسترخوان پر تو بیٹھ گئے مگر کھانا انہوں نے نہیں کھایا۔ ان کے ساتھ ان کا ایک کم عمر پوتا تھا۔ اس سے بولے ‘‘توکھالے’’۔ جب لڑکا کھاچکا تو میر صاحب بولے ‘‘ابے جنت میں جھاڑو نہیں دے گا تو مولوی ناراض ہوجائیں گے۔’’یہ کہہ کر ایک جغادری مولوی کی طرف دیکھ کر کہا ‘‘کیوں صاحب؟’’ اور پھر لڑکے سے بولے ‘‘رکابی کو اس طرح چاٹ کر تُس بھی باقی نہ رہے۔’’
میر صاحب کو اپنی بیوی سے بڑی محبت تھی۔ ہر سال اپنی شادی کی سال گرہ منایا کرتے تھے۔ تیسرے پہر سے گھروالے اور قریبی عزیز جمع ہونے شروع ہوتے۔ کھان پان ہوتا۔ بیوی دلہن بنتیں، مہمانوں کے ہالے میں آکر بیٹھتیں اور میر صاحب انہیں ایک سونے کی انگوٹھی پہناتے۔ مبارک سلامت کا شور مچتا ،ہنسی مذاق کی باتیں ہوتیں۔ اور ایک ایک کرکے رات گئے تک مہمان رخصت ہوتے۔ بیوی کے انتقال کےبعد میر صاحب بیس پچیس سال جیئے مگر انہوں نے دوسری شادی نہیں کی، اور ادب و فلسفہ کے مطالعہ میں زیادہ منہمک ہوگئے۔
میر صاحب کی حویلی۔ حویلی کا ہے کو محل سرا کہنا چاہیے۔۔۔کے تین حصے تھے۔ زنانہ، جس میں کُشادہ دالان در دالان، مغل محرابوں والے، ان پر ٹپاٹپی کے رُویٔ بھرے دبیز پردے پڑے ہوئے۔ دالانوں میں دائیں بائیں کوٹھریاں تھیں۔ پیش دالان کے آگے صحن چبوترہ۔ اس کے پہلوؤں میں صخچیاں۔ نیچے کے رُخ دائیں جانب ایک سہ دری تھی جس میں کیواڑ لگا کر کمرہ بنالیا تھا۔ اس میں ان کی چھوٹی بہو رہتی تھیں۔ دالانوں کے اوپر آمنے سامنے دو بڑے کمرے تھے جن میں میر صاحب کے بڑے بیٹے اور ان کا کُنبہ رہتا تھا۔ جہاں زنانہ مکان کی حد ختم ہوتی تھی۔ اسی سے ملواں ایک اور حصہ تھا جس کا ایک دروازہ زنانے کے صحن میں کھلتا تھا۔ اس حصہ میں ایک دالان تھا اور پہلو میں کمرے تھے۔ مکان کے اس حصے میں میر صاحب کا کتب خانہ اور نوادر خانہ تھا۔ زنان خانہ اور کتب خانہ کی پوری لمبان میں بازار کے رُخ ایک چوڑی پٹی پر مردانہ بنا ہوا تھا۔ نیچے باراز کے رُخ دکانیں اور محل سرا کا مغلیٔ شان دار صدر دروازہ تھا جس کے بڑے بھاری کیواڑوں میں پتیلی گنج کیلیں جڑی ہوئی تھیں۔ اور ایک پٹ میں کھڑکی بھی کھلی ہوئی تھی۔ اس کے اندر ڈیوڑھی تھی جس میں ایک بڑے سے تخت پر دربان بیٹھا رہتا تھا۔ یہیں سے زنانہ مکان اور کتب خانے کو راستے جاتے تھے، بالاخانے پر دائیں طرف ایک برآمدہ تھا جس میں میر صاحب کا بیشتر وقت گزرتا تھا۔ اس کے پیچھے ایک سکڑا کمرہ تھا جس میں میر صاحب کی مسہری اور کتابوں اور نوادر کی الماریاں تھیں۔ اس کے پیچھے ایک چوکور سا بڑا کمرہ یا ہال تھا جس میں ادبی نشستیں ہوتی تھیں۔ بعد میں اسی ہال میں باقی ماندہ کتب خانہ اور نوادر خانہ منتقل ہوگیا تھا۔ کیونکہ نیچے سامان بہت چوری ہونے لگا تھا۔ میر صاحب کی ایک بیٹی مع اپنے خاندان کے اس خالی حصے میں اٹھ آئی تھیں۔ اوپر بائیں جانب بھی برآمدہ اور کمرہ در کمرہ تھا۔ یہ حصہ پہلے میر صاحب کے چھوٹے بیٹے کے تصرف میں تھا، پھر ان کے پوتے میاں انصار ناصری اس میں رہنے لگے تھے۔ یہ پورا مکان فراش خانہ میں ‘‘نمک والوں کی حویلی’’ کے نام سے مشہور تھا۔ کیونکہ میر صاحب نمک کے محکمے میں ملازم رہے تھے۔
جب میر صاحب پنشن لے کر دلّی آگئے تو یہ حویلی بڑی پُر رونق ہوگئی تھی۔ جہاں تک ممکن ہوتا تھا میر صاحب اپنی اولاد کو اپنے سے جُدا ہونے نہیں دیتے تھے۔ بڑے بیٹے نے یکے بعد دیگرے کئی ملازمتیں کیں، آخر ہار کر گھر بیٹھ رہے تھے اور ‘‘صلائے عام’’ کا سارا انتظام میر صاحب نے انہیں سونپ کر دوسو روپے ان کے مقرر کردیے تھے۔ چھوٹے بیٹے ملازمت کے سلسلے میں ہمیشہ باہر ہی رہے۔ زنانہ گھر میں دو بیاہی تیاہی بیٹیاں بھی رہتی تھیں۔ میر صاحب بڑے سریر چشم اور کُنبہ پرور آدمی تھے۔ اولاد اور اولاد کی اولاد کو تو خیر بھرتے ہی تھے دُور پرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ ایک صاحب تھے جو کتابت کرتے تھے، خط بہت اچھا نہیں تھا مگر میر صاحب نے انہیں ‘‘صلائے عام’’ کی کتابت کرنےکے لیے رکھ لیا تھا۔انہی صاحب کے ایک صاحب زادے تھے انہیں اپنے مطبعِ ناصری کا منیجر مقر کرلیا تھا۔ جنرل منیجر میر صاحب کے بڑے صاحبزادے تھے۔ مطبع ناصری نیچے میر صاحب ہی کی دکانوں میں سے ایک میں تھا۔
بالاخانہ پر ایک بہت بڑی کھلی ہوئی چھت تھی۔ جو دونوں طرف کے عملے کے درمیان صحن کاکام دیتی تھی۔ اس پر چاروں طرف پھولوں کے گملے لگے ہوئے تھے اور بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ بیچ میں بازار کے رُخ ایک گز اونچی کرسی دے کر سنگِ مرمر کاایک شہ نشین نصب کیا گیا تھا۔ اس میں بیٹھ کر بازار کی سَیر کی جاسکتی تھی اور اسی حصے میں کبھی مشاعرے ہوتے اورکبھی ‘‘شبِ ماہ’’ منائی جاتی۔
‘‘شب ماہ’’ چودھویں کے چاند میں منائی جاتی تھی۔ اس میں خاص اہتمام کیا جاتا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو ہر چیز سفید ہو۔ چنانچہ دھوپ ڈھلتے ہی چھڑکاؤ کیا جاتا۔ شام ہوتے ہوتے اجلی اجلی چاندنیوں کافرش ہوجاتا۔ چاروں طرف سفید گاؤ تکیے لگ جاتے۔ چنگیروں میں چنبیلی اور موتیا کے پھول رکھے جاتے۔ اِدھر چاند کھیت کرتا ادھر مہمان سفید بُراق انگرکھے دربر اور سفید دو پلّیاں برسر آنے شروع ہوجاتے اور تکیوں کے سہارے بیٹھتے جاتے۔ پیچوانوں سے خمیرے کی لپٹیں اٹھتی رہتیں، چاندی کی تھالیوں میں گنگا جمنی ڈبیاں رکھی ہوتیں۔ بڑی ڈبیا میں پان، اس سے چھوٹی میں چھالیا، اس سے چھوٹی ڈبیوں میں کسی میں چوگھڑا الائچیاں، کسی میں زردے کی ننھی ننھی گولیاں ورقِ نقرہ میں لپٹی ہوئیں۔ سفید بلور کے آب دانوں میں برف پڑی ہوئی، اِن کے گرد گلاس سجے ہوئے۔ جلسہ شروع ہونے سے پہلے دودھ کے شربت کادَور چلتا۔ اس سے فارغ ہونےکے بعد مہمانوں ہی میں سے کسی کو صدر بناکر بٹھایا جاتا اور محفل مشاعرہ شروع ہوجاتی۔ایسے ویسے کا یہاں بھلا گزر کہاں۔ دلّی کے چیدہ چیدہ اہلِ کمال بُلائے جاتے تھے۔ ہندو مسلمان سبھی شریک ہوتے تھے۔ سب اپنا اپنا منتخب کلام سناتے اور خاطر خواہ داد پاتے۔ میر صاحب جیسے سخن سنج سے واہ واہ لینے کے سب مشتاق۔ میر صاحب کا داد دینے کا طریقہ سب سے نرالا ہے۔ وہ تڑپ کر داد دینے کے قائل نہیں ہیں۔ بڑے سکون سے شعر سنتے ہیں اور بڑے اطمینان سے داد دیتے ہیں۔ شعر کے ایک ایک لفظ پر ان کی نظر رہتی ہے۔ ‘‘بھئی واہ۔ یہ لفظ اچھا آیا۔’’ ‘‘یہ ٹکڑا اس میں خوب کہا۔’’ ‘‘پہلا مصرع تو شاید کوشش کرکے میں بھی کہہ لیتا، مگر دوسرا مصرع تو میں کوشش کر کے بھی نہیں کہہ سکتا۔’’ ‘‘اگر تم یوں نہ کہتے تو میں ناراض ہوجاتا۔’’ غرص کوئی دو گھنٹے ڈھائی گھنٹے یہ مشاعرہ جاری رہتا اور اسی شائستگی کے ساتھ برخاست ہوتا اور سارے مہمان مطمئن و خوش رخصت ہوتے۔
میر صاحب کا کتب خانہ ایک زمانے میں دلّی کے بہترین کتب خانوں میں شمار ہوتا تھا۔ یوں تو اس میں تمام علوم کی کتابیں تھی مگر تاریخ، ادب اور فلسفہ کی کتب کا ذخیرہ بے مثل تھا۔ افسوس کہ اس کتب خانے کی بہار ان کی زندگی ہی میں لٹ چکی تھی۔ اس کی بیش بہا کتب چوری ہوکر کوڑیوں کے مول ردّی خریدنے والے کباڑیوں میں پہنچتی رہیں۔ میر صاحب اکثر اپنی کتابیں چوک سے دوبارہ خرید لایا کرتے تھے پھر وہ اپنے لُٹنے پر قانع ہوگئے تھے۔ ان کے انتقال کے وقت بھی ان کے لٹے گھٹے کتب خانہ میں چار ہزار کتابیں تھیں جو ان کے ورثا میں تقسیم ہوگئیں اور ان کاکتب خانہ سخی کے دل کی طرح صاف ہوگیا۔
نوادر جمع کرنے کا بھی میر صاحب کو شوق تھا۔ کتب خانے کا ایک حصہ عجائب خانہ بنا ہوا تھا۔ اس میں قلمی تصویریں، خطاطی کے نمونے، قطعات، دست کاری کے اعلیٰ نمونے، تاریخی نوادر، قلمی کتابیں، سکے اور بعض بے حد قیمتی چیزیں شامل تھیں۔ کتب خانہ اور عجائب خانہ میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جب میر صاحب خوب جانچ لیتے تھے کہ واقعی کوئی قدردان آپہنچا ہے تو اسے ازراہِ نوازش خود اپنے ساتھ لے جاتے تھے، اور پھر غضب یہ کرتے کہ اس کا امتحان لیتے۔ ‘‘اچھا بتاؤ تمہیں اس تصویر میں کیا خوبی نظر آتی ہے؟’’ میر پنجہ کش کی اس وصلی میں تم نے کیا بات دیکھی؟ اگر کسی نے کوئی قرینے کی بات جواب میں کہہ دی تو میر صاحب خوش ہوکر اسے ایک ایک چیز دکھاتے، اور اگر کوئی ا ینڈی بینڈی اس کے منہ سے نکل گئی تو میر صاحب کی طبیعت مکدر ہوجاتی اور فرماتے ‘‘کیوں آپ اپنا اور میرا وقت ضائع کرتے ہیں؟ یہ آپ کے ذوق کی چیزیں نہیں ہیں، کہیں اور جاکر اپنا جی بہلائیے۔’’ اور باہر لاکر اسے بڑی رکھائی سے رخصت کردیتے۔ اسی کھرے پن سے لوگ میر صاحب سے گھبراتے تھے اور اکثر انہیں سنکی سمجھتے تھے۔
میر صاحب کا تعلق چونکہ انگریز افسروں سے رہتا تھا اس لیے انہی کو خوش رکھنے کی تدبیریں کرتے رہتے تھے۔ ان کی یہ کمزوری اس قدر بڑھ گئی تھی کہ جو بھی انگریز دکھائی دیتا اسے سلام کرلیتے، کہتے تھے کہ ‘‘کیا خبر کوئی بڑا افسر ہو یا کل کو یہی کوئی بڑا افسر بن کر آجائے۔ فلاں صاحب کو دیکھو نا، پہلے پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ میں ادنی افسر تھے، پھر محکمہ نمک میں کمشنر بن گئے، اور اب دلّی کے چیف کمشنر بن کر آگئے ہیں۔’’ مگر میر صاحب نے اپنی انگریز پرستی اور حکام رسی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہمیشہ ان کی خدمت کرنے پر آمادہ اور ان پر احسان کرنے کی فکر میں لگے رہے۔ ایک دفعہ بہت کہنے سننے سے اپنے لڑکے کی سفارش کرنے ایک انگریز افسر کے پاس گئے۔ وہ میر صاحب کا بڑا پرانا قدردان تھا۔ میر صاحب سے مل کربہت خوش ہوا اور بار بار کہتا رہا ‘‘بتاؤ میں تمہارے لیے کیا کرسکتا ہوں؟’’ اور میر صاحب یہی کہتے رہے کہ ‘‘میں تو حضور کے سلام کو حاضر ہوا تھا۔’’ غرض صحیح گئے اور سلامت آئے۔ گھر والوں نے جب شکوہ کیا تو بولے ‘‘میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مجھ سے کسی کی سفارش نہیں ہوسکتی۔’’ ایک دفعہ گھروالوں نے میر صاحب کو اس پر آمادہ کیا کہ آپ صرف اپنے لڑکے کو اپنے ساتھ لے جائیں، سعی سفارش کچھ نہ کریں۔ میر صاحب بادلِ ناخواستہ چلے گئے اور صاحب بہادر ان سے مل کر خوش بھی بہت ہوئے، مگر جب انہوں نے پوچھا ‘‘یہ آپ کا لڑکا ہے؟’’ تو میر صاحب کی رگِ ظرافت پھڑک گئی۔ بولے ‘‘یہ تو اس کی ماں بتاسکتی ہے۔’’ بات قہقہوں میں اڑگئی اور لڑکے کو بے نیلِ مرام کے علاوہ پشیمان بھی لوٹنا پڑا۔
مگر میر صاحب انگریز سے بالکل دب کر نہیں رہ گئے تھے، کبھی کبھی انہیں حرارہ بھی آجاتا تھا۔ ایک دفعہ کسی یورپی مستشرق کو سلطان جی کی درگاہ دکھانے لے گئے۔ خواجہ حسن نظامی نے درگاہ کے دروازے پر ان کی پذیرائی کی۔ انگریز کے جوتے صاف کراکے خواجہ صاحب نے درگاہ میں داخل کردیا۔ مگر میر صاحب سے کہا ‘‘آپ جوتے اتار کر اندر آجائیے۔’’میر صاحب اس امتیاز پر برہم ہوگئے۔ بولے ‘‘اگر جوتے اتارنا بے عزتی ہے تو میں اس گورے کے سامنے بے عزت ہوکر اندر جانا نہیں چاہتا۔’’ چنانچہ میر صاحب وہیں کھڑے رہے اور خواجہ صاحب انگریز کو درگاہ میں گھمالائے۔ واپسی پر خواجہ صاحب نے میر صاحب سے کہا ‘‘آپ عمامہ باندھے ہوئے ہیں اور مولویوں کا چغہ بھی ہے۔ پھر فل بوٹ کیوں پہنے ہوئے ہیں؟’’ میرصاحب نے چٹخ کر جواب دیا ‘‘پاؤں میں پہنا ہے سرپر تو نہیں اوڑہا اور ہاں تم ایسے سوال کیوں کرتے ہو؟’’
میر صاحب میں پرانے فلسفیوں کی سی بددماغی تھی۔ کبھی کبھی ان پر زڑ بھی سوار ہوجاتی تھی۔ حد ہے کہ میر صاحب کی بیٹی کی شادی ہوئی تو وقتِ رخصت دولہانے حاضر ہوکر سلام کرنے کی اجازت چاہی۔میر صاحب نے اجازت نہیں دی۔ اس پر دولہا والوں میں بڑی چرغم چرغم ہوئی۔ دولہا کے ماموں بھی خان بہادر تھے۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہ اگر اجازت ہو تو میں ملاقات کے لیے حاضر ہوں؟ اس کا جواب یہ آیا کہ ‘‘آپ میری طبیعت سے واقف نہیں۔ میں آپ کے مذاق سے آشنا نہیں، آپ دولہا کے ماموں ضرور ہیں مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ آپ میرا اور اپنا دونوں کا وقت ضائع کریں۔’’ چنانچہ برات یوں ہی رخصت ہوگئی۔
میر صاحب دراصل اپنے آگے کسی کو گردانتے نہیں تھے۔ نوجوانوں سے تو اور بھی بھڑکتے تھے۔ ایک خاصے نامی گرامی ادیب دلّی آئے تو فرطِ عقیدت سے میر صاحب کے گھر ان سے ملنے پہنچ گئے۔ طوعاً و کرہاً میر صاحب نےانہیں باریابی کی اجازت دی۔ انہوں نے نہایت ادب سے جھک کر سلام کیا۔ جواب ملا ‘‘بندگی’’۔ وہ بے چارے سٹ پٹاگئے۔ گھبراکر بولے صُلاّے عام میرے نام جاری کردیجیے۔ یہ پانچ روپے ہیں چندے کے۔’’ میر صاحب نے سر سے پاؤں تک انہیں دیکھا اور بولے ‘‘صلائے عام تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتا۔’’ یہ کہہ کر پھر کتاب پڑھنے لگے۔ عقیدت مند نے بڑی لجاحت سے کہا ’’آپ کو زحمت دینے کی معافی مانگتا ہوں۔’’ میر صاحب نے تنک کر کہا ‘‘میاں صاحب زادے معافی کیا مانگتے ہو، بھیک مانگو، بھیک!’’ وہ بے چارے اپنا سا منہ لے کر وہاں سے چلے آئے۔ غلط اردو سُن کر میر صاحب آپے سے باہر ہوجاتے تھے۔
میر صاحب کی نظر ایک ایک لفظ پر رہتی تھی۔ لکھنے میں خود اتنے محتاط تھے کہ جو کچھ لکھتے تھے اسے بار بار پڑھتے تھے، اور اگلے دن صبح کو سب سے پہلا کام یہ کرتے کہ اپنے مضمون کی نوک پلک درست کرتے۔ ایک دن ایک صاحب مضمون لکھ کر لے گئے جس کا عنوان تھا ‘‘داغ کی شاعری پر ایک نظر’’ میر صاحب نے عنوان دیکھتے ہی فرمایا ‘‘ایک نظر کیوں؟ دو نظر کیوں نہیں؟’’ یہ کہہ کر مضمون واپس دے دیا۔ یوں بھی وہ ‘‘صلائے عام’’ میں لگے بندھے آدمیوں کے مضمون چھاپتے تھے۔ جو شخص نواب سائلؔ سے بے دھڑک کہہ دیتا ہو ‘‘ابے یار تُو تو نواب ہے، شاعر کہاں ہے۔’’ وہ بھلا کسی اور کی کیا رکھتا۔
میر صاحب کتابوں اور پرانی چیزوں کی تلاش میں روزانہ عصر کے وقت فراش خانہ سے جامع مسجد تک پیدل جایا کرتے تھے۔ آندھی جائے مینہ جائے ان کا پھیرا ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ کمر پر ہاتھ باندھے ٹھیکیاں لیتے ہوئے جاتے۔ پیچھے پیچھے ایک ملازم ہوتا جس سے گھریلوں باتوں سے لے کر فلسفیانہ نکات تک بیان کرتے چلے جاتے، اور وہ ‘‘جی حضور، جی حضور’’ کہتا رہتا۔ چوک پر پہنچتے ہی کباڑیے اور پرانی کتابوں والے انہیں گھیر لیتے۔ ‘‘نواب صاحب، یہاں آئیے۔’’ اجی ڈپٹی صاحب، دیکھیے کیا چیز رکھی ہے میں نے آپ کے لیے۔’’ ‘‘حضور دیکھیے کیسا تحفہ مال لایا ہوں۔’’ اور میر صاحب ایک ایک چیز کو دیکھتے، مول تول کرتے اور پیسوں کی چیز روپوں میں خرید کر خوش خوش گھر لوٹتے۔ کبھی بہت موج میں ہوتے تو کسی برابر سے گزرتے ہوئے لونڈے کے سرپر چپت جمادیتے، وہ پلٹ کر موٹی سی گالی دیتا تو یہ اس گالی کا مزہ لیتے۔ ‘‘اوہو ہو ہو، آہا ہا ہا ہ۔ دلّی کار وڑا ہے، کیا پری دماغ پایا ہے۔’’ کرتے آگے بڑھ جاتے۔
اپنے بچوں سے اور بچوں سے میر صاحب کو بڑی محبت تھی۔یوں تو ہوّا سمجھ کر اس کے پاس ایک بھی نہیں پھٹکتا تھا۔ مگر تیسرے پہر کی چائے میں سب کو جمع ہونےکا حکم تھا۔ اس لیے خوب رول چول رہتی۔ مزے مزے کی باتیں ہوتیں۔ دن بھر کے گھریلوں جھگڑے قصے چُکائے جاتے، بسکٹ، پنیر، نمکین چیزوں کادَور چلتا۔ میر صاحب چائے کے بڑے شوقین تھے۔ جس زمانے میں چائے آٹھ آنے پونڈ بکتی تھی۔ میر صاحب سربند چائے پانچ روپے پونڈ سے کم کی نہیں پیتے تھے۔ فرماتے تھے کہ اس سے زیادہ کی مجھ میں ہمت نہیں۔ جب پیالیوں میں چائے ڈالی جاتی تو کہتے ‘‘سونے کا پانی ہے، سونے کا پانی’’ اور جب اس میں دودھ ڈالا جاتا تو کہتے ‘‘اوہوہوہو، بادل اٹھ رہے ہیں۔’’
بددماغی کے باوجود کبھی اپنی ناقدری کاملال بھی انہیں ضرور ہوتا تھا۔ فرماتے تھے ‘‘کبھی کسی اہل کمال کی اس کے وقت میں نہ قدر ہوئی ہے نہ ہوگی۔ اب ہر شخص کی زبان پر غالبؔ اور مرزا غالب ہے۔ زندگی میں غریب کو کوئی پوچھتا تک نہیں تھا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کرایہ کے ادنی مکان میں پڑے رہتے تھے۔ بے چارے کو نہ گھر کا گھر نصیب ہوا نہ آرام سے کھانا نصیب ہوا۔ زندگی بھر مصیبتیں جھیلتے جھیلتے مرگئے۔ اب غالب پرستی شروع ہوئی ہے، فرمائیے غالبؔ کے کس کام کی؟’’
سنتے چلے آئے ہیں کہ پہنے جگ بھاتا اور کھائے من بھاتا، مگر میر صاحب پہننے اور کھانے دونوں میں اپنی پسند کو ترجیح دیتے تھے۔ خوش خوراک اور نفیس مزاج آدمی تھے۔کھانا پکانے پر رکاب دار خانساماں ان کے ہاں نہیں رکھا جاتا تھا، مامائیں رکھی جاتی تھیں۔ میر صاحب ازراہِ تقنن کہتے تھے کہ ‘‘جب تک آٹا گوندھنے میں چوڑیوں کی دھووَن شامل نہ ہو روٹی میں مزہ کیسے آسکتا ہے؟’’ ویسے اوپر کے کام پر بڈھے اور لڑکے ہمیشہ نوکر رکھے جاتے تھے۔ دونوں وقت کا کھانا زنانے میں سے پک کر آتا تھا۔ صبح اور تیسرے پہر کی چائے کا اہتمام مردانے میں خود کرتے تھے۔
یہ عجیب بات ہے کہ میر صاحب کو اپنی زندگی میں عورت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بلکہ ایک طرح سے عورت سے متنفر کہے جاسکتے ہیں۔ ان کے کسی پرچے میں عورت کاکوئی مضمون یا غزل کبھی نہیں چھپی۔ کبھی کسی خاتون کا تذکرہ تک انہیں منظور نہ تھا۔ دراصل جب وہ مردوں ہی کو نہیں گانٹھتے تھے تو بھلا عورتوں کو کیا گھاس ڈالتے۔ مگر ان کی یہ نفرت بس اسی حدتک تھی۔ ورنہ عورت کی تعریف میں تو انہوں نے ایسے ایسے نفیس نفسیاتی نکتے بیان کیے ہیں کہ مہدی افادی جیسا بانکا ادیب بھی پھڑک کر کہتا ہے ‘‘میں آپ میں یونانیوں کی سی لطافتِ خیال پاتا ہوں۔’’ اور پھر میر صاحب ہی کے انداز بیان سے متاثر ہوکر اپنا وہ بے پناہ مضمون پیش کرتا ہے جس میں اس نے فلسفۂ حسن و عشق بیان کیا ہے۔ میر صاحب کے مضامین میں عورت کے متعلق اَن گنت نشر ہیں۔ ان میں سے چند یہاں نقل کرتا ہوں۔
‘‘عورت جب منہ پھیر کر چلنے کے لیے اٹھ کھڑی ہو تو اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ چاہتی ہے کےکہ کوئی دوڑ کر دامن پکڑلے۔’’
‘‘عورت کے لیے اس قدر بس نہیں ہے کہ مرد کا دل ہاتھ میں رکھے بلکہ جب ہاتھ آجائے تو تنگ رکھے کہ یہی نسخۂ تسخیر ہے۔’’
‘‘اکلے مے نوشی عش مںت داخل نہںن۔ کسی غارت گر دین آفتِ ہوش کے ساتھ اگر یہ لُطف مسرع ہو تو ایسے مںھ رحمتِ الٰہی پر ایمان نہ رکھنا ضعفِ عقائد مںہ داخل ہے۔’’
‘‘کسی کے خیال میں اپنی جان کو خوش رکھنا بُرا نہیں۔ خاص کر ایسی محبت جس میں یارکا مسکرانا یہ بتائے کہ
‘‘نہ دیکھ اس وقت میں ہوتی ہوں بدنام’’
‘‘محبت وہ چیز ہے جو سامان و اسباب کی محتاج نہیں۔ محبت کے لیے ایک اکیلا دل چاہیے۔’’
‘‘عورت کی ج ہی آوارہ کو ں نہ ہو مگر پارسائی پر جان دییا ہے۔’’
‘‘حسینوں کو شاعروں سے شاعر مزاج زیادہ پسند ہیں۔ان کے لیے موزونئ طبع بے کار ہے۔ ان کو اس خیال میں مزہ آتا ہے کہ کسی کو ہمارا خیال ہوا اور ہمیں کسی کا۔’’
‘‘وہ حسین بھولنے کی چیزی نہیں جو لڑکپن سے نکلتی جوانی میں کسی کے خیال میں ہو۔ ایسی عورت کو اپنے چاہنے والے سے یہ سننے کی تاب نہیں کہ رات زیادہ گئی ہے۔ اس کی ایک رات الف لیلہ کی ہزار رات سے بہتر ہے۔’’
‘‘یہ عورت جو دامن کشاں جارہی ہے اس کو آپ کی بے التفاتی کارنج ہے۔ یہ چاہتی ہے کہ آپ کسی اور کی طرف نہ دیکھیں۔’’
‘‘حسین عورت جب کسی سے بچ کر نکلے تو اس کا اس قدر نقصان نہیں جس قدر کہ اپنا ہے۔’’
‘‘آپ یہ نہ سمجھیں کہ مرد عورت سے بازی لے جاتا ہے۔ مرد اگر کسی عورت کو دغا دے تو بھی عورت ہی کا مارا سمجھیے۔’’
‘‘تمام عالم میں حسینوں کی کم سنی سے زیادہ کوئی چیز دل سے قریب نہیں۔ جن کی کھلی یا بندھی سر کی چوٹیاں درازیٔ عمر کا جواب ہیں۔’’
‘‘خدا نے عورت کو بالطبع عیش پسند کیا ہے۔ عورت کے لیے عیش سلطنت کا جلوس ہے۔’’
‘‘عورت کے پاؤں فرشِ مخملیں چاہتے ہیں۔ مرد کے پیر کانٹوں کے لیے بنے ہیں۔’’
‘‘مصائب میں عورت کا حال شاخِ گل کا سا ہے جو آندھی میں جھک جاتی ہےاور جہاں ہوا تھمی پھر سیدھی ہوگئی۔’’
‘‘عورت کا دماغ ہمیشہ بہار کا نمونہ سمجھیے جس میں خزاں کو دخل نہیں۔’’
‘‘عورت جس بات کا ارادہ کرلے کر گزرتی ہے۔ اس لیے محبت میں زیادہ لطف اس محبت کا ہے جو عورت کی طرف سے ہو کہ اگر عورت چاہے تو سو بہانہ سے ملے گی۔ وہی نہ چاہے تو ملنا معلوم
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے؟’’
‘‘کہتے ہیں کہ محبت میں ہوش نہیں رہتا۔ میری رائے میں مرد کو ہوش نہیں رہتا۔ عورت کو ہوش رہتا ہے۔’’
‘‘عورت کو معلوم ہے کہ میں اکیلی بے کار ہوں۔میری زندگی کا مدار دوسرے پر ہے۔ جو غیر جنس (مرد) ہے۔’’
‘‘عورت جس کی عمل داری میں رہتی ہے اس پر حکومت کرتی ہے۔’’
‘‘یہ بات عورت کی عادت میں داخل ہے کہ منہ چھپائے اور حُسن التفات کا دعوےٰ کرے۔’’
‘‘عورت کو چپکے ہی چپکے گھر میں جان دیتے سنا۔’’
‘‘مرد عشق کرتے ہیں مگر عورت عشقِ مجسم ہے۔’’
‘‘عورت میں محبت کے سوا کسی چیز کی قابلیت ہی نہیں۔’’
‘‘محبت بغیر عورت جی نہیں سکتی۔ مرد اور طرح بھی جی سکتا ہے۔’’
‘‘عورت کے دل میں محبت جس قدر جلد اثر کرتی ہے اسی قدر دیر پا بھی ہے۔’’
‘‘عورت کے لیے نری پارسائی کافی نہیں۔ دل رُبائی اور دل فریبی بھی ضروری ہے۔’’
میر صاحب کی آدم بیزاری کاایک سبب یہ بھی تھا کہ طوالتِ عمر کی وجہ سے ان کی تقریباً سارے ساتھی ایک ایک کرکے اٹھ گئے تھے اور وہ اس بھری دُنیا میں اکیلے رہ گئے تھے۔ حدیہ کہ ان کے چھوٹے بھی ان کے سامنے ہی رخصت ہوگئے۔ مولوی نصرت علی، میر صاحب کے چھوٹے بھائی جو تین سال چھوٹے تھے ان سے چھ مہینے پہلے سدہا رگئے۔ یہ بھی عجب شان کے بزرگ تھے۔ سو سے زیادہ ان کی تصانیف ہیں، ایک لُغت بھی انہوں نے سات زبانوں کی مرتب کی تھی۔ اپنا چھاپہ خانہ اور اپنا اخبار تھا۔سالہا سال تک ان کا اخبار چھپتا رہا مگر آج نصرت علی مرحوم کو کوئی بھی نہیں جانتا۔ خود میر ناصر علی کو لوگ ان کی زندگی ہی میں بھول گئے تھے۔ ان کے مرنے پر جب ‘‘ناصر نمبر’’ ساقیؔ نے نکالا تو لوگ چونکے کہ ہائیں، کوئی اتنا بڑا ادیب بھی تھا جو مرگیا؟ کتنی بے رحم ہے موت اور کتنا بے رحم ہے زمانہ! ناصر علی کی موت پر ریاضؔ اور دلؔ گیر جیسے دو چار بڈھے ٹھڈے رولیے اور بس۔ ہماری بے حسی تو بفضلہٖ اس دیہاتی عورت کی طرح قائم ہے جس نے اکبر بادشاہ کی سناؤنی سُن کر کہا تھا کہ ‘‘جب چھیدو کا باپ نہ رہا تو اکبر کیسے رہ جاتا۔’’
میر صاحب بڑے سمجھ دار آدمی تھے۔ وہ جانتے تھے کہ بڑھاپے میں آدمی کس ہدرے کو پہنچ جاتا ہے۔ کسی انگریزی کتاب میں انہوں نے پڑھا تھا کہ بڑھاپے میں سب سے دور رہنا ہی ٹھیک ہوتا ہے۔ جب آدمی ساٹھ سال کا ہوجائے تو اسے اپنی زندگی یکسر بدل لینی چاہیے۔ اپنی صورت شکل اور لباس کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ اس سے جی ذرا ہلکا رہتا ہے، کوئی نہ کوئی مشغلہ اس عمر میں ضرور ہونا چاہیے۔ ساٹھ سے نوے سال کی عمر تک جنازوں میں شریک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کو دفنانے کے بعد اپنے دفنائے جانے کی باری آجاتی ہے۔ شادی بیاہوں میں اور عام جلسوں میں شرکت مناسب نہیں ہوتی۔ کیونکہ اِن سے الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور الجھنوں سے عمر کم ہوتی ہے۔
میرے والد سے میر صاحب کے گوناگوں تعلقات تھے، عزیزداری کے، مضمون نگاری کے، وظیفہ خواروں کی انجمن کے۔ مگر میر صاحب کو میں نے ان کے جنازے میں نہیں دیکھا۔ بعد میں پُرسا دینے البتہ آئے تھے۔ گھر میں داخل ہوتے ہی بولے ‘‘چلا گیا۔ ہمارا یار چلا گیا۔ جلدی چلا گیا۔ اچھا آدمی تھا۔’’
مضمون نگاری، مطالعہ اور نوادر جمع کرنا، یہ سب مشغلے ایسے تھے کہ ان کے بعد میر صاحب کو نہ تو کسی سے ملنے کی فرصت ہوتی تھی نہ ضرورت۔ بچوں کے بچوں سے ان کاجی بہلتا ہی رہتا تھا، کوئی ملنے آجاتا تو انہیں طبیعت پر جبر کرکے اس سے ملنا پڑتا۔ جانتے تھے کہ کم علمی کی اور بیکار باتیں کرے گا، اس لیے رُکھائی سے ملتے تھے۔ طبیعت بھی بڑی بے نیاز پائی تھی۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ ساری عمر ان کے قدردان ان سے اصرار کرتے رہے کہ اپنے مضامین کے منتخب مجموعے چھاپ دیجیے۔ مگر انہوں نے کبھی اس کا خیال بھی نہیں کیا۔ میر صاحب کوئی ساٹھ برس کے ہوں گے جب مہدی افادی نے مجموعۂ مضامین نہ چھاپنے کے سلسلے میں انہیں لکھا تھا۔
‘‘اس پاکیزہ مجموعے کی ترتیب سے اردو ادبِ عالیہ میں آپ کی طرف سے مُستقلاً قیمتی اضافہ ہوتا جو یادگارِ زمانہ رہتا۔ آپ معاف فرمائیں گے یہ بدترین حق تلفی تھی جو آپ اپنی کرسکتے تھے۔’’
خود مہدی نے اس مجموعے کا نام ‘‘افاداتِ ناصری’’ بھی تجویرز کردیا تھا، مگر مہدی مرگئے اور مجموعہ شائع نہ ہوا۔ اس تجویز کے کوئی بیس سال بعد انصار ناصری اور میں نے ڈرتے ڈرتے میر صاحب سے اجازت چاہی کہ ہم اس خدمت کو انجام دیں۔ میر صاحب اس پر رضامند ہوگئے تھے اور ‘‘افاداتِ مہدی’’ بھی ان کی نظر سے گزرچکی تھی۔ انصار ناصری نے میر صاحب کی کتاب کا نام ‘‘افاداتِ ناصری’’ رکھنا چاہا تو میر صاحب چیں بہ جبیں ہوکر بولے ‘‘میں مہدی سے گھٹ کر نہیں رہنا چاہتا۔ میں نےمقاماتِ حریری اور مقاماتِ حمیدی کے وزن پر ‘مقاماتِ ناصری’ سوچا ہے۔’’ مگر میر صاحب کی علالت کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، وہ انتخابِ مضامین کا کام نہ کرسکے اور پھر ان کا وقتِ آخر آپہنچا، ان کے مرنے کے بعد اور بُہتیرے بکھیڑے پھیل گئے۔ اور یہ کام رہ ہی گیا۔
میر صاحب وضعدار ایسے تھے کہ ساری عمر ان کے لباس میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ‘’صلائے عام’’ ۲۵سال جاری رہا، پہلا پرچہ جس کاتب نے لکھا تھا آخر کے پرچے تک وہی کتابت کرتا رہا۔ پریس مین بھی شروع سے آخر تک ایک ہی رہا۔ آخرآخر میں ‘‘صلائے عام’’ کی اشاعت جب بہت کم ہوگئی تو صرف سو سوا سو پرچے چھپتے اور قدردانوں میں تقسیم ہوجاتے۔ میر صاحب اس کے لیے دو سو روپے ماہوار آخر تک دیتے رہے اور پرچہ بند کرنے کو اپنی وضعداری کے خلاف سمجھتےرہے۔ اپنے کسی پرچے میں کبھی کوئی اشتہار نہیں چھپا۔ روزانہ شام کو جامع مسجد کا پھیرا ضرور ہوتا تھا۔ جب تک ان کے دوست احباب جیتے رہے ان سے ملنے اور بازدید کے لیے جاتے رہے۔ نماز پابندی سے نہیں پڑھتے تھے مگر جب پڑھتے تو بڑے خضوع وخشوع کے ساتھ۔ کبھی کبھی یوں ہی سجدے میں پڑ جاتے۔ عید، بقرعید کے موقع پر گھر کے سب چھوٹے بڑوں کو جمع کرکے عیدگاہ ضرور جاتے تھے۔ آخری بقرعید کے موقع پر سخت تکلیف میں مبتلا تھے مگر عیدگاہ جاکر ہی نماز ادا کی۔ عید کے دن خاندان کے کل افراد کو دوپہر کے کھانے پر جمع کرتے تھے۔
میر صاحب کو برش سے دانت مانجھنے کی عادت تھی۔ ایک ایک کرکے سب دانت رخصت ہوگئے۔ آخر میں صرف ایک دانت رہ گیا تھا۔ اس کے لیے بھی برش اور کریم کا اہتمام کرتے تھے۔
میر صاحب کو ہزاروں شعر یاد تھے۔ شعر کا برجستہ مصرف ان سے بہتر کہیں اور نہیں دیکھا۔ لکھنے میں بھی شعر بہت لکھتے اور بولنے میں بھی بات بات پر شعر پڑھتے تھے۔ جب حبس بول کی شکایت بڑھ گئی تو میر صاحب زندگی سے مایوس ہوگئے تھے۔ فرماتے تھے
ختم ہی سمجھو زندگی کے دن کچھ ورق اور ہیں فسانے کے
انتقال سے چار دن پہلے کا واقعہ ہے کہ مرض الموت کی شدت میں مبتلا تھے۔ ضعف سے آنکھ نہ کھلتی تھی۔ ان کے صاحب زادے نے دل بہلانے کے لیے کہا ‘‘دیکھیے آپ کے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، سب آپ کی خدمت کے لیے جمع ہیں۔ کیا انہیں دیکھ کر آپ کو خوشی نہیں ہوتی؟ ‘‘متبسم ہوکر بولے
‘‘ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کرے؟’’
مرنے سے کچھ دیر پہلے جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ تو فرمایا
سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالبؔ
خدا سے کیا ستم وجورِ ناخدا کہیے!
میر صاحب کی آخری آرزو ان کے ایک خط میں درج ہے۔ یہ خط انہوں نے اپنے بیٹے انتصار علی صاحب کو لکھا تھا۔
خط کی نقل حاصل کرکے درج کی جاتی ہے:
‘‘بیٹا
میری ایک آرزو یہ ہے کہ کتب خانے والا مکان تکلف سے آراستہ ہوجائے، اور میں دن رات وہیں پڑا رہوں۔ تم اگر ساتھ چائے پینے آجاؤ تو کیا کہنا مگر کوئی معمولی ذکر کسی کا نہ ہو۔ کھانا، جب مجھے بھوک لگے پکا پکایا مل جائے، اور کوئی لڑکی آکر کھلاجائے۔ کوئی نایاب کتاب یا چیز نظر آئے تو مجھے اتنا مقدور ہو کہ فوراً خرید لوں۔ رات کو بے فکر سوؤں اور صبح خوش اٹھوں۔ کوئی مسئلہ فلاسفی کا جو سمجھ میں نہ آتا ہو اسے سمجھ لوں اور دوسروں کو سمجھا سکوں۔ دُنیا کی جتنی کتابیں دل و دماغ کو خوش کرسکیں سب میرے پاس ہوں۔ جاڑے میں انگیٹھی ہو اور گرمی میں برف۔ برسات میں کمرے کے اندر بیٹھا ہوں اور وہ ٹپکتا نہ ہو۔ رات کو جلانے کے واسطے خوب صورت CANDLE STICK کی روشنی ہو، اور جو کتاب مجھے پسند ہو وہ میرے سامنے ہو۔ تم اتنا سامان میرے لیے کردو تو I WILL DIE HAPPY’’۔
یہ نفیس مزاج انسان ۱۹۳۳ء میں ہم سے رخصت ہوگیا، سیمابؔ اکبرآبادی نے ‘‘میرناصر علی خاں’’ سے تاریخِ وفات ۱۳۵۳ھ نکالی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.