سنو اے عزیزان ذی ہوش و عقل
کہ اس کارواں گہ سے کرنا ہے نقل
پیمبر ہے شہ ہے کہ درویش ہے
سبھوں کو یہی راہ درپیش ہے
کہوگے کہ آگے تھا کہتا کوئی
نہیں اس سرا بیچ رہتا کوئی
بجا ہی کیا کوس رحلت مدام
کنھوں نے نہ بجتا سنا یاں مقام
یہ بیٹھے جو ہیں سامنے ہیں کہاں
جہاں جملہ ہے ایک بزم رواں
جسے دیکھو چلنے کا گرم تلاش
یہ منزل نہیں جاے بود اور باش
گدا ہو کہ ہو شاہ عالی تبار
تہ خاک سب کا ہے دارالقرار
نہ یک بوے خوش ہی ہوا ہوگئی
وہ رنگینی باغ کیا ہوگئی
ملے خاک میں جھڑکے گل ہاے تر
پریشاں ہوئے مرغ گلشن کے پر
پتنگوں نے گر خاک مسکن کیا
چراغوں نے بھی خانہ روشن کیا
گئی خاک دامن فشانی کے ساتھ
رہا آب سو بھی روانی کے ساتھ
رہی راکھ ہوکر اگر آگ تھی
رکن ہے جہاں باد کی لاگ تھی
نہ جدول رہے گی نہ سرو رواں
گلستاں کو پاویں گے ہو کا مکاں
زمیں کا رہے گا یہی کیا سبھاؤ
لپٹ جائیں گے آسماں جیسے تاؤ
سکوں یاں کا دیکھا سراسر شتاب
چلے جاتے ہیں کوہ جیسے سحاب
جہاں ایک ماتم سرا ہے عجب
نہیں جاے باش اور جا ہے عجب
بھلا جی کے جانے کا کیا ہے بیاں
عیاں ہے کہ کہتے ہیں جاں کو رواں
جوانی گئی موسم شیب ہے
شہود ایک دو روز کو غیب ہے
ہنسوں کیونکے ہستی میں دنداں نما
کہ ہے جاے دنداں ہی دنداں نما
گیا شور سر سے جھکا ہے بہت
گئی واشد اب دل رکا ہے بہت
نہ وہ ذائقہ ہے نہ وہ ہے مشام
مزہ کچھ نہیں ہوچکی صبح شام
کریں لمس کیا ہر گھڑی ہے صداع
نہیں لذت اکل و شرب و وقاع
بلا ارتعاش تن زار ہے
ہر اک عضو چلنے کو تیار ہے
ہوا حافظہ بسکہ نسیاں کا صرف
نہیں یاد آتا ہے دوشینہ حرف
ہوئے شعر کیا کیا فراموش ہائے
کہوں کیا گذرتی ہے خاموش ہائے
نہ پوچھو لب و لہجہ بے طور ہے
سخن کرنے کا ڈھنگ ہی اور ہے
نہیں گور کے کام سے کچھ فراغ
کسے ذوق صحبت کہاں ہے دماغ
نہ کچھ یوں ہی عینک نظر چڑھ گئی
بصارت کی بے طاقتی بڑھ گئی
نہ رکھیے جو عینک نہ آوے نظر
کہے تو کہ اعمیٰ ہیں ہم بے بصر
رہیں دیکھ بھو حرف زن ہو حریف
رہا سننے کے گوں نہ سمع شریف
صد افسوس لطف سماعت نہیں
صدا دور سے جیسے آوے کہیں
شباب آہ داغ جگر دے گیا
قد خم زمیں کی طرف لے گیا
نہ کچھ زور بازو بہت کم ہوا
جھکا سر سو زانو کا ہمدم ہوا
جوانی کی شب کیا بسر ہوگئی
سفیدی مو سے سحر ہوگئی
بدن زار اعضا سبھی رعشہ دار
کرے کون خوباں سے بوس و کنار
جو یہ چال ہے جا رہے ہیں ہم اب
دموں پر غرض آرہے ہیں ہم اب
کھڑے ہوں تو تھرائے ران اور ساق
جئیں بیٹھیں کیوں کر کہ جینا ہے شاق
جو یوں پاؤں چلتے بچلتے رہے
تو دیکھوگے ہم یاں سے چلتے رہے
اگر ضعف سے چپ ہی رہتے ہیں ہم
یہ سوچو تو کیا کیا نہ کہتے ہیں ہم
کہے میں نہیں اپنے ٹک پا و دست
کیا خاک میں مجھ کو پیری نے سخت
جو بازو ہیں اپنے وہ بازو نہیں
اگر منھ کو دیکھو تو وہ رو نہیں
بدن کی ہوئی میرے صورت ہی اور
وے آنکھیں نہیں وے نہ چتون کے طور
جسد ناتواں جاے مہمان تنگ
سخن منھ پہ آوے وداعی کے رنگ
لبوں پر نہایت ضعیف ایک آہ
در و بام پر حسرتوں سے نگاہ
شکن جلد میں دل کو پژمردگی
غریزی حرارت میں افسردگی
برودت بہت جسم میں آگئی
مزاجی تھی گرمی سو ٹھٹھرا گئی
چھڑکتا رہوں منھ پہ میں آب کاش
کہ ہوتا رہے روح کا انتعاش
وگرنہ دیا سا بجھا جائے ہے
پھر اٹھ بیٹھوں تو جی چلا جائے ہے
سیہ روے شیب اک ستم کر گیا
لکھوں کیا کہ میں جیتے جی مر گیا
قلم رکھ دے کر میرؔ ختم کلام
تمام اپنی صحبت ہوئی والسلام