شام غریباں
1
شاعری بحر معانی کا تلاطم ہے جمیلؔ
جس میں غلطاں ہیں ستارے یہ وہ قلزم ہے جمیلؔ
رنگ و بو کے جو کنایوں میں خرد گم ہے جمیلؔ
شاعری اس پہ حقیقت کا تبسم ہے جمیلؔ
اہل دانش ہے وہی اہل بصائر ہے وہی
اس تبسم کو جو پہچان لے شاعر ہے وہی
2
شوق ابھی حیرتی ٔشمس و قمر ہے اے دوست
ابھی پردے کے اسی پار نظر ہے اے دوست
کتنا مشکل یہ بصیرت کا سفر ہے اے دوست
جس میں ہر گام پہ منزل کا خطر ہے اے دوست
اس میں منزل کا گماں راہزنی کرتا ہے
رہبری جذبۂ حب الوطنی کرتا ہے
3
اس کو جانا ہے حجابات توہم سے پرے
اس نہاں خانۂ اصوات و تکلم سے پرے
ظلمت و نور کے خاموش تلاطم سے پرے
وطن اس کا ہے دیار مہ و انجم سے پرے
سر راہے جو اسے بوئے وطن آتی ہے
آنکھ بے ساختہ تخیل کی کھل جاتی ہے
4
چشم حیراں کو تو دے دیتا ہے جلوہ بھی فریب
رنگ و نیرنگ مناظر کا تماشہ بھی فریب
بحرعرفان تجلی کا دھندلکا بھی فریب
اور تخلیق مضامیں کا یہ نشہ بھی فریب
کیفیت اس کی جو تا فکر و نظر پھیلی ہو
کیوں نہ پھر لیلیٰ معنی کی ردا میلی ہو
5
نکتہ بینی ہی نہیں فلسفہ دانی بھی حجاب
استعارات و علامات بیانی بھی حجاب
دانش و دیں کے روایات گمانی بھی حجاب
معنی الفاظ تو الفاظ معانی بھی حجاب
ان حجابوں کو جو الٹے وہی جلوہ دیکھے
وہی جلوے کی حقیقت کو سراپا دیکھے
6
ہوا سالیب کی جدت سے جو معنی کا زوال
شاعری پھر تو ہو اک شعبدۂ قال و مقال
اس سے کہہ دو جو ہے گم گشتۂ صحرائے خیال
کہ ترا ذوق ہے نا محرم لیلائے جمال
رنگ و نکہت نے حجاب اپنا اٹھایا ہی نہیں
حسن بے پردہ ترے سامنے آیا ہی نہیں
7
مجھ کو تسلیم ہے الفاظ کی دارائی بھی
دے اگر دیدۂ ادراک کو بینائی بھی
اس کی تاثیر میں شدت بھی ہو گیرائی بھی
اس میں وسعت بھی ہو رفعت بھی ہو گہرائی بھی
شاعری کیا جو سخن ولولہ انگیز نہ ہو
ہاں مگر خوان تکلم میں نمک تیز نہ ہو
8
بوئے گل زور خطابت سے بگولا نہ بنے
داغ پیشانی کا خال رخ زیبا نہ بنے
نالہ آہنگ میں نالہ رہے نغمہ نہ بنے
نغمہ شوریدگی ٔلحن سے نالہ نہ بنے
لفظ و معنی میں توازن ہو سر اونچا نہ اٹھے
آنچ جذبات کی دھیمی رہے شعلہ نہ اٹھے
9
آتنی رنگینی کہ تاثیر بیاں گم ہوجائے
نغمگی اتنی کہ مفہوم فغاں گم ہوجائے
اس قدر نشہ کہ رستے کا نشاں گم ہوجائے
اور نقش قدم راہبراں گم ہوجائے
پھر تو حصے میں ترے بوالعجبی ہے اے دوست
منظر ریگ ہے اور تشنہ لبی ہے اے دوست
10
اب تو الفاظ سے ہے زینت دوکان سخن
وائے برجان سخن وائے برایمان سخن
اللہ اللہ یہ رنگینیٔ دامان سخن
شفق خون تخیل ہے بہ عنوان سخن
آسمانوں کی بلندی پہ نظر ہے پیارے
دل کی گہرائی میں کیا ہے یہ خبر ہے پیارے
11
گوندھتا ہے رگ بلبل میں شرارے کوئی
مانگتا ہے طبق ماہ میں تارے کوئی
گن رہا ہے یم افلاک کے دھارے کوئی
اور سمجھتا نہیں فطرت کے اشارے کوئی
دھوپ کیا کہتی ہے کیا کہتا ہے سایہ سمجھے
کون ہے جو مہ و انجم کا کنایہ سمجھے
12
شاعری کیا ہے فقط قصۂ زلف و رخسار
ہے یہ جذبات کی نقاش تو جذبے ہیں ہزار
جذبۂ حب وطن جذبۂ عزم احرار
جذبۂ مہرو و فا جذبۂ رحم و ایثار
صبر خدام ہو یا غیرت سائل اے دوست
کتنے جذبات ہیں تشریح کے قابل اے دوست
13
کتنے جذبے ہیں کہ شاعر پہ ہے گم جن کا وجود
کتنی آہیں ہیں کہ گھٹتی رہیں دل میں بے دود
شاعری سے ہے اگر شرح محبت مقصود
تو محبت کی بھی قسمیں ہیں یہاں لا محدود
دوستی بھی ہے اخوت بھی ہے شفقت بھی ہے
اور محبت ہی کی اک شکل عقیدت بھی ہے
14
شاعری جذبۂ شفقت کو زباں دے نہ سکی
شاعری درد رفاقت کو زباں دے نہ سکی
زردی چہرۂ محنت کو زباں دے نہ سکی
چشم مفلس کی خجالت کو کو زباں دے نہ سکی
کتنے کانٹے ہیں جو سینے میں کھٹکتے ہی رہے
کتنے جذبے ہیں جو آنکھوں میں سسکتے ہی رہے
15
اور شاعر کو خرافات سے فرصت نہ ملی
ہجر اور وصل کے جذبات سے فرصت نہ ملی
خط و کاکل کی روایات سے فرصت نہ ملی
رنگ و نکہت کی علامات سے فرصت نہ ملی
منفعل جذبہ جنسی کی زبانی کہتے
عمر گزری گل و بلبل کی کہانی کہتے
16
کچھ ہیں ایسے جو فصاحت کو سخن کہتے ہیں
کچھ معانی کی بلاغت کو سخن کہتے ہیں
کچھ تخیل کی غرابت کو سخن کہتے ہیں
کچھ اسالیب کی ندرت کو سخن کہتے ہیں
چوں نہ بینند حقیقت رہ افسانہ زنند
در میخانہ نہ جنبد در مے خانہ زنند
17
ہم بھی میخانہ کا در پیٹ رہے ہیں ساقی
در جو کھلتا نہیں چوکھٹ پہ جھکے ہیں ساقی
اور کچھ آہٹ جو ملی ہے تو اٹھے ہیں ساقی
عالم غور میں خاموش کھڑے ہیں ساقی
صبح ہونے کو ہے پلکیں نہیں جھپکیں شب سے
بے پئے جھوم رہا ہے ترا شاعر کب سے
18
حالت وجد میں گزرے کئی سال اے ساقی
اب تو دے دے مجھ اک جام سفال اے ساقی
پی چکا ہوں میں محبت کا زلال اے ساقی
اب ہے تجھ سے مئے عرفاں کا سوال اے ساقی
ہے مری حسرت تکمیل بھی پیاسی مولا
میں بھی پیاسا مری تخیل بھی پیاسی مولا
19
دے وہ بادہ کہ جسے غالب دانا نے پیا
وحشت و حشرنے چکبست نے رسوا نے پیا
میر و مومن نے پیا آتش و سودا نے پیا
خم پہ منہ رکھ کے انیس سخن آرا نے پیا
میری تقدیر سے جو رہ گئی باقی دے دے
انہیں میخواروں کی جھوٹی مرے ساقی دے دے
20
ہاں وہی جذبہ عرفی میں ہے شدت جس سے
خم شیراز میں ہے تیری امانت جس سے
پیر رومی کو ملی عشق کی دولت جس سے
بڑھی اقبال کے سینے میں حرارت جس سے
شادؔ کا دل ہوا جس سے ترا مینا ساقی
آگیا وقت کے ماتھے پہ پسینہ ساقی
21
کھول میخانے کا در آ مئے کوثر لے کر
روح اسلام کا کھینچا ہوا جوہر لے کر
جس میں سو بحر معانی ہیں وہ ساغر لے کر
آج اٹھوں گا میں ظرف دل بوذر لے کر
تیری مرضی ہو تو قطرے میں سمندر آ جائے
میرے کوزے میں چھلکتا ہوا کوثر آ جائے
22
میرے وجدان تفکر کو اچھال اے ساقی
لا مرے دل کی صراحی میں ابال اے ساقی
دے مرے صید نظر کو پر وبال اے ساقی
دام الفاظ و معانی سے نکال اے ساقی
بھیج دے مجھ کو مری حد نظر سے آگے
اس تبسم کدۂ برق و شرر سے آگے
23
اس سفر سے جو پھروں دیدۂ بینا لے کر
نکہت گیسوئے الہام کا سودا لے کر
شہپر بلبل شیراز کا خامہ لے کر
سینۂ وحی سے سوز دل عیسیٰ لے کر
شمعیں روشن کروں ماضی کے شبستانوں میں
دوں اذاں جا کے تخیل کے صنم خانوں میں
24
پس پردہ جو ہوس ہے اسے رسوا کردوں
پیرہن چھین کے اخلاق کو ننگا کردوں
فکر و احساس کی دنیا تہہ و بالا کردوں
سو رہی ہے جو قیامت اسے برپا کردوں
جوئے خوں مے چکداز حسرت دیرینۂ ما
مے تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما
25
آج ہے پھر مری باتوں پہ خرد گم ساقی
لب رحمت پہ ہے گمبھیر تبسم ساقی
کیوں نہ ہو شوخ یہ آہنگ تکلم ساقی
تونے بخشا ہے مرے جام کو قلزم ساقی
جس کی اک موج ہے یہ زمزمہ خوانی میری
تیرا افسانہ سنیں رند زبانی میری
26
میں فدا بخشش ساقی ترے اس بادل کے
جس سے صحرائے تقدس میں بھی دریا چھلکے
گئی مے خانے میں فردوس سے مے ڈھل ڈھل کے
پئیے حوروں نے پیالے ترے ہلکے ہلکے
اک گلابی سی گھٹا عرش تلک چھانے لگی
ڈورے آنکھوں کے شہابی ہوئے نیند آنے لگی
27
قدسیوں نے بھی پیا اہل جناں نے بھی پیا
اور ہر مرسل فردوس مکاں نے بھی پیا
شاخ سدرہ پہ ترے مرتبہ داں نے بھی پیا
تیرے ہاتھوں سے جسے پیر مغاں نے بھی پیا
کچھ کہوں اور تو یہ بات کہاں تک پہنچے
راز میخانہ فرشتوں کی زباں تک پہنچے
28
مختصر یہ کہ ازل میں جو کھینچی تھی ساقی
شب ہجرت تری بالیں پہ دھری تھی ساقی
اور جو صفین میں تا صبح بٹی تھی ساقی
حالت جنگ میں عمار نے پی تھی ساقی
بن گئے شیر وغا مالک اشتر جس سے
ان کے کشتے ترے کشتوں کے برابر جس سے
29
دے وہ بادہ جو کبھی نوح کے طوفاں میں بہا
دشت سینا میں بہا وادئ کنعاں میں بہا
کشت موعود براہیم پہ فاراں میں بہا
تادم عصر شہادت کے گلستاں میں بہا
ظہر کے وقت جسے قین بجلٰی نے پیا
تیر کھا کھا کے رفیقان معلی ٰنے پیا
30
آگیا ذکر شہیدان محبت ساقی
اب سبو کی ہے نہ ساغر کی ضرورت ساقی
اب نگاہوں میں ہے اک وادئ غربت ساقی
دیکھ اک تشنہ دہانوں کی جماعت ساقی
بھول کر خستگی و تشنہ دہانی اپنی
خوں سے لکھتی ہے لب نہر کہانی اپنی
31
اے خرد وقت کی آشفتہ بیانی سن لے
کیوں گلابی ہوا اس نہر کا پانی سن لے
کار زار حق و باطل کی کہانی سن لے
خوں سے تر ریگ بیاباں کی زبانی سن لے
پہنچے اس دشت میں اللہ کے دیوانے چند
پہنچے اور دے دیئے تاریخ کو افسانے چند
32
امتحاں عشق کا تھا عشق کے بندے نکلے
ان کی تیغوں سے لپکتے ہوئے شعلے نکلے
ماں کے ہاتھوں سے کفن باندھ کے بچے نکلے
پشتیں سیدھی کئے تنتے ہوئے بوڑھے نکلے
ہنس کے طے مرحلۂ تیغ و گلو کرنے لگے
دی جو قرنانے اذاں خوں سے وضو کرنے لگے
33
چشم حیرت سے فلک نے یہ تماشا دیکھا
ٹھاٹھیں لیتا ہوا فولاد کا دریا دیکھا
سامنے اس کے بہتّر کو صف آرا دیکھا
پھر بھی نیزوں کے نیستاں کو سرکتا دیکھا
مورچے ٹوٹے اجڑتی ہوئی بستی دیکھی
تادم عصر گھٹا خوں کی برستی دیکھی
34
گونجی نعروں سے زمیں حشر تکلم بھی ہوا
عرصۂ دشت بلا خون کا قلزم بھی ہوا
صفیں بل کھا گئیں دریا میں تلاطم بھی ہوا
آگ اور خون کی لہروں میں تصادم بھی ہوا
جس طرف مڑ گیا سیلاب اسی گھاٹ گئے
مرتے مرتے ہوئے لاشوں سے زمیں پاٹ گئے
35
رن میں پانی پیا دکھلا کے ستمگاروں نے
پونچھا ماتھے سے پسینہ بھی نہ جراروں نے
شرم ایمان وفا رکھ لی وفاداروں نے
پھینک دی تن سے زرہ نوچ کے کراروں نے
سپریں پھینک دیں روکیں نہ حسامیں اپنی
توڑ دیں حملۂ اول میں نیا میں اپنی
36
آگ جنگل میں برستی رہی تلواروں سے
جس طرف مڑگئے سجدے لئے دیواروں سے
بیرقیں چھین لیں لشکر کے نموداروں سے
سوگئے رن کی زمیں چھین کے غداروں سے
ظہر کے وقت منا کا تھا نمونہ جنگل
آنکھ شیروں کی لگی ہوگیا سونا جنگل
37
ان کے سردار کی شان کرم اللہ غنی
ختم جس پر ہوا احساس غریب الوطنی
ہمہ تن پیکر ایثار شجاعت کا دھنی
خلق پر اس کے فدا خلق رسول مدنی
غیظ بھی اس کو بہ عنوان ترحم آیا
زخم جب کھائے تو ہونٹوں پہ تبسم آیا
38
پشت خم ہوگئی یوں لاشوں پہ لاشہ لایا
اور بجز حرف دعا لب پہ نہ شکوا لایا
ایک جب رد نہ ہوا دوسرا تحفہ لایا
طفل معصوم کو ہاتھوں پہ ہمکتا لایا
وہ ہوا ذبح تو مالک کو ودیعت سونپی
خاک میں کوکھ جلی ماں کی امانت سونپی
39
دوپہر میں ہوا بچوں سے بھرا گھر برباد
گودیاں ہوگئیں خالی ہوا صحرا آباد
کس سلیقے سے ادا عشق نے کی رسم جہاد
متبسم تھا نمازی متحیر جلاد
حق کی جو آخری حجت تھی سر انجام ہوئی
تشنگی خنجر قاتل کی بجھی شام ہوئی
40
گونجتا وقت گرجتا ہوا رن ختم ہوا
لہلہاتا ہوا بچوں کا چمن ختم ہوا
گھر جلے مرحلہ ٔدست و رسن ختم ہوا
دن ڈھلا دھوپ چھپی روز محن ختم ہوا
آنسو آنکھوں میں بھرے شام غریباں آئی
اپنے کاندھوں پہ لئے زلف پریشاں آئی
41
تیرگی تجھ کو مبارک ہو یہ عاشور کی شام
عہد ظلمت کی سحر خاتمۂ نور کی شام
شفق افروز ہے خون دل مہجور کی شام
آج کی شام تو ہے زینب رنجور کی شام
آفریں اس پہ بہتر کی عزادار ہے جو
اک لٹے قافلے کی قافلہ سالار ہے جو
42
اس کی سیرت پہ ہو کیا شام غریباں کا اثر
جس نے ظلمت کے گریباں سے نکالی ہو سحر
جس کا ہر مرحلۂ فرض جہاد اکبر
جس کے دامن سے یتیموں کو ملی بوئے پدر
آیت اللہ ہے کردار مکمل جس کا
سایۂ دامن رحمت ہوا آنچل جس کا
43
ایک گرتا ہوا گھر اٹھ کے سنبھالا جس نے
آگ میں پیر کے بچوں کو نکالا جس نے
کردیا صبر کی راہوں میں اجالا جس نے
بھر دیا ظلم کی ہمت کا پیالا جس نے
فتح مظلوم کی عنوان نتیجے کو دیا
حوصلہ صبر کا بیمار بھتیجے کو دیا
44
آج اٹھتا ہے دھواں شام غریباں سے جمیل
شور ماتم ہے عزا خانۂ ویراں سے جمیل
نیکیاں کیوں نہ اگیں مزرع ایماں سے جمیل
آبیاری جو ہوئی خون شہیداں سے جمیل
اس میں ہے خون دل زینب کبریٰ بھی شریک
ان کے آنسو بھی شریک ان کا پسینہ بھی شریک
45
بخدا ناشر احکام خدا تھیں زینب
پانی فلسفۂ رسم عزا تھیں زینب
فاتح معرکۂ صبر و رضا تھیں زینب
شام غربت میں پناہ غربا تھیں زینب
دل پہ خود جبر کیا صبر دلایا سب کو
لا کے اک حلقۂ ماتم میں بٹھایا سب کو
46
گم تھے بچے تو انہیں ڈھونڈتی جنگل میں گئیں
کبھی گھبرائی ہوئی فوج کے بادل میں گئیں
کبھی دریا پہ کبھی خون کے جل تھل میں گئیں
آئی آواز سکینہ کی تو مقتل میں گئیں
مل گئے سب تو اب اشکوں کو پئے بیٹھی ہیں
اپنے سایہ میں یتیموں کو لئے بیٹھی ہیں
47
شام غم شام الم شام غریباں ہے یہ شام
خون سادات سے گلزار بہ داماں ہے یہ شام
مرثیہ خوان شباب گل و ریحاں ہے یہ شام
چند خیمے ابھی جلتے ہیں چراغاں ہے یہ شام
اور سلگتا ہے ادھر زینب و کلثوم کا دل
ام قاسم کا جگر مادر معصوم کا دل
48
فتح ظلمت کی ہوئی جشن منائے گی یہ رات
تیرگیِ دل اشرار بڑھائے گی یہ رات
ان کی جرموں کی نشانی کو چھپائے گی یہ رات
پردہ آثار شہادت پہ گرائے کی یہ رات
لے کے آئی ہے ردا ماجرا پوشی اس کی
کتنی گمبھیر ہے جنگل میں خموشی اس کی
49
دشت میں گنج شہیداں کی بہار ایک طرف
زرد چہروں پہ یتیمی کا غبار ایک طرف
دھیمی دھیمی سی وہ اشکوں کی پھوار ایک طرف
سہمی سہمی ہوئی پانی کی پکار ایک طرف
ہنہناتے ہوئے گھوڑوں کی صدائیں اک سمت
سوکھے سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ دعائیں اک سمت
50
فوج شاہی میں ادھر تہنیت فتح کی دھوم
اور ادھر خاک پہ امت کے اسیروں کا ہجوم
بے کفن دشت میں ہر فدیہ ٔرب قیوم
گرد صحرا کی ردا جن کو اڑھاتی ہے سموم
ہو کا عالم ہے فضا چپ ہے بیاباں چپ ہیں
قافلہ وقت کا چلتا ہے خدی خواں چپ ہیں
51
موجیں دریا کی ہیں خاموش ہوا نیند میں ہے
بیکسی چپ ہے گروہ شہدا نیند میں ہے
ہر اسیر الم و رنج و بلا نیند میں ہے
سوئی ہے غیرت حق قہر خدا نیند میں ہے
کون پہرے پہ ہو بنت اسد رب کے سوا
کوئی بیدار نہیں ہے دل زینب کے سوا
52
آنکھیں اشکوں سے ہیں نم روح حزیں قلب اداس
بال چہرے پہ پریشاں ہیں مگر جمع حواس
ہاتھ میں نیزۂ خطی لئے با حالت یاس
کبھی اس لاش کے پاس اور کبھی اس لاش کے پاس
کبھی خیمہ میں ہیں عابد کی چٹائی کے قریب
کبھی عباس کے لاشے پہ ترائی کے قریب
53
کبھی کہتی ہیں کہ حضرت گئے مارے عباس
تم کو نیند آگئی دریا کے کنارے عباس
جو فرائض متعلق تھے تمہارے عباس
ان کا بوجھ اب مرے کاندھے پہ ہے پیارے عباس
بار غم اس کے علاوہ ہے دبی جاتی ہوں
دو سہارا مجھے اٹھ کر جھکی جاتی ہوں
54
کبھی لاش شہ والا سے یہ کرتی ہیں کلام
آپ نے سونپ دیا ہے مجھے عباس کا کام
بھیجئے ان کو کہ ہلکی ہو میری پیٹھ امام
آپ خاموش ہیں کیوں لیجئے زینب کا سلام
لائی ہے شدت غم اشک فشانی کے لئے
اٹھیے آئی ہے بہن فاتحہ خوانی کے لئے
55
کام سونپا ہے تو اب اٹھ کے دعا دیں حضرت
اور مجھے حوصلۂ صبر و رضا دیں حضرت
جذبۂ معرفت امر خدا دیں حضرت
جو ہدایت کے طریقے ہیں بتادیں حضرت
آپ کو اس سر بے مقنع و چادر کی قسم
آپ کو آپ کے درس تہ خنجر کی قسم
56
ہاتھ رکھیے کہ ٹھہرتا نہیں ہمشیر کا دل
ہے یہ زینب کا کلیجہ نہیں شبیر کا دل
کچھ تو قانع بہ تہ دام ہو نخچیر کا دل
شمع کی طرح گھلے زینب دلگیر کا دل
اس کے گھلنے سے ہو ظلمت تہ و بالا بھیا
کچھ تو ہو راہ ہدایت میں اجالا بھیا
57
مجھ کو اکبر کی قسم خالق اکبر کی قسم
قطرۂ خون دل بانوئے مضطر کی قسم
جس پہ جبریل نے سجدہ کیا اس در کی قسم
آپ کے بعد جو لوٹا گیا اس گھر کی قسم
کہ مجھے آپ عزیز آپ کا مقصد بھی عزیز
اور ہے یہ مسلک ایثار اب وجد بھی عزیز
58
وعدہ کرتی ہوں کہ جس راہ میں جاؤں گی میں
اس کے ہر موڑ پہ تاریخ بناؤں گی میں
قوم کو آپ کا پیغام سناؤں گی میں
اس کی سوئی ہوئی غیرت کو جگاؤں گی میں
تربیت یافتہ یا شاہ زمن آپ کی ہوں
یہ سمجھ لیجئے بھیا کہ بہن آپ کی ہوں
59
کہہ کے یہ چپ جو ہوئیں خواہر شاہ دوسرا
سسکیاں لینے لگا رات کا وہ سناٹا
آئی خاتون قیامت کے جو رونے کی صدا
رخ بیاباں کی طرف کرکے یہ زینب نے کہا
آپ اب نیند سے چونکی ہیں دہائی اماں
لٹ چکا گھر تو سواری ادھر آئی اماں
60
دوپہر میں ہوا بی بی یہ بھرا گھر خالی
خیمۂ قاسم و عون و علی اکبر خالی
ہوا بے چوبۂ عباس دلاور خالی
آئیے دیکھئے گہوارۂ اصغر خالی
اب نہ بیٹے ہیں نہ پوتے نہ نواسے اماں
لڑے دو لاکھ سے دو روز کے پیاسے اماں
61
جرأتیں جعفر و حیدر کی دکھائیں سب نے
صفیں میدان میں ہنس ہنس کے جمائیں سب نے
سوکھے ہونٹوں پہ زبانیں نہ پھرائیں سب نے
ندیاں خون کی دریا پہ بہائیں سب نے
کیا کہوں شان علمدار دلاور اماں
مشک تو بھرلی مگر لب نہ کئے تر اماں
62
دوپہر تھی کہ ترائی میں وہ سقا پہونچا
پیر کر خون کی ندی لب دریا پہونچا
مشک لاتا تھا کہ فرمان قضا آ پہونچا
خوں میں تر ہو کے جو اس شیر کا گھوڑا پہونچا
سنی کنبے نے نہ آواز محن بھی اس کی
تھا وہ جیوٹ تو جیالی تھی دلہن بھی اس کی
63
جسم صد پارہ لیے قاسم بے پر آیا
ماں کے آنسو نہ بہے مر کے پسر گھر آیا
باپ کے ہاتھ پہ مردہ علی اصغر آیا
اور پسینہ بھی نہ بھابی کی جبیں پر آیا
اونچا ہاشم کے گھرانے کا بہت نام کیا
آج تو آپ کی بہوؤں نے بڑا کام کیا
64
کیا کہوں جوش غلامان وفادار حسین
آپ کے خوں میں ملا خون نمک خوار حسین
کس زباں سےہو بیاں جرأت انصار حسین
ان کے تیور تھے کہ آئینۂ کردار حسین
حصن مرسوس بہ گرد شہ ذیجاہ تھے وہ
آیت اللہ تھے مامور من اللہ تھے وہ
65
جیئے جب تک سوئے حضرت یہ ستمگار نہ آئے
تھی یہ کوشش کہ ادھر تیروں کی بوچھار نہ آئے
آنچ تیغوں کی سوئے سید ابرار نہ آئے
تیر کیا دھوپ بھی تا عارض سرکار نہ آئے
اور عرق بھی بہ رخ شاہ مدینہ نہ بہے
خوں ہمارا بہے حضرت کا پسینہ نہ بہے
66
بیبیاں ان کی وہ برپاکن روح ایماں
جن کے ایثار کا اللہ و نبی پر احساں
خادمہ آپ کی مخدومہ احرار جہاں
کس بشاشت سے کیا شکر خدائے سبحاں
اپنی مانگ آپ کے کنبے پہ نچھاور کردی
عرق شرم سے زینب کی جبیں تر کردی
67
کس تمنا سے جواں بیٹیوں کو باہر بھیجا
جوش ایماں سے ہتھیلی پہ لئے سر بھیجا
ایک بی بی نے یہ ہدیہ سوئے سرور بھیجا
اپنے چھوٹے سے مجاہد کو سجا کر بھیجا
قد تو چھوٹا تھا مگر تیز تھی رفتار اس کی
صفحہ ٔخاک پہ خط دیتی تھی تلوار اس کی
68
آپ روتی ہیں تو روئیں مگر انصار کو روئیں
روئیں احرار کو جب سید احرار کو روئیں
اس کا احسان ہے ہم پرحر جرار کو روئیں
کون روئے گا اسے جون وفادار کو روئیں
وہ بھی سمجھیں انہیں خاتون جناں روتی ہے
اس طرح روئیے جس طرح سے ماں روتی ہے
69
مانگئے رحمت حق حر ریاحی کے لیے
وہب کلبی و بن قین بجلی کے لیے
جملہ اصحاب یمینی ویساری کے لیے
آئے جنت سے ہوا ان کی تسلی کے لیے
آپ کیجئے جو دعا کاسۂ دل بھر جائیں
حشر سے پہلے یہ پیاسے لب کوثر جائیں
70
آپ کا نور نظر خادم جمہور حسین
فدیۂ بے طلب امت مقہور حسین
بیکس و تشنہ لب و خستہ و رنجور حسین
حق کے انبار امانت کا وہ مزدور حسین
ناز ارمان مشیت کے اٹھانے والا
اپنے بچے کی لحد آپ بنانے والا
71
للہ الحمد کہ وعدے کی وفا کی اس نے
جو امانت تھی خدا کی وہ ادا کی اس نے
شان دکھلائی مسیح دوسرا کی اس نے
دشمنوں کے لئے مقتل میں دعا کی اس نے
کیوں نہ لے رحمت حق اس کی بلائیں اماں
زیر خنجر بھی رہیں لب پہ دعائیں اماں
72
لاش اکبر پہ کیا شکر کا سجدہ اس نے
کس کو کہتے ہیں جہاد آج بتایا اس نے
رکھ لیا شرع کے اس حکم کا پردہ اس نے
کر دیا دیدۂ تاریخ کو بینا اس نے
لفظ اسلام کی سردے کے وضاحت کردی
اپنے ایثار سے توثیق رسالت کردی
73
قوم میں فرض کا احساس جگایا اس نے
چہرۂ وقت کو آئینہ دکھایا اس نے
قرض نانا کی محبت کا چکایا اس نے
کشت اسلام میں خوں اپنا رچایا اس نے
جو بھی پونجی تھی پئے بخشش امت دے دی
آپ کے دود ھ کے ہر قطرے کی قیمت دے دی
74
نوک نیزہ پہ بھی چہرے کی بشاشت نہ گئی
برچھیاں کھائیں مگر رخ کی متانت نہ گئی
خون بن کر جو رگوں میں تھی شجاعت نہ گئی
منزل صبر میں بھی شان جلالت نہ گئی
نام بابا کی شجاعت کا اجالا اس نے
کیا دو لاکھ کا لشکر تہ و بالا اس نے
75
گرچہ سورج تھا سوا نیزے پہ آیا اماں
امتحاں دیتا رہا آپ کا جایا اماں
رد کیا شہپر جبریل کا سایہ اماں
آپ نے عرش کا پایا نہ ہلایا اماں
اب میں سمجھی کہ تھی تدبیر شفاعت پیاری
بڑھ کے بیٹے سے بھی تھی باپ کی امت پیاری
76
آپ کیا قہر خدا بھی تو گراں گوش ہوا
کامراں آپ کا وہ زینت آغوش ہوا
نہ سپر چہرے پہ روکی نہ زرہ پوش ہوا
وعدہ طفلی کا وفا کرکے سبکدوش ہوا
آ کے پہچانئے اس صادق الاقرار کی لاش
ہائے روندی گئی امت کے گنہ گار کی لاش
77
شکوہ کیا لٹ جو گیا خیمۂ عصمت اماں
تھی وہ میراث نبی لے گئی امت اماں
شکر اس کا جو ملا اجر ہدایت اماں
دیکھئے دست و گلو کی مرے زینت اماں
کیوں نہ یہ طوق یہ کنگن مجھے پیارا ہوگا
آپ نے یوں نہ کبھی مجھ کو سنوارا ہوگا
78
چلئے خیمے کی طرف حال نشیمن سنئے
داستاں برق کی افسانۂ خرمن سنئے
خامشی جس کو سناتی ہے وہ شیون سنئے
چلیے چل کر دل بیمار کی دھڑکن سنئے
آئیے خاک پہ لے جاکے بٹھادوں اماں
اب تو چادر بھی نہیں ہے کہ بچھادوں اماں
79
وقت نے سونپ دیا فرض قیادت مجھ کو
ہلنے دیتا نہیں احساس امانت مجھ کو
اب تو رونے کی بھی ملتی نہیں فرصت مجھ کو
کیا کہے گی علی اکبر کی محبت مجھ کو
وہ جو سوئی ہے تو سوئے شہدا آئی ہوں
لوریاں دے کے سکینہ کو سلا آئی ہوں
80
مجھ کو اٹھنے نہیں دیتا کوئی بچہ اماں
میں جو بیٹھوں تو پھرے کون طلایا اماں
اس کو بہلاؤں کہ دوں اس کو دلاسا اماں
وہ اگر باپ کو پوچھیں تو کہوں کیا اماں
یہ تو ممکن ہے کہ لونڈی بنوں دایہ بن جاؤں
کس طرح ان کے لیے باپ کا سایہ بن جاؤں
81
مظہریؔ بس تہ و بالا ہیں دل اہل ولا
ابھی معیار پہ آیا نہیں ذکر شہدا
گھٹ رہے ہیں مرے سینے میں بہت سے دریا
ٹپکے اک بوند قلم سے تو تلاطم ہو بپا
پھول سب ڈھونڈتے ہیں داغ دکھاؤں کس کو
سننے والا نہیں ملتا ہے سناؤں کس کو
- کتاب : Kulliyat-e-Jameel (Pg. 161)
- Author : jameel mazhari
- مطبع : Maktaba Jamia Ltd New Delhi (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.