کیا لکھوں میرؔ اپنے گھر کا حال
اس خرابے میں میں ہوا پامال
گھر کہ تاریک و تیرہ زنداں ہے
سخت دل تنگ یوسف جاں ہے
کوچۂ موج سے بھی آنگن تنگ
کوٹھری کے حباب کے سے ڈھنگ
چار دیواری سو جگہ سے خم
تر تنک ہو تو سوکھتے ہیں ہم
لونی لگ لگ کے جھڑتی ہے ماٹی
آہ کیا عمر بے مزہ کاٹی
کیا تھمے مینھ سقف چھلنی تمام
چھت سے آنکھیں لگی رہے ہیں مدام
اس چکش کا علاج کیا کریے
راکھ سے کب تلک گڑھے بھریے
جا نہیں بیٹھنے کو مینھ کے بیچ
ہے چکش سے تمام ایواں کیچ
آنکھیں بھر لا کے یہ کہے ہیں سب
کیونکے پردہ رہے گا یارب اب
جھاڑ باندھا ہے مینھ نے دن رات
گھر کی دیواریں ہیں گی جیسے پات
باؤ میں کانپتی ہیں جو تھرتھر
ان پہ ردا رکھے کوئی کیوں کر
کیچ لے لے کے بارے چھوپا ہے
چھوپنا کاہے کا ہے تھوپا ہے
تس کو پھر پرچھتی بھی ہئی نہیں
ٹوٹا اک بوریا سا ڈالو کہیں
ڈھانکو دیوار یا اٹھا رکھو
یا ہمارے لیے بچھا رکھو
ایک حجرہ جو گھر میں ہے واثق
سو شکستہ تر از دل عاشق
کہیں سوراخ ہے کہیں ہے چاک
کہیں جھڑجھڑ کے ڈھیر سی ہے خاک
کہیں گھوسوں نے کھود ڈالا ہے
کہیں چوہے نے سر نکالا ہے
کہیں گھر ہے کسو چھچھوندر کا
شور ہر کونے میں ہے مچھر کا
کہیں مکڑی کے لٹکے ہیں جالے
کہیں جھینگر کے بے مزہ نالے
کونے ٹوٹے ہیں طاق پھوٹے ہیں
پتھر اپنی جگہ سے چھوٹے ہیں
اینٹ چونا کہیں سے گرتا ہے
جی اسی حجرے ہی سے پھرتا ہے
رکھ کے دیوار ایدھر اودھر سے
لاکے یارب بناؤں کس گھر سے
چارپائی جب اس میں بچھوائی
پہلے چلپاسہ ہی نظر آئی
سام ابرص کہ ہے دواے خراج
ہر جگہ یاں سے ہے نمایاں آج
پیکر اپنی خدا نے رکھی ہے
ڈانس ایک ایک جیسے مکھی ہے
آگے اس حجرے کے ہے اک ایوان
وہی اس ننگ خلق کا ہے مکان
کڑی تختے سبھی دھوئیں سے سیاہ
اس کی چھت کی طرف ہمیشہ نگاہ
کبھو کوئی سنپولیا ہے پھرے
کبھی چھت سے ہزارپاے گرے
کوئی تختہ کہیں سے ٹوٹا ہے
کوئی داسا کہیں سے چھوٹا ہے
دب کے مرنا ہمیشہ مدنظر
گھر کہاں صاف موت ہی کا گھر
مٹی تودہ جو ڈالی چھت پر ہم
تھے جو شہتیر جوں کماں ہیں خم
مضطرب ہوکے جو بچھائی بہت
ہر کڑی نے کڑی اٹھائی بہت
پرسے اس مینھ میں کرختی ہے
تختے تختہ ہوئے یہ سختی ہے
دی ہیں اڑواڑیں پھر جو حد سے زیاد
چل ستوں سے مکان دے ہے یاد
اینٹ مٹی کا در کے آگے ڈھیر
گرتی جاتی ہے ہولے ہولے منڈیر
جیتے ہیں جب تلک نہیں پہنچے
ورنہ کیا بس ہے جو یہیں پہنچے
کنگنی دیوار کی نپٹ بے حال
پدڑی کا بوجھ بھی سکے نہ سنبھال
طوطا مینا تو ایک بابت ہے
پودنا پھدکے تو قیامت ہے
کیونکے ساون کٹے گا اب کی بار
تھرتھراوے بھنبھیری سی دیوار
ہوگیا ہے جو اتفاق ایسا
شاق گذرے ہے کیا کہوں کیسا
ہوکے مضطر لگے ہیں کہنے سب
اڑ بھنبھیری کہ ساون آیا اب
تیتری یاں جو کوئی آتی ہے
جان محزوں نکل ہی جاتی ہے
نہیں دیوار کا یہ اچھا ڈھنگ
کہیں کھسکی تو ہے قیامت ننگ
ایک دن ایک کوا آبیٹھا
بے گماں جیسے ہوا آبیٹھا
چیل سے لوگ دوڑے کرتے شور
کہ نہ حائط میں کچھ رہا تھا زور
ہو نہ ایسا کہ اپنی چال چلے
دوڑے اچھلے کہ حال حال چلے
نہیں وہ زاغ چار پاؤں پھرا
ایک کالا پہاڑ آن گرا
مٹی اس کی کہیں کہیں بھسکی
جی ڈہا اور چھاتی بھی دھسکی
سان کر خاک لگ گئے دوچار
بارے جلدی درست کی دیوار
اچھے ہوں گے کھنڈر بھی اس گھر سے
برسے ہے اک خرابی گھر در سے
اکھڑے پکھڑے کواڑ ٹوٹی وصید
زلفی زنجیر ایک کہنہ حدید
خاک لوہے کو جیسے کھاوے پاک
چھیڑ لیجے تو پھر نری ہے خاک
بند رکھتا ہوں در جو گھر میں رہوں
قدر کیا گھر کی جب کہ میں ہی نہ ہوں
گھر بھی پھر ایسا جیسا ہے مذکور
ہے خرابی سے شہر میں مشہور
جس سے پوچھو اسے بتاوے شتاب
ساری بستی میں ہے یہی تو خراب
ایک چھپر ہے شہرہ دلی کا
جیسے روضہ ہو شیخ چلی کا
بانس کی جا دیے تھے سرکنڈے
سو وے مینہوں میں سب ہوئے ٹھنڈے
گل کے بندھن ہوئے ہیں ڈھیلے سب
پاکھے رہنے لگے ہیں گیلے سب
مینھ میں کیوں نہ بھیگیے یکسر
پھونس بھی تو نہیں ہے چھپر پر
مٹی ہو کر گرا ہے سب والا
وہ رہے یاں جو ہووے ڈھب والا
واں پہ ٹپکا تو یاں سرک بیٹھا
یاں جو بھیگا تو واں تنک بیٹھا
حال کس کو ہے اولتی کا یاد
مگری اس جھگڑے میں گئی برباد
کہیں صحنک رکھوں کہیں پیالہ
کہیں ہانڈی کے ٹھیکرے لالا
ٹپکے دوچار جا تو بند کروں
پیچ کوئی لڑاؤں فند کروں
یاں تو جھانکے ہزار میں تنہا
کچھ نہیں ہائے مجھ سے ہوسکتا
بسکہ بدرنگ ٹپکے ہے پانی
کپڑے رہتے ہیں میرے افشانی
کوئی جانے کہ ہولی کھیلا ہوں
کوئی سمجھے ہے یہ کہ خیلا ہوں
مجھ سے کیا واقعی ہوا چارہ
آسماں جو پھٹے تو کیا چارہ
بان جھینگر تمام چاٹ گئے
بھیگ کر بانس پھاٹ پھاٹ گئے
تنکے جاں دار ہیں جو بیش و کم
تن پہ چڑیوں کی جنگ ہے باہم
ایک کھینچے ہے چونچ سے کر زور
ایک مگری پہ کر رہی ہے شور
پوچھ مت زندگانی کیسی ہے
ایسے چھپر کی ایسی تیسی ہے
کیا کہوں جو جفا چکش سے سہی
چارپائی ہمیشہ سر پہ رہی
بوریا پھیل کر بچھا نہ کبھو
کونے ہی میں کھڑا رہا یکسو
ڈیوڑھی کی ہے یہ خوبی در ایسا
چھپر اس چونچلے کا گھر ایسا
جنس اعلیٰ کوئی کھٹولا کھاٹ
پائے پٹی رہے ہیں جن کے پھاٹ
کھٹملوں سے سیاہ ہے سو بھی
چین پڑتا نہیں ہے شب کو بھی
شب بچھونا جو میں بچھاتا ہوں
سر پہ روز سیاہ لاتا ہوں
کیڑا ایک ایک پھر مکوڑا ہے
سانجھ سے کھانے ہی کو دوڑا ہے
ایک چٹکی میں ایک چھنگلی پر
ایک انگوٹھا دکھاوے انگلی پر
گرچہ بہتوں کو میں مسل مارا
پر مجھے کھٹملوں نے مل مارا
ملتے راتوں کو گھس گئیں پوریں
ناخنوں کی ہیں لال سب کوریں
ہاتھ تکیے پہ گہ بچھونے پر
کبھو چادر کے کونے کونے پر
سلسلایا جو پائنتی کی اور
وہیں مسلا کر ایڑیوں کا زور
توشک ان رگڑوں ہی میں سب پھاٹی
ایڑیاں یوں رگڑتے ہی کاٹی
جھاڑتے جھاڑتے گیا سب بان
ساری کھاٹوں کی چولیں نکلیں ندان
نہ کھٹولا نہ کھاٹ سونے کو
پائے پٹی لگائے کونے کو
جب نہ تب پنڈے پر لپے پائے
سیتلا کے سے دانے مرجھائے
سوتے تنہا نہ بان میں کھٹمل
آنکھ منھ ناک کان میں کھٹمل
کہیں پھڑکا کہ جی سے تاب گئی
آنکھ سے تا پگاہ خواب گئی
اک ہتھیلی پہ ایک گھائی میں
سیکڑوں ایک چارپائی میں
ہاتھ کو چین ہو تو کچھ کہیے
کب تلک یوں ٹٹولتے رہیے
یہ جو بارش ہوئی تو آخرکار
اس میں سی سالہ وہ گری دیوار
آہ کھینچی خرابی کیا کیا نہ
تھے جو ہمسائے وے ہیں ہم خانہ
ایسے ہوتے ہیں گھر میں تو بیٹھے
جیسے رستے میں کوئی ہو بیٹھے
دو طرف سے تھا کتوں کا رستہ
کاش جنگل میں جاکے میں بستا
ہو گھڑی دو گھڑی تو دتکاروں
ایک دو کتے ہوں تو میں ماروں
چار جاتے ہیں چار آتے ہیں
چار عف عف سے مغز کھاتے ہیں
کس سے کہتا پھروں یہ صحبت نغز
کتوں کا سا کہاں سے لاؤں مغز
وہ جو ایواں تھا حجرے کے آگے
اس کے اجزا بکھرنے سب لاگے
کوٹھا بوجھل ہوا تھا بیٹھ گیا
پانی جز جز میں اس کے پیٹھ گیا
کڑی تختہ ہر ایک چھوٹ پڑا
ناگہاں آسمان ٹوٹ پڑا
میں تو حیران کار تھا اپنا
کوئی اس دم نہ یار تھا اپنا
اینٹ پتھر تھے مٹی تھی یکسر
خاک میں مل گیا تھا گھر کا گھر
چرخ کی کج روی نے پیسا تھا
پر خدا میرا مجھ سے سیدھا تھا
کتنے اک لوگ اس طرف دھائے
یا ملک آسمان سے آئے
مٹی لے لے گئے وہ ہاتھوں میں
کام نے شکل پکڑی باتوں میں
صورت اس لڑکے کی نظر آئی
ہم جو مردے تھے جان سی پائی
آنکھ کھولی ادھر ادھر دیکھا
اس خرابے کو بھر نظر دیکھا
قدرت حق دکھائی دی آکر
یعنی نکلا درست وہ گوہر
داشت کی کوٹھری میں لا رکھا
گھر کا غم طاق پر اٹھا رکھا
مومیائی کھلائی کچھ ہلدی
فرصت اس کو خدا نے دی جلدی
غم ہوا سن کے دوستداروں کو
پھر بندھا یہ خیال یاروں کو
کہ مری بود باش یاں نہ رہے
گو تصرف میں یہ مکاں نہ رہے
شہر میں جا بہم نہ پہنچی کہیں
چار ناچار پھر رہا میں وہیں
اب وہی گھر ہے بے سر و سایہ
اور میں ہوں وہی فرومایہ
دن کو ہے دھوپ رات کو ہے اوس
خواب راحت ہے یاں سے سو سو کوس
قصہ کوتہ دن اپنے کھوتا ہوں
رات کے وقت گھر میں ہوتا ہوں
نہ اثر بام کا نہ کچھ در کا
گھر ہے کاہے کا نام ہے گھر کا
- کتاب : kulliyat-e-miir-Vol 2
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.