Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جب سرنگوں ہوا علم کہکشان شب

مرزا سلامت علی دبیر

جب سرنگوں ہوا علم کہکشان شب

مرزا سلامت علی دبیر

MORE BYمرزا سلامت علی دبیر

    1

    جب سرنگوں ہوا علم کہکشان شب

    خورشید کے نشاں نے مٹایا نشان شب

    تیر شہاب سے ہوئی خالی کمان شب

    تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنان شب

    آئی لو صبح زیور جنگی سنوار کے

    شب نے زرہ ستاروں کی رکھ دی اتار کے

    2

    شمشیر مشرقی جو چڑھی چرخ پر شتاب

    پھر تیغ مغربی نے دکھائی نہ آب و تاب

    تھا بس کہ گرم خنجر بیضائے آفتاب

    باقی رہا نہ چشمۂ نیلوفری میں آب

    محتاج ماہتاب ہوا آب و تاب کا

    باغ جہاں میں پھول کھلا آفتاب کا

    3

    تھی جوش خوں کے عارضہ میں مبتلا شفق

    فصاد صبح آیا لیے نشتر و طبق

    کھولی شفق کی فصد تو رنگ افق تھا فق

    گل رنگ تھا صحیفۂ گردوں ورق ورق

    خون شفق میں سرخ قضا نے قلم کیا

    اور خط و خال روز شہادت رقم کیا

    5

    صرف نگاہ داشت ہوا شاہ خوش نہاد

    دفتر کشا نے کھول دیا دفتر مراد

    چہرہ پہ صبح کے جو کیا آب زر سے صاد

    کافور ہوگئی شب تاریک کی مداد

    رتبہ سے سرفراز کیا ماہتاب کو

    عہدہ ہراولی کا دیا آفتاب کو

    6

    طغرا نویس روز نے پھر جس قدر لکھا

    وہ حرف حرف موجب حکم قدر لکھا

    خورشید کو ہراول فوج سحر لکھا

    حرؔ کو ہراول شہ والا گہر لکھا

    چہرہ جو دوہر والوں کا ایک جا ہوا

    پر حرؔ کا نام مہر سے روشن سوا ہوا

    7

    شب نے نکالا پنبۂ اختر جو کان سے

    غل نوبت سحر کا سنا آسمان سے

    اور شور کوس رحلت سرور جہان سے

    فریاد وا حسینؑ حرم کی زبان سے

    نعرہ سنا اذاں کا خیام امام سے

    اور اقتل الحسینؑ کا غل فوج شام سے

    8

    مصروف دار و گیر میں تھا خسرو سحر

    دریا کے بندوبست میں تھی فوج بد گہر

    ظاہر میں آب نہر پہ قبضہ تھا سربسر

    باطن میں سب کی ملک میں تھی آتش سقر

    آواز آرہی تھی مزار رسولؐ سے

    مہر بتولؑ چھن گیا ابن بتول سے

    9

    چاروں طرف تھا بس کہ ہجوم سپاہ شام

    گویا سیاہ پوش تھا آب رواں تمام

    ماتم پہ تھا کہ مالک کوثر ہے تشنہ کام

    غم سے الٹ دیئے تھے حبابوں نے اپنے جام

    دریا جو دور پیاس میں تھا شہ کی فوج سے

    منہ پر طمانچے مارتا تھا دست موج سے

    10

    خیمہ میں ابن سعد کے مجمع تھا بے شمار

    بیٹھا تھا زرد رو سر کرسئ زر نگار

    جاسوس پہلوؤں میں کھڑے تھے امیدوار

    اور حکم صف کشی کا نقیبوں کو انتظار

    جو قصد تھا وہ دین کے برباد ہونے کا

    جو ذکر تھا وہ فاطمہؑ زہرا کے رونے کا

    11

    کہنے لگا رفیقوں سے خوش ہو کے وہ شریر

    اک خواب میں نے دیکھا ہے آج اے جوان و پیر

    کہنے لگے یہ دست ادب باندھ کر شریر

    ارشاد ہو وہ دیکھا ہے کیا خواب اے امیر

    بولا وہ فکر جنگ سے تھا اضطراب میں

    اپنے نبیؐ کو ذبح کیا میں نے خواب میں

    12

    سب نے کہا کہ فتح مبارک ہو اے عمر

    کاٹا سر حسینؑ تو کاٹا نبیؐ کا سر

    چلایا شمر خواب ہے اپنا عجیب تر

    گویا سوار ہوں شہ بیکس کے سینہ پر

    مطلق کیا نہ پاس رسولؐ انام کا

    خنجر سے میں نے قطع کیا سر امامؑ کا

    13

    یہ سن کے حرملہ نے کہا خواب سن مرا

    گویا کیے ہیں تو نے دو خلعت مجھے عطا

    ہیں دو نشانے تیر کے میرے جدا جدا

    اک بازوئے حسینؑ اور اک طفل کا گلا

    بیٹے کا اور پدر کا لہو مل کے بہ گیا

    وہ مرگیا تڑپ کے یہ چپ ہو کے رہ گیا

    14

    بولا عدو ہے کہنے کی کیا اس میں احتیاج

    سب کچھ تمہارے واسطے ہے بعد فتح آج

    جس زخم کا رفو ہو نہ جس درد کا علاج

    آج ابن فاطمہؑ کے لیے اس کا ہو رواج

    سادات کی ردائیں بھی لوشہ کا سر بھی لو

    خلعت بھی لو خطاب بھی لو مال و زر بھی لو

    15

    جاسوسوں کو قریب بلا کر کہی یہ بات

    لو تم بھی اب کہو خبر شاہ نیک ذات

    کیوں کر بغیر آب کٹی یہ تمام رات

    کیا گزری شب کو پیاسوں پہ اب کیا ہے واردات

    نامہ تو کوئی اہل وطن کو لکھا نہیں

    بہر کمک کسی کو طلب تو کیا نہیں

    16

    کس کس کو شہ نے اسلحہ بخشا ہے کچھ سنا

    شمشیر حیدری ہوئی کس شیر کو عطا

    پچھلے کو خیمہ گاہ میں کیوں حشر تھا بپا

    ہم کو تو دیتے ہوئیں گے شپیرؔ بد دعا

    مشتاقئ اجل ہے کہ شوق جہاد ہے

    جاسوس نے کہا کہ فقط حق کی یاد ہے

    17

    ہر سجدے میں شفاعت امت کی تھی دعا

    کیسی مدد حسینؑ کو ہے احتیاج کیا

    اکبرؑ سے شاہ کہتے تھے بیٹا وطن کو جا

    تنہائی کی اجل میں ہے پیارے بڑا مزا

    کب اسلحہ کسی کو دیا ہے حسینؑ نے

    تقسیم سب کو صبر کیا ہے حسینؑ نے

    18

    پچھلے کے پہر رونے کا مضموں ہے دردناک

    شپیرؔ نے سکینہؔ کا کرتا کیا تھا چاک

    منہ پر ملی پھر اس کے یتیموں کی طرح خاک

    کہتے تھے سب نہ صلح ہوئی اے امام پاک

    فرماتے تھے حسینؑ کہ کل صلح ہوئے گی

    لیکن وہ صلح ہوگی کہ سب خلق روئے گی

    19

    حضرت نے بے کسی سے کہا جب کہ یہ سخن

    مل کر گلے سے بھائی کے رونے لگی بہن

    پہنائے اپنے بیٹوں کو چھوٹے سے دو کفن

    زینبؔ ہوئی جوانئ اکبر پہ نوحہ زن

    غش پر غش آیا بادشۂ بے نظیر کو

    اکبرؑ نے بخشوایا جو مادر سے شیر کو

    20

    پیاسے تو ہیں حسینؑ پر اس ضبط پر فدا

    اک چشمہ خیمہ گاہ میں اس وقت تک رہا

    پینے دیا کسی کو نہ خود شاہ نے پیا

    دھویا کفن کو غسل کیا اور وضو کیا

    نہر بہشت بہر طہارت خود آئی تھی

    گویا رسول زادے کے گھرمیں خدائی تھی

    21

    لیتے ہوئے خبر جو پھرے ہم ہر ایک جا

    پر سوئے پشت خیمہ نہ اپنا قدم بڑھا

    آتی تھی ہائے ہائے پسر کی وہاں ندا

    شپیرؔ کہتے تھے یہ مری ماں کی ہے صدا

    خیمہ کے گرد نعرۂ شیر آشکار تھا

    آئی صدا وہ شیر خدا بے قرار تھا

    22

    ہے آج تو ہر ایک طرح اپنی ہی ظفر

    ہاں اب سلاح باندھیں جوانان ذی ہنر

    دوڑے نقیب باندھ کے دامن ادھر ادھر

    دو لاکھ مستعد ہوئے قتل حسینؑ پر

    انصاف کہہ رہا تھا کہ یہ کیا خیال ہے

    اے ظالمو بتولؑ کا یہ ایک لال ہے

    23

    جب مورچے بندھے تو علم یک قلم کھلے

    تیر جفا کمانوں کی میزان میں تلے

    قرنا کا زور و شور وہ نوبت کے غلغلے

    جن کی صدا سے خون ہو خشک اور تن گھلے

    ترکش کے تیر دیکھ کے آتا تھا دھیان میں

    غل کے سبب سے انگلیاں دیتے تھے کان میں

    24

    جاروب کش نے آئینہ رن کو بنادیا

    سقوں نے حرب گاہ میں دریا بہا دیا

    پیغام صور شور دہل نے سنا دیا

    بانگ نقیب نے دل اعدا بڑھا دیا

    غل تھا کہ کوئی دم میں شہ دوسرا نہیں

    زینبؑ کا اب جہاں میں کوئی آسرا نہیں

    25

    اب آن کر حسینؑ کا دیکھو جلال و جاہ

    بن میں شگفتہ ہے چمن قدرت الہٰ

    میدان میں سپاہ ہے خیمہ میں بادشاہ

    انجم تو محو سیر ہیں برج شرف میں ماہ

    کیا باوفا سپاہ شہ دیں پناہ ہے

    دو دن کے پیاس ان کی وفا پر گواہ ہے

    26

    تھی بس کہ آمد آمد ابن ابو تراب

    تھا ہاتھ میں خضر کے عصائے پر آب و تاب

    الیاسؑ آب پاش تھے با دیدۂ پر آب

    فرش زری بچھائے تھے فراش ماہتاب

    حالت تھی غیر بنت رسالت پناہ کی

    بالوں سے جھاڑتی تھی زمیں قتل گاہ کی

    27

    قربان بارگاہ حسینؑ و نثار فوج

    خیمہ فلک شکوہ تو یہ فوج عرش اوج

    جنت رواق زینت آفاق حورو زوج

    دریا زرہ نہنگ سپر برق تیغ موج

    کیا ان کے ااگے صولت سہراب و زال ہے

    زال ان کے رعب و دبدبہ سے پیر زال ہے

    28

    رخ ایک کا مفسر والشمس والضحٰے

    خال ایک کا مترجم و النجم اذا ہوا

    چہرہ کسی کا زلف میں کالبدر فی الدجا

    فرق بلند ایک کا تفسیر والسما

    خود اوج سر ہے خود کا سر سے عروج ہے

    ہر خود سر مشرح ذات البروج ہے

    29

    اکبر کھڑے ہیں ساغر عرفاں پیے ہوئے

    دوچار ہمسنوں کو جلو میں لیے ہوئے

    دست قضا میں نقد جوانی دیے ہوئے

    دل میں خدا سے عہد شہادت کیے ہوئے

    نقشہ تھا اک نبیؐ کا اس افلاک کے تلے

    اٹھارہویں برس میں چھپا خاک کے تلے

    30

    چہرہ سے تابہ ناف ہے پیغمبر زمن

    محبوب عصر ثانٔی محبوب ذوالمنن

    ہے ناف یا کہ عکس فگن غنچۂ دہن

    بالکل خطا ہے کہیے اگر نافۂ ختن

    کب نافۂ ختن میں بھلا بوئے ناف ہے

    یہ ناف روح پرور عبد مناف ہے

    31

    نیلے ہیں لب جو پیاس سے تو حسن ہے نیا

    غنچہ دہن کا غنچۂ نیلوفری بنا

    قاسم میں خلق و حلم ہے میراث مجتبا

    مظلومیت حسینؑ کی یاں سر سے تابہ پا

    یہ آفتاب حسن ہے وہ ماہ حسن ہے

    وہ شاہ حسن ہے یہ شہنشاہ حسن ہے

    32

    شوکت نثار شوکت عباسؑ نامور

    اللہ کی ہے سیف تو شپیر کی سپر

    حمزہ حشم عقیل شیم صاحب ہنر

    تیار مثل جعفر طیار جنگ پر

    کہتے ہیں گو علم مرا نخل مراد ہے

    سقہ سکینہؑ کا ہوں یہ رتبہ زیاد ہے

    33

    لہرا رہا ہے سبز پھر ہرہ بآب و تاب

    پنجے پہ اس علم کے ہے قربان آفتاب

    دو فتحہ ایک لفظ علم پر ہیں انتخاب

    دونو جہاں میں ہے یہ علم دار لاجواب

    کیوں کر گرہ کشائی میں بے مثل یہ نہیں

    شکل کلید چوب علم میں گرہ نہیں

    34

    مڑ کر نجف کو کہتا ہے وہ شیر بے نظیر

    اماں حسینؑ کے لیے بخشو حقوق شیر

    سوئے نجف دعا ہے کہ ہوں آپ دست گیر

    آتی ہے یہ علی کی ندا اے مہ منیر

    کٹوا کے سر کو ہوجیو فدیہ حسینؑ کا

    عباسؑ تجھ پہ دین ہے یہ والدین کا

    35

    ہیں پاس پاس مسلم و زینب کے یادگار

    اک جا یہ چار چاند ہیں یا آفتاب چار

    ذیقدر و ذی مراتب و ذی جاہ و ذی وقار

    جان باز و سر فروش و نمودار و نامدار

    عارض وہ پھول سے کہ تصدق بہار ہے

    وہ کمسنی کہ جس پہ جوانی نثار ہے

    36

    مصحف ہے ان کا روئے مبیں غیرت قمر

    کچھ کچھ عیاں ہے سبزۂ خط روئے پاک پر

    جس حسن سے کہ سورۂ اخلاص مختصر

    سورہ تو مختصر پہ فضیلت زیادہ تر

    چہروں سے آشکار حسینؑ و حسن کا رنگ

    سوکھے ہوئے لبوں پہ تصدق چمن کا رنگ

    37

    دیکھی شکوہ فوج سنو شہ کا ماجرا

    آخر ہوا وظیفۂ آخر جو شاہ کا

    کی ہاتھ اٹھا کے بار گہہ حق میں یہ دعا

    یارب رسول پاک کی امت کا ہو بھلا

    سہل است گر رود سر من برسر سنین

    زینبؑ اگر اسیر شودوائے بر حسینؑ

    38

    زینب نے رو کے سبط پیمبر سے یہ کہا

    بھیا ہزار جان سے تم پر بہن فدا

    سایہ میں آپ کے مرا سر ہوئے بے ردا

    میرا گلا بندھے نہ کٹے آپ کا گلا

    زنداں ہو بے ردائی ہو اور شور شین ہو

    زینب کو سب قبول ہے لیکن حسینؑ ہو

    39

    بولے حسینؑ بس کہ ہوا ٹکڑے دل مرا

    میں جانتا ہوں ماں کی طرح مجھ پہ ہو فدا

    جب صبر دے خدا تمہیں اور حشر میں جزا

    پر میری زندگی میں تو ہو تم نہ بے ردا

    کیوں کر خلاف مرضئ رب قدیر ہو

    شپیر ذبح ہوئے تو زینبؑ اسیر ہو

    40

    باہیں گلے میں ڈال کے زینبؑ نے دی ندا

    لپٹی ہوں فضہ اکبرؑ و عباسؑ کو بلا

    آئے جو گھر میں اکبرؑ و عباس یہ کہا

    لو ہم سے بھائی جان بھی اب ہوگئے خفا

    اماں بھی مرگئیں مرے بابا بھی مر گئے

    مرجاؤں گی جو یہ بھی مجھے چھوڑ کر گئے

    41

    میں تو ابھی ہوں چار بزرگوں کی سوگوار

    ناسور دل میں چار ہیں سینے میں داغ چار

    اب داغ پانچواں کیا قسمت نے روبہ کار

    کیوں ماں کے ساتھ مر نہ گئی میں جگر فگار

    جس کو کہ آسرا ہو فقط ایک بھائی کا

    حال اس بہن سے پوچھیے زہراؑ اکی جائی کا

    42

    اس ذکر سے قیامت کبرا ہوئی عیاں

    بھائی بہن کے اشک تھے رخسار پر رواں

    سرکھولے گرد بیبیاں کرتی تھیں یہ بیاں

    لٹتے ہیں پر ہلا نہیں سکتا کوئی زباں

    شہ کہتے ہیں کہ آج کا دن امتحاں کا ہے

    جانا وہاں ضرور ہے وعدہ جہاں کا ہے

    43

    فرما کے حکم صبر کا سب کو بصد شتاب

    عصمت سرا سے پھر تو برامد ہوئے جناب

    عباسؑ لائے مرکب ابن ابوتراب

    چومے عناں نے ہاتھ گری پاؤں پر رکاب

    یوں زیب زیں وہ سرور دنیا و دیں ہوا

    قرآن پاک رحل پہ جلوہ گزیں ہوا

    44

    رخش حسینؑ قدرت حق صنع کبریا

    دل دل خرام برق لجام و براق پا

    خورشید زین بدر جبین و قمر ضیا

    گل کو نہ اس بدن کی نزاکت کہوں میں کیا

    گر بوسہ زن نسیم دم سیر باغ ہو

    فورا نمود جلد سے لالہ کا داغ ہو

    45

    وہ رفرف و براق پہ کرتا تھا افتخار

    یعنی سوار دوش نبیؐ ہے مرا سوار

    میکائیل و جبرئیل عناں بوس بار بار

    سرعت یہ تھی کہ باگ ہلی اور فلک کے پار

    ہر گاہ بدر سم کی ضیا آسماں پہ تھی

    برق لجام وہ کہ چمک کہکشاں پہ تھی

    46

    حاضر حضور شہ میں ہوا لشکر خدا

    حضرت نے سب کو حکم صف آرائی کا دیا

    روح الا میں نے بڑھ کے کیا صاف راستا

    پھیلی جو شہ کے چہرۂ پر نور کی ضیا

    عالم تھا حسن رخ میں عجب آب و تاب کا

    چوتھے فلک پہ پھر گیا منہ آفتاب کا

    47

    فوج عدد سے جنگ کا پیغام لائے تیر

    اہل ستم نے اہل وفا پر چلائے تیر

    دو دن کی بھوک پیاس میں پیاسوں نے کھائے تیر

    بولے حسینؑ ادھر سے نہ کوئی لگائے تیر

    پوچھا سبب جو شہ نے کہا کچھ خبر بھی ہے

    اک عاشق حسینؑ ہمارا ادھر بھی ہے

    48

    یاں صبر تھا عروج پہ زوروں پہ واں ستم

    کی ابن سعد نحس نے تیغ زباں علم

    بولا کہاں ہے حُرّ جری صاحب حشم

    لایا ہے گھیر کر وہی شہ کو مع حرم

    اب تیغ ہو یزید کی اور حر کا ہاتھ ہو

    اور زیر تیغ حلق شہ خوش صفات ہو

    49

    حر صبح سے علاحدہ گوشہ میں تھا کھڑا

    انگشت حیف لب کے تلے اور یہ تھی حیا

    اللہ توبہ آہ بڑی میں نے کی خطا

    سید کو گھیر کر یہاں لایا غضب کیا

    نرغہ ہے ظالموں کا شہ خوش خصال پر

    پانی ہے بند ساقئ کوثر کے لال پر

    50

    حر سے کہا برادر و فرزند نے یہ کیا

    اے رستم زمانہ ہزاروں سے تو لڑا

    ستردوتن سے تیرے لرزتے ہیں دست و پا

    حر نے کہا میں خوف سے کانپوں نہ کیوں بھلا

    یاں تو مقابلہ پسر مصطفی کا ہے

    اور بعد اس کے سامنا اک دن خدا کا ہے

    51

    دل میں مرے ٹھنی ہوئی ہے رات سے یہ با ت

    حتما یہی ہے قصد جو فضل خدا ہے سات

    جاکر ملوں امام سے خود باندھ کر میں بات

    شاید اسی وسیلہ سے ہوئے مری نجات

    جی میں یہ ہے کہ صابر و شاکر کا ساتھ دوں

    ہوں منحرف خدا سے جو کافر کا ساتھ دوں

    52

    اب اپنی تم کہو کہ تمہارا ہے قصد کیا

    دونوں نے کی یہ عرض کہ جو آپ کی رضا

    حاضر غلام حر بھی ہوا اور یہ کہا

    یہ خانہ زاد بھی ہے فدائے شہ ہدا

    عشق دلی ہے مجھ کو شہ خوش صفات سے

    مجھ کو نہ چھوڑیے گا کہیں اپنے سات سے

    53

    حر نے دیا یہ حکم سمندوں کو سج کے لاؤ

    جلدی کا ہے یہ وقت بسرعت قدم بڑھاؤ

    کثرت سے فوج شام کی ہرگز نہ خوف کھاؤ

    نام حسینؑ لے کے عنان فرس اٹھاؤ

    نکلو عذاب نار سے داخل جناں میں ہو

    حاظر جناب سرور کون و مکاں میں ہو

    54

    حر اور پسر برادر و عید نکو شعار

    گھوڑوں پہ اپنے اپنے دلاور ہوئے سوار

    آئے دلیر پیش بن سعد نابکار

    فرمایا حر نے او ستم اطوار ہوشیار

    اب لمحہ بھر بھی یاں مجھے رہنا حرام ہے

    کیوں کفر سے جدا نہ ہوں حر میرا نام ہے

    55

    اس حال جانگزا کی نہ تھی کچھ خبر مجھے

    میں کیا کہوں ہوئی ہے یہ کیوں کر سحر مجھے

    تیری طرح نہیں ہوس مال و زر مجھے

    بار گراں ہے دوش پہ اپنے یہ سر مجھے

    دنیا کے جال میں کہیں دیں دار آتے ہیں

    دیکھ اس طرح سے حق کے طلبگار جاتے ہیں

    56

    تھا شام سے یہ قصد کہیں جلد ہو سحر

    ہوں داخل سپاہ شہنشاہ بحر و بر

    کہنے کو یہ نہ ہو کہ یہ غالب تھا دل پہ ڈر

    چھپ کر حجاب شب میں گیا حر بصد خطر

    اب جس میں دم ہو بڑھ کے غضنفر کو ٹوک لے

    تو حکم ساری فوج کو دے مجھ کو روک لے

    57

    بولا یہ ابن سعد کہ اے آزمودہ کار

    چہرہ سے ہے نمود ترے خوف و اضطرار

    باتیں بنا رہا ہے بگڑ کر بہ انتشار

    ہونے کو اب ہے جنگ رسالہ سے ہوشیار

    ہے خون خشک برق دم ذوالفقار سے

    تو ڈر گیا حسینوں کی کارزار سے

    58

    یہ جان لے کہ نوکری پر آئے گا زوال

    یہ یاد رکھ نہ چھوٹ کے ہوگا کبھی بحال

    ہوں گے اسیر ظلم و ستم سےترے عیال

    افسوس کچھ نہیں تجھے ناموس کا خیال

    ذلت کا سامنا ہو تو افسر کی موت ہے

    منہ موڑنا وغا سے دلاور کی موت ہے

    59

    کیا خوب واہ رشتۂ نوجوڑتا ہے تو

    برسوں کا سلسلہ جو ہے وہ توڑتا ہے تو

    بیڑے کا اپنے ساتھ عبث چھوڑتا ہے تو

    حاکم سیایسے وقت میں منہ موڑتا ہے تو

    کیوں کر سنوں میں آج ترے اس کلام کو

    کل کی ہے بات گھیر کے لایا امام کو

    60

    کیوں ہاتھ شہ کی باگ پہ ڈالا تھا یا نہیں

    جو حوصلہ تھا دل کا نکالا تھا یا نہیں

    غصہ علیؑ کے شیر نے ٹالا تھا یا نہیں

    تو تیغ حیدری کا نوالا تھا یا نہیں

    رہتا اگر وہ طور اسی دم تھا خاتمہ

    بڑھتا گیا کچھ اور اسی دم تھا خاتمہ

    61

    حر نے کہا اسی کی ندامت یہ ہے مجھے

    مجھ سے یہ کیا خطا ہوئی حیرت یہ ہے مجھے

    ہوں ان سے منحرف کہیں طاقت یہ ہے مجھے

    صدقے ہوں شہ کے قدموں پہ حسرت یہ ہے مجھے

    سرکاٹ لیں تو جرم کی میرے سزا یہ ہے

    اور بخش دیں خطا تو سراسر عطا یہ ہے

    62

    بے حد ہے میرے دل پہ ہجوم غم وملال

    تا عمر یہ رہے گی ندامت مجھے کمال

    لشکر سمیت پیاس سے تھا غیر میرا حال

    محفوظ شور و شر سے رہے مرتضا کا لال

    رکھا نہ اپنے واسطے پانی پلادیا

    مرتے ہووں کو ابر کرم نے جلادیا

    63

    احساں یہ ان کا دل سے بھلاؤں نہ ہوئے گا

    منہ قبلۂ امم سے پھراؤں نہ ہوئے گا

    دوزخ میں اپنے پاؤں سے جاؤں نہ ہوئے گا

    بت کے لیے میں کعبہ کو ڈھاؤں نہ ہوئے گا

    سبط نبیؐ کے دل کو دکھایا نہ جائے گا

    مجھ سے تو دست ظلم اٹھایا نہ جائے گا

    64

    تیری طرح نہیں ہے مجھے حرض ملک و مال

    لعنت ہے ایسے مال پہ جب ہو برا مآل

    بس کر چکا اطاعت بے دین و بد خصال

    تف ایسی نوکری پہ جو ایماں کا ہو زوال

    بھاتا نہیں یہ عہدۂ و منصب نگاہ کو

    پامال کر رہا ہوں اس اعزاز و جاہ کو

    65

    حر کے سخن کو کاٹ کے بولا وہ پرفتن

    اے صف شکن یہ صف شکنوں کا نہیں چلن

    بیٹا بھی ترے ساتھ ہے اے مورد محن

    اس چاند کو لگاتا ہے خود ہاتھ سےگہن

    ترا خیال کس طرف اے باتمیز ہے

    اولاد سے سوا کوئی دنیا میں چیز ہے

    66

    حر نے کہا کہ اس کا نہیں کچھ مجھے خطر

    سو جاں سے ہوں فدائے شہنشاہ بحر وبر

    ہمراہ اس لیے لیے جاتا ہوں یہ پسر

    صدقے کروں گا اس کو شبیہ رسولؐ پر

    لے کر رضا امام سے لڑنے کو آؤں گا

    میں سب سے پہلے گلشن جنت میں جاؤں گا

    67

    یہ کہہ کے حر نے باگ کو موڑا بہ عز و شاں

    نکلا چمک کے فوج سے رہوار خوش عناں

    ہمراہ تھے برادر و فرزند نوجواں

    سایہ کی طرح عبد پس پشت تھا رواں

    لے کر علیؑ کا نام اس انبوہ عام سے

    وہ پیرو حسینؑ چلے فوج شام سے

    68

    نکلا سپاہ شام سے یوں حر نامور

    جیسے گہن سے مہر مبیں ابر سے قمر

    مدح و ثنا زبان سے اور آنکھ سے نظر

    یوسف کنویں سے پردۂ شب سے رخ سحر

    غل تھا کہ رود نیل سے موسیٰ نکل گئے

    ظلمت کا خضر پیر کے دریا نکل گئے

    69

    پہنچا قریب فوج خدا جب وہ باوفا

    حر جری نے سبط پیمبر کو دی صدا

    اے شیر کبریا کے پسر تجھ پہ میں فدا

    وقت مدد ہے اے جگر و جان مرتضٰی

    محجوب ہے کمال بہت شرمسار ہے

    مولا غلام عفو کا امیدوار ہے

    70

    حاضر ہوا جو خدمت شہ میں وہ ذی وقار

    بس دوڑ کر لیے قدم شاہ نامدار

    سر رکھ کے شہ کے پاؤں پہ کی عرض بار بار

    امیدوار رحم و کرم ہے یہ خاکسار

    میں قابل سزا ہوں سزا مجھ کو دیجئے

    یہ بات قطع کیجئے سر کاٹ لیجئے

    71

    سینے سے سر لگا کے یہ بولے شہ امم

    اللہ جانتا ہے کہ راضی ہیں تجھ سے ہم

    کیسا گناہ کیسی خطا اے نکو شیم

    تیرا تو نام فرد شہادت میں ہے رقم

    یاں آکے مورد ستم و رنج و آہ ہوں

    تو عذر خواہ کیا ہے میں ہی عذر خواہ ہوں

    72

    مہماں ہے تو حسینؑ کا اے حر باوفا

    حیران ہوں کہ تیری ضیافت کروں میں کیا

    یہ دن ہے تیسرا کہ نہ پانی ہے نے غذا

    مرتے ہیں مارے پیاس کے اطفال مہ لقا

    پانی ملا نہ دود ھ ملا بے زبان کو

    آتے ہیں غش پہ غش چھ مہینہ کی جان کو

    73

    حر نے کہاں خطا بھی مری بخشی یا امام

    شہ بولے عفو ہوگئے تیرے گنہ تمام

    بھائی کو اور پسر کو دکھا کر وہ نیک نام

    بولا کہ اور تو کسی قابل نہیں غلام

    فدوی کا سر تو سبط پیمبرؐ کی نذر ہے

    عباسؑ کی یہ نذریہ اکبرؑ کی نذر ہے

    74

    شہ سے رضا طلب ہوا پھر حر باوفا

    فرمایا شاہ دیں نے کہ جلدی ابھی ہے کیا

    کی حر نے عرض اے جگر و جان مرتضا

    دعوت کے بدلے کیجئے جنت مجھے عطا

    للہ روکیئے نہ اب اس تلخ کام کو

    اکبرؑ کا صدقہ دیجئے رخصت غلام کو

    75

    لے کر رضا امام سے باصد شکوہ و شاں

    پیاسا چلا جہاد کو پیاسوں کا میہماں

    ڈیوڑھی سے فضہ بولی کہ حیدر نگیبہاں

    اے حر دعائیں دیتی ہیں زہراؑ کی بیٹیاں

    خوش خوش چڑھا دلیر سمند دلیر پر

    گویا سوار شیر ہوا پشت شیر پر

    76

    اب ہے یہاں اشارۂ تائید کبریا

    شکل ہراول شہ دیں کھینچ کر دکھا

    قربان اس اشارہ کے اس لطف پر فدا

    اب تک کسی نے حر کا سراپا نہیں لکھا

    گنجینہ فیض سے ہے خدا کا بھرا ہوا

    مضمون میرے حصہ کا یہ تھا بچا ہوا

    77

    لکھتا ہو حسن چہرۂ حر وفا سرشت

    شیعہ تو داد دیں گے کے مجھے پنچتن بہشت

    جس نے لکھا یہ وصف ہوئی خلد سرنوشت

    رویا جو حر کو سبز ہوئی مغفرت کی کشت

    حر کی طرح بخیر ہوا کس کا خاتمہ

    سرزانوئے حسینؑ پہ بالیں پہ فاطمہؑ

    78

    مہر مبین مشرق مہروفا ہے حر

    گنجینۂ محبت آل عبا ہے حر

    سرتاج شیعیان علی جو بنا ہے حر

    گویا کہ ابن فاطمہؑ کا نقش پا ہے حر

    ہے فخر جو غلام حر نیک نام ہو

    آقا حسینؑ سا ہو تو حر سا غلام ہو

    79

    مہمان کر بلا کا یہ مہماں ہے باوفا

    آیا تھا پیاسا پیاسا ہی مرنے کو یہ چلا

    پھر حق کے روبرو ہو نہ کیوں آبرو سوا

    پیاسا سوائے حر کوئی مہماں نہیں سنا

    دیکھو تو قدر الفت سبط رسولؐ کی

    اک خشک آب تیغ کی دعوت قبول کی

    80

    حال حر شہید پہ اے صاحب شعور

    تحسین بھی ضرور ہے گر یہ بھی ہے ضرور

    تحسین تو وفا پہ جو کی شاہ کے حضور

    اور گریہ بے کسی پہ کہ ہے قبر کتنی دور

    اب بھی بتولؑ وارد مقتل جو روتی ہیں

    ماں بھی نہ روئے جیسا کہ وہ حر کو روتی ہیں

    81

    مانند صبح صاف کرو دل کو اب شتاب

    تاجلوہ گر ہو چہرۂ حر مثل آفتاب

    نظارۂ جمال غلام ابو تراب

    لاریب ہے زیارت شاہ فلک جناب

    لکھا ہوا تھا حر کی یہی سرنوشت میں

    دوزخ میں رات کو تھا سحر کو بہشت میں

    82

    چہرہ ہے فرد دستخط منشی وفا

    طغرائے نقش دوستی سبط مصطفا

    آزار کفر کیلئے ہے نسخۂ شفا

    عارض دو آفتاب دو آئینہ ضیا

    اک آفتاب علم کا ہے اک یقین کا

    اک آئینہ ہے شرع کا اور ایک دین کا

    83

    بڑھتا ہے تا دو ہفتہ ہر اک ماہ میں قمر

    عارض یہ حسن کرتے ہیں پیدا زیادہ تر

    اک شب بھی روئے حر کے مقابل نہیں مگر

    یہ بدر رخ تو اوج ابد پر ہے جلوہ گر

    وہ حسن عارضی ہے تو کیا اعتماد ہے

    داغی ہے وہ یہ صاف وہ کم یہ زیاد ہے

    84

    کسی رو سے یاں ہو قدر مہ و آفتاب کو

    مصحف پہ ہے شرف رخ پر آب و تاب کو

    یہ مصحف وفا ہے رسالت مآب کو

    مثل پسر عزیز ہے ام الکتاب کو

    جاری ورق پہ چشم سے خوں ناب کیجئے

    سرخی سے اس صحیفہ پہ اعراب کیجئے

    85

    اب وصف خط و خال قلمبند کیجئے

    اس بند پر ستاروں کو اسپند کیجئے

    دل مدح رخ کے لکھنے سے خرسند کیجئے

    نقطہ پہ فخر چاند سے دہ چند کیجئے

    وصف جبین و عارض و خال آشکارا ہے

    خورشید میں قمر ہے قمر میں ستارا ہے

    86

    چہرہ ہے ماہ شان دو ابرو کرو خیال

    یہ کون سا مہینہ ہے جس میں ہیں دو ہلال

    اب تو یہ ہے ثنا در دنداں کی ہے محال

    پاؤں دہن تو کچھ در دنداں کی دوں مثال

    دنداں در عدن پہ دہن رشک درج ہے

    بتیس آفتاب ہیں اور ایک برج ہے

    87

    اب مدح چشم حر کی نہ کیوں فرض عین ہو

    جس پر کہ عین عفو جناب حسینؑ ہو

    مد نظر جسے دل زہرا کا چین ہو

    یہ عین کیوں نہ شیعوں کو پھر فرض عین ہو

    ابرو کا ہے اشارہ کہ حاصل مراد ہے

    میں مد عرض داشت ہویہ عین صاد ہے

    88

    فردوس کی نسیم جو آتی ہے خوشگوار

    ہوتی ہے بند نرگس بیدار بار بار

    پر وقت جنگ بند ہے کیوں چشم ہوشیار

    عین عزائے سبط پیمبر ہے آشکار

    وضع زمانہ دیکھ کے حر کو جو خشم ہے

    مل کر پلک پلک سے سیہ پوش چشم ہے

    89

    دونوں لبوں کے وصف کا مضموں نیا ہے واہ

    شیرینئ زباں پہ ہیں گویا یہ دو گواہ

    دو شغل ان لبوں کے ہیں ہر شام و ہر پگاہ

    ذکر الٰہ و منقبت ضیغم اللہ

    شیرینی دہن کے رقم گر صفات ہوں

    ہوں نیشکر قلم شکر ستاں دوات ہوں

    90

    اک رمز ہے جو کاکل و رخ ہیں یہ آس پاس

    عالم کو صبح و شام کا کرتے ہیں روشناس

    کاکل پہ حسن مصرعۂ واللیل کا قیاس

    رخ سے ہوا ہے مطلع و الفجر اقتباس

    پیدا قریب چہرہ کے جاوید زلف ہے

    خورشید رخ ہے سایۂ خورشید زلف ہے

    91

    پائے حسینؑ سے جو سر حر کو ہے نیاز

    یاں ہر بلند پست ہے ہنگام امتیاز

    کرنا ہے فرق حر پہ سر عرش فحر و ناز

    روز ازل سے حق نے کیا حر کو سرفراز

    زانوئے شاہ تکیۂ خواب بہشت ہے

    اس سر کے ہم نثار کہ کیا سرنوشت ہے

    92

    رخ پر عرق کے قطروں کا ہے دھوپ میں وفور

    یا ہے گہر کا چشمۂ خورشید سے ظہور

    ہے عازم جہاد جو گرمی میں یہ غیور

    قطرے نہ سمجھو منہ پہ برستا ہے آج نور

    پیاسا نثار ہوتا ہے اپنے امام پر

    نیساں گہر فشاں ہے حر نیک نام پر

    93

    ابرو ہیں یا دو مصرعۂ یک بیت ذوالفقار

    یا پھر عدود و فقرۂ شمشیر آبدار

    شان جبیں سے رفعت گردوں ہے آشکار

    ہے واقعی ہلال یہ ابروئے باوقار

    یہ ماہ نو جبیں پہ جو بے اختلاف ہے

    رویت کا یہ سبب ہے کہ مطلع بھی صاف ہے

    94

    حسن و جمال حر پہ ہے تائید کبریا

    ماتھے کی وہ نمود وہ رخسار کی ضیا

    رخ کے عرق نے آب بقا کا مزا دیا

    چاہ ذقن میں چشمۂ حیواں نہاں کیا

    اس چاہ میں جو بینئ انور کا نور ہے

    روشن خضر کے چشمہ پہ یہ شمع طور ہے

    95

    پیش بیاض گردن حر صبح فرد شام

    شمع حرم جھکاتی ہے گردن پئے سلام

    صبح گلو پہ نور کے درجے ہوئے تمام

    رومال فاطمہؑ کا بندھا ہے یہ وہ مقام

    بس نور میں تو نور کا پیوند چاہئے

    رومال فاطمہؑ کا گلو بند چاہئے

    96

    لوح بقائے مہر وفا حر کا سینہ ہے

    باب علوم کی یہ ولا کا مدینہ ہے

    کیا خوب اس سے کعبۂ دل کا قرینہ ہے

    وہ کعبہ میں کہاں ہے جو دل کا خزینہ ہے

    کعبہ بھی دل بھی خانۂ رب جلیل ہے

    پر دل بنائے حق وہ بنائے خلیل ہے

    97

    وہ آستیں میں ہاتھوں کی طلعت کا ہے ظہور

    فانوس کعبہ میں نظر آتی ہے شمع طور

    کیا نور کا ہے ناخن انگشت پر وفور

    تشیبہ ماہ نو سے جو دیں صاحب شعور

    تشبیہ سے ہلال میں یہ آب و تاب ہو

    بڑھ کر ہلال بدر نہ ہو آفتا ب ہو

    98

    طوبیٰ سے قد حر کی نہ کیوں قدر ہو سوا

    تعظیم سرو قد کریں جس کی سب انبیا

    جوش تصور قد موزوں سے بارہا

    طوبیٰ کی یہ صدا ہے کہ طوبیٰ لکم فدا

    تصویر قد حر اسے استاد کہتے ہیں

    یہ وجہ ہے کہ سرو کو آزاد کہتے ہیں

    99

    اب زیور سلاح کو دیکھیں جوان و پیر

    خود و سنان و جوشن و تیغ و کمان و تیر

    ہے نقش نام اکبرؑ و اصغر کا دل پذیر

    کیا جوشن کبیر ہے کیا جوشن صغیر

    تیغ و سناں و تیر کا جوہر ہے آشکار

    لاسیف و لافتےٰ کا یہ محضر ہے آشکار

    100

    وصف زرہ سے کھل گیا یہ راز سر بسر

    گن لو کہ چارآئینہ ہے اور اک سپر

    یہ پانچ مہریں صاف زرہ پر ہیں جلوہ گر

    سمجھو نہ تم زرہ سوئے شہ اس نے آن کر

    محضر لکھا ہے الفت آل رسولؐ پر

    مہریں یہ پنچتن کی ہیں حسن قبول پر

    101

    طوبیٰ کی شاخ نیزہ کے شاہد ہیں جبرئل

    قرص سپر ہے بدر شب قدر کی دلیل

    تیغ رواں ہے معجزۂ سید جلیل

    ہے آب بے نظیر تو ہے تاب بے عدیل

    حیرت ہے ایک قبضہ میں برق و سحاب ہے

    قدرت یہ ہے خدا کی کہ آتش میں آب ہے

    102

    وصف سمند حر میں ہے کلک قلم رواں

    جس کے حضور موج ہوا نبض ناتواں

    رکتا نہیں کہیں صفت تیغ دو زباں

    نظروں پہ چڑھ کے پھرتی ہیں آنکھوں میں پتلیاں

    برق شرر فشاں دم رفتار رن میں ہے

    طاؤس مست ہے کہ خراماں چمن میں ہے

    103

    گر بہر قبض جان عدؤے شہ زماں

    ہمراہ اس سمند کے ہوئے اجل رواں

    راکب اشارہ باگ سے اتنا کرے کہ ہاں

    پھر ہاں کے بعد موت کہاں اوریہ کہاں

    دونوں کو گر تلاش کرو رزم گاہ میں

    تو سن سر عدو پہ ملے موت راہ میں

    104

    شان و شکوہ آمد حر پر کیا خیال

    یہ دبدبہ یہ طظنہ یہ جاہ یہ جلال

    پڑھتا ہے یوں رجز وہ حضور صفت قتال

    یاروں میں ہوں غلام شہنشاہ خوش خصال

    ان سے جدا ہوں کفر کا جن کو مزا ملا

    ان سے ملا ہوں ملنے سے جن کے خدا ملا

    103

    دیتا ہوں اس پہ جان جو زہراؑ کی جان ہے

    مہماں ہوں اس کا موت کا جو میہمان ہے

    اس کی امان میں ہوں جو کل کی امان ہے

    وہ جس پہ مہرباں ہے خدا مہربان ہے

    اب دامن حسینؑ ہے اور میرا ہاتھ ہے

    میں اس کے ساتھ ہوں کہ خدا جس کے ساتھ ہے

    104

    بولا یہ ابن سعد یہ سب ہے سنا ہوا

    ہم کچھ نہیں سمجھتے کہ تو کہہ رہا ہے کیا

    تو آنکھ چار کرتا ہے آتی نہیں حیا

    وہ پرورش یزید کی اور یہ تری دغا

    حق نمک یزید کا کیا خوب اداکیا

    تو وہ ہے جس نے گوشت سے ناخن جدا کیا

    105

    غصہ سے حر پکارا کہ بس بس زباں سنبھال

    حق کو نہ بھول اپنے گریباں میں منہ کو ڈال

    اور شور بخت کیسا نمک ہے کدھر خیال

    تو ہی نمک حرام ہے میں ہوں نمک حلال

    کیوں رحمت خدا کو تو لاتا ہے قہر میں

    آب و نمک تو آیا ہے زہراؑ کے مہر میں

    106

    ناموس پنچتن پہ یہ فاقہ ہے تیسرا

    کس نے انہیں بلایا ہے مہمان سچ بتا

    پاس نمک یہی ہے کہ حضرت پہ ہوں فدا

    دریا تھا مہر فاطمہ سو تم نے لے لیا

    ملک یزید ہے کہ یہ ملک بتولؑ ہے

    اب کل یہ کہیو نانا بھی اس کا رسولؐ ہے

    107

    پشتیں ہویں یزید تو کافر ہے اے عمر

    پر تیرا باپ کون تھا دل میں خیال کر

    حیرت ہے سعد کا پسر اور نحس اس قدر

    میں بد نہیں ہوں نیک نہ تھا گو مرا پدر

    گل کرکے شمع مرقد خیرالانام کو

    روشن تو آج کرتا ہے کیا اپنے نام کو

    108

    خندق میں میرا باپ تھا کفار کی طرف

    تیرا پدر تھا احمد مختار کی طرف

    تو آج ہے یزید بداطوار کی طرف

    اور میں ہوں ابن حیدر کرار کی طرف

    انصاف کر کہ صاحب عزو شرف ہے کون

    باطل کی سمت کون ہے حق کی طرف ہے کون

    109

    بولا عمر غرور سے کرتا ہے کیا کلام

    ماتم میں ترے روئے گا کنبہ ترا تمام

    مرنے کے بعد لاش سے بھی لیں گے انتقام

    جائے گا تیرا سر پئے نذر امیر شام

    حر نے کہا کہ دہشت بیجا نہیں مجھے

    میں سر بکف ہوں فکر سرو پا نہیں مجھے

    110

    یہ کہہ کے حر نے کھینچ لی شمشیر خوش غلاف

    اور کہہ کے یا حسینؑ ہوا عازم مصاف

    حر جری کے سر پہ کیا فتح نے طواف

    غصہ سے مثل مہر ہوا سرخ روئے صاف

    جنبش سوئے یسار جو قطب یمیں نے کی

    سکتے میں چرخ آگئے جنبش زمیں نے کی

    111

    نکلا ادھر سے جنگ کو حجاج کا پسر

    سردار اہل میمنہ لشکر عمر

    تلوار ایک ہاتھ میں اک ہاتھ میں سپر

    بہر مدد گروہ مسلح ادھر ادھر

    حر نے کہا کہ اس میں تو آج امتحان ہے

    میں حیدری جواں تو یزیدی جوان ہے

    112

    وہ حملوں میں نہ ایک رہے گا ہزار میں

    وہ بولا بے مثال ہے تو روز گار میں

    غالب ہزار پر ہے صف کارزار میں

    حر نے کہا اب اور صفائی ہے وار میں

    اب ہوں غلام ابن شہ ذوالفقار کا

    تب زور تھا ہزار کا اب سو ہزار کا

    113

    غصہ سے برق تیغ کا اس نے لگایا وار

    خورشید پر ہو کیا اثر برق بے مدار

    حر نے سپر پہ روک کے وہ تیغ آبدار

    تیغ اپنی تول کر کہا یا شاہ ذوالفقار

    چالاکی اس کو کہتے ہیں بس اتنی بات میں

    یہ تیغ اس کے سر پہ وہ تیغ اس کے ہات میں

    114

    بیخود ہوا یہ تیغ جو ں ہی خود پر گئی

    سینہ میں خود کاٹ کے سن سےاتر گئی

    چلنے سے اس کے سانس عدو کی ٹھہر گئی

    ظالم سے پوچھیے کہ جو دل پر گزر گئی

    تن پر گرہ گرہ سے بکس کر زرہ کھلی

    یہ کیا ہے بند بند کی پھر تو گرہ کھلی

    115

    حاضر شریک نام تھا اس کا جواں پسر

    آکر ہوا شریک پدر نیزہ تان کر

    یاں نیزہ مارا اور چلا تیر سا ادھر

    للکارا حر ٹھہرتو جواں مرد ہے اگر

    رستے سے مثل طالع برگشتہ پھر پڑا

    پھرنا تھا بس کہ گھوڑے سے دو ہوکے گر پڑا

    116

    بولی ظفر یہ ضربت ہوش و حواس ہے

    کیا بات ہے کہ حق ترا جوہر شناس ہے

    بشاش ہو اگر دل محزوں اداس ہے

    کوثر پہ کر نگاہ اگر تجھ کو پیاس ہے

    جرأت پکاری جنگ میں گھبرا نہ جائیو

    ہاں اے دلیر شمر کا سر لے کے آئیو

    117

    جوش دغا میں ہمت حر ہوگئی فزود

    آگے بڑھا حسینؑ پہ پڑھتا ہوا درود

    کیا بزدلوں کی اصل تھی لڑتے جو وہ حسود

    ذرے تھے بے نمود تو قطرے تھے بے وجود

    پھر سر بدن پہ تھے نہ بدن راہوارپر

    تیغ آئی یا کہ برق گری پنبہ زار پر

    118

    کرتی تھی تیغ حر تو سر تیغ زن جدا

    سہمے ہوئے تھے تیر سے ناوک فگن جدا

    زخموں کے تھے کھلے ہوئے تن پر چمن جدا

    مردم سے چشم چشم سے سر سر سے تن جدا

    تھی قہر ضرب گرز تن بے شکوہ کو

    کیا حر نے ریزہ ریزہ کیا کوہ کوہ کو

    119

    اعدا حضور تیغ سے کر سکتے کیا فرار

    شکل کمند تھی خم جوہر سے آشکار

    یا گل کھلایا واں ہوئی جاکر گلے کی ہار

    میداں میں باغیوں کی خزاں میں ہوئی بہار

    زخموں کے گل کھلاتی تھی ہر ایک وار میں

    کرتی تھی سیر خون کے یہ لالہ زار میں

    120

    لڑتا تھا یوں یزیدیوں سے حیدری جواں

    بے خوف رن میں حملہ کناں تھا یہاں وہاں

    ناگاہ اک شقی کی لگی سینہ پر سناں

    گھوڑے سے گر پڑا وہ جری ہو کے نیم جاں

    آقا کو دی ندا کہ یہ خادم فدا ہوا

    مولا غلام حق نمک سے ادا ہوا

    121

    کس وقت حر کی لاش پہ پہنچا علیؑ کالال

    تھا وقت نزع توڑتا تھا دم وہ خوشخصال

    سینہ ذرا تھا گرم بدن برف کی مثال

    آغوش میں اٹھالیا شہ نے بصد ملال

    چہرہ کو صاف کردیا گردو غبار سے

    زانو پہ رکھ لیا سر حر شہ نے پیار سے

    122

    کچھ حرنے آنکھیں کھول کے دیکھا ادھر ادھر

    پوچھا جو شاہ دیں نے تو بولا وہ خوش سیر

    اک بی بی رونے آئی ہے خادم کی لاش پر

    سنتا ہوں گر یہ ان کو نہیں دیکھتا مگر

    شہ بولے فاطمہؑ ترے قربان ہوتی ہیں

    اے حر یہ میری ماں ترے ماتم میں روتی ہیں

    123

    یہ سن کے جاں بحق ہوا وہ حیدری جواں

    لاشے پہ حر کے روئے شہنشاہ انس و جاں

    فرماتے تھے حسینؑ کہ اے میرے میہماں

    میں کر سکا نہ کوی ضیافت تری یہاں

    جب تو ملے گا بادشہ کائنات سے

    کوثر کا جام دیں گے علیؑ اپنے ہاتھ سے

    124

    ہر چند شہ کے ساتھ تھے اصحاب نیک ذات

    خود لائے حر کی لاش کو پر شاہ خوش صفات

    نزدیک خیمہ رکھ دیا اور کھینچ دی قنات

    رو کر حرم سے سبط نبی نے کہی یہ بات

    کوئی عزیزیاں نہیں اس خوش صفات کا

    پرسادو آ کے مجھ کو حر نیک ذات کا

    125

    راضی علیؑ ہیں اس سے تو خوشنود مصطفی

    غربت میں بیکسوں کا دیا ساتھ مرحبا

    پیاسے تھے ہم تو اس نے بھی پانی نہیں پیا

    پہلے سبھو سے ہوگیا یہ فدیۂ خدا

    محسن کو میرے مژدہ ہو جنت کی سیر کا

    بخشو ثواب تم اسے اعمال خیر کا

    126

    یہ ذکر تھا کہ دیکھتے کیا ہیں شہ زمن

    حر کے گلے سے خون کا دریا ہے موج زن

    ہاتھ اپنا رکھ کے واں کیا زینبؑ سے یہ سخن

    کھولو تبرکات کا صندوق اے بہن

    حر پر ہے صدق و مہر و محبت کا خاتمہ

    زخمی گلے پہ باندھوں گا رومال فاطمہؑ

    127

    رومال فاطمہؑ کا جو زیب گلو ہوا

    افزوں گلوئے حر کی ہوئی زینت و ضیا

    تھا بضقۂ رسول خدا کا یہ معجزا

    نے زخم کا اثر تھا نہ تھا خون کا پتا

    امت نے کچھ نہ پردۂ آل عبا کیا

    زہراؑ کی بہووں بیٹیوں کو بے ردا کیا

    128

    بس اے دبیرؔ چاک فرشتوں کی حبیب ہے

    اس نظم سے عیاں ہے کہ تائید غیب ہے

    اپنے سخن کی آپ ثنا سخت عیب ہے

    تجھ پر کرم حسینؑ کا بے شبہ و ریب ہے

    خالق سے کہہ کہ عرض یہ میری قبول ہو

    مرنے کے بعد شہ کی غلامی حصول ہو

    مأخذ :
    • کتاب : Kalam-e-Dabeer (Pg. 296)
    • Author : Mirza Salamat Ali Dabeer
    • مطبع : Farid Book Depot(p)Ltd (2005)
    • اشاعت : 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے