Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میرن صاحب

آصف علی

میرن صاحب

آصف علی

MORE BYآصف علی

    یوں تو مرزا نوشہ کا زمانہ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی شمع شب رفتہ کی طرح گل ہوگیا، مگر کل تک اس اجڑی ہوئی محفل کی کی دو چار صورتیں موجود تھیں۔ ان صحبتوں اور مجلسوں کو درہم برہم ہوئے زمانہ ہوچکا مگر میر مہدی مجروؔح اور میرن صاحب کے دم سے اس دور کی یاد پھر تازہ تھی۔سو میر مہدی مجروؔح کو رحلت کئے آج چھ یا سات برس ہولئے اور ۲۹/جنوری ۱۹۱۴ء جمعہ کی صبح کو میرن صاحب بھی راہی ملک بقا ہوئے اور ان کے ساتھ ہی مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کے زمانے کا دفتر بھی طے ہوگیا۔ مرزا کے ہم جلیسوں میں سے ممکن ہے ابھی اور لوگ زندہ ہوں اور یوں تو جناب مولانا الطاف حسین حالی صاحب کی ذات معتنمات میں سے ہے اور مرزا کی یاد ان کے دم اور یادگارِ غالب سے قائم ہے۔ مگر میرن صاحب کہاں۔ جہان اردو کے چرچے ہیں وہاں غالب بھی موجود ہیں اور جو غالب کے کلام سے آشنا ہیں، وہ میرن صاحب کے نام سے لاعلم نہیں۔ جب تک اردو ئے معلّی کے مکتوبات باقی ہیں، میرن صاحب کا نام بھی باقی رہے گا۔

    میرن صاحب صرف مرزا کے ہم جلیس ہونے کے لحاظ سے ہی تبرّک نہ تھے بلکہ اس کے علاوہ غدر سے پہلے کے بزرگوں اور قلعے کے لوگوں کا بھی نمونہ تھے۔ وضع قطع، بات چیت، حسنِ اخلاق، آدابِ صحبت غرض کہ ہر لحاظ سے وہ اس گئے گزرے زمانے کی یاد تھے۔ بات بات میں وضع کی پابندی اور ہر کلمے میں بات کا پاس۔ صورت شکل میں بھی کسی زمانے میں نہایت خوب روو وجیہہ نوجوان ہوں گے، جس کے آثار آخردم تک ان کے چہرے سے عیاں تھے۔ نقشہ و نگار نہایت سلیس اور جبین کی فراخی، شرافت کی شاہد۔ آنکھ بڑی اور خوب صورت تھی۔ رنگ کبھی کھُلا ہوا ہوگا مگر اب بہ وجہِ ضعیفی اور ہجومِ امراض سانولا ہوگیا تھا۔ پُرانی وضع کے مطابق ڈاڑھی چڑھی رکھتے تھے۔ قلعے کی قطع و بُرید کا انگرکھا زیبِ تن، سرپر گول سوزنی کی یا کڑھی ہوئی ٹوپی، اور پیر میں ہمیشہ حاشئے دار سلیم شاہی جوڑا۔ گاہے ماہے انگرکھے پر صدری، سیدھا تنگ پائجامہ اور یاتو کندھے پر ایک برا سا رومال یا بغل میں پُرانی وضع کے مطابق دوپٹا اور ایک ہاتھ میں چھڑی ہوا کرتی تھی۔ اس آخری زمانے میں ضعیفی سے کمر جھُک گئی تھی مگر اللہ رے پابندیِ وضع، اگر لال دروازے سے تیسرے چوتھے کا چوڑی والوں کا پھیرا تھا تو وہ ناغہ نہ ہوتا تھا اور اگر دوسرے تیسرے روز کا مٹیا محل کا قاعدہ تھا تو اس میں فرق نہ آتا تھا۔ ایسا پاسِ وضع اس زمانے میں عنقا ہے۔ جو راہ و رسم دوستوں سے تھی، اس میں بل نہ آنے دیتے تھے اور جس محبت و الفت کے عزیز مستحق تھے، اس میں کوتاہی نہ ہوتی تھی۔ جس قاعدے اور قرینے کے اول دن سے پابند تھے، اس میں سرموفرق نہ ہونے پاتا تھا۔

    اس زمانے کی چھچوری ترت پھرت اور شب و روز کی ‘توچل میں آیا’ سے بے حد نالاں تھے اور شاکی تھے کہ اس زمانے کی تعلیم نہ بڑے کا ادب سکھائے نہ چھوٹے کا لحاظ۔ لوگوں کی کم بضا عتیِ اخلاق اور زمانے کے مصنوعی طمطراق سے قطعی ناخوش تھے اور اپنے زمانے کے خلوص، پابندیِ وضع اور صدق دلی کے نوحہ گر۔ کہا کرتے تھے:‘‘بھائی اب وہ زمانے کہاں اور اب وہ باتیں کہاں! نہ وہ دلی ہے اب اور نہ وہ لوگ ہیں۔ غدر سے پہلے یہ دہلی تھوڑی تھی جو آج ہے۔ اے لو وہ اب چاندنی چوک میں نہر کہاں ہے اور وہ حوض کہاں ہے جس کی جگہ اب وہ تمہارا گھنٹا گھر ہے۔ پھر وہ صحبتیں کہاں اور وہ پہلے لوگ اور ان کے اخلاق کہاں۔’’

    حقیقت تو یہ ہے کہ میرن صاحب کی گفتگو سُن کر مرزا کے زمانے کی روح تازہ ہوجاتی تھی اور نہ صرف اس زمانے کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر جاتا تھا بلکہ ان لوگوں کی بات چیت کا بھی مزہ آجاتا تھا۔ صد حیف آج میرن صاحب بھی فسانہ ہوگئے۔ مگر کون رہا ہے اور کون رہ جائے گا، مگر ان کے ساتھ ہی اس پرانے زمانے کی طرزِ تعلیم کی حلاوت اور چاشنی بھی اب ختم ہے۔ اس زمانے میں نہ وہ سادگی و خلوص ہے اور نہ وہ لب و لہجہ۔ ادھر تو غیر زبانوں اور باہر کے لوگوں کا میل ہوا، ادھر جدید تہذیب اور نئی روشنی کی عنایت سے جو رہی سہی باتیں تھی وہ بھی عنقا ہوگئیں۔ جب کبھی جدید ترقی و تہذیب کا ذکر آتا تھا تو اکراہ سے کہا کرتے تھے کہ ہاں ہوگی۔ باقی یوں اب ریل اور برقی روشنی اور برقی تار وغیرہ کے عادی ہوگئےتھے۔ بالعموم میرن صاحب کی باتوں میں ایک بھولا پن ہوتا تھا جو بدقسمتی سے اس زمانے کے بچوں میں بھی مفقود ہے اور جو اس دور کے لوگوں میں عام طور پر پایا جاتا تھا۔

    جب کبھی غالب کا ذکر آجاتا تھا، نہایت ادب سے نام لیتے اور ذکر کیا کرتے تھے۔ مگر سفلہ پسندیِ زمانہ کے ہمیشہ شاکی تھے۔ ذاتی تعلقات کی یہ کیفیت تھی کہ اپنے عزیز تو عزیز، وہ عزیزوں کے دوستوں اور دوستوں کے عزیزوں سے بھی وہی خلوص کا برتاؤ رکھتے تھے اور اگر کسی اس زمانے والے میں پرانے اخلاق یا حسنِ آداب کی چھینٹ بھی پاتے تھے تو خاص ملاطفت اور انسیت سے پیش آتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ مایہ فی زمانہ گراں ہے۔

    مرزا کی دوستی پر بجا ناز تھا اور مرزا کے خطوط حرزِ جاں تھے۔ خود بھی شعر و سخن سے خاص شوق تھا اور شعر کہتے بھی تھے، مگر بجز ان کے احبابِ خاص کے اور کسی نے نہ آج تک ان کا کلام دیکھا، نہ سنا۔ مگر ان کے خطوط میں ضرور مرزا کا طرز نمایاں تھا اور روشِ تحریر میں اردوئے معلیٰ کی چاشنی موجود تھی۔ ان کے نبیرے سید محمد رؤف علی صاحب بیرسٹر ایٹ لا دہلی پر علمی دنیا کا فرض ہے کہ وہ میرن صاحب کے خط اور ان کے کلام کے ذخیرے سے دنیا کو محروم نہ رکھیں۔ نیز ان کے نانا صاحب مرحوم کے متعلق جو بھی قلم سے نکلے گا قابلِ قدر ہوگا۔

    گذشتہ سال جب میرن صاحب زندہ تھے، ایک دن حسنِ اتفاق سے وہ سید محمد رؤف علی صاحب کی علالت کے زمانے میں نواسے کی خیرصلاح کو چوڑی والوں آنکلے اور میں بھی اس وقت وہاں معمول کے موافق موجود تھا۔ اس دن کے بعد پھر مجھے قدم بوسی حاصل کرنی نصیب نہ ہوئی جس کا قلق مجھے تازیست رہے گا اور وہ بالخصوص اس وجہ سے کہ اس دن ارادتاً میں نے مرزا کا ذکر چھیڑ دیا اور ارادہ کرلیا کہ آج جو لفظ ان کی زبان سے نکلے گا قلم بند کرلوں گا، کیوں کہ ہر لفظ بیش بہا ہوگا اور یہ خود شمع شبِ رفتہ ہیں، قبر میں پانولٹکائے بیٹھے ہیں، ان کی زندگی کا بھروسا نہیں، جو بھی حاصل ہوجائے غنیمت ہے۔ اور بلا کسی بات کے چھیڑے وہ خود کبھی ہرگز ایک لفظ مرزا کے متعلق یا نیرنگیِ زمانہ کے متعلق اپنی زبان سے کہنے والے نہ تھے۔ خیر جو کچھ انھوں نے اس دن اپنی زبان سے کہا، میں نے قلم بند کرلیا اور ذیل میں موجود ہے۔ مگر صد ہزار افسوس کہ یہ معاملہ مکمل نہ ہو ا اور آج ادھورا ہی طبع ہوگا ادھر ان کی علالت اور ادھر میرے یہاں آجانے نے اس مکالمے کو پورا نہ ہونے دیا۔ ورنہ ارادہ تھا کہ خود ان کی زبان سے مرزا کے حالات اور اس دور کی کیفیات سن کر قلم بند کرتا۔ مگر اب وہ کملی ہی نہ رہی جس میں تل بندھتے تھے۔ اب کہاں میرن صاحب اور کہاں اس مکالمے کی تکمیل۔ مگر جو ہے، ہدیۂ ناظرین ہے:

    میں: کیوں حضت! مرزا کا زمانہ تو خوب یاد ہوگا۔

    میرن صاحب: اے لو یہ خوب کہی! ارے بھئی یاد کیسا، واہ واہ، یاد کسے کہتے ہیں میری مرزا کے ہاں رات دن کی نشست و برخاست تھی، ہر وقت کی صحبت تھی، ہر وقت کا ملنا جلنا تھا۔ جس دن سے مرزا نوشہ کا انتقال ہوا زندگی بدمزہ ہوگئی، زیست کا لطف جاتا رہا، اب کہاں وہ صحبتیں، ہم بھی اب چراغِ سحری ہیں، کوئی دن کی ہوا ہے۔ اب کون باقی ہے دلی میں، اس زمانے کے لوگ اب کہاں پیدا ہیں اور مرزا نوشہ جیسے لوگ تو اب پیدا ہی کہاں ہوتے ہیں۔ ان کے وہ اوصاف تھے کہ انتہا کاہے کو ہے۔ (کہ انتہا کا ہے کو ہے، میرن صاحب کا خاص اپنا فقرہ تھا) کوئی بات لطیفے سے خالی نہ تھی۔ بات بات میں ظرافت نکلتی تھی۔ تمام محفل کو ہنساتے رہتے تھے۔ اور رنج سے تو واسطہ کیا۔ اور پھر متانت بھی ایسی کہ کچھ انتہا کا ہے کو ہے۔

    میں: جی ہاں حضت بجا و درست ارشاد ہوا۔ اب وہ زمانے کہاں رہے خواب و خیال ہوگئے۔

    میرن صاحب: ہاں بھائی! ان صحبتوں کا لطف بس انہی تک تھا۔ اب نہ وہ لوگ ہیں، نہ وہ باتیں ہیں نہ وہ تہذیب ہے۔ اب تو وہ نئی روشنی ہے اور نئے لوگ ہیں۔ بھائی میر مہدی (میر مہدی مجروؔح) کہا کرتے تھے کہ وہ جگنو بھی ہوتا ہے نا، پٹ بیجنا، بس اس کی مثال ہے۔

    میں: میر مہدی مجروؔح نے بھی اچھی طبیعت پائی تھی، بجا ارشاد ہوا، واقعی موجودہ روشنی کی وہی مثال ہے جو آپ نے فرمائی۔

    میرن صاحب: میں قلعے میں رہا کرتا تھا اور بھائی میر مہدی اردو بازار میں رہا کرتے تھے۔ اردو بازار بلاقی بیگم کے کوچے کے سامنے ہی تھا، اب تو وہ کھنڈر ہے۔

    میں اور بھائی میر مہدی دونوں روز مرزا نوشہ کے ہاں جایا کرتے تھے۔ یا تو میں بھائی میر مہدی کو لے لیا کرتا یا وہ مجھے لے لیا کرتے تھے۔ ہم نے مرزا صاحب کے ہاں قدم رکھا اور کہا: حضت آداب عرض ہے۔ اور ادھر سے انھوں نے کہا: میں بھی آداب عرض کرتا ہوں۔ ادھر سےہم نے چھیڑ نے کو کہا: حضت یہ کیا! اور ادھر سے انھوں نے کہا: بھئی تمہارے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ آئیے بیٹھیے! آج کئی دن کے بعد آئے، کہاں رہے؟ اور ہم نے کہا:اجی حضت ابھی تو ہوکے گئے ہیں۔ اور وہ بولے: کہیں اور گئے ہونگے، یہاں نہیں آئے۔ اور ہم اصرار کر رہے ہیں کہ ابھی تو ہوکے گئے تھے۔ پھر وہ مسکراکے کہتے: بھئی میں ضعیف بھولا بھالا آدمی تم لڑکوں کے کہے میں آجاتا ہوں۔ آؤ بیٹھو۔

    مزاج اس قدر نازک تھا کہ انتہا کا ہے کوہے۔ کوٹھے پرنشست تھی اور دور دور کے لوگ آئے بیٹھے رہا کرتے تھے۔ چار ملازم تھے اور کلّو ان کے داروغہ تھے۔ محفل میں ہر ایک کے سامنے علیحدہ علیحدہ کلیاں بھری رکھی رہا کرتی تھیں اور ان کا قاعدہ تھا کہ ذرا پکی چلم پیا کرتے تھے۔ اگر نیا آدمی ناواقف آتا اور کلی سامنے رکھی گئی اور اس نے کہیں پینی شروع کردی، بس اسی وقت مرزا صاحب سمجھ گئے کہ باہر کا آدمی ہے، تہذیب سے ناواقف ہے، اور اسی وقت ان کا مزاج بگڑ گیا۔ کلوّ کو آواز دی اور کہا: آپ کو سلفہ بھر کے لادو۔ اور وہ بے چارہ باہر کا آدمی بولا: جی نہیں، تواہی پیتا ہوں۔ اور وہ کہہ رہے ہیں: جی نہیں، خدا جانے آپ نے کس وقت پیا ہوگا، آپ کو طلب ہے۔ داروغہ! آپ کو سلفہ بھر کے لادو۔ اور وہ آدمی ہے کہ پانی پانی ہوا جاتا ہے۔

    بہت سےصاحبِ غرض ان کے پاس آیا کرتے تھے۔ اگر انھیں یہ معلوم ہوگیا کہ کوئی صاحب غرض ہے تو اس کی زیادہ تواضع کرتے تھے۔ اور چلنے سے پہلے بلاکے داروغہ کے کان میں کہہ دیتے کہ ان کی پانچ یا دس روپے سے تواضع کرنا۔ مگر وہاں روپیہ کہاں تھا۔ باسٹھ روپے آٹھ آنے کی پنشن تھی اور ادھر ادھر سے روپے تین سو ایک ہوجاتے تھے۔ مگر وہ دس پندرہ دن کا بھی خرچ نہیں تھا۔ حالت یہ تھی کہ اگر اس وقت ایک ہزار کی تھیلی ان کے ہاتھوں میں دے دیجیے تو صبح تک ایک پیسہ نہ رہے۔ اب کلوّ نے کہا کہ پچاس روپے پرسوں لایا تھا سب ہوچکے۔ اچھا تو بنیے کے ہاں باسن گرویں رکھ دو اور آپ کی پانچ روپے سے تواضع کرو۔ یہ سنتے ہی وہ گئے اور کہیں سے روپیہ لے آئے اور جس وقت صاحبِ غرص نے زینے سے نیچے قدم دھرا، انھوں نے ہاتھ پر ہاتھ دھرکے یوں نذر کے طور پر پانچ یا دس جیسا موقع ہو، اسے دے دیے۔ یہ حالت ان کی رحم دلی کی تھی۔ اب یہ طبیعتیں کہاں ہیں۔

    بھائی میر مہدی اور میں دن میں کئی کئی دفعہ جایا کرتے تھے۔ دوپہر کو وہ آئی ہوئی غزلیں بنایا کرتے تھے۔ نواب کلب علی خاں کے باپ نواب یوسف علی خاں کی بھی غزلیں آیا کرتی تھیں۔ ایک دن جو ہم پہنچے تو بیٹھتے ہی مرزا نوشہ نے عادت کے موافق ایک شعر سنایا

    کیسی شفا، کہاں کی شفا، یہ بھی چند روز

    قسمت میں تھا کہ نازِ مسیحا اٹھائیے

    ہم نے سنتے ہی کہا: سبحان اللہ! کیوں نہ ہو آپ کی طبیعت۔ کہنے لگے: ‘‘ہیں، یہ کیا کہا! منہ پر تمانچے مارو۔ میں کیا۔ یہ تو نواب یوسف علی خاں صاحب کا شعر ہے’’۔ تکبر سے تو واسطہ کیا۔

    میں: ہاں قبلہ! کیوں نہ ہو، بھلا ایسی طبیعتوں میں تکبّر کہاں۔

    اس کے بعد میں نے چند سوالات کئے مگر ہزار بدقسمتی کہ اسی وقت ان کے جواب قلم بند نہ کئے ۔ اسی ارادہ کرنے میں رہا کہ آج اس معاملے کو مکمل کروں گا اور بالآخر وہ قبر میں جا سوئے۔

    اس آخری عمر اور ضعف میں بھی میرن صاحب کی آواز ایسی تازہ اور بلند تھی کہ اچھے جوان شرما جائیں۔ مگر ہجومِ امراض سے اس قدر نحیف و زار ہوگئے تھے کہ ان کی زندگی کا ایک دن کا بھی بھروسا نہ تھا۔ وہ کیا اٹھ گئے کہ زمانہ غالب کے کارواں کی آخری طناب قطع ہوگئی۔ اب سوائے علمی تذکروں اور داستانوں کے اس زمانے کا اور کیا باقی ہے، شاید ادھر ادھر کوئی باقی بھی ہے تو کیا، بس شمعِ سحری ہے۔ ادھر صبا کا جھونکا آیا اور قصہ تمام ہوا۔

    جرس فریاد می دارد کہ بربندید محملہا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے