جو پوچھا کیا مریض غم کا درماں ہو نہیں سکتا
جو پوچھا کیا مریض غم کا درماں ہو نہیں سکتا
تو سالے نے کہا ہنس کر کے ہاں ہاں ہو نہیں سکتا
بس اب بارہ برس کے ہو گئے ختنہ کرا ڈالو
مسلمانی نہ ہو جس کی مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ ہوگا قیس تو اس کی جگہ ہم جانشیں ہوں گے
کہ دیوانوں سے یہ خالی بیاباں ہو نہیں سکتا
کہو چارہ گروں سے ایک دم باہر نکل جائیں
کبھی ان سے مریض غم کا درماں ہو نہیں سکتا
پڑیں جوتے ہزاروں سر پہ لیکن میں نہ نکلوں گا
تیرے کوچہ کے ہمسر باغ رضواں ہو نہیں سکتا
ابے صیاد کیوں جھوٹی تسلی مجھ کو دیتا ہے
قفس میں پھول رکھنے سے گلستاں ہو نہیں سکتا
شب وعدہ جو کرنا تھا میں کرتا ہی رہا ان سے
وہ کہتے ہی رہے پورا یہ ارماں ہو نہیں سکتا
لگا دے آگ ان کے گھر میں اور دشمن کے چھپر میں
ذرا سا کام تجھ سے آہ سوزاں ہو نہیں سکتا
حکیم و ڈاکٹر کو بومؔ صاحب کیوں بلاتے ہو
کبھی ان سے علاج درد ہجراں ہو نہیں سکتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.