سگ و گربہ ہیں دو ہمارے ہاں
دو ہیں قالب اور ان کی ایک ہے جاں
رنگ گربہ سے شیر نر ہے داغ
آنکھیں اس کی اندھیرے گھر کا چراغ
کھائے نہ جو نہ ہو وہ مادۂ سگ
بھوکا بیٹھا رہے قیامت لگ
کب مروت سے جائے کھانا چکھ
لڑے بھی ہے تو منھ پہ پنجہ رکھ
سارے ہمسایوں پر ہے یہ معلوم
موش کی نسل ہوگئی معدوم
چوہا کیا ہے جو سامنے آوے
گھونسوں سے بھی یہ شیر بھڑ جاوے
ان نے جو ماریاں ہیں گھونسیں دھونس
موش دشتی ہوا ہے کونے گھونس
گھونس جب فکر ہی میں مرتی ہو
موش دشتی پہ کیا گذرتی ہو
کوئی چھچھوندر جو بستی میں یاں ہے
سو وہ چوہوں کی مرثیہ خواں ہے
ایک دن گھر میں ایک گھونس آئی
اپنے پاؤں اجل اسے لائی
گھونس کیسی بتاؤں غیرت سونس
طاق ہے جس کے آگے طاقت سونس
یا کوئی مادہ خوک آبستن
یا کسو کچھوے کی برادر زن
پھرتی پھرتی جو صحن میں خوش حال
پاے دیوار بیٹھی سر کو نکال
کہیں اودھر یہ شیر جاتا تھا
پھیرتا منھ پہ پنجے آتا تھا
پڑ گئی اس کی اس پہ چشم کبود
نیلاپیلا ہو تاؤ کھا جوں دود
پنجہ جھنجھلا کے ان نے گزرانا
بارے کچھ گھونس نے اسے جانا
پر اسے خوف جاں نہ آیا کچھ
غالب آیا نہ اس کا سایہ کچھ
ٹھک ٹھکایا پھر ان نے جانا تو
کیونکے تھا یہ تو شیر کا خالو
پھر تو بگڑی ہے دونوں میں آکر
چوٹ ہوتی تھی داؤ پا پا کر
غصہ خرموش کو بھی آن چڑھا
اتفاق اس جگہ تھا ایک گڑھا
دونوں لڑتے ہوئے گرے اس میں
کیچ کا گاہتے پھرے اس میں
ناخن اس شیر کا کچھ ایک گڑا
شور محشر گڑھے کے بیچ پڑا
شور کیسا محلے چونک اٹھے
سگ بازاری بھونک بھونک اٹھے
یاں تو گھر بیچ کیا ہے کیا ہے پڑی
گھونس بلی نے چھیچھڑے کردی
کھڑے مونچھوں کے بال انگڑاتا
شیر نکلا گڑھے سے گھبراتا
لیک جی سے تھا سب بدن خالی
کیوں کہ سر سے بلا بڑی ٹالی
گھونس کے وارثوں کی کیا ہے تاب
کہ قدم کو رکھیں وے حتی الباب
کوئی چھچھوندر اب اس پہ روتی ہے
کہ تری لاش خوار ہوتی ہے
تو جو تھی ساری قوم کی سردار
سو اٹھایا ہے زخم دامن دار
ہم بہت غم میں تیرے روویں گے
بل کے بل اب خراب ہوویں گے
فخر ہے اپنی نسل کا یہ شیر
جن نے گھونسوں کے کر دکھائے ڈھیر
سنا ہے موش گربہ کا قصہ
وہ جو ہے گا عبید کا حصہ
جس کو باندھا عبید زاکانی
لگتی تھی اس کی وہ سگی نانی
گربہ تا بود فاسق و فاجر
ق صید او یک بدے بہ سالانہ
ایں زماں پنج پنج می گیرد
کہ شدہ مومن و مسلمانا