Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

در شہر کا ما حسب_حال خود

میر تقی میر

در شہر کا ما حسب_حال خود

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    قابل ہے میرؔ سیر کے اطوار روزگار

    چالیں عجب طرح کی چلے ہے کجی شعار

    کرتا ہے بدسلوکی سبھوں سے یہ بے مدار

    لاتا ہے روز فتنۂ تازہ بروے کار

    دل داغ داغ رہتے ہیں اس سے جگر فگار

    کاما سے تلخ کام اٹھایا مرے تئیں

    دلی میں بیدلانہ پھرایا مرے تئیں

    ہم چشموں کی نظر سے گرایا مرے تئیں

    حاصل کہ پیس سرمہ بنایا مرے تئیں

    میں مشت خاک مجھ سے اسے اس قدر غبار

    لشکر میں مجھ کو شہر سے لایا پئے تلاش

    یاں آکے گذری میری عجب طور سے معاش

    پانی کسو سے مانگ پیا میں کسو سے آش

    اس واقعے سے آگے اجل پہنچی ہوتی کاش

    ناموس رہتی فقر کی جاتا نہ اعتبار

    مدت رہا تھا ساتھ جنھوں کے خراب حال

    دانستہ ان سبھوں نے کیا مجھ کو پائمال

    آخر کو آیا مجھ میں انھوں میں نپٹ ملال

    یہ زندگی سہل ہوئی جان کی وبال

    اس جمع میں کسو کو نہ پایا میں دستیار

    جانا نہ تھا جہاں مجھے سو بار واں گیا

    ضعف قویٰ سے دست بدیوار واں گیا

    محتاج ہوکے ناں کا طلبگار واں گیا

    چارہ نہ دیکھا مضطر و ناچار واں گیا

    اس جان ناتواں پہ کیا صبر اختیار

    در پر ہر اک دنی کے سماجت مری گئی

    نالائقوں سے ملتے لیاقت مری گئی

    کیا مفت ہائے شان شرافت مری گئی

    ایسا پھرایا ان نے کہ طاقت مری گئی

    مشہور شہر اب ہوں سبکسار و بے وقار

    عرصہ تھا مجھ پہ تنگ اٹھا ہوکے نیم جاں

    پوچھا نہ مجھ کو یک لب ناں سے کنھوں نے یاں

    کم پائی پر بھی سیر کیا میں نے سب جہاں

    آشفتہ خاطری نے پھرایا کہاں کہاں

    برسوں کا راز مخفی ہوا آخر آشکار

    پرداخت میری ہو نہ سکی اک امیر سے

    عقدہ کھلا نہ دل کا دعاے فقیر سے

    فتنے ہمیشہ آتے رہے سر پہ تیر سے

    ہرچند التجا کی صغیر و کبیر سے

    لیکن ہوا نہ رفع مرے دل کا اضطرار

    کن نے کی اپنے حال پہ شفقت سے یک نگاہ

    نکلے ہے کس سے طور پر اپنے سخن کی راہ

    بولا نہ کوئی مجھ سے کہ تو کیوں ہوا تباہ

    اسلوب میرے جینے کا ہو کس طرح سے آہ

    میں ایک ناتوان و ضعیف اور غم ہزار

    حاجت مری روا دل پردرد نے نہ کی

    تاثیر اشک سرخ و رخ زرد نے نہ کی

    تدبیر ایک دم بھی دم سرد نے نہ کی

    دل جوئی میری حیف کسی فرد نے نہ کی

    طاقت رہی نہ دل میں گیا جان سے قرار

    ہر ترک شوخ چشم سے ہے مجھ پہ کب نظر

    ہر صیدبند باندھے مرے خوں پہ کیا کمر

    ہر دام دار قصد کرے یہ کہاں جگر

    یہ منھ نہیں کسی کا جو منھ کو کرے ادھر

    ہر کوئی جانتا ہے کسی کا ہوں میں شکار

    دل سربسر خراب ہے تعمیر کیا کروں

    آشفتگی حال کی تعبیر کیا کروں

    خونابہاے چشم کی تقریر کیا کروں

    زردی کو رنگ چہرہ کی تحریر کیا کروں

    آیا جو میں چمن میں خزاں ہوگئی بہار

    حالت تو یہ کہ مجھ کو غموں سے نہیں فراغ

    دل سوزش درونہ سے جلتا ہے جوں چراغ

    سینہ تمام چاک ہے سارا جگر ہے داغ

    ہے نام مجلسوں میں مرا میرؔ بے دماغ

    ازبسکہ کم دماغی نے پایا ہے اشتہار

    مأخذ :
    • کتاب : kulliyat-e-miir-Vol 2

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے