کتابوں کی غرقابی
جگن ناتھ آزاد مشفق خواجہ سے ملنے گئے تو بات چیت میں بار بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے دردناک انداز میں کرتے رہے اور یہ بھی کہتے رہے، ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہوگئے۔‘‘
خواجہ صاحب جب آٹھ دس دفعہ سیلاب کی دلخراش داستان سن چکے تو عرض کیا،
’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔‘‘
آزاد صاحب نے کہا سنائیے، تو خواجہ صاحب بولے،
’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہوگئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لئے آئے اور آتشزدگی کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ البتہ ایک دوست نے اپنے جذبات کااظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناًیہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھئے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔‘‘
اس پر جگن ناتھ آزاد ہنسنے پر مجبور ہوگئے اور باقی جتنے دن وہاں رہے انہوں نے کتابوں کی غرقابی کا ذکر نہیں کیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.