Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میں زینت اورنگ سلیمان سخن ہوں

سید جواد حسین شمیم امرہوی

میں زینت اورنگ سلیمان سخن ہوں

سید جواد حسین شمیم امرہوی

MORE BYسید جواد حسین شمیم امرہوی

    1

    میں زینت اورنگ سلیمان سخن ہوں

    میں مشتریٔ یوسف کنعان سخن ہوں

    میں کشتۂ ابروئے شہیدان سخن ہوں

    ہر فصل میں گلچین گلستان سخن ہوں

    دامن میں وہ گل ہیں جو نہ دیکھے نہ سنے ہیں

    جو پھول ہزاروں میں ہیں چیدہ وہ چنے ہیں

    2

    جو گل ہے وہ برسوں کی ریاضت کا ثمر ہے

    رنگیں سخنی ذکر شہادت کا اثر ہے

    نیرنگئی دنیا سے مگر چاک جگر ہے

    سینہ میں وہ سوزش ہے کہ دل زیر و زبر ہے

    ہر چند کہ دنیا کی محبت سے بری ہوں

    یوں اس نے جلایا کہ چراغ سحری ہوں

    3

    اس عہد میں شیریں سخنی کوہ کنی ہے

    شکر شکنی بھی سبب دل شکنی ہے

    کیا شکوۂ ناقدرئ دنیائے دنی ہے

    اپنی تو یہ دلسوز بنے گی نہ بنی ہے

    مومن کے لئے جائے غم وہم ہے یہ دنیا

    دل سوز نہ ہو کیوں کہ جہنم ہے یہ دنیا

    4

    نو دن بھی نہ اس باغ میں نو روز رہے گا

    یہ رنگ نہ یہ حسن دل افروز رہے گا

    سینہ میں فقط خار جگر دوز رہے گا

    کوئی بھی ہوا خواہ نہ دلسوز رہے گا

    بے زر جو ہوئی بو کو بھی کھٹکا ہے گلوں سے

    جب وقت پڑے عطر بھی کھنچتا ہے گلوں سے

    5

    دنیا میں فقیروں سے بھی بدتر ہیں شہنشاہ

    یہ دین کے شاہوں کی بھی ساتھی نہ ہوئی آہ

    نہ خضر سے کچھ راہ نہ یوسف کی اسے چاہ

    عیسیؑ کی نہ ہمدم نہ سلیماؑ کی ہوا خواہ

    کیا اس کی مروت ہو کہ آفت کی بنی ہے

    ادنیٰ ہی پہ جھکتی ہے یہ دنیا وہ دنی ہے

    6

    دنیا میں نہ الفت نہ مروت نہ وفا ہے

    کافور ہے بجلی ہے چھلا وہ ہے ہوا ہے

    جو بخل میں یکتا ہوا سے اس سے ولا ہے

    قربان ہے صدقے ہے تصدق ہے فدا ہے

    پایا جو دنی پھر کبھی ہاتھ اس نے نہ چھوڑا

    قاروں کا تہ خاک بھی ساتھ اس نے نہ چھوڑا

    7

    اس باغ کے نیرنگ زمانے پہ عیاں ہیں

    جو اہل نظر تھے وہ نگاہوں سے نہاں ہیں

    جو صاحب لشکر تھے کہیں ان کے نشاں ہیں

    سرجن کے نہ جھکتے تھے وہ مغرور کہاں ہیں

    نخوت سے ہمیشہ تھی شکن جن کی جبیں پر

    آج ان کے ہی سر ٹھوکریں کھاتے ہیں زمیں پر

    8

    شاہوں کے نہ وہ تخت نہ وہ تاج شہانہ

    آج اس کا زمانہ ہے تو کل اس کا زمانہ

    ٹھیرا نہ کہیں مال نہ دولت نہ خزانہ

    اک آب رواں تھا کہ ہوا دم میں روانہ

    مرتے ہیں بخیل اس پہ یہ تب بھی نہیں رہتا

    کالوں کے بھی قبضہ میں یہ موذی نہیں رہتا

    9

    لازم ہے کہ بچتا رہے دنیا کی ہوا سے

    کافر سے اسے ربط نہ خاصان خدا سے

    غمگیں ہو کہ آفت میں پھنسے اس کی بلا سے

    موت آئے تو ٹلتی ہے دوا سے نہ دعا سے

    بچتے جو دوا سے تو امیر ایک نہ مرتا

    جیتے جو دعا سے تو فقیر ایک نہ مرتا

    10

    شاہوں کو امارت نے اجل سے نہ بچایا

    مغروروں کو نخوت نے اجل سے نہ بچایا

    حاتم کو سخاوت نے اجل سے نہ بچایا

    شیروں کو شجاعت نے اجل سے نہ بچایا

    لقمان کو سوجھی نہ دوا جب اجل آئی

    رستم کا نہ کچھ زور چلا جب اجل آئی

    11

    دنیا نے کسی کا چمن آباد کیا ہے

    کس غیر ت شمشاد کو دلشاد کیا ہے

    آفت سے کسی سرو کو آزاد کیا ہے

    اس نے تو سلیماں کو بھی برباد کیا ہے

    یاں صالح و یعقوب نے بھی رنج سہے ہیں

    یاں نوحؑ بھی طوفان حوادث میں رہے ہیں

    12

    دنیا کی یہ تجویز تو دیکھے کوئی دیندار

    آدمؑ کو غم و رنج تو ایوبؑ کو آزار

    یحیٰیؑ کے لیے تیغ مسیحاؑ کے لیے دار

    یوسفؑ کے لیے چاہ محمدؐ کے لیے غار

    بد ذات ہے کیا پاس کرے گی یہ کسی کا

    خشکی میں ڈبویا ہے جہاز آل نبیؐ کا

    13

    اب ذکر سنو غربت شاہ شہدا کا

    جنت کو روانہ ہوا دستہ رفقا کا

    تنہائی میں لاکھوں سے ارادہ ہے وغا کا

    میداں میں اب آتا ہے پسر شیر خدا کا

    صف باندھ کے قدسی پے تسلیم بڑھے ہیں

    شہزادۂ جبریل امیں رن پہ چڑھے ہیں

    14

    کیوں دشت جفا خیز میں محشر کا سماں ہے

    ہر سور کا دم بھی صفت عمر رواں ہے

    نیزوں کی طرح بند لعینوں کی زباں ہے

    جنگاہ پہ بازار قیامت کا گماں ہے

    غل ہے کہ یہ اسلام فروشی نہ کھلے گی

    نیکی و بدی تیغوں کے ہمراہ تلے گی

    15

    چرچے ہیں کہ موت اپنی گوارا نہیں یارو

    بے بھاگے ہوئے اب کوئی چارا نہیں یارو

    ہاں جان سے بڑھ کر کوئی پیارا نہیں یارو

    سید سے ہمیں جنگ کا یارا نہیں یارو

    اکبرؑ کے بچھڑنے سے عجب حال ہوا ہے

    اللہ رے غضب در نجف لال ہوا ہے

    16

    ہر شوم کو تلوار بھی پیکار بھی بھولی

    باتوں میں تعلی ہے نہ دعووں میں فضولی

    کچھ کشت تمنا نہ پھلی اور نہ پھولی

    اب شمر تردد سے نہ خالی ہے نہ خولی

    سب شامیوں کی جان کڑی جھیل رہی ہے

    اب موذیوں کے سر پہ قضا کھیل رہی ہے

    17

    تیغیں بھی یہ گھبرائیں کہ لپٹیں کمروں سے

    مردم کو یہ ڈر تھا کہ گریں گے نظروں سے

    پا مرد یہ چلائے کہ ہشیار سروں سے

    قدسی بھی پکارے کہ خبردار پروں سے

    احمدؐ کا نواسہ صفت شیر رب آیا

    مظلوم کو غیظ آگیا یارو غضب آیا

    18

    حضرت کا وہ رخ آئینہ صورت خالق

    گر صبح کہیں وہ کبھی کاذب کبھی صادق

    مہتاب تو مبروص ہے سورج کو تپ دق

    قرآن بھی خاموش ہے یہ مصحف ناطق

    اس رخ کا جہاں میں کوئی ثانی نہیں آیا

    قرآں پئے اعجاز بیانی نہیں آیا

    19

    چہرہ کا شرف مہر سے یا بدر سے پوچھو

    اس ماہ کی توقیر شہ بدر سے پوچھو

    زلفوں کے مراتب کسی ذی قدر سے پوچھو

    قدر شب گیسو کو شب قدر سے پوچھو

    کب ہمسر گیسوئے سیہ فام ہے عنبر

    قنبر کی طرح بندۂ بے دام ہے عنبر

    20

    اس چشم کو نرگس جو کہے عین خطا ہے

    ہاں عین سے عیسیٰ کا نشاں ہم کو ملا ہے

    لیکن صف مژگاں نے اشارہ یہ کیا ہے

    ہاں دیکھئے ہمراہ علیؑ فوج خدا ہے

    اعجاج رسولوں کے ہیں خالق کے ولی میں

    جو عین ہے عیسی ٰمیں وہی عین علیؑ میں

    21

    دندان شہ پاک کے ہمسر نہیں موتی

    سچے ہیں مگر صاحب جوہر نہیں موتی

    ثابت ہے کہ انجم سے منور نہیں موتی

    اشک غم شہ کے بھی برابر نہیں موتی

    اب موتیوں کی سمت سے رخ سب کے پھرے ہیں

    اشکوں کے مقابل میں یہ آنکھوں سے گرے ہیں

    22

    کاٹھی میں وہ تلوار ہے جو چرخ سے آئی

    جو احمدؐ مرسل سے یداللہ نے پائی

    قدسی کو بھی معلوم نہ تھی اس کی صفائی

    پر کاٹنے کے وقت کھلی عقدہ کشائی

    حیدرؐ کی ریاضت کا یہ پھل خوب ملا ہے

    ہاں یہ مہ نو بدر کی محنت کا صلا ہے

    23

    لو فوج کے نزدیک امام زمن آئے

    غربت نے کہا شاہ غریب الوطن آئے

    خود پیاس پکاری شہ تشنہ دہن آئے

    اقبال کا غل تھا شہ خیبر شکن آئے

    لو آؤ سنو سید ذی جاہ کی باتیں

    بندوں کی یہ باتیں ہیں کہ اللہ کی باتیں

    24

    نعرے جو کیے صورت ضرغام الٰہی

    واں ماہ مبیں خوف سے تاپا یہاں ماہی

    کافور ہوئی شام جوانی کی سیاہی

    خشکی میں تلاطم تھا ترائی میں تباہی

    غل تھا کہ ہر اک تیغ و سپر کھول رہا ہے

    بھاگو کہ بیاباں میں اسد بول رہا ہے

    25

    میداں میں پہنچتے ہی وہ ضرغام ڈکارا

    ہاں کان لگا کر یہ سنیں سب ستم آرا

    حیدر کا میں ضرغام ہوں اللہ کا پیارا

    اللہ نے تارا مرے بابا پہ اتارا

    ہر شخص پہ ظاہر ہے جو اوج شہ دیں ہے

    والنجم سے ثابت ہے تو یٰسیں سے مبیں ہے

    26

    حیدرؑ سا جو ذی جاہ کوئی ہو تو بتاؤ

    ہر علم سے آگاہ کوئی ہو تو بتاؤ

    اللہ کے ہمراہ کوئی ہو تو بتاؤ

    بندوں میں یداللہ کوئی ہو تو بتاؤ

    ابرار ہیں جرار ہیں عالم ہیں سخی ہیں

    اللہ کا تو ہاتھ ہیں بازوئے نبیؐ ہیں

    27

    بس خیر اسی میں ہے کہ اب شر نہ بڑھاؤ

    کیا مال کا نشہ ہے ذرا ہوش میں آؤ

    دنیا کے لیے دین کی دولت نہ گنواؤ

    مردار ہے جھوٹی ہے اسے منہ نہ لگاؤ

    رخ اس کا منور سہی مڑجائے تو کیا ہو؟

    اچھا یہ پری رو ہے پر اڑ جائے تو کیا ہو؟

    28

    اس باغ میں نور روز بھی نو روز نہ دیکھا

    دو روز میں وہ حسن دل افروز نہ دیکھا

    غمخوار بجز خاک جگر دوز نہ دیکھا

    جز آتش غم کوئی بھی دلسوز نہ دیکھا

    بے زر جو ہوئے بو کو بھی کھٹکا ہے گلوں سے

    جب وقت پڑے عطر بھی کھنچتا ہے گلوں سے

    29

    مریم کے جو بیٹے کی ولادت کا دن آیا

    قبلہ میں ٹھہرنے کے لیے حکم نہ پایا

    پر مادر حیدرؑ کا شرف حق نے بڑھایا

    دیوار حرم شق ہوئی اندر کو بلایا

    تولو تو ذرا عیسیٰ و حیدرؑ کو نظر میں

    جنگل میں وہ پیدا ہوں یہ اللہ کے گھر میں

    30

    موسیٰ کا بھی اعزاز ہو یدا ہے ہر اک پر

    کہتے ہیں کہ پسپا ہوئے تھے سانپ سے ڈر کر

    جز خالق اکبر نہ ڈرے اور سے حیدرؑ

    جھولے ہی میں دو ٹکڑے کیا کلہ اژدر

    ان کا تو وہ ڈر اور یہ دل حق کے ولی کا

    موسیٰؑ کا وہ انجام یہ آغاز علیؑ کا

    31

    دل چاک ہوئے کلہ اژدر کے بیاں پر

    پھر بے خبری تھی در خبیر کے بیاں پر

    بیخود تھے ملک بھی شہ صفدر کے بیاں پر

    پر کانپ گئے ضربت حیدرؑ کے بیاں پر

    غل تھا کہ یہ محبوب الٰہی کی صدا ہے

    اس چاند میں بھی مہر رسالت کی ضیا ہے

    32

    پھر بولے کہ حیدرؑ کا طرفدار کوئی ہے

    کیا جنس شفاعت کا خریدار کوئی ہے

    بے مونس و یاور کا مددگار کوئی ہے

    فریاد رس بیکس و ناچار کوئی ہے

    بیداد ہے بیداد عزیزوں سے چھٹا ہوں

    فریاد ہے فریاد کہ غربت میں لٹا ہوں

    33

    کیوں مجھ کو رلاتے ہو کسے رنج دیا ہے

    کیوں خون بہاتے ہو کسے قتل کیا ہے

    کیوں لوٹتے ہو میں نے کسے لوٹ لیا ہے

    کیوں تیر لگاتے ہو کوئی میری خطا ہے

    اچھا مجھے احمدؐ کا نواسا بھی نہ سمجھو

    یارو مجھے دو روز کا پیاسا بھی نہ سمجھو

    34

    میں یہ نہیں کہتا شہ ایماں مجھے سمجھو

    گر رنج کی صورت ہے نہ قرآں مجھے سمجھو

    سید تو نہ سمجھے پہ مسلماں مجھے سمجھو

    اس میں بھی تمہیں شک ہو تو مہماں مجھے سمجھو

    مہمان نہ تفتیدہ جگر کچھ بھی نہیں ہوں

    اللہ کا بندہ تو ہوں گر کچھ بھی نہیں ہوں

    35

    عرش و فلک و منزل و مہر و مہ و اختر

    لوح و قلم و جنت وقدسی و پیمبر

    باران و سحاب و صدف و قلزم و گوہر

    سنگ و شرر و جوہر و شاہین و کبوتر

    چلائے کہ یا شاہ ہم آتے ہیں مددکو

    فرماؤ تو بدحال کریں فرقۂ بد کو

    36

    وحشی بھی یہ چلائے کہ یا شاہ انام آئے

    طائر بھی فدا ہونے پہ طیار تمام آئے

    جن بولے زہے بخت کہ جان آپ کے کام آئے

    فردوس سے غلماں یہ پکارے کہ غلام آئے

    خود حق نے کہا حق تری نصرت کے لیے ہے

    شبیرؑ خدا تیری حمایت کے لیے ہے

    37

    تلوار کے چلتے ہی قیامت نظر آئی

    لشکر کی کوئی صف نہ سلامت نظر آئی

    گویا غضب حق کی علامت نظر آئی

    غل تھا کہ امامت کی کرامت نظر آئی

    پیری میں شباب اسد اللہ کی طاقت

    ٹوٹے ہوئے بازو میں یداللہ کی طاقت

    38

    اس تیغ کی رفتار میں وہ حشر کا عالم

    یہ مورچہ پامال وہ صف درہم و برہم

    یہ غول پریشاں وہ پراگندہ وہ بیدم

    نیزوں کی زباں بند کمانوں کی کمر خم

    گوشوں میں کمان دار اماں پا نہیں سکتے

    ناوک بھی یہ سہمے ہیں کہ چلا نہیں سکتے

    39

    اعدا کی طرف صورت قہر آئی جب آئی

    خشکی میں بہاتی ہوئی نہر آئی جب آئی

    خوں پی کے اگلتی ہوئی زہر آئی جب آئی

    ناگن کی طرح نہر پہ لہر آئی جب آئی

    غل تھا کبھی افعی ہے کبھی تیغ ادا ہے

    اے موذیو یہ حضرت موسیؑ کا عصا ہے

    40

    در کھول کے قصر تن اعدا میں در آئی

    جس دل میں گئی جی میں کہا اپنے گھر آئی

    اونچی جو ہوئی چرخ بریں پر نظر آئی

    گہہ صورت والفتح زمیں پر اتر آئی

    غل تھا کہ عجب حسن خدا داد ہے اس پر

    ہاں نون کی صورت ہے یہی صاد ہے اس پر

    41

    معشوق دل آرام و دل آرا تھی وہ تلوار

    ناری کو جہنم کا شرارا تھی وہ تلوار

    نصرت کے نصیبہ کا ستارا تھی وہ تلوار

    سیار کی آنکھوں کا بھی تارا تھی وہ تلوار

    گہ برق جہاں تاب تھی گہہ شمع کی لوتھی

    جب چرغ کہن پر نظر آئی مہ نو تھی

    42

    جس سمت چمک کر وہ چلی حشر بپا تھا

    یہ مورچہ خالی وہ پراخوں میں بھرا تھا

    چھو بھی جو گئی تیغ تو سرتن سے جدا تھا

    اسوار تو کافور تھا رہوار ہوا تھا

    خیموں کو مڑے فوج جفا سنج کے گھوڑے

    گھر پھاندتے تھے جیسے کہ شطرنج کے گھوڑے

    43

    سر چڑھ کے پری نشہ اتار آئی جدھر آئی

    اک نہر رواں سوئے کنار آئی جدھر آئی

    نقش اپنا بٹھانے کو نگار آئی جدھر آئی

    پھولا چمن اکبار بہار آئی جدھر آئی

    اک شور ہوا موسم رد و بدل آیا

    رت پھر گئی ہر ڈھال کے پھولوں میں پھل آیا

    44

    وہ ہاتھ وہ چوٹیں وہ صفائی کی دھنی تیغ

    فارس عربی رخش عراقی مدنی تیغ

    ہیرے کی کنی بن کے کلیجوں سے چھنی تیغ

    گلگو نہ ٔخوں مل کے نئی بیاہی بنی تیغ

    اک غل تھا کہ جھالر مہ کامل کی سپر ہے

    اے تازہ دلہن فتح کا سہرا ترے سر ہے

    45

    کاٹھی میں ہر اک تیغ چھپی تھی یہ ڈری تھی

    تیروں میں نہ پھل اور نہ شوریدہ سری تھی

    چار آئینوں میں تیغ کی یہ جلوہ گری تھی

    آئینہ میں طوطی تھی کہ شیشہ میں پری تھی

    کشتوں کا یہ غل تھا کہ لہو اس کی غذا ہے

    دیوانو پری اس کو نہ سمجھو یہ بلا ہے

    46

    دل کہتے تھے خود سنبھلیں کہ بھالوں کو سنبھالیں

    پھل اڑ گئے آخر کہاں دیکھیں کہاں بھالیں

    دم تن سے نکلنا ہو تو کیا تیغ نکالیں

    پر عیش کی راتوں کی طرح کٹ گئیں ڈھالیں

    جب ڈھال کو دو کرکے یہ باہر نکل آئی

    غل تھا کہ وہ شب کاٹ کے صبح اجل آئی

    47

    گرنے کو یہ بجلی ہے تو پھرنے کو یہ پانی

    وہ ناز وہ انداز وہ شوخی وہ جوانی

    طرفہ ہے کہ جھک جھک کے ملے دشمن جانی

    خاموش میں دیکھی نہیں یہ سیف زبانی

    اللہ کے گھر قدر و مدارات ہے اس کی

    موت اس کی زباں میں ہے بڑی بات ہے اس کی

    48

    اللہ رے غضب منہ سے نکلتے ہیں شرارے

    جن بھی کوئی بولے تو اسے جان سے مارے

    بسمل تھا کوئی شوم کوئی گور کنار

    وہ قہر کے غمزے وہ قیامت کے اشارے

    کہتی ہے کہیں داد نہ فریاد ہے میری

    جو چرخ سے اتری ہے وہ استاد ہے میری

    49

    الٹا وہ گرا سامنے ڈٹ کر جسے مارا

    دو ہوگیا اک وار جھپٹ کر جسے مارا

    سیدھا نہ ہوا ہاتھ پلٹ کر جسے مارا

    نیلاتھا وہ ناگن نے لپٹ کر جسے مارا

    غل تھا کبھی کفار پہ یوں قہر نہ اترا

    سر گھاٹ پہ اترے پہ ابھی زہر نہ اترا

    50

    پیکر کبھی کانپے تو کلیجے کبھی دھڑکے

    وہ جان کے کھٹکے وہ دل زار کے دھڑکے

    اللہ ری صفائی کہ ستمگار بھی پھڑکے

    اس برق سے ناری بھی جلے رخش بھی بھڑکے

    غل تھا سپہ شام کو اک آن میں پھونکا

    کیوں حشر اٹھا صور نے کیا کان میں پھونکا

    51

    یہ خون اڑا ہے کہ شجر لال ہوئے ہیں

    میداں میں ستمگاروں کے سر لال ہوئے ہیں

    گو طیر خوش آواز تھے پر لال ہوئے ہیں

    پتھر بھی تو کالے ہیں مگر لال ہوئے ہیں

    موذی بھی ہر اک خوف سے بے حال ہے گویا

    اس دن ہی سے کالوں کی زباں لال ہے گویا

    52

    مذہب کی طرفدار ہے ملت کی دھنی ہے

    پر سبزی و سرخی سے عجب شان بنی ہے

    جوہر کبھی مرجاں کبھی ہیرے کی کنی ہے

    گہہ رنگ حسینی گہے رنگ حسنی ہے

    گہہ رنگ زمرد ہے گہے لال کی رنگت

    سرسبز نہ کیوں ہو کہ ملی آل کی رنگت

    53

    بجلی سی کڑک کر جو گری روئے زمیں پر

    ہلچل تو زمیں پر تھی چمک چرخ بریں پر

    اڑنے کے لیے تولتے تھے روح امیں پر

    اک پھول نہ چھوڑا سپر مہر مبیں پر

    غل تھا کہ ستم ڈھاتی ہے اس تیغ کی ضو بھی

    گوشہ کی تلاشی ہے کمان مہ نو بھی

    54

    زہراؑ کا اور اس تیغ کا اک رنگ تھا اول

    اک سیب سے وہ نور بنیں اور یہ مشعل

    اللہ نے عصمت انہیں بخشی انہیں کسبل

    زہراؑ کو تو دو پھول دئے اور اسے دو پھل

    کہتی ہے کہ مقبول خداوند غنی ہوں

    زہراؑ ہی کے دولہا کے لیے میں بھی بنی ہوں

    55

    دریا میں یہ موسیٰؑ ہے ہوا پر یہ سلیماںؑ

    رستے میں خضر چرخ پہ ہے عیسیٰ دوراں

    ہمت میں خلیلؑ اور ضیا میں منہ کنعاں

    خاموشی میں قرآں تو وغا میں شہ مرداں

    وہ سبز بدن کشتۂ الماس کی صورت

    تیوری پہ وہ بل حضرت عباسؑ کی صورت

    56

    حیدرؑ سے ولا یوسفؑ زہرا سے اسے چاہ

    اعدا کی عدو فخر سلیماںؑ کی ہوا خواہ

    جھکنے میں حبیب اور غضب میں اسداللہ

    اللہ کی قدرت کہوں یا معجزۂ شاہ

    آتش کو بھی یہ آب کرے قہر حق آئے

    جس طرح کہ الحمد سے تپ کو عرق آئے

    57

    وہ شکل کہ مہتاب سے پرتاب زیادہ

    وہ شوخ کہ سیماب سے بیتاب زیادہ

    وہ گرم کہ تیز اب سے تیزآب زیادہ

    جوہر در نایاب سے نایاب زیادہ

    اس آب میں حسن خط جوہر جو عیاں ہو

    یونسؑ کو بھی نون خط ماہی کا گماں ہو

    58

    اک دم میں یہ گھٹ بڑھ تو نہ مہتاب میں دیکھی

    یہ چھوٹ نہ ہرگز درنایاب میں دیکھی

    اس آب کی تیزی تو نہ تیز اب میں دیکھی

    سرمہ ہوئی پتلی جو چمک خواب میں دیکھی

    آب دم شمشیر ہے تاثیر میں بجلی

    یہ خواب میں تلوار ہے تعبیر میں بجلی

    59

    وہ آنچ کہ ہر بار یہ فی النار وہ فی النار

    راکب ہو کہ راہوار یہ فی النار وہ فی النار

    یہ شوم وہ مکار یہ فی النار وہ فی النار

    صحرا کرۂ نار یہ فی النار وہ فی النار

    اس ضعف میں یہ زور کیا خستہ جگر نے

    دوزخ کو بھرا مالک جنت کے پسر نے

    60

    پھر شاہ نے شمشیر شرر بار کو روکا

    گرتی ہوئی بجلی کو کہ تلوار کو روکا

    چمکار کے رہوار وفا دار کو روکا

    موسیٰؑ کی طرح قلزم ذخار کو روکا

    تلوار کا رکنا کہ قضا سر پہ کھڑی تھی

    اس دھوپ میں اس پیاس میں تیروں کی جھڑی تھی

    61

    وہ نرغہ ٔاشرار وہ تنہا شہ خوشخو

    وہ تیر سہ پہلو وہ سرو سینہ و پہلو

    مولا نگہ ٔیاس سے تکتے ہیں ہر اک سو

    زخموں سے کوئی ہاتھ نہ خالی ہے نہ بازو

    غل تھا یہ پر وبال ہیں یا تیر گڑے ہیں

    شبیرؑ ہیں یا حضرت جبریل کھڑے ہیں

    62

    وہ چاند سا سینہ وہ چمکتی ہوئی بھالیں

    خود سنبھلیں کہ ہاتھوں سے کلیجہ کو سنبھالیں

    دم تن سے نکلتا ہو تو کیا تیر نکالیں

    اکبرؑ ہیں نہ عباسؑ کسے پاس بلالیں

    لو ضعف بڑھا ظالم بے رحم قریں آئے

    بھالوں کو سنبھالے ہوئے سب دشمن دیں آئے

    63

    وہ دھوپ میں تیروں کی چمک اور وہ تکانیں

    وہ غم کا مرقع شہ مظلوم کی شانیں

    وہ چاند سا سینہ وہ لعینوں کی سنانیں

    اک اک دہن زخم تھا اور چند زبانیں

    جب ضعف کی شدت ہوئی حیدرؑ کے قمر پر

    تلواریں برسنے لگیں زہراؑ کے پسر پر

    64

    اس غم پہ کہ بازو بھی شکستہ تھا کمر بھی

    مظلوم پہ تیغیں بھی چلیں تیر و تبر بھی

    عمامۂ گل رنگ بھی ٹکڑے ہوا سر بھی

    ہولوں سے دل زار بھی زخمی ہے جگر بھی

    شمشیرو تبر شاہ خوش اقبال پہ برسے

    پھر سنگ جفا فاطمہؑ کے لال پہ برسے

    65

    پرخولٔی مکار نے گردوں کو ہلایا

    اک تیر ستم سینۂ زخمی پہ لگایا

    فرزند نبیؐ نے جو سر پاک جھکایا

    وہ گرز پڑا ہائے کہ بیکس کو غش آیا

    مجروح سے ٹھیرا نہ گیا دامن زیں پر

    لو عرش کا سرتاج گرا گرم زمیں پر

    66

    اس قہر پہ بھی ظالموں کو رحم نہ آیا

    گر کرشہ بیکس نے ذرا سر جو اٹھایا

    پھر سینہ پہ نیزہ کسی ظالم نے لگایا

    اس پر بھی شہ دیں نے کہا شکر خدایا

    میراث میں صبر شہ مرداں جو ملا تھا

    داغوں کی شکایت تھی نہ زخموں کا گلا تھا

    67

    یہ ضعف کا عالم تھا کہ پھر غش پہ غش آیا

    ہوش آیا تو سر طاعت خالق میں جھکایا

    پر ہائے فریضہ بھی ادا ہونے نہ پایا

    جو شمر ستمگر نے مسافر کو ستایا

    اس طرح کا ظالم کوئی نکلا نہ عرب میں

    سید پہ عجب قہر کیا طاعت رب میں

    68

    وہ تشنگی ٔشاہ وہ بیداد ستمگر

    وہ شاہ کے بالیں پہ نبیؐ پائینتی حیدرؑ

    وہ فاطمہؐ کی گود میں زخمی سر اطہر

    وہ شمر کا ظلم اور وہ مایوسیٔ سرور

    ہر چند کی مضطر پہ یہ بیداد و جفا تھی

    لیکن لب مجروح پہ امت کی دعا تھی

    69

    وہ خشک زباں گرم زمیں ہائے حسیناؑ

    وہ چار طرف دشمن دیں ہائے حسیناؑ

    وہ بے ادبی اور وہ لعیں ہائے حسیناؑ

    وہ پاؤں وہ قرآن مبیں ہائے حسیناؑ

    کس طرح سے بیتاب کروں اہل عزا کو

    خنجر کا فقط لفظ کفایت ہے بکا کو

    70

    سر پٹیں ہوا خواہ بس اب اور کہوں کیا

    اسلام مٹا آہ بس اب اور کہوں کیا

    جز نالہ ٔجانکاہ بس اب اور کہوں کیا

    العظمت اللہ بس اب اور کہوں کیا

    خود سوچ لو آفاق میں کیوں حشر بپا ہے

    کیوں شامیوں میں فتح کے باجوں کی صدا ہے

    71

    وہ فوج میں شادی وہ زمانہ میں قیامت

    وہ باد سیہ قہر الٰہی کی علامت

    وہ قدسیوں میں غل وہ نبی جان میں رقت

    حیوانوں کو آرام نہ انسانوں کو راحت

    جبریلؑ کا نوحہ تھایہ میدان وغا میں

    لو سبط نبیؐ قتل ہوئے دشت بلا میں

    72

    جب سبط نبیؐ قتل ہوئے دشت ستم میں

    آفاق میں محشر ہوا کہرام حرم میں

    رہوار بھی مضطر ہوا راکب کے الم میں

    سرخاک پہ پٹکا شہ مظلوم کے غم میں

    فرزند ید اللہ جو بے سر نظر آیا

    پرسہ کو فرس خیمہ ٔسادات پر آیا

    73

    ڈیوڑھی پہ کھڑے تھے حرم حضرت شبیرؑ

    حشر آیا کہ رہوار شہ بیکس و دلگیر

    وہ چہرے پہ تلواروں کے خط پہلوؤں میں تیر

    وہ ہرنے میں لٹکی ہوئی مظلوم کی شمشیر

    زخموں کا چمن شاہ کا گلگوں نظر آیا

    سب زین بھی زیں پوش بھی پرخوں نظر آیا

    74

    ڈھلکا ہوا وہ زین وہ مجروح تن و سر

    وہ خون شہ پاک میں ڈوبی ہوئی پاکھر

    ہرنے پہ وہ عمامہ پر خون پیمبرؐ

    اک سمت وہ حمزہ کی سپر خون میں سب تر

    سادات کے دل شق ہوئے منہ کو جگر آئے

    ہرنے کے بھی باگوں کے بھی ٹکڑے نظر آئے

    75

    یہ دیکھ کے سیدانیاں باہر نکل آئیں

    بچوں کو لیے بانوئے بے پر نکل آئیں

    کلثوم بھی خیمہ سے کھلے سر نکلے آئیں

    خود زینبؑ ناچار تڑپ کر نکل آئیں

    غل پڑ گیا بیوؤں کا پرستار کہاں ہے

    اے رخش پیمبرؐ ترا اسوار کہاں ہے

    76

    وہ رخش کے آنسو بھی رواں خون بھی جاری

    وہ گرد میں سیدانیوں کی گریہ و زاری

    سر پیٹ کے چلائی یداللہ کی پیاری

    اے بھائی کے گھوڑے ترے زخموں کے میں واری

    ہے ہے ترے زیں پوش پہ کیسا یہ لہو ہے

    اس خون میں تو فاطمہؑ کے دودھ کی بو ہے

    77

    مظلوم کو صابر کو کہاں چھوڑ کے آیا

    زہراؑ کے مجاور کو کہاں چھوڑ کے آیا

    تو شیعوں کے ناصر کو کہاں چھوڑ کے آیا

    پردیسی مسافر کو کہاں چھوڑ کے آیا

    زہرا و پیمبر کی کمائی کا پتہ دے

    گھوڑے ترے صدقے مری بھائی کا پتہ دے

    78

    اک بچی کا غل تھا شہ والا کو بتادے

    اے رخش نبیؐ دلبر زہراؐ کو بتادے

    للہ شہ بیکس و تنہا کو بتادے

    گھوڑے ترے صدقے مرے بابا کو بتادے

    جس جا مرے بابا ہیں وہیں میں بھی چلوں گی

    گھوڑے میں تجھی سے شہ ابرار کو لوں گی

    79

    کیوں مجھ سے خفا ہوگئے ہے ہے مرے بابا

    جنگل میں جدا ہوگئے ہے ہے مرے بابا

    حیران ہوں کیا ہوگئے ہے ہے مرے بابا

    کیا حق پہ فدا ہوگئے ہے ہے مرے بابا

    گھوڑے تری صورت سے میں پہچان گئی ہوں

    بابا مرے مارے گئے میں جان گئی ہوں

    مأخذ :
    • کتاب : Khandan-e-Shameem Ki Marsia Goyi (Pg. 91)
    • Author : DR.Azeem Amrohvi
    • مطبع : S.Shameem Raza -S.Taqi Raza (2009)
    • اشاعت : 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے