پنڈت برج نرائن چکبستؔ لکھنوی
شاعر ہو یا ادیب۔ ریفارمر ہو یا فلسفی۔ کوئی بھی اس ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا جس میں اس نے آنکھ کھولی ہو اور نشو نما پائی ہو اور پھر وہی شخص اس ماحول کی اصلاح اور اس میں انقلاب برپا کرنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ چکبست جن کے انتقال کو تیرہ برس کچھ مہینے ہوئے ہیں۔ پیدا تو فیض آباد میں ہوئے تھے مگر انھوں نے لکھنؤ میں ہوش سنبھالا اور وہیں تعلیم و تربیت پائی۔ مختصر یہ کہ بچپن سے آخر وقت تک وہ لکھنؤ ہی میں رہے۔ اس وقت ہر دوسرے پُرانے شہروں کی طرح لکھنؤ کی اخلاقی اور سماجی حالت عموماً وہی تھی جو ایک پُرانی تہذیب اور تمدن کے انتزاع اور زوال کے زمانہ میں ہوا کرتی ہے۔ ایسی ہی حالت کا خاکہ حاؔلی مرحوم نے اپنے مسدس میں اور سرشارؔ مبرور نے سیر کہسار وغیرہ میں اپنے اپنے طرز پر اتارا ہے۔
غرض کہ جس وقت چکبست نے ہوش سنبھالا وہ پرانی تہذیب اور کلچر جس کی تعمیر اور آراستگی میں اہل وطن کی صدیاں صرف ہوئیں۔ چراغ سحری سے زیادہ نہ تھیں۔ سماج، زوال کے گہرے گڑھے میں گر کر جن عیبوں اور بڑے شغلوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہی حال یہاں اکثر اہل ملک کا تھا۔ جو شغل پہلے کام کے بعد تفریح اور سستانے کے طور پر ہوا کرتے تھے، اب انھوں نے ادائے فرض کی جگہ لے لی تھی اور رات دن کا مشغلہ بن گئے تھے۔ قوم کے یہ مشاغل اور وطیرے چکبست کو نہ آنے تھے نہ آئے۔
خوش قسمتی سے چکبست معزز اور علم دوست خاندان میں پیدا ہوئے تھے چنانچہ ان کے والد پنڈت ادت نرائن اچھے شاعر تھے جن کا یہ شعر یاد ہے۔
اللہ اللہ رے اثر نالوں کا تیرے بلبل
پردۂ خاک سے گل چاک گریباں نکلا
اس سے بڑھ کر حسن اتفاق سے ان کا خاندان ایسے فرقہ کا رکن تھا جو مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ علم و فصل اور کلچر کے لیے مشہور ہے۔ مختصر یہ کہ چکبست نے پہلے آس پاس کی خدمت کی طرف توجہ کی۔ یعنی اپنے ہم کفو کشمیری پنڈت نوجوانوں کی اصلاح و ترقی کی طرف متوجہ ہوئے۔ چوں کہ عمل کا جذبہ ابھی سے ان کے دل و دماغ میں جوش مار رہا تھا۔ انھوں نے ۱۹۰۴ء میں جب کہ ان کی عمر صرف بائیس ۲۲برس کی تھی۔ ایک انجمن کشمیری ینگ مینز ایسوسی ایشن کے نام سے قائم کی۔ یہ ایسوسی ایشن بارہ برس تک کام کرتی رہی۔ بے کار مشاغل، سخت کلامی، انقطاعِ تعلیم اور فضول مٹرگشت سے کامل پرہیز اس انجمن کے ممبر ہونے کی پہلی شرط تھی۔ مخرب اخلاق باتوں اور بُرے اشغال کے عوض اس انجمن نے معصوم تفریح کے سامان، مطالعہ اور مباحثہ کے موقعے اور تبدیل خیال کے مستحسن ذریعے مہیا کئے تھے۔ اس انجمن کی نسبت چکبستؔ نے کہا ہے:
محبّت کے چمن میں جمع احباب رہتا ہے
یہی جنّت اسی دنیا میں ہم آباد کرتے ہیں
اس نوجوان کے ایثار، جذبۂ شوق اور جانفشانی کا اندازہ کیجیے۔ جس نے لوگوں کی خدمت میں اپنی جان گھلا دی۔ اسی انجمن کے آٹویں سالانہ جلسہ میں چکبست نے ایک نظم پڑھی جس کا یہ بند دل میں کھبا جاتا ہے۔
قوم میں آٹھ برس سے ہے یہ گلشن شاداب
چہرۂ گل پہ یہاں پاس ادب سے ہے نقاب
میرے آئینۂ دل میں ہے فقط اس کا جواب
اس کے کانٹوں پہ کیا میں نے نثار اپنا شباب
کام شبنم کا لیا دیدۂ تر سے اپنے
میں نے سینچا ہے اسے خونِ جگر سے اپنے
چکبستؔ ایک شاعر کی حیثیت سے داخلی رنگ کے بادشاہ تھے۔ وجہ یہ کہ خیالات اور جذبات کا جوش و خروش ان کی فطرت میں بے حد تھا۔ اس میں شک نہیں کہ خارجی منظر نگاری میں بھی وہ کسی سے ہیٹے نہ تھے۔ کہنا یہ ہے کہ چکبست کا شعوراتنا وسیع، تخیل اتنا بلند اور ذہن اس قدر ہمہ گیر تھا اور وہ اتنے زبردست صاحب طرز تھے کہ کوئی چیز کوئی منظر ان کی حاسہ طبع سے رنگ لیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ سنئیے! بہتوں کو پہاڑی سفر کے موقعے پیش آئے ہوں گے۔ اور انھوں نے کوہستانوں میں جگہ جگہ چشمے اور آبشاریں دیکھی ہوں گی۔ یہ منظر ایک خارجی موضوع ہے۔ اسی کا نقشہ کشمیر سے متعلق یوں اتارتے ہیں:
چپہّ چپہّ ہے مرے کشمیر کا مہاں نواز
راہ میں سوکھی چٹانوں نے دیا پانی مجھے
وہ 'تلک' یا 'گوکھلے' کی رحلت پر نوحہ ہو یا شاعر کی طرحی غزل، رامائن کا ایک سین ہو یا آصف الدولہ کا امام باڑہ۔ ہر نظم میں آپ جذباتِ عالیہ کا ایک ہی تلاطم اور احساسات و لطف کا وہی ہیجان پائیں گے۔ یہ ہے ایک شاعر اور مصنف کی اصلی انفرادیت۔ فارسی کی ایک مشہورکہاوت ہے کہ ‘بزرگی بعقل است نہ بہ سال’ یعنی بزرگ وہ شخص ہے جو عقلمند ہو، نہ کہ صرف بوڑھا ہو۔ چکبست جس عمر میں ہم سے ہمیشہ کے لیے جُدا ہوئے اس عمر میں اس کا تو ذکر ہی کیا کہ کوئی ادب کے اتنے شاہکار نظم اور نثر میں چھوڑ جائے۔ عموماً ادبی مذاق کی پختگی بھی مشکل سے ہوا کرتی ہے۔ لیکن مرحوم سے قدرت کو تھوڑی مدت میں بہت سے اور بہت بڑے کام لینے تھے اور اس نے وہ کام لیے۔ ایک وقت چکبستؔ کی زندگی میں جلدی سے ایسا آگیا جس نے انہیں اس وقت کے اعلیٰ ادیبوں اور نقادوں کی صفِ اول میں لابٹھایا۔ یہاں گلزار نسیم کے چکبستی اڈیشن سے متعلق اس مناظرے کا تفصیلی ذکر نہیں کیا جائے گا جو ایک سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہا۔ یہ کتاب کی شکل میں ‘‘معرکۂ چکبست و شرر’’ کے نام سے چھپ گیا ہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ اعتراضوں کے جو جواب چکبست نے دیے ان کا پایہ تحقیق و استدلال میں اتنا بلند تھا کہ ان کے مخالف بھی حیران رہ گئے۔ جب یہ ادبی معرکہ ختم ہوا تو چکبست کے تعلقات شررؔ مرحوم سے ویسے ہی ہوگئے جیسے پہلے تھے۔ وجہ یہ کہ چکبستؔ کے مزاج میں جہاں راستبازی کے ساتھ غیرت اور خودداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہاں صلح پسندی اور رواداری کی بھی کمی نہ تھی۔
چکبست نہ صرف طرز کلام و اسلوب کے لحاظ سے آج کل کے اکثر شاعروں سے ممتاز ہیں بلکہ اخلاق اور طبیعت کے اعتبار سے بھی۔ یہاں باہر کی دو باتیں ضرور کہنی پڑتی ہیں۔ آج کل شاعر ایک تو تخلص کے ساتھ اپنےنام کے اظہار اور اعلان سے نہایت پرہیز بلکہ نفرت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات لڑ پڑتے ہیں۔ اگر ان کے نام کی اشاعت کی جائے۔ چکبست نے سرے سے تخلص رکھا ہی نہیں۔اور دوسری بات یہ ہے کہ اکثر شاعر اپنے استاد کا نام ظاہر کرنے سے سخت پرہیز کرتے ہیں اس بارے میں چکبست کا طرزِ عمل اپنے ہمعصروں سے الگ تھا۔ پنڈت بشن نرائن در تخلص ابرلکھنوی کے مشورے اور صحبت سے انہوں نے بہت فائدہ اٹھایا۔ انہیں کی شان میں کہا ہے:
کیا زمانے میں کھلے بے خبری کا میری راز
طائرِ فکر میں پیدا تو ہو اتنی پرواز
کیوں طبیعت کو نہ ہوئے خودی شوق پہ ناز
حضرتِ ابرؔ کے قدموں پہ ہے یہ فرق نیاز
فخر ہے مجھ کو اسی در سے شرف پانے کا
میں شرابی ہوں اسی رند کے میخانے کا
آج ایسا شاعر کون سا ہے جو اپنے استاد کی وفات پر یوں بین کرے۔
ہم کومعلوم ہوا آج یتیمی کیا ہے۔
جیسا کہ چکبست کے کلام میں لفظوں کا گورکھ دھندا، تشبیہ اور استعاروں کی بھرمار اور بلند آہنگی کا نام نہیں۔ اسی طرح ان کی پبلک زندگی ہنگام پرستی اور ہیجانی بدعنوانیوں سے پاک تھی۔ ان کے زمانے میں وطن میں بیداری اور اہل وطن میں سیاسی گرم جوشی پیدا ہوگئی تھی۔ لیکن وہ اعتدال پسندوں ہی کے حلقے میں رہے۔ اگرچہ وطن کی محبت اور ابنائے وطن کی خدمت کا جوش ان کے دل میں بھرا ہوا تھا۔ کہا ہے:
ہم پوجتے ہیں باغِ وطن کی بہار کو
آنکھوں میں اپنی پھول سمجھتے ہیں خار کو
روشن دلِ ویراں ہے محبت سے وطن کی
یا جلوۂ مہتاب ہے اجڑے ہوئے گھر میں
وطن کے عشق کا بت بے نقاب نکلا ہے
نئے افق سے نیا آفتاب نکلا ہے
وہ انہیں خیالات کو جنھیں بڑے سیّاس اور مدبر سروں میں لے کر وطن کی خدمت کے لیے کمر باندھ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ شاعری کا جامہ پہناکر ایسا مفید نمونۂ کلام چھوڑ گئے جو مدتوں تک یادگار رہے گا۔ آگے کہا گیا ہے کہ وہ ماڈریٹ یعنی اعتدال پسند سیاسی طبقہ کے ہم خیال تھے اور انگلستان سے قطع تعلق کے حامی نہ تھے۔ چناں چہ کہتے ہیں:
برطانیہ کا سایہ سر پر قبول ہوگا
ہم ہوں گے عیش ہوگا اور ہوم رول ہوگا
چکبست کا مذہبی اور برتاؤ شعر کہنے ہی میں نہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی ملی اور مذہبی تعصب سے آزاد تھا۔ ان کی طبیعت کی افتاد ہی کچھ ایسی پڑی تھی۔ ان کی شاعری کے ابتدائی زمانے کے یہ اشعار سُنئے:
ہر ذرۂ خاکی ہے مرا مونس و ہمدم
دنیا جسے کہتے ہیں وہ کاشانہ ہے میرا
جس جا ہو خوشی وہ ہے مجھے منزلِ راحت
جس گھرمیں ہو ماتم وہ عزاخانہ ہے میرا
جس گوشۂ دنیا میں پرستش ہو وفا کی
کعبہ ہے وہی اور وہی بت خانہ ہے میرا
اگرچہ چکبست کا کلام ادبی محاسن سے مالامال ہے لیکن انھوں نے داد لینے یا شاعر کہلانے کے لیے کبھی شعر نہیں کہا۔ جس بات کی ملک کے لیے ضرورت سمجھی اس کو شعر کا موضوع بنایا۔ شاعر کی حیثیت سے اگر وہ ایک باوقعت انفرادیت کے مالک ہیں تو ایک مصلح کی حیثیت سے ان کے کلام کی افادیت عالم گیر ہے۔ لکھنؤ جو غزل کا فریفتہ تھا وہاں نئے طرز کی نظم اور نئے خیالات کو ہر دل عزیز بنانا انھیں کا کام تھا۔ چکبست کی شاعری صرف قافیہ پیمائی نہ تھی۔ یہی نہیں کہ انھوں نے آتش اور انیس کے رنگ کو تازہ کیا اور دہلی کے اس خارجی داخلیت کے طرز کی جس کی بنیاد شیفتہؔ اور غالبؔ نے ڈالی اور عزیزؔ مرحوم نے اس سے لکھنؤ کو شناسا کیا تھا، بہت ترقی دی بلکہ حالیؔ کی پیروی میں شعر سے کام لیا۔ چکبستؔ کی شاعری ایک پیغام لے کر آئی تھی۔ اور وہ پیغام ہے جب وطن اور مخلصانہ رواداری۔
خلوص اور دوستداری چکبستؔ کے خمیر میں تھی۔ ادبی مباحثہ میں وہ جتنے زیادہ سخت گیر تھے اتنے ہی ہمدردی میں نرم دل۔ یہاں ایک واقعہ ذکر کے قابل ہے۔ میرا لکھنؤ جانا ہوا۔ اودھ پنچ کے مشہور زمانہ ایڈیٹر منشی سجاد حسین آخری بیماری میں مبتلا تھے۔ فالج گرچکا تھا اور بات کرنے میں ان کو بہت تکلیف ہوتی تھی۔ میں منشی صاحب کے مزاج پرسی کو گیا۔ چکبستؔ میرے ساتھ تھے۔ خیر منشی صاحب علاج اور معالج دونوں کی ناکامی اور دوا سے بیزاری اور صحت یابی سے مایوسی کا اظہار کرچکے تھے کہ ملازم دوا لایا۔ انھوں نے پی لی۔ میں مسکرایا مرحوم غضب کے رمزشناس تھے۔ تاڑ گئے کہ میرے تبسم کے یہ معنی ہیں کہ جب کوئی علاج فائدہ نہیں کرتا اور دوا کے اثر سے قطعی مایوسی ہے تو پھر بدذائقہ دوائیں پی کر کیوں طبیعت بے مزا کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ میرے تبسم کے جواب میں انہوں نے کچھ کہا، جو میں سمجھا نہیں۔ چکبستؔ پہلے بھی ترجمانی کرچکے تھے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا۔ چکبستؔ کی آنکھیں ڈبڈبائیں اور آواز بھرائی۔ جب یہ لفظ گویا دم توڑتے ہوئے ان کی زبان سے نکلے۔ ‘‘بھائی میں دوا جو پی لیتا ہوں تو ان محبت کے بادلوں کی خاطر اور اس غرض سے بھی کہ باضابطہ مروں۔’’ لہجہ اتنا بگڑ گیا تھا کہ روز کے پاس بیٹھنے والوں کے سوا ان کی بات سمجھنا مشکل تھا۔
چکبست کسی کی تکلیف نہیں دیکھ سکتےتھے۔ پھر دوستوں کی تکلیف پر ان کی ہمدردی اور رنج کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
شاعر اور وہ لوگ جو ادب اور زبان سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ اپنے طرزِ عمل میں قومی اور مذہبی تعصب سے کتنے ہی دُور کیوں نہ ہوں مقامی تعصّب یا عصبیت سے شاذونادر ہی آزاد ہوا کرتے ہیں۔ چکبست میں یہ وصف تھا۔ یہ کہنا سراسر صحیح ہے کہ ان کی ادبی تنقیدیں مقامی تعصب یا جانب داری سے مبرا ہیں۔ فصیح الملک داغؔ دہلوی کی شاعری پر ایک پر مغز تنقید لکھتے ہوئے کہا ہے ‘‘داغ کے کلام کی تاثیر اس امر کی شاہد ہے کہ اس کے قدرتی شاعر ہونے میں کلام نہیں۔’’ اسی تبصرے میں ہر پہلو سے بحث کرنے کے بعد حضرت امیرؔمینائی اور حضرت داؔغ کی شاعری کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ‘‘داؔغ کے سینے میں شاعری کی آگ روشن ہے۔ لہٰذا اس کا کلام گرمیٔ تاثیر سے مالا مال ہے۔ امیر کا کلام اس کیفیت سے خالی ہے۔ ان کی شاعری مصنوعی شاعری ہے۔ وہ اصل جوہر شاعری جو قدرتی شاعر اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ امیر کی طبیعت کاحصہ نہیں۔’’
چکبستؔ کا تخیل جتنا بلند تھا اتنی ہی ان کی نظر وسیع تھی۔ سماج کی حالت اور اجتماعی اخلاق پر کیوں کر ان کی نگاہ نہ پڑتی۔ یہ نہیں کہ وہ مغرب کی تہذیب اور کلچر کے دشمن تھے بلکہ ان کا مسلک ‘‘خذما صفا و داع ماکدر’’ تھا۔ یعنی یورپ والوں کی ظاہری فضولیات کی نقل نہ کرنی چاہئے بلکہ ان کےاخلاق سے وہ خوبیاں سیکھنی چاہئیں جنھوں نے دُنیا میں کامیابی کی کنجی انہیں سونپی ہے۔ کہا ہے:
ان کو تہذیب سے یورپ کی نہیں کچھ سروکار
ظاہری شان و نمایش پہ دل و جاں ہے نثار
ہیں وہ سینہ میں نہاں غیرت قومی کے شرار
جن سے مغرب میں ہوئے خاک کے پتلے بیدار
سیرِ یورپ سے یہ اخلاق و ادب سیکھا ہے
ناچنا سیکھا ہے اور لہو و لعب سیکھا ہے
انسان کے ضمیر کی پوری کیفیت اور مزاج کا اصلی رجحان جیسا کہ اس کی نجی خط و کتابت سے ظاہر ہوتا ہے جو بے تکلف دوستوں کے ساتھ ہو ویسا اسکی تصنیف و تالیف سے نہیں۔ یہاں چکبستؔ کے ایک خط کا کچھ حصہ سنایا جاتا ہے جو ان کے کیرکٹر پر کیا ان کے کلام پر تیز روشنی ڈالتا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوگا کہ وہ بڑے زندہ دہ تھے اور ان کامزاج کتنا نازک اور نمکین تھا۔ یہ خط انہوں نے لکھنؤ سے گونڈہ کے راستے بہرائچ کے سفر اور وہاں کے قیام سے متعلق ایک دوست کو لکھا تھا۔ میزبان اور ہمراہی بھی بے تکلف دوست تھے۔ لکھتے ہیں ‘‘بہرائچ کاسفر بہت اچھا رہا۔ ٹوپا صاحب ہمراہ تھے۔ راستہ میں پرس جاتا رہا۔ دو آنے جیب میں رہ گئے گاڑی میں بیٹھے تو اس قدر کشاکش تھی کہ الامان۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر چڑی مارنخاس میں چڑیاں بیچنے جاتے ہیں تو ایک پنجڑے میں تلے اوپر بیس پچیس جانور بھر لیتے ہیں۔ یہی کیفیت ہمارے درجے کی تھی۔ قلی دو آنے مانگتا ہے۔ ہم ایک آنہ دیتے ہیں اور اس سے وعدہ کرتے ہیں کہ جب لوٹ کر آئیں گے بقیہ ایک آنہ دے دیں گے۔ وہ ہماری پوشاک دیکھ کر ہماری مفلسی کا یقین نہیں کرتا۔ مسافر ہماری صورت دیکھتے ہیں اور مسکراتے ہیں۔ ایک آنہ اس لیے بچالیا کہ گونڈہ کے اسٹیشن پر خود اسباب نہ اٹھانا پڑے۔ دقیانوسی خیال کے ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اگر دشاشول سامنے ہو تو سفر نہ کرنا چاہیے۔ میرے ساتھ تو ٹوپا صاحب کی صورت میں دشاشول ساتھ ہی تھا۔ بہرحال راستہ باتوں میں اور اونگھتے کٹ گیا۔ گاڑی کی چال ایسی کہ سبحان اللہ۔ بس آتش کا یہ شعر یاد آتا تھا:
چال ہے مجھ ناتواں کی مرغِ بسمل کی تڑپ
ہر قدم پر ہے گماں یاں رہ گیا واں رہ گیا
صبح تڑکے بہرائچ پہنچے۔ مکان کا دروازہ بند تھا۔ میں نے باہر سے آواز دی کہ تار آیا ہے۔ آدمی نے گھبراکر دروازہ کھولا۔ اندر پہنچے تو دیکھا پنڈت صاحب اسٹیشن جانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے چوڑی دار پاجامہ سوکھی پنڈلیوں پر چڑھا رہے ہیں۔ اس امید پر کہ بہرائچ کی گاڑی ہمیشہ دیر سے آتی ہے، آپ دیر سےبستر سے اٹھے۔ مگر مکان دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ نیا بنا ہوا ہے اور بہت اچھا ہے۔ بزرگوں سے سُنا ہے کہ اچھا مکان اچھی بیوی اور اچھا خدمت گار تقدیر سے ملتا ہے۔ ترلوکی ناتھ دو صورتوں میں ضرور خوش نصیب ہیں۔ مگر دیہاتی نوکر بالکل بیوقوف ہیں۔ ترلوکی ناتھ کی بیوی بالکل تندرست نہ تھی۔ مگر جس سرگرمی اور اخلاق سے مہمان نوازی کا حق ادا کیا قابل تعریف ہے۔ کشمیری خاندانوں میں جو پُرانا طریقہ مہمان نوازی کا تھا اس کا نقشہ نظر آتا تھا۔ میں نے پرانا طریقہ اس لیے کہا کہ نئی تراش کی لڑکیاں اپنی نزاکت ہی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی ہیں۔ وہ دوسروں کی خاطر کیا کریں گی۔ ترلوکی ناتھ کا ذکر فضول ہے۔ ٹوپا کی سندھیا کے لیے پنچانہ کے مقابلے میں ایک کمرہ تجویز کردیا گیا تھا، وہیں بیٹھ کر پوجا کرتے تھے۔ جوتے کی سیاہی کی ڈبیا میں رُداج کے دانے سامنے رکھ کر بیٹھتے تھے۔ اور سندھیا کرنے کے بعد انڈے کا آچمن ہوتا تھا۔ میں تو ان کے تقدس کو دیکھ کر یہ سمجھا کہ شاید یہیں سے سیدھے بہشت کو نہ چلے جائیں۔ کھانا پرتکلف دونوں وقت تیار ہوتا اور یہ خوب ڈٹ کر کھا لیا کرتے تھے، یہ سنا ہے کہ اگر کسی شخص کی کوئی جسمانی قوت کم ہوجاتی ہے تو اس کا نعم البدل مل جاتا ہے۔ مثلاً اندھوں کی آہٹ پانے کی حس معمول سے زیادہ تیز ہوجاتی ہے۔ اسی اصول پر ٹوپا صاحب کے دل اور پھیپھڑے کی قوت معدہ میں منتقل ہوگئی ہے۔ بے حد کھاتے ہیں اور ہضم کرتے ہیں۔ اگر خون کے بدلے بلغم نہ بنے تو مجھ سے زیادہ تیار ہوجائیں۔’’
اپنے سیاسی اصول اور ادبی مذاق کی اشاعت کی غرض سے ایک باوقعت رسالے میں چکبست کا بڑا حصہ تھا جو برسوں بہت آب و تاب سے نکلتا رہا۔ اس کا نام ‘‘صبح امید’’ تھا۔ قصہ مختصر چکبست کا یہ شعر حقیقت میں ان کے حسب حال ہے۔
قوم کا غم مول لے کر دل کا یہ عالم ہوا
یاد بھی آتی نہیں اپنی پریشانی مجھے
ادبی دنیا کو ہمیشہ ماتم رہے گا کہ ادب اور شاعری کا یہ روشن ستارہ جس کی ضیاء سے کل ملک منور تھا وقت سے پہلے غروب ہوگیا۔ چکبستؔ کی پیدائش ۱۸۸۲ء اور وفات ۱۹۲۶ء میں ہوئی۔ کل تینتالیس برس کی عمر پائی۔ حضرت محشرؔ لکھنوی نے مرحوم ہی کے مشہور شعر کے ایک مصرع سے تاریخ نکالی
ان کے ہی مصرعہ سے تاریخ ہے ہمراہِ عزا
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.