جسم خاکی میں جس طرح جاں ہے
اس طرح خانہ ہم پہ زنداں ہے
ظلمتیں اس کی سب پہ روشن ہیں
زندہ درگور ہم کئی تن ہیں
ہے جو سرکوب اک بڑی دیوار
واں سے جھانکو تو ہے اندھیرا غار
بخت بد دیکھ سارے پرنالے
اس کے معمار نے ادھر ڈھالے
اب جو آیا ہے موسم برسات
دن کو ہے اپنے ہاں اندھیری رات
صحن میں آب نیزہ بالا ہے
کوچۂ موج ہے کہ نالا ہے
مینھ میں گھر کے پانچ چھ چھپر
ہم غریبوں کے ہوتے ہیں سر پر
پر تلک تنکے تھے کچھ ایک نئے
سو وے چڑیوں کے گھونسلوں کو گئے
دل ہے کچھ مکڑیوں کا احساں مند
کہ جنھوں نے کیے ہیں جھانکے بند
پھوس کچھ ہے کہیں سو آٹا ہے
بانس کو جھینگروں نے چاٹا ہے
اڑ گئی گھاس مٹی ہے والا
ہے جو بندھن سو مکڑی کا جالا
اپنے بندھن سے جو کہ چھوٹا ہے
ہم پہ گویا وہ بانس ٹوٹا ہے
کیا کہوں آہ گھر ہے کہنے کو
باندھتا ہوں مچان رہنے کو
بند جھانکوں کو کیجیے تاکے
یاں تو اک آسمان ٹوٹا ہے
ٹھیکے دینے کو جا اڑے ہیں ہم
سر پہ ٹھٹھر لیے کھڑے ہیں ہم
ٹٹیاں تھیں جو آگے چھپر کے
بہتی پھرتی ہیں صحن میں گھر کے
تا گلے سب کھڑے ہیں پانی میں
خاک ہے ایسی زندگانی میں
اب تو اپنا بھی حال بدتر ہے
سر پہ گٹھری ہے تس پہ چھپر ہے
پانی بہہ کر جھکا جو ہے دالان
سر پہ رہتا ہے طرۂ ایوان
چاک اس ڈول سے ہے ہر دیوار
جیسے چھاتی ہو عاشقوں کی فگار
متصل ٹپکے ہے نہ باراں ہے
گریۂ زار سوگواراں ہے
گھر کی صورت جو اور ہوتی ہے
چھت بھی بے اختیار روتی ہے
مینھ یک بارگی جو ٹوٹ پڑا
کڑی تختہ ہر ایک چھوٹ پڑا
داسے پایان کار ٹوٹ بہے
طاقچے بھر رہے تھے پھوٹ بہے
بہہ گئے گولے تختے ڈوب گئے
غرض اجزاے سقف خوب گئے
موج خشتی ستون میں پیٹھی
جان غم ناک خون میں بیٹھی
لے گیا پیچ و تاب پانی کا
کوٹھری تھی حباب پانی کا
یوں دھنسا گھر کہ بار خاطر تھا
آہ کس کا غبار خاطر تھا
اکھڑی دہلیز سب منڈیر گری
لہر پانی کی جھاڑو دیتی پھری
ساری بنیاد پانی نے کاٹی
اینٹ کے گھر کو کردیا ماٹی
جھک گئے سب ستون در بیٹھا
وہی چھپر کھڑا ہے گھر بیٹھا
جب اجارے پہ آکے چھت ٹھہری
ہم سبھوں میں یہ مصلحت ٹھہری
آؤ اب چھوڑ کر یہ گھر نکلیں
کسو ٹٹی پہ بیٹھ کر نکلیں
دب کے مرنے سے ڈوب مرنا خوب
ہے کنارہ ہی یاں سے کرنا خوب
سن کے ہر اک کے جی میں ڈر آیا
خاطروں میں یہ حرف ٹھہرایا
گٹھری کپڑوں کی میں اٹھائی تھی
سر پہ بھائی کے چارپائی تھی
بوجھ کپڑوں کا جن نے باندھا تھا
اس کا سارا فگار کاندھا تھا
ساتھ کوئی چراغ لے نکلا
کوئی سر پر اجاغ لے نکلا
چھاج کی کرکے کوئی اوٹ چلا
مینھ کے مارے کوئی لوٹ چلا
منھ پہ چھلنی کو ایک نے روپا
ایک نے سرکی کا کیا گھوپا
ایک نے چھینکے حال حال لیے
پائے پٹی گلے میں ڈال لیے
ایک نے بوریا لپیٹ لیا
اور پایا جو کچھ سمیٹ لیا
اپنا اسباب گھر سے ہم لے کر
الگنی سب کے ہاتھ میں دے کر
صف کی صف نکلے اس خرابی سے
تاکہ پہنچیں کہیں شتابی سے
جن نے اس وقت آنکھ کو کھولا
ہنس کے بے اختیار وہ بولا
میرؔ جی اس طرح سے آتے ہیں
جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں
سن کے اس بات کو تر آئے ہم
بارے اک بھائی کے گھر آئے ہم
تب سے رہنے کو اب تلک ہیں خراب
نہیں ملتا ہے گھر بقدر حباب
جس میں خوش یک نفس معاش کریں
طور پر اپنے بود و باش کریں