Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

در حال_لشکر

میر تقی میر

در حال_لشکر

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    مشکل اپنی ہوئی جو بود و باش

    آئے لشکر میں ہم براے تلاش

    آن کر دیکھی یاں کی طرفہ معاش

    ہے لب ناں پہ سو جگہ پرخاش

    نے دم آب ہے نہ چمچۂ آش

    مرنے کے مرتبے میں ہیں احباب

    جو شناسا ملا سو بے اسباب

    تنگ دستی سے سب بہ حال خراب

    جس کے ہے پال تو نہیں ہے طناب

    جس کے ہے فرش تو نہیں فراش

    زندگانی ہوئی ہے سب پہ وبال

    کنجڑے جھینکیں ہیں روتے ہیں بقال

    پوچھو مت کچھ سپاہیوں کا حال

    ایک تلوار بیچے ہے اک ڈھال

    بادشاہ و وزیر سب قلاش

    جبے والے جو تھے ہوئے ہیں حقیر

    تن سے ظاہر رگیں ہیں جیسے لکیر

    ہیں معذب غرض صغیر و کبیر

    مکھیاں سے گریں ہزاروں فقیر

    دیکھیں ٹکڑا اگر برابر قاش

    شور مطلق نہیں کسو سر میں

    زور باقی نہ اسپ و اشتر میں

    بھوکھ کا ذکر اقل و اکثر میں

    خانہ جنگی سے امن لشکر میں

    نہ کوئی رند نے کوئی اوباش

    لال خیمہ جو ہے سپہراساس

    پالیں ہیں رنڈیوں کی اس کے پاس

    ہے زنا و شراب بے وسواس

    رعب کر لیجیے یہیں سے قیاس

    قصہ کوتہ رئیس ہے عیاش

    جتنے ہیں یھاں امیر بے دستور

    پھر بحسن سلوک سب مشہور

    پہنچنا ان تلک نہایت دور

    بات کہنے کا واں کسے مقدور

    حاصل ان سے نہ دل کو غیر خراش

    چار لچے ہیں مستعدکار

    دس تلنگے جو ہوں تو ہے دربار

    ہیں وضیع و شریف سارے خوار

    لوٹ سے کچھ ہے گرمی بازار

    سو بھی قند سیاہ ہے یا ماش

    در پہ عمدوں کے روز و شب شر و شور

    حرف یکسر فریب و رشوت خور

    بے لیے دیکھیں نے کسو کی اور

    مردہ شو بردہ سب کفن کے چور

    رحمت اللہ بر اولیں نباش

    یک بیک گر کسو کی موت آئی

    اس کے مردے کی پھر ہے رسوائی

    کیونکہ پہنچی ہے جن کو امرائی

    سب وہ اولاد حاتم طائی

    کون دے کر کفن اٹھاوے لاش

    بالضرورت گیا میں جس کے گھر

    آدمی کی نہ جنس تھا وہ خر

    بات کرنے لگا تو نیچی نظر

    بے مروت سفیہ بدمنظر

    قابل صدہزار شاش و تراش

    ہے جنھیں کچھ بھی رویت دربار

    سو فریبندہ مکری و غدار

    کاذب و مفت بر ہیں دل آزار

    ڈول ان کا ہے یہ کہ کریے خوار

    کام ان کا ہے یہ خراش و تراش

    جن پہ ٹھہرے ہے آکے سرداری

    ان سے ہم کو تھی چشم دلداری

    معرفت ان کے بعد صدخواری

    فرد دستخط ہوئی جو اک باری

    جیسے کھینچے لکیریں کوئی نقاش

    اس لکھے کا نہیں ٹھکانا کچھ

    وہم میں بھی نہیں ہے پانا کچھ

    جس پہ دستخط نہ آنے جانا کچھ

    بن نہ آیا مجھے بہانہ کچھ

    غیر اس کے کہ لے اٹھوں بشاش

    واں سے اٹھ کر میں پال میں آیا

    سخت تغئیر حال میں آیا

    بارہا یہ خیال میں آیا

    کہ زیاں شہ کے مال میں آیا

    واسطے میرے سو مرا یہ قماش

    بخش دوں جامہ تک جو ہو قدرت

    آٹھوں آنے ہیں خرچ یک ساعت

    دس روپئے دوں گدا کو بے مہلت

    منقضی ہووے کب مری ہمت

    صاحبان کرم کے تیں شاباش

    ہو جو ان لوگوں میں گدا کا گذر

    سہم رہ جائیں سب نہ دیکھیں ادھر

    دیر کے بعد یہ کہیں ہل کر

    شاہ جی لے خدا سبھوں کی خبر

    سو بھی یہ بات ہے پس از کنگاش

    یاروں کی جود کا بیاں کیا ہے

    وہم میں ان کے بھی جہاں کیا ہے

    آشکارا ہے سب نہاں کیا ہے

    دیکھتے ہیں کہیں کہ یاں کیا ہے

    ایسی صحبت میں ہم نہ ہوتے کاش

    (۱۹)

    بس قلم اب زباں کو اپنی سنبھال

    خوش نما کب ہے ایسی قال و مقال

    ہے کڈھب چرخ روسیہ کی چال

    مصلحت ہے کہ رہیے ہوکر لال

    فائدہ کیا جو راز کریے فاش

    مأخذ :
    • کتاب : kulliyat-e-miir-Vol 2

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے