طارق چھتاری
طارق چھتاری کا خیال ذہن میں آتا ہے تو ع۔۔۔ فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں، والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں اور اس میں سن وسال کی کوئی قید نہیں کہ جن کے تصور سے روشنی پیدا ہوتی ہے اور یہ روشنی دیر تک اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔
طارق چھتاری سے اپنی پہلی ملاقات یاد نہیں لیکن ان کا تصور آتے ہی جو پہلا منظر سامنے آتا ہے اس کا مختصراً بیان کچھ یوں ہے۔ پس منظر میں مسلم یونی ورسٹی کی اونچی سرخ عمارتیں، تارکول کی سڑک کے دو رویہ سرکش و سرسبز درخت، جاڑوں کا موسم، ایک وجیہ وشکیل نو عمر جس کے بدن پر گہرے رنگ کا قدرے لمبا کوٹ تھا اور ہاتھوں میں ایک سرخ بائسیکل کے ہینڈل تھے یا شاید اسکوٹر کے ہینڈل تھے۔ وہ اکیلا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہم عمر دو لڑکے اور تھے۔ میں انھیں دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرایا تھا۔ یہ لڑکے اس زمانے کی یونی ورسٹی کے خوش لباسوں میں یگانہ تھے۔ آج سے تیس بتیس برس پہلے کی یونی ورسٹی۔ طارق چھتاری نے ایک مضمون میں اس زمانے کابڑا سچا اور دلکش نقشہ کھینچا ہے۔ کچھ سطریں اس مضمون سے مستعار ہیں،
’’یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ کی پرکشش اور سحر آگیں رومانی فضا یونیورسٹی کے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارنے اور استعمال کرنے کی محرک ہوا کرتی تھی۔ کنیڈی ہاؤس کا خوش نما احاطہ، مولانا آزاد لائبریری کے سامنے کا وسیع سبزہ زار، فیکلٹی آف آرٹس کی سہ منزلہ جدید طرز کی خوب صورت عمارت کے صدر دروازے پر بنے حوض، مختلف عمارتوں کو ایک دھاگے میں پرونے والی صاف شفاف دھلی دھلائی سی سفید ٹھنڈی سڑکیں۔ پام، ساگون، گل مہر اور یوکلپٹس کے اونچے اونچے درخت۔ کینٹین کے وسیع وعریض ہال کی نیم تاریک اور پُرسکون فضا میں صوفے نہایت سلیقے سے آراستہ ہیں، طالبِ علم خراماں خراماں چلے آرہے ہیں، برآمدے نماپور ٹیکو میں داخل ہوتے ہیں اور رنگین شیشوں والے محراب دار بڑے دروازے سے اندر پہنچ کر صوفوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سعادت مند ویٹرپانی کے گلاس ٹر ے میں لیے قریب آتے ہیں اور جھک کر میز پر سجا دیتے ہیں۔ سینئر طالبِ علم آرڈر دے دیتا ہے، اس کی آواز اتنی نرم اور دھیمی ہوتی ہے کہ اگر خاص طور سے سننے کی کوشش نہ کی جائے تو شاید برابر بیٹھا شخص بھی نہ سن سکے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ طالبِ علم گفتگو میں محو ہی رہتے ہیں اور ویٹر پانی لگاکر خاموشی سے بغیر آرڈر لیے واپس چلا جاتا ہے مگر تھوڑی دیر بعد وہ ایک ٹرے میں ٹیکوزی ڈھکی کیتلی، دودھ دان، شکردان، چمچے اور چند پیالیاں لے کر اس طرح آتا ہے جیسے طالبِ علموں کی خواہشات اور ضروریات سے وہ پہلے سے واقف ہو۔ نہ کسی کو آرڈر دینے کی ضرورت ہے، نہ اسے آرڈر لینے کی، گویا وہ سب کے دل کی زبان سمجھتا ہے۔
اس زمانے میں اس کینٹین کا کنٹریکٹ اُردو کے ایک مشہور شاعر جناب جاوید کمال کے پاس تھا۔ کاؤنٹر پر کبھی جاوید کمال صاحب اور کبھی میکش بدایونی صاحب بیٹھے نظر آتے۔ ریٹائر ہونے کے بعد کبھی کبھی جذبی صاحب بھی شام کی چائے پینے اسی کینٹین میں تشریف لاتے۔ ان شخصیات کی موجودگی آشفتہ چنگیزی، مہتاب حیدر نقوی، صغیر افراہیم، شارق ادیب، فرحت احساس، خورشید احمد، نسیم صدیقی، غضنفر، اظہار ندیم، پیغام آفاقی، پرویز جعفری، عبدالرحیم قدوائی، قمرالہدیٰ فریدی، اسعد بدایونی، شہپررسول، غیاث الرحمٰن، ابن کنول اور سیّدمحمد اشرف کو اکثر و بیش تر وہاں کھینچ لاتی۔ گفتگو شروع ہوتی، کبھی کسی ادبی مسئلے پر بحث ہو رہی ہے، کبھی کوئی مضمون پڑھا جا رہا ہے، کبھی شاعری سنی جارہی ہے اور کبھی افسانہ، یہاں سے اٹھ کر یہ احباب کبھی شہریار صاحب تو کبھی قاضی عبدالستار صاحب کے دولت کدے پہنچتے اور بہت سی گتھیاں ان اہل دانش کی گفتگو سن کر سلجھ جاتیں۔ ان دنوں علی گڑھ کے یہ نوجوان ادیب ترقی پسند تحریک اور جدیدیت دونوں کے فکری اور فنی رویوں سے غیر مطمئن تھے اور کسی نئی راہ کی تلاش میں تھے۔
اس وقت علی گڑھ میں کئی ایسے ریسٹورینٹ تھے جہاں ادیب اور شاعر بیٹھتے۔ کیفے ڈی لیلیٰ، کیفے ڈی پھوس، پیراڈائز، کبیرؔکا ٹی ہاؤس، عاشق علی کی کینٹین، رائل کیفے اور Monsieurکے علاوہ راجا پنڈر اول کا ایک خوب صورت ریستوراں ’’Seven Stars‘‘ بھی تھا۔ رائل کیفے اور Monsieur جدید طرز کے ریسٹورینٹ تھے جہاں بلیرڈ کی میزیں بھی تھیں مگر سیون اسٹارس ایسا ریستوراں تھا جس میں قدیم وضع کے صوفے، نقشیں چمنیوں والے شمع دان، عالی شان فانوس، انگلستانی کروکری اور خوش اخلاق و خوش گفتار و خوش رو راجا قاسم علی خاں نواب آف پنڈر اول کی بہ نفس نفیس موجودگی۔ وہ اکثر شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ آکر بیٹھ جاتے، شعر سنتے اور شعر سناتے۔‘‘
ان ناموں میں جاوید حبیب، نذیر بوم اور محی الدین اظہر کانام بھی شامل سمجھا جائے۔
اس زمانے میں دن طویل ہوتے تھے اور راتیں طویل تر۔ کلاس روم کی پڑھائی کے علاوہ ذہن پر اگر کوئی بوجھ ہوتا تھا توبس یہ کہ اخراجات کے لیے گھر سے جو روپیے آتے ہیں وہ مہینہ سے پہلے ختم نہ ہوجائیں۔ دل میں ترنگیں تھیں اور آنکھوں میں اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے، گلابی گلابی رنگوں کے خواب لشکارے مارتے تھے۔ اس زمانے میں زندگی کے طے شدہ مقاصد کا اتنا رواج نہیں تھا جتنا اب ہے۔ خود میں نے یونی ورسٹی چھوڑ نے سے ڈیڑھ دو برس پہلے سوچا تھا کہ مستقبل میں دو وقت کی روٹی کا کیا انتظام ہو۔ طارق چھتاری نے بھی یقیناً وقت کو اتنے ہی عرصے تک بہلا پھسلا کر رکھا ہوگا اور غالباً دوستوں نے ایساہی کیا ہوگا۔ وہ وقت اور تھا۔ شروع میں طارق چھتاری کا اٹھنا بیٹھنا ان لوگوں کے ساتھ نہیں تھا جو عرفِ عام میں شاعر و ادیب کہلاتے تھے۔ پھر دھیرے دھیرے شاعروں اور ادیبوں کی جماعت کو احساس ہوا کہ ایک ذہین، شگفتہ مزاج، باحوصلہ اور بامروت شخص آپ ہی آپ ان کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ بغیر کسی اعلان کے ہوا تھا۔ میرے استاد زادے اور ہم وطن اور بڑے بھائی کے دوست شارق ادیب (ڈاکٹر مظفر سیّد) نے ایک دن چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا،
’’یارا شرف! طارق کو دیکھ کر فاختہ کا خیال آتا ہے۔‘‘
مجھے ان کا یہ جملہ آدھا سچ لگا۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر وہ بولے، ’’یہ اس لیے کہ فاختہ کسی کوزک نہیں پہنچاتی۔ بے ضرر ہوتی ہے۔‘‘
طارق چھتاری کے بارے میں اس وقت میری معلومات کم تھیں لیکن پرندوں کے بارے میں اچھی خاصی تھیں۔ میں نے کہا، ’’فاختہ اپنے سے چھوٹی چڑیا کے لیے رحم دل ہے لیکن اس سے زیادہ طاقت کا کوئی پرندہ اگر اس کو تکلیف دے تو وہ فضا میں اُڑ اُڑ کر اس سے ٹکر لیتی ہے۔‘‘
میں نے اپنے قصبے کے آنگن میں لیٹے لیٹے ایسے کئی منظر یاد کیے جس میں بڑی فاختہ (یا حق تو، یا دوست تو) نے فضا میں اس کوے پر کئی کاری جھپٹیں کی تھیں جو اس کا گھونسلہ خراب کرنا چاہتا ہے۔ میں نے یہ سب بیان کیا تو شارق ادیب ہنس پڑے۔
اس شام ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ طارق چھتاری کوؤں کے علاوہ باقی تمام مخلوق کے لیے فاختہ کی طرح بے ضرر ہیں۔
کچھ دن بعد شارق ادیب نے مجھے مطلع کیا کہ چوں کہ طارق چھتاری نجی محفلوں میں کسی غائب شخص کے بارے میں برے کلمات نہیں کہتے، اسی بے ضرر ہونے کی صفت کی وجہ سے انھیں فاختہ سے تشبیہ دی گئی۔ اب جو غور کیا تو طارق چھتاری کے کردار کی ایک اور خوبی سامنے آئی کہ وہ کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے۔ یہ خوبی یا خرابی اب تک باقی ہے۔
اس زمانے میں طارق چھتاری کو بزرگوں سے بہت لگاؤ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب جب رشید صاحب کے گھر گیاتو طارق چھتاری وہاں موجود تھے یا دروازے سے نکل رہے تھے، یا رشید صاحب نے ان کی آمد کا ذکر کیا۔ جب میں رشید صاحب کے پاس جاتا تو وہ گلاب کے تختوں میں قینچی لیے بیٹھے ہوتے یا ایک ہلکی کھرپی ہوتی جس سے وہ مٹی کھود کر اوپر نیچے کرتے رہتے تھے اور قینچی سے گلاب کے پودوں کی حسبِ خواہش تراش خراش کرتے رہتے تھے۔ میں اُن کے پاس بیٹھ جاتا اور وہ اپنے مخصوص انداز میں مجھ سے باتیں کرتے رہتے اور اپنے کام میں مصروف رہتے۔ بیچ بیچ میں میرے دادا حضرت آوارہ کی خیریت اوران کی علی گڑھ آمد کے بارے میں دریافت کرتے۔ ان کے ملازم سکندر سے طارق چھتاری اور میری الگ الگ دوستی تھی۔ چائے کا وقت ہوتا تو رشید صاحب چائے پلواتے ورنہ ہرگز نہیں۔ البتہ جس دن ان کے رفیق دیرینہ میرے دادا ان سے ملنے آئے تو برفی اور نمک پاروں کا بھی اہتمام تھا۔ اس محفل میں طارق چھتاری بھی شامل تھے۔
1975ء تک علی گڑھ کے طالب علم ادیب دوحصوں میں تقسیم ہوگئے تھے، لیکن میں نے اکثر دیکھا کہ طارق چھتاری کو کسی کے ساتھ سے پرہیز نہیں تھا۔ علی گڑھ میں اس وقت علم و ادب سے وابستہ مندرجہ ذیل شخصیات تھیں۔ طارق چھتاری نے اپنے ایک ہم عصر پر شخصی مضمون لکھتے وقت ان سب کو یاد کیا ہے۔ مندرجہ ذیل سطریں وہیں سے مستعار ہیں،
’’اس زمانے میں علی گڑھ ایک بڑا ادبی مرکز تھا۔ رشید احمد صدیقی، آل احمد سرور، خورشید الاسلام، معین احسن جذبی، اسلوب احمد انصاری، وحید اختر، اختر انصاری، خلیل الرحمٰن اعظمی، قاضی عبدالستار، شہریار، سعید الظفر چغتائی، ساجدہ زیدی، امین اشرف، ایس این شاہ، مسعود حسین خاں، بشیر بدر، صلاح الدین پرویز اور منظور ہاشمی وغیرہ تو یہیں مقیم تھے، باہر سے بھی ادب کی گراں قدر ہستیاں علی گڑھ تشریف لاتیں اور اُردو ادب کا ذوق رکھنے والے طالبِ علم جن کی تعداد خاصی تھی ان محفلوں میں شریک ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، علی سردار جعفری، شمس الرحمٰن فاروقی، محمود ہاشمی، جاں نثار اختر اور اخترالایمان وغیرہ اکثر تشریف لاتے اور ہم لوگ کبھی یونی ورسٹی کی کسی انجمن میں تو کبھی کسی بزرگ ادیب کے گھر پر ان کا کلام سنتے اور اپنی تخلیقات سناتے۔‘‘
اس فہرست میں صالحہ عابد حسین اور عرفان صدیقی کا نام شامل سمجھا جائے۔ میں اس وقت یونی ورسٹی کے مرکزی لٹریری کلب کا سکریٹری تھا۔ باہر سے کوئی مہمان آتا تو ہم اس کے اعزاز میں کنیڈی ہاؤس کے کسی کمرے میں نشست کا اہتمام ضرور کرتے۔ تمام ساتھی ایک ایک دو دو روپیہ کا چندہ دیتے اور برفی، نمک پارے، چائے اور مائک کا انتظام ہوجاتا۔ اس زمانے میں لٹریری کلب کا سالانہ بجٹ 250/ روپیے تھا جو اس زمانے کے لحاظ سے بھی بہت کم تھا۔ لٹریری کلب کے صدر جناب احمد سورتی کے سامنے معاملہ آیا تو انھوں نے کم بجٹ ہونے کے فوائد پر اتنا مدلل لکچر دیا کہ ہمیں اپنی حوصلہ مندی پر ندامت محسوس ہونے لگی۔ اب ہم لوگ ان کے افسر یعنی جنرل ایجوکیشن سینٹر (جس کے تحت فنونِ لطیفہ کے تمام کلب کام کرتے تھے) کے کو آرڈی نیٹر پروفیسر حبیب رسول کی بارگاہ میں پہنچے تو انھوں نے اطلاع دی کہ یونی ورسٹی انتظامیہ اس موجودہ بجٹ کو مزید کم کرنا چاہتی ہے۔
ہم لوگ بہت جز بز ہوئے۔ براہِ راست شیخ الجامعہ پروفیسر علی محمد خسرو سے رابطہ قائم کیا گیا۔ وہ یونی ورسٹی کے معاملات میں ڈائیلاگ پر یقین کرتے تھے۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم یونی ورسٹی لٹریری کلب کے موجودہ بجٹ پر آپ سے ڈائیلاگ چاہتے ہیں۔ درخواست منظور ہوئی۔ خسرو صاحب نے فرمایا کہ ہمارے ساتھ P.V.C پروفیسر محمد شفیع ہوں گے اور ملاقات کی جگہ ہوگی کنیڈی ہاؤس کے سبزہ زار کے چھتری نماز درخت کے نیچے۔ میٹنگ شروع ہوئی۔ خسرو صاحب نے فرمایا بھئی ہم اکنامکس کے آدمی ہیں۔ یونی ورسٹی لٹریری کلب کا بجٹ ایک مالیاتی معاملہ ہے۔ مختصراً بتائیں کہ یہ 250/- کا بجٹ کم کیوں ہے۔ سکریٹری نے کھڑے ہو کر عرض کیاکہ یہ رقم اتنی معمولی ہے کہ اس میں غبن تک کی گنجائش نہیں ہے۔
خسرو صاحب کھل اُٹھے۔ (پھر ویسا خوش رو، خوش لباس، خوش گفتار، خوش خرام وائس چانسلر علی گڑھ میں دوبارہ نہیں آیا) کہنے لگے، ’’بھئی شفیع صاحب! وجہ نامعقول ہے لیکن اتنی کم گرانٹ بھی نامعقول ہے۔ لٹریری کلب کا بجٹ 750/- روپیے سالانہ کیا جاتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ غبن کی شکایت نہ ملے۔‘‘
اب ہمارے ہاتھ کھل گئے۔ کفیل احمد، سید علی امیر، کمال الدین خاں، غیاث الرحمٰن، اسعد بدایونی، طارق چھتاری اور شارق ادیب جلسوں کے اہتمام میں پیش پیش رہتے۔ ہم لوگ جلسہ کرنے میں ایسے مشاق ہوگئے کہ ایک دن قاضی عبدالستار نے فرمایا، ’’صالحہ عابد حسین صاحبہ دو گھنٹے بعد علی گڑھ پہنچیں گی۔ ایک گھنٹہ آرام کریں گی، جلسے میں ایک گھنٹہ دیں گی اور پھر شام ہونے سے پہلے دلی روانہ ہوجائیں گی۔ عابد صاحب کی طبیعت اچھی نہیں ہے۔‘‘
میں نے پوچھا، ’’جلسہ کہاں ہو رہا ہے اور کون کررہا ہے؟‘‘
’’جلسہ کنیڈی ہاؤس کے کمرہ نمبر 8 میں ہوگا اور آپ لوگ کریں گے۔‘‘
ہم لوگوں کے ہاتھوں کے جنگلی پالتو سارے طوطے اُڑ گئے۔ لیکن تین گھنٹوں کے اندر صالحہ آپا پر ایک اچھا سا مضمون لکھا گیا، کمرے کی صفائی کرائی گئی، کرسیاں سجائی گئیں۔ دعوت نامہ اسٹین سِل پر یامین بھائی (لٹریری کلب کے بزرگ اہل کار) سے لکھواکر سائیکلو اسٹائل کرایا گیا۔ سب لوگ سائیکلوں سے دعوت نامہ تقسیم کرنے کے کام پر لگائے گئے۔ ایک ساتھی کی ڈیوٹی تھی کہ مائک کا انتظام کریں۔ دوسرے ساتھی سے کہا گیا کہ شمشاد مارکیٹ جاکر فوا کہات لے کر آئیں۔ ٹھیک تین گھٹے بعد جب قاضی صاحب ریشم نما کھدّر کی شیروانی، چوڑی دار پاجامہ اور دو رنگوں والے جوتوں میں ملبوس تشریف لائے تو کمرہ نمبر 8 کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بلیک بورڈ پر آج کا پروگرام لکھا ہوا تھا۔ مائک موجود تھا۔ باہر لان میں ناشتے کی چیزیں لگی تھیں اور چوک کے باہر ہم لوگ مہمان خصوصی کے استقبال کے لیے دو رویہ کھڑے تھے۔
ایسے موقعوں پر طارق خود کو اگلی صفوں سے پیچھے رکھتے تھے اور وہ وہیں تھے۔ میں نے اکثر دیکھا کہ نوعمری کے زمانے کے اس جلسے کے بعد بھی طارق چھتاری اکثر منتظمین کے بجائے سامعین میں فروکش نظر آئے۔ خواہ گورکھپور کا یادگار ریڈیو سمینار ہو، شعبۂ اردو کے گمبھیر جلسے ہوں، یوم جمہوریہ کا مشاعرہ ہو یا نیشنل اور انٹر نیشنل سمینار۔ طارق چھتاری کی کہانی کا راوی بھی اکثر اگلی صف میں نہیں بلکہ سامعین میں کہیں چھپا رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عموماً ان جلسوں کے روح رواں طارق چھتاری ہی ہوتے تھے۔
طارق چھتاری کے خلاقانہ انتظام کا ایک نمونہ گورکھپور ریڈیو اسٹیشن پر نظر آیا۔ طارق چھتاری نے فکشن پر ایک ایسے سمینار کا اہتمام کیا جس میں اردو اور ہندی کہانی لکھنے والوں کو ایک جگہ جمع کردیا۔ اردو اور ہندی کی کہانی پر دو مضمون پڑھے جاتے ایک اردو نقاد کا دوسرا ہندی نقاد کا۔ مقصد صرف یہ نہیں تھاکہ دونوں زبانوں کے ادیب اور نقاد ایک ساتھ جمع ہوجائیں۔ اصل مدعا یہ تھاکہ ایک زبان کی کہانی پر اسی زبان کے نقاد اور دوسری زبان کے نقاد کی تنقید کا فرق سامنے آسکے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس بہانے کئی اچھے افسانے اور کئی اچھے مضامین وجود میں آگئے۔
نیّر مسعود نے اپنی کہانی ’’وقفہ‘‘ پڑھی تھی۔ خورشید احمد نے ایک ہندی کہانی پر بہت اچھا مضمون پڑھا تھا۔ دو دن کی ان محفل آرائیوں کے روح رواں طارق چھتاری تھے۔ ان محفلوں میں قاضی عبدالستار اور کے پی سنگھ جیسے بزرگ بھی تھے، گواس وقت وہ ایسے بزرگ نہیں تھے۔ ایک لطیفے کا صدور بھی ہوا۔ علی گڑھ سے جب گورکھپور چلنے کی تیاری ہورہی تھی تو میں نے قاضی صاحب سے عرض کیا کہ آپ میرا بھی ریزرویشن کرادیں، جب وہاں ریڈیوسے پیسہ ملے گا تب ادا کردوں گا۔ فرمایا، ’’آپ خورد ہیں اورآپ کو یہ زیب دیتا ہے کہ آپ اپنے بڑوں سے ایسی فرمائش کریں۔ میں کے پی سنگھ سے کہتاہوں۔‘‘
غرض یہ کہ ریزر ویشن ہوا اور ہم لوگ گورکھپور پہنچے۔ کڑاکے کے جاڑے تھے۔ تمام ادیب گرم لباس میں ملبوس تھے۔ دوپہر کے وقت ریڈیو سے پیسے ملے۔ میں نے فوراً حساب لگایا اور بیچ محفل میں جاکر قاضی صاحب سے کہا، ’’یہ ٹکٹ کے پیسے ہیں۔‘‘
انھوں نے تیوری چڑھا کر ڈانٹا اور کہا، ’’خوردوں کو زیب نہیں دیتاکہ اس طرح بزرگوں کو روپیے واپس کریں۔ میں ان روپیوں کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتا۔ آپ یہ روپیے کے پی سنگھ کو دے دیں۔ میں ان سے لے لوں گا۔ یا بصورت دیگر کل صبح جب میں دستانے پہنے ہوں تب آپ یہ روپیے مجھے دیجیے گا۔‘‘
علی گڑھ میں کوئی ادیب شاعر آئے، شہریار اور طارق چھتاری سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔ طارق چھتاری شعبۂ اُردو سے مہمان خانے تک اس مہمان کا ساتھ دیتے ہیں اور ضرورت پڑے تو اس مہمان کی ملاقات یونی ورسٹی کے دوسرے ادیبوں سے کرانے میں پٹرول اور وقت دونوں کی پرواہ نہیں کرتے اور یہ سب کچھ بے غرض ہوتا ہے۔ وہ شعبۂ اُردو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے غیر رسمی چیف آف دی پروٹو کول ہیں۔ طارق چھتاری ادب میں اپنی شہرت اور مقبولیت اورشعبے میں منصب کے اس درجے پر فائز ہیں کہ انھیں ان محنتوں اور زحمتوں کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن ان معاملات میں وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ بنگال کے کسی دور افتادہ قصبے کا اُردو کا کوئی استاد اگر شعبۂ اُردو میں قدم رکھے گا تو سب سے پہلے طارق چھتاری کو ہی دریافت کرے گا اور یہ عین ممکن ہے کہ طارق چھتاری نے اس دن سے پہلے اس شخص کی شکل تک نہیں دیکھی ہوگی۔
ادبی جلسوں میں طارق چھتاری سب کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ ادیب اور شاعر انھیں بہت توجہ سے سنتے ہیں۔ کسی سمینار یا سمپوزیم کی نظامت کر رہے ہوں یا Moderationکر رہے ہوں تو ان کی باتیں سننے میں دل لگتا ہے۔ ادبی معاملات میں وہ بہت صاف گو ہیں لیکن یہ صاف گوئی کسی کی دل آزاری یا حوصلہ شکنی کا سبب نہیں بنتی۔ وہ اپنی بات بہت سلیقے، تہذیب اور پرزور دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
ستر کی دہائی کے آخری حصے میں ان کی کہانیاں سامنے آئیں۔ یہ وقت ترقی پسندی اور جدیدیت کی سخت آویزش کا دور تھا۔ طارق چھتاری اور علی گڑھ میں ان کے معاصرین ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک کے بھی باد فروش بننانہیں چاہتے تھے۔ ان دونوں گروہوں کے بڑوں کے درمیان کھڑے ہوکر طارق چھتاری بہت اطمینان سے اپنا موقف بیان کرتے اور لہجے کو تاب دار کیے بغیر اپنی بات مکمل کرکے ہی گفتگو ختم کرتے۔ ہم لوگ ذرا اکھڑ لہجے، طنز آمیز مکالموں اور دل آزار جملوں سے کام لیتے تھے۔ اس لیے اکثر بھول چوک ہوجاتی تھی۔ طارق چھتاری ایسے تمام موقعوں پر اپنے نرم لہجے، دلیل کی قطعیت اور مناسب مثالوں کے ہتھیاروں سے کام لے کر ہم لوگوں کی حماقتوں کی تلافی کردیتے تھے۔
کیا زمانے تھے!
ہندی کے ادیبوں سے طارق چھتاری کے رابطے بہت استوار ہیں۔ ان کا تحقیقی مقالہ بھی اُردو ہندی افسانے سے متعلق ہے اور اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے۔ ریڈیو کی ملازمت کے دوران بھی طارق چھتاری نے ہندی ادب کا مطالعہ اور ہندی ادیبوں سے دوستی کو خیرباد نہیں کہا۔ ان کی کہانیوں میں زمینی سچائیوں کا جو سوندھا سوندھا ذائقہ ملتا ہے، اس میں ہندی ادب خصوصاً ہندی کہانی کے مطالعے کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور ہے۔ اُردو اور ہندی کے ادیبوں کو قریب کرنے میں بھی طارق چھتاری ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ سینٹر پوائنٹ کے نزدیک ’’بنجارہ‘‘ ریسٹورنٹ میں وہ اکثر ایسی محفلوں کے اہتمام میں آگے آگے رہتے ہیں جس میں اُردو اور ہندی کے ادیب ایک چھت کے نیچے بیٹھ کر اپنی تخلیقات سناتے ہیں۔ ان محفلوں کی سرپرستی شہریار اور پروفیسر کے پی سنگھ اور نمیتا سنگھ کرتے ہیں۔ یہ تینوں نام وہ ہیں جن شفقتیں مثال کے طورپر پیش کی جاتی ہیں۔
میں اس زمانے کا عینی شاہد ہوں جب طارق چھتاری پر ایک سخت وقت آن پڑاتھا۔ ان کا اکلوتا بیٹا (خدا تعالیٰ اسے صحت و عافیت کے ساتھ خوش گوار اور لمبی عمرعطا فرمائے۔ آمین) بہت بیمار تھا۔ بیماری کی نوعیت ایسی کہ اس کا علاج معمولی اسپتالوں میں ممکن نہیں تھا۔ طارق چھتاری اور یاسمین بھابھی نے زندگی کے وہ مرحلے بے حد صبرو تحمل کے ساتھ طے کیے اور شافع مطلق نے اس صبر و تحمل کی جزا میں بیٹے کو صحت عطا فرمائی۔ اب تو الحمدللہ ان کی شادی بھی طے ہوگئی ہے۔ وہ وقت بہت مشکل وقت تھا لیکن طارق چھتاری کی زبان پر کبھی کوئی شکوہ نہیں آیا۔
ڈاکٹر صغیر افراہیم نے ٹیلی فون پر حکم سنایا کہ آپ کو طارق چھتاری کی شخصیت پر مضمون لکھنا ہے۔ میں نے فوراًطارق چھتاری کے لڑکپن کے دوستوں سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ اپنے ادیب دوست کی شخصیت کے بارے میں کچھ بتائیں۔ سب نے ہاتھ کھڑے کرلیے۔ بولے کہ ہم خود اس انتظار میں ہیں کہ ان کے بارے میں، ان کے ادب کے بارے میں آپ کی تحریر پڑھ کر کچھ جانیں کیوں کہ ہمارے ساتھ تو ہمارے دوست طارق چھتاری کا رویہ نہایت دوستانہ ہے، آج تک ادب سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔
یہ سن کر میں نے اپنے طور پر اِدھر اُدھر جانچ پڑتال کی تو پایا کہ طارق چھتاری کے دیرینہ دوستوں میں اکثر اس بات سے ناواقف ہیں کہ ان کا دوست طارق چھتاری اُردو کہانی کا اتنا معروف نام ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ امر بھی طارق کے تحمل پر دال ہے۔
اس مختصر سے مضمون پر شروع سے یہاں تک سرسری نگاہ کی تو انکشاف ہواکہ مندرجہ بالا سطور میں طارق کا ذکر کم، خود اپنا تذکرہ زیادہ ہے۔ بہت دیرتک سوچا کہ ایسا کیوں ہوا۔ تب معلوم ہواکہ جب رفاقتوں کی عمر تیس برس سے زیادہ ہوجائے اور زندگی کے کئی باب جیسے مادر درس گاہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، شعبۂ اُردو، زمانہ طالب علمی، احباب، مطالعہ، کہانی سے محبتیں، قاضی عبدالستار کی شفقتیں، شہریار سے قربتیں، شروع جوانی کے حوصلے اور آشفتہ مزاجیاں، ادبی محفلیں، اور معرکہ گاہیں مشترک ہوں تو پھر اس بات پر تعجب کیا کہ طارق کا ذکر چھیڑ کر اپنی داستان سنادی یا اپنا نام لے کر طارق کا افسانہ بیان کردیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.