اہل عالم پہ عیاں ہے ہمہ دانی میری
دلچسپ معلومات
مولوی سید علی میاں کاملؔ محمد آبادی ثم لکھنوی ۱۸ذی الحجہ ۱۲۵۱ھ؍۱۸۵۲ء تا ۲۸ ذیقعدہ ۱۳۲۲؍ ۱۹۰۵ء)
1
اہل عالم پہ عیاں ہے ہمہ دانی میری
مشق کی راہ سے پیری ہے جوانی میری
شہرہ خلق ہے اعجاز بیانی میری
بلبلیں باغ میں کہتی ہیں کہانی میری
بوئے گل سیر کو یاں صبح و مسا آتی ہے
پھول چننے مرے گلشن کے صبا آتی ہے
2
آمد و شد ہے مضامین کی دم سے میرے
مرتفع پایہ معنی ہے قدم سے میرے
صفحہ ہے رشک چمن فیض رقم سے میرے
رنگ پھولوں کا ٹپکتا ہے قلم سے میرے
آب و گل میں ہے ہوا باغ سخندانی کی
مشق بچپن ہی سے کی ہے خط ریحانی کی
3
مہبط وحی معانی ہے طبیعت میری
عقل اول سے ہی کچھ بڑھ کے ذکاوت میری
منطق آموز متانت ہے طلاقت میری
باغ میں درس عنا دل ہے عبارت میری
قمریاں سیکھتی ہیں سحر بیانی مجھ سے
بلبلیں پڑھتی ہیں دیوان فغانی مجھ سے
4
ناز اعجاز زباں کو ہے دہن میں میرے
نئے انداز ہیں آئین کہن میں میرے
تازگی خلد بریں کی ہے چمن میں میرے
پینچ ہیں سنبل جنت کے سخن میں میرے
شعر تر میں شکنیں طرہ طرار کی ہیں
قافیوں میں گر ہیں کاکل خمدار کی ہیں
5
آج ہے کشور مضموں میں زمانہ میرا
دولت سرمد معنی ہے خزانہ میرا
عالم قدس میں کہتے ہیں فسانہ میرا
عرش سے ہے کہیں پلے پہ نشانہ میرا
روز و شب درس مدد گاری حق دیتا ہوں
راہ میں بلبل سدرہ کو سبق دیتا ہوں
6
میں اگر قصد کروں سنگ کو گوہر کردوں
خار کو فیض لطافت سے گل تر کردوں
ذرے کو داغ جبین مہ انور کردوں
شب تاریک کو بے شمع منور کردوں
پست کو چاہوں تو افلاک سے بالا ہوجائے
طبع روشن سے اندھیرے میں اجالا ہوجائے
7
آبروئے در شہوار رخ سنگ کو دوں
مہرتاباں کی ضیاء آئینے کے زنگ کو دوں
وسعت دور فلک دائرہ تنگ کو دوں
رنگ گلہائے چمن صفحہ ارژنگ کو دوں
کلک مانی روش باد بہاری سیکھے
مدتوں مجھ سے ابھی نقش نگاری سیکھے
8
جو کہوں منہ سے وہی چرخ کہن دے مجھ کو
پنکھڑی پھول کی مانگوں تو چمن دے مجھ کو
طالب مشک اگر ہوں تو ختن دے مجھ کو
سنگریزے کے عوض درعدن دے مجھ کو
دیدہ ٔحور بھی ہدیے میں اشارے بھیجے
عرش مجھ کو طبق ماہ میں تارے بھیجے
9
ذہن سے کہہ دوں تو ہنگامۂ جودت ہوجائے
گنگ کو چاہوں تو مشاق طلاقت ہوجائے
چھیڑدوں طبع کو تو اور ہی صورت ہوجائے
حشر برپا ہو معانی میں قیامت ہوجائے
پست ہو مرتبہ ہر فکر کا اعلی ہوکر
چرخ سے آئیں مضامیں تہ و بالا ہوکر
10
درس دوں طفل دبستاں کو تو استاد بنے
مبتدی مدرسے کا فاضل ونقاد بنے
جس سے برسوں کی مشقت میں نہ اک صاد بنے
چار دن دوں اسے اصلاح تو جواد بنے
شان تبریز سے پہلو ہے کشیدہ میرا
کان یا قوت ہے ایک ایک جریدہ میرا
11
میں نہ تھا جب یہ تو اعجاز بیانی کب تھی
چشمہ صاف سخن میں یہ روانی کب تھی
زیر فرماں سپہ ملک معانی کب تھی
تھی یہی سیف زباں سیف زبانی کب تھی
پھول اس رنگ کے ہوتے تھے چمن میں کس کے
آب آئینہ کی موجیں تھیں سخن میں کس کے
12
ہم فنوں کو ادب آموز بنایا میں نے
درس رنگینی تقریر چڑھایا میں نے
پھولوں کی باس سے جنگل کو بسایا میں نے
باغ ویرانہ معنی میں لگایا میں نے
قد کشی مجھ سے منہالان چمن سیکھے ہیں
گھر سے میرے شعرا طرز سخن سیکھے ہیں
13
سب پہ روشن ہیں کمالات ہویدا میرے
مصدر فیض زمانے میں ہیں آیا میرے
چشمے ہیں صورت خورشید مصفا میرے
شعبے ہیں کوثر و تسنیم کے دریا میرے
خانداں وصف بلاغت سے ہے جامی میرا
تھا امام الفصحا جد گرامی میرا
14
برسرناز ہے آہنگ حجازی مجھ سے
مدنی سیکھتے ہیں لہجہ تازی مجھ سے
کیا کریں گے شعرا زمزمہ سازی مجھ سے
بلبلیں اٹھ گئی ہیں ہار کے بازی مجھ سے
میری تقریر سے مرغان چمن واقف ہیں
نہ کہیں مجھ سے مگر اہل سخن واقف ہیں
15
اہل مجلس سے توجہ کا طلبگار ہوں میں
عازم ذکر جمیل شہہ ابرار ہوں میں
نطق سے طالب شیرینی گفتار ہوں میں
کلک سے ملتمس خوبی رفتار ہوں میں
ذوق کے ساتھ تصرف میں دیانت ہوئے
نظم میں کذب نہ معنی میں خیانت ہوئے
16
چاہتا ہوں سحر قتل کا نقشا کھینچوں
روز عاشور کی تصویر سراپا کھینچوں
چند آہیں دل پر درد سے یکجا کھینچوں
لوح خاطر پہ شبیہ شہ والا کھینچوں
جلوہ ٔتاز کرے فکر مقابل ہوکر
شعر آجائیں معانی متشکل ہوکر
17
صبح کا وقت ہے آرام میں ہیں رہ گذری
دشت میں نور کی ہے چار طرف جلوہ گری
وجد میں ہیں کہیں طاؤس کہیں کبک دری
خود ہوا کھانے کو نکلی ہے نسیم سحری
عطر پھولوں کا ملے سرو ہوا چلتی ہے
جھونکے لیتی ہوئی مستانہ صبا چلتی ہے
18
آشیانوں سے نکلنے کے ارادے میں طیور
بلبلوں کے وہ خوش آیندہ ترنم وہ سرور
لب پہ قمری کے ثنا اور صفت کا مذکور
برزباں مرغ چمن کے سبق سورہ نور
نرگس آراستہ ہوکر ہمہ تن بیٹھی ہے
غنچۂ گل ہے کہ حجلے میں دلہن بیٹھی ہے
19
رفقا قبلۂ عالم کے تھے مصروف نماز
سنگ ہو موم صداؤں میں تھے وہ سوزوگداز
کوئی راکع کوئی ساجد تھا بصد عجز و نیاز
جوش گریہ سے نکلتی تھی بمشکل آواز
آبرو رکھ لے خدا اس کی دعا کرتے تھے
آخری طاعت واجب کو ادا کرتے تھے
20
کوئی مکی ہے رفیقوں میں تو کوئی مدنی
فقر میں اہل دول سے ہیں سوا دل کے غنی
باذل و فاضل و فیاض نہ ممسک نہ دنی
ناز قوت کو ہے جن پر وہ شجاعت کے دھنی
مرگ کا ولولہ جینے سے کراہت ان کو
دب کے بیعت کریں اس امر سے نفرت ان کو
21
راستی میں تھیں جماعت کی صفیں جادہ حق
وہ نمازی تھے کہ مجموعہ ایماں کے ورق
رنگ ہر ایک مصلی کا تھا ہمرنگ شفق
دیکھ لے جن کو گل تر تو ابھی رنگ ہو فق
سب کے سب پیارے تھے سرور کو یگانوں کی طرح
ایک رشتے میں تھے تسبیح کے دانوں کی طرح
22
عرض کرتے تھے مناجات میں وہ صاحب قدر
آج کوفے کے ستمگار ہیں آمادۂ غدر
نصرت شاہ میں کام آئیں ہمارے سرو صدر
معرکہ آکے پڑے ماریہ میں صورت بدر
پرزے ہوں رخت بدن بند سے ہوں بند جدا
دل سے آئین وفا کا ہو نہ پیوند جدا
23
ہم رضا مند ہیں تلواروں سے مارے جائیں
لاشے پامال ہوں سر تن سے اتارے جائیں
تشنہ لب خلق سے کوثر کے کنارے جائیں
مرکے محتاج کفن نام پکارے جائیں
ظلم جو چاہے سو ہو بات نہ جانے پائے
آنچ فرزند پیمبر پہ نہ آنے پائے
24
شاد عالم میں رہے نور نظر حیدر کا
گم نہ ہو چرخ امامت سے قمر حیدر کا
خیر سے پہنچے مدینے میں پسر حیدر کا
تا ابد خلق میں ویراں نہ ہو گھر حیدر کا
بستی آباد رہے حق کے ولی کی یارب
جان بچ جائے حسین ابن علی کی یارب
25
یہ دعا مانگ کے سجادوں سے اٹھے رفقا
پہنی شیروں نے قمیص عربی زیر قبا
اسلحہ سج کے یہ کہتے تھے وہ پابند وفا
جلد میدان سے آئے دف جنگی کی صدا
علم آراستہ ہو لڑنے کو لشکر نکلے
سر خورشید کہیں جیب سے باہر نکلے
26
تھیں یہ باتیں کہ کھلا فوج حسینی کا نشاں
صحن میں خیمے کے چمکا علم نور فشاں
رایت فوج نہ کہیے اسے تھا نخل جناں
رفقا سایہ طوبی میں تھے رشک غلماں
تھا جو مالک پسر حیدر زہرا اس کا
چرخ نے چوم لیا جھک کے پھریرا اس کا
27
رایت لشکر اسلام کی دیکھی جو نمود
حامل عرش لگے بھجنے احمد پہ درود
فلک پیر جھکا سوئے زمیں بہر سجود
نور کا پنجہ رایت سے ہوا بسکہ سعود
اس طرح رایت سلطان دلاور نکلا
سر خورشید ادھر جیب سے باہر نکلا
28
جبکہ مارا گیا وہ گوہر دریائے وفا
روئے خود قبلہ دیں حر کو عزیزوں سے سوا
پھر تو گلشن میں رفیقوں کے چلی بادفنا
ایک کے بعد گیا ایک جری بہر وغا
دوپہر کٹ گئی میدان میں آتے جاتے
جھک گئی شہ کی کمر لاشوں کو لاتے لاتے
29
ظہر کے وقت یگانے بھی گئے سوئے جناں
مٹ گیا جعفر طیار کا دنیا سے نشاں
باغ میں مسلم بیکس کے چلی باد خزاں
چار فرزند ہوئے شاہ نجف کے بیجاں
حامل رایت فوج عربی قتل ہوا
بعد عباس کے ہمشکل نبی قتل ہوا
30
لٹ گیا بھائی کے ماتم میں گلستاں سرور
ہوگئیں رحلت فرزند سے آنکھیں بے نور
دل پہ ہر چار طرف سے جو ہوا غم کا وفور
خاک پر بیٹھ گئے تھام کے دل شاہ غیور
نہ رہا تن میں اثر تاب و تواں کا باقی
رہ گیا رنگ گلستاں میں خزاں کا باقی
31
عرض معبود سے کرتے تھے یہ اس دم شبیر
تو ہے دانند و بینندہ و علام و خبیر
فارغ البال ہوں اب قتل میں کیا ہے تاخیر
سہل کر ذبح کی مشکل کو بھی اے حی قدیر
اب نہ آوارۂ صحرائے تعب کر مجھ کو
سرخرو گلشن جنت میں طلب کر مجھ کو
32
دیر سے میری رگ جاں کا ہے خنجر مشتاق
پایہ اوج سناں کا ہے مرا سر مشتاق
تیرے بندے کے ہیں فردوس میں حیدر مشتاق
منتظر والدہ ہیں اور پیمبر مشتاق
غل ہے جنت میں امام الثقلین آتا ہے
کھول دو خلد کے دروازے حسین آتا ہے
33
اس مناجات سے فارغ ہوئے جب شاہ امام
خاک سے اٹھ کے گئے خیمے کی جانب کو امام
جاکے دیکھا کہ حرم میں ہے بپا اک کہرام
خاک چہرے پہ ملے روتے ہیں ناموس تمام
اس قیامت کے غم انگیز بیاں کرتے ہیں
طیر بالائے ہوا جس سے فغاں کرتے ہیں
34
درپہ خیمے کے کھڑے ہو کہ یہ دی شہ نے صدا
ہم کو رخصت کرو اب اے حرم شیر خدا
قافلے والوں نے آباد کیا ملک بقا
اب نہ انصار ہیں باقی نہ عزیز و رفقا
ساتھ احباب نہ وہ لخت جگر آئے ہیں
دشت آفت سے اکیلے ہم ادھر آئے ہیں
35
یہ صدا سنتے ہی دوڑے حرم خیر بشر
پھینک دی زینبؑ کلثومؑ نے سر سے چادر
ہوش باقی تھا نہ پردے کا نہ اپنی تھی خبر
بپیاں باسر عریاں نکل آئیں باہر
سطوت سید ذیجاہ نے رستہ روکا
نتق گرد نے میدان میں پردہ روکا
36
آن کر گھیر لیا شاہ کو سب نے اکبار
کوئی لپٹی ہوئی تھی قدموں سے باحالت زار
گرد پھر پھر کے یہ کہتی تھی کوئی سینہ فگار
اے دل آرام نبیؑ تیری مصیبت کے نثار
کیا ستم ہوگئے اے سید عالی تجھ پر
ہائے کیا وقت پڑا خلق کے والی تجھ پر
37
شاہ کے کاندھے پہ منہ رکھ کے یہ کہتی تھی بہن
آئیے بہر مدد جلد شہ قلعہ شکن
لاڈلا آپ کا شبیر شہنشاہ زمن
دشمنوں میں تن تنہا ہے گرفتار محن
ابن زہرا کی مدد کیجئے بابا آکر
میرے بھائی کو بچا لیجئے مولا آکر
38
سن کے زینب کی یہ باتیں شہ والا نے کہا
بس بہن بس نہ کرو حد سے سوا آہ و بکا
تم ہو یا فاطمہ حیدر ہوں کہ محبوب خدا
دخل انسان کو فرمان الٰہی میں ہے کیا
کوئی بھی حلقہ طاعت سے نکل سکتا ہے؟
حکم محکم کہیں معبود کا ٹل سکتا ہے؟
39
کہہ کے یہ گود میں حضرت نے سکینہ کو لیا
منہ پہ منہ رکھ کے یہ اس نازوں کی پالی سے کہا
آج در پیش ہے بی بی سفر راہ خدا
تم سے ہم تھوڑے دنوں کے لیے ہوتے ہیں جدا
ہجر میں نالہ و فریاد نہ کرنا بی بی
دیکھو راتوں کو ہمیں یاد نہ کرنا بی بی
40
سو رہا کیجؤ آرام سے ماں کے ہمراہ
ضد کسی بات پہ مادر سے نہ کرنا اے ماہ
گوکہ ہر چند مصائب سے ہو احوال تباہ
باپ قربان ہو منہ سے نہ کبھی کیجیو آہ
دل میں کڑھیو نہ بہت بے پدری کے غم سے
دیر ہوجائے تو آزردہ نہ ہونا ہم سے
41
کہہ کہ یہ بیٹی کو آغوش میں بانو کی دیا
رو دیے اپنی غریبی پہ امام دوسرا
داخل خیمہ ہوئے جب حرم شیر خدا
خود چڑھے گھوڑے پہ گردان کے دامان قبا
فتح مجرے کو یسار اور یمیں سے آئی
بارک اللہ کی صدا عرش بریں سے آئی
42
آکے لشکر کے قریں شاہ نے گھوڑا روکا
شیر کو لاکے قریب صف ہیجاروکا
یہ نہ کہیے فرس بادیہ پیما روکا
شہ نے اعجاز سے بہتا ہوا دریا روکا
کس سے ممکن تھا کہ اس زور کا جیحوں روکے
راکب ایسا ہو تو اس طرح کا گلگوں روکے
43
روک کر گھوڑے کو مانند شہ قلعہ کشا
متوجہ پسر سعد سے ہو کر یہ کہا
خون ناحق سے مرے بانی شر ہاتھ اٹھا
بخدا میں ہوں جگر گوشہ محبوب خدا
مال کے ساتھ زیان جسد و جاں ہوگا
سر مرا تن سے جدا کر کے پشیماں ہوگا
44
ناگہاں ہوگیا کچھ اور تلاطم برپا
عمر سعد کے خیمے پہ اسد جا پہونچا
افسر فوج کو دی شیر نے غصے میں صدا
دیکھ خیمے سے نکل کر مرے لڑنے کا مزا
منہ پہ شمشیر شرر بار کے آئے تو کوئی
مجھ کو اب یاں سے بھلا آکے ہٹائے تو کوئی
45
جا پڑے خیمے پہ یہ کہہ کے شہ عرش سریر
چاب کر ہونٹوں کو بے چوبے پہ مارے شمشیر
شکل تصویر گلی ہوگئے مضطر بے پیر
سرخ تھا فرط خوشی سے رخ پاک شبیرؑ
وجد میں آکے کبھی اسپ پہ شہ جھومتے تھے
دمبدم قبضہ تیغ دو زباں چومتے تھے
46
روک کر تیغ یہ دی شاہ نے لشکر کو صدا
بھائی عباس نہیں جنگ کا اب کیا ہے مزا
رنج سے بھانجوں کے ہوش نہیں میرے بچا
غم اکبر میں ہے اب ضعف بصارت بھی سوا
پیاس کا ذکر ہو کیوں کر کہ زباں قاصر ہے
شمر آئے کہیں جلدی یہ گلا حاضر ہے
47
قبضے کو چوم کے پھر میان میں رکھی شمشیر
آگئے شاہ کے نزدیک سمٹ کر بے پیر
ہے غضب چلنے لگے آپ پہ ہر سمت سے تیر
ضعف سے جھومتے تھے زین فرس پر شبیر
راہ حق میں بخوشی تیر و سناں کھاتے تھے
سر پہ پڑتی تھی جو تلوار تو جھک جاتے تھے
49
ناگہاں سر پہ پڑا ایک لعیں کا جو تبر
منہ کے بل گر پڑے شہ جلتی ہوئی ریتی پر
پیک نے دی عمر سعد کو جاکے یہ خبر
لے مبارک ہو گرا گھوڑے سے حیدر کا پسر
جسم ٹکڑے کیا تلواروں سے سارا ہم نے
کس بہادر کو ترے حکم سے مارا ہم نے
50
کرب میں کروٹیں لیتے تھے زمیں پر سرور
دیکھ کر حال شہ دیں کا تڑپتا تھا جگر
کوئی اتنا نہ تھا جو لاش پہ ڈالے چادر
منہ سے نکلی تھی زباں پیاس کے مارے باہر
ایسے مظلوم زمانے میں تو کم ہوتے ہیں
زخم بھی بیکسی شہ پہ لہو روتے ہیں
51
عمر سعد نے تب ثمر لعلیں سے یہ کہا
نزع کے صدمے سے مضطر ہیں شہنشاہ ہدا
وقت تعجیل کا ہے دیر نہ کر بہر خدا
کاٹ لے جاکے شہ صابر و شاکر کا گلا
ہو نہ اب دیر گلا شاہ کا کٹ جائے کہیں
آکے ہمشیر نہ لاشے سے لپٹ جائے کہیں
52
پا کے حکم ستم ایجاد وہ بے رحم بڑھا
پاس آیا تو عجب حال میں شہ کو دیکھا
خوف خالق کا کیا اور نہ پیمبر سے ڈرا
شہ والا کی طرف دیکھ کے خنجر دیکھا
سنگدل تھا نہ ترس شاہ پہ کھایا اس نے
زور سے سینہ اقدس کو دبایا اس نے
53
کھول کر آنکھ یہ فرمانے لگے شاہ زمن
تجھ سے اے شمر ہے اک خواہش آوارہ وطن
ذبح کر پانی پلا کے ہوں بہت تشنہ دہن
ہے یہ جلدی کہ نہ خیمے سے نکل آئے بہن
نہیں معلوم کہ کیا دل پہ گذر جائے گی
میرے سینے پہ تجھ دیکھ کے مرجائے گی
54
مجھ کو تڑپانے سے کیا فائدہ خود ہوں بسمل
پھیر دے حلق پہ جلدی کہیں خنجر قاتل
پیاس کا اب متحمل نہیں بیتاب ہے دل
آب شمشیر پلا کے مری حل کر مشکل
ایسے صدموں سے یقیں ہے کہ جگر پھٹ جائے
چین مل جائے جو بیکس کا گلا کٹ جائے
55
دی ادھر خیمے میں زینب کو یہ فضہ نے خبر
ذبح ہونے کو ہیں مقتل میں شہ جن و بشر
نکلی روتی ہوئی خیمے سے و مضطر باہر
دیکھا چلتا ہے گلے پر شہ دیں کے خنجر
رو کے چلائی کہ اے شمریہ کیا کرتا ہے
سر مرے بھائی کا کیوں تن سے جدا کرتا ہے
56
سنی ہمشیر کے رونے کی جو حضرت نے صدا
کھول کر آنکھ یہ فرزند پیمبر نے کہا
جبر اب دل پہ کرو تھا یہی قسمت کا لکھا
جاؤ خیمے میں کہ اب بھائی کا کٹتا ہے گلا
تم نہ دیکھو کہ تہ خنجر خونخوار ہیں ہم
کیا کریں ہائے بہن بیکس و ناچار ہیں ہم
57
لب پہ یہ ذکر تھا شہرگ پہ جو پہونچا خنجر
کٹ گیا ظلم و ستم سے شہ مظلوم کا سر
روکے زینب نے کہا لٹ گئی میں خستہ جگر
ٹھوکریں کھانے کو زندہ رہی ہے ہے خواہر
ہوگئی آج بھرے گھر کی صفائی ہے ہے
لٹ گئی دشت میں اماں کی کمائی ہے ہے
58
آپ کے مرنے سے زینب ہوئی غربت میں تباہ
چھوٹ کر آپ سے دنیا ہے نگاہوں میں سیاہ
جاؤں کس سمت کو معلوم نہیں کوئی راہ
رحم کھا کر کوئی پہونچا دے وطن میں اللہ
جاکے صغرا سے کہوں گی کہ لٹا گھر بی بی
باپ پر تیرے چلا پیاس میں خنجر بی بی
59
فوج کو پھر عمر سعد نے یہ حکم دیا
جلد پامال کرو اب تن شاہ شہدا
سن کے یہ حکم بڑھا ہائے سواروں کا پرا
اپنے حاکم سے ڈرے پر نہ کیا خوف خدا
کی لعینوں نے جفا روح علی پر ہے ہے
گھوڑے دوڑائے تن سبط نبی پر ہے ہے
60
بس قلم روک لے کاملؔ کہ بپا ہے کہرام
ایک ہفتے میں کیا مرثیہ نو یہ تمام
عرض کر شاہ سے بلوائیے یا شاہ انام
شوق میں اب تو زیارت کے تڑپتا ہے غلام
غنچۂ خاطر پژمردہ مرا کھل جائے
صحن اقدس میں جو اک قبر کی جامل جائے
- کتاب : Al-ilm (Pg. 242)
- Author : Ali Jawad Zaidi
- مطبع : Al-ilm Publications (Edition June 1993, Feb,April, June, Aug, Oct, Dec Issue 4 Vol. 2)
- اشاعت : Edition June 1993, Feb,April, June, Aug, Oct, Dec Issue 4 Vol. 2
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.