Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مخمس در مدح حضرت علی

میر تقی میر

مخمس در مدح حضرت علی

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    اے نائب مصاحب ذی القوۃ المتیں

    وے دست زور خلوتی قدرت آستیں

    چاہے تو ایک کردے ابھی آسماں زمیں

    ٹھوکر لگے تری تو اڑے کوہ آہنیں

    پایا نہ جائے جیسے پر کاہ پھر کہیں

    تو ہے کہ تیری قدر نہ آئے بیان میں

    قدرت تری نہ گذرے کسو کے گمان میں

    شانیں ہزار قسم ہیں اک تیری شان میں

    شہرت ہے تیرے زور کی دونوں جہان میں

    نکلا نہ شہربند عدم سے ترا قریں

    غیب و شہود دونوں میں مشہود ہے تو تو

    ہستی ہماری وہم ہے موجود ہے تو تو

    حاصل کہ دوجہان کا مقصود ہے تو تو

    مسجود تجھ کو جانے ہیں معبود ہے تو تو

    ناجی ہیں وے ہی لوگ جنھوں کا ہے یہ یقیں

    احوال خوش انھوں کا جنھیں تجھ سے ہے ولا

    اعدا تو آسماں نے دیے خاک میں ملا

    آئینہ ہے کہ دین کو تجھ سے ہوئی جلا

    برپا وہی رہے گا جو تجھ تک ہے سلسلہ

    یاروں نے جتنی رسمیں بٹھائیں تھیں اٹھ چلیں

    فتنے کو تیرے عہد میں سوتے گذر گئی

    آشوب کی خطر سے ترے سدھ بسر گئی

    آفت کہاں کہ کب کی کنارہ بھی کر گئی

    آوازہ تیرا سن کے بلا جیسے مر گئی

    یوں مٹ گئے فساد کہ مذکور بھی نہیں

    داور ہوا جو تو تو ملی بیکسوں کی داد

    تلوار مارنے سے ترے مٹ گئے فساد

    اٹھے نہ گرد زندقہ و کفر پر عناد

    زنار ٹوٹے مہرے جلے بت گئے بہ باد

    برہم ہوئے گھڑی میں ہزاروں برس کے دیں

    ہنگامے گرم یاروں کے سب سرد ہوگئے

    چہرے منافقوں کے ووہیں زرد ہوگئے

    سر در نقاب خاک بڑے مرد ہوگئے

    جن سے تھا پر غبار جہاں گرد ہوگئے

    گلوں میں بکریوں کے چھٹے شیر خشمگیں

    بھاگے پھرے پلنگ نمر ہانپنے لگے

    روکش جو ہونے کو تھے سو منھ ڈھانپنے لگے

    رستم ہو بے حواس زمیں ناپنے لگے

    ہلنے لگے پہاڑ فلک کانپنے لگے

    رکھا گیا جو پیٹھ پہ مرکب کے تیرے زیں

    تلوار تیری برق تھی آنکھیں جھپک گئیں

    گھوڑوں کی باگیں ہاتھ سے سب کے اچک گئیں

    بھاگیں جو اضطرار سے فوجیں بہک گئیں

    لاشوں کی سیر کرتے ہوئے آنکھیں تھک گئیں

    لوہو کی ہر چہار طرف ندیاں بہیں

    نعرہ کیا ہے تو جو کبھو ہاتھ جھاڑ کر

    نکلا ہے پردہ گوش فلک کا بھی پھاڑ کر

    قوت جو تونے کی ہے کبھو پاؤں گاڑ کر

    کوہ گراں کو پھینک دیا ہے اکھاڑ کر

    پہنچا ہے ملک قدس تلک شور آفریں

    رکھتا ہے پائمال حوادث یہ آسماں

    جاگہ نہیں رہی کہ کریں داد جا کے واں

    ہو دستگیر لطف ترا تو ملے اماں

    تیری طرف نہ آویں تو پھر جاویں ہم کہاں

    اے عرش تخت دادگر لامکاں مکیں

    تو ہے کہ تجھ کو کہتے ہیں حلال مشکلات

    تو ہے کہ حلقہ زن ہے ترے در پہ کائنات

    تو ہے کہ تجھ سے دید میں آئے عجائبات

    احسنت تیری قدرت و رحمت ترا ثبات

    آگے سے تیرے سینکڑوں بھیڑیں سرک گئیں

    قدغن ہوا جو رفع کا بدعت کی ایک بار

    پردوں میں مطربوں نے رکھے دف طمانچے مار

    نغمہ یہ سن کے یاروں نے چھیڑا کبھو نہ تار

    نالہ ہوا نہ بلبل طنبور سے دوچار

    آواز نے کی بند ہوئی ہوگئی حزیں

    تردامنوں کے دیکھے تو لب خشک ہوگئے

    احوال میکدہ پہ بہت ابر رو گئے

    معتاد مے جنھوں کی تھی سب جان کھو گئے

    مخمور کھینچ کھینچ کے خمیازہ سو گئے

    کیا کیا خرابیاں نہ خرابات پر رہیں

    لا شکل اس کی دل میں وہی مصطفےٰ کو دیکھ

    اس رخ کا کر تصور نور خدا کو دیکھ

    رنگینی جمالت شاہ ولا کو دیکھ

    نرگس نے غش کیا تھا کہیں اس ادا کو دیکھ

    گلشن میں دلبروں کی نہ پھر انکھڑیاں ملیں

    عاجزنوازی تیری سے ہو مشت خاک زر

    برسے گدا پہ ابر کرم سے ترے گہر

    جور فلک نے سیر کیا جی سے رحم کر

    مہماں ترے سماط پہ ہے خلق ہر سحر

    حاتم یک آشمال ہے یاں معن ریزہ چیں

    جس دل کو ہو نہ شوق ترا ہوجیو گداز

    جس چشم کو نہ میل ہو تیرا نہ ہوجو باز

    جو سر ترا خیال رکھے رہیو بے نیاز

    سجدے سے تیرے در کے جو ہوتی ہو سرفراز

    مسجود ہوجو صبح سعادت کی وہ جبیں

    اہل نظر سے دیکھنا اودھر کا ہے عجب

    آنکھوں سے تیری رہ نہ چلے واقف ادب

    کس کو تھی یہ بزرگی و کس کا تھا یہ حسب

    یہ قدر تھی تری مرے مولا ہوا تو جب

    رونق فزاے کعبہ محمدؐ کا جانشیں

    (۱۹)

    کیا کہیے تیرے قرب سے اے سایۂ الٰہ

    بے دانشی سے کچھ کہے کوئی دروں سیاہ

    اپنی تو تجھ پہ پڑتی ہے جا کر وہیں نگاہ

    فہم و گمان و وہم کو جس جا نہیں ہے راہ

    ہے چشم شوق عینک شفاف دوربیں

    جس کو نہیں ہے تیری محبت کا کچھ خیال

    افسوس اس کی زندگی و واے اس کا حال

    یاں اس کے سر وبال ہے واں رنج یا نکال

    تجھ سے نہ رکھے بندگی ہے کفر اور ضلال

    تیری ولا ہے داخل ایمان مومنیں

    میرؔ شکستہ حال نہایت ہے تنگ اب

    شوریدہ سر سے مارے ہے لے لے کے سنگ اب

    ہر آن اس کو آپ سے رہتی ہے جنگ اب

    دست تہی سے خلق جہاں کا ہے ننگ اب

    خوش مت کر آہ اس سے زیادہ نہ کر غمیں

    افسوس ہے مدیح ترا اتنا خستہ حال

    ہر لحظہ اک عذاب نیا ہردم اک وبال

    تھے اس چمن میں جو روش سبزہ پائمال

    یک دم میں تیرے ابر کرم نے کیے نہال

    برسے انھوں پہ اوس کی جاگہ در ثمیں

    مأخذ :
    • کتاب : kulliyat-e-miir-Vol 2

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے