Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

(۱۷) قاسم کی شادی اس دم رچائی

میر تقی میر

(۱۷) قاسم کی شادی اس دم رچائی

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    قاسم کی شادی اس دم رچائی

    جس دم کہ شہ سے کچھ بن نہ آئی

    دلہن سمیں نے ایسی بنائی

    وہ بزم جن نے ساری رلائی

    بھائی نہ تھے جو ہوتے براتی

    بزم عروسی رونق بھی پاتی

    سو تو جلائی ہر اک نے چھاتی

    آگے ہی جا جا گردن کٹائی

    دولھا اگر تھا ظاہر نویلا

    لیکن نہایت بیکس اکیلا

    بابا کا مرنا اس طور جھیلا

    طاقت سے آگے ایذا اٹھائی

    دل کے الم سے رخ زرد جوں زر

    آنسو کا سہرا چہرے کے اوپر

    جوں پارۂ ابر رومال سب تر

    غم کی نہ دل میں مطلق سمائی

    بابا موا تھا ہو کرکے مسموم

    شفقت عنایت غیروں سے معلوم

    اب جو چچا ہے سو بھی ہے مظلوم

    ڈھونڈے ہے اپنے غم سے رہائی

    دولھا گدازاں ہووے نہ کس مس

    نے کوئی غم خوار نے کوئی مونس

    دولہن جلے تھی جوں شمع مجلس

    ایسی لگن تھی یہ کب دھرائی

    دلہن کو روتی لاکر بٹھایا

    دولھا بھی کڑھتا پاس اس کے آیا

    مرآت و مصحف لاکر دکھایا

    اک دم بھی فرصت ہرگز نہ پائی

    چاہا مبارز دشمن نے آکر

    غیرت سے طاقت مطلق نہ لاکر

    اٹھتے ہی واں سے جی کو چلا کر

    سر پر اٹھائی ساری لڑائی

    اک زخم سا زخم آخر اٹھایا

    دیکھا چچا نے طاقت نہ لایا

    گھوڑے سے گرتے چھاتی لگایا

    نازک وہ پیکر بے جان پائی

    مر جو گیا وہ جا الضرورت

    کچھ اور ہوگئی مجلس کی صورت

    بڑھتی چلی پھر دل کی کدورت

    اس پر کہ گھر کی سب تھی صفائی

    آرائش بزم کیا کہیے بارے

    آہوں کے شعلے گل ریز سارے

    گرتے تھے آنسو جیسے ستارے

    چھوٹے تھی منھ پر سب کے ہوائی

    کس پردگی کے معجر بہ سر تھا

    سینے میں کس کے اس دم جگر تھا

    بزم عروسی ماتم کا گھر تھا

    اچرج ہوئی ہے یہ کدخدائی

    القصہ اکثر بیکس بچارے

    جور و ستم سے دشمن نے مارے

    باقی جو ہیں اب کتنے دکھارے

    پانی کی ان کو ہے گی منائی

    اصغر پیاسا مرنے لگا جب

    مردم حرم کے گریاں ہوئے سب

    لاچار ہو شہ آپھی اٹھا تب

    اک چلو پانی کرنے گدائی

    لائے سو اس کو خوں میں ڈبو کر

    ایسے گہر کو یوں بیٹھے کھو کر

    رکھا جو سب میں گودی سے رو کر

    چھوٹے بڑے کی چھاتی بھر آئی

    گردن کٹائی اکبر نے جب کی

    تر چشم ہے گی ہر خشک لب کی

    عالم سیہ ہے آنکھوں میں سب کی

    دیتا نہیں کچھ اس بن دکھائی

    اس واقعے نے شہ کو کھپایا

    آتش نے غم کی سینہ جلایا

    خود کو بخود پھر ہرگز نہ پایا

    دشوار کاٹی اس کی جدائی

    افراط غم سے بس تنگ آکر

    جینے سے بیٹھا دل کو اٹھاکر

    وعدے پہ آخر میداں میں جاکر

    خنجر کے کارن ضربت اٹھائی

    واماندگاں سب کہتے تھے رو رو

    وارث نہیں اب جز عابدیں سو

    بیمار ایسا دیکھیں تو کیا ہو

    پھر لاعلاجی پھر بے دوائی

    سر دے کے شہ تو چھوٹا الم سے

    عزت تھی ساری اس کے ہی دم سے

    وابستہ خواری اب ہے گی ہم سے

    موت اس کی آئی ہم کو نہ آئی

    تھی چشم ہم کو جن سے وفا کی

    آخر انھوں نے ایسی جفا کی

    یارب برائی ہم نے وہ کیا کی

    کرتی نہیں جو امت بھلائی

    اپنا کیا تھا حیدر نے جس کو

    جانی خصومت ہم سے ہے وس کو

    ہم غم زدہ اب دیں دوش کس کو

    کی آشنا نے یہ بے وفائی

    چھوڑا مدینہ جس کے بھروسے

    نیکی نہ دیکھی اس زشت خو سے

    مارے گئے مل اس مردہ شو سے

    بیٹے بھتیجے خویش اور بھائی

    دنیا کی خاطر دیں ان نے چھوڑا

    ابن علی سے سر رشتہ توڑا

    یک بار ادھر سے منھ اپنا موڑا

    تھا آشنا سو نکلا دغائی

    تالیف جس کی کی تھی نبیؐ نے

    ایذا اٹھائی اس سے علیؓ نے

    بیٹے سے اس کے اب ہم سبھی نے

    یہ آگ گھر کو ان نے لگائی

    جانوں سے مارا خیمہ جلایا

    پانی کے بدلے لوہو چٹایا

    سر اس کے اوپر کٹوا منگوایا

    ناموس ساری شہ کی لٹائی

    غربت میں مارا لاکر وطن سے

    محروم رکھا تس پر کفن سے

    ہاتھ اک پسر کے باندھے رسن سے

    کی ناتواں پر زورآزمائی

    اہل حرم کو لوٹا لٹایا

    ہر پردگی کو سب میں پھرایا

    اونٹوں کے اوپر ظاہر بٹھایا

    خوش کی ہماری یہ بے ردائی

    اب شام کو ہم جاتے ہیں سارے

    شب کر دکھایا دن کو ہمارے

    کیا پیش آوے واں پہنچے بارے

    طالع میں اپنے ہے نارسائی

    جاتے تھے کہتے یوں وے گرفتار

    نے کوئی ہمدم نے کوئی غم خوار

    آگے سبھوں کے عابد ہو بیمار

    چوٹ ان کے دل پر ہر گام کھائی

    پامال کریے اس کام جاں کو

    دیجے ریاست سگ زادگاں کو

    چپ میرؔ نالاں رکھ لے زباں کو

    کہیے سو کیا اب یہ بھی خدائی

    مأخذ :
    • کتاب : kulliyat-e-miir-Vol 2

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے