شب وعدہ ادھر مجھ کو ہنسی سی آئی جاتی ہے
شب وعدہ ادھر مجھ کو ہنسی سی آئی جاتی ہے
ادھر ان کی نظر ہے خود بخود شرمائی جاتی ہے
ابے سالے رہا ہے رات بھر دشمن کے پہلو میں
ترے چہرے سے کچھ شرمندگی سی پائی جاتی ہے
دیا کرتے ہیں مجھ کو آتشیں رخسار کا بوسہ
سمجھتا ہوں طبیعت اب میری گرمائی جاتی ہے
بڑھاپا ہے کہ مجھ پر رات دن وہ آئے جاتا ہے
جوانی ہے کہ تجھ پر رات اور دن چھائی جاتی ہے
شب وعدہ انہیں سختی سے میں لپٹا تو فرمایا
اجی چھوڑو طبیعت اب میری گھبرائی جاتی ہے
یہ ایسا کام ہے جو سات پردوں میں نہیں چھپتا
کہیں بھی ہوں ہزاروں کوس تک رسوائی جاتی ہے
میری خلوت میں رکھی ہیں برہنہ تیری تصویریں
طبیعت بس انہیں سے رات دن بہلائی جاتی ہے
شب وعدہ بھی کوشش کر رہے ہیں مجھ سے بچنے کی
کچھ ایسی بات میرے کان میں سمجھائی جاتی ہے
ابے میں جانتا ہوں اس میں کوئی راز پنہاں ہے
رقیبوں سے میرے سر کی قسم جو کھائی جاتی ہے
ہزاروں رات گزریں اس طرح سے دل کو بہلاتے
وہ اب آتے ہیں اب تشریف ان کی آئی جاتی ہے
زمانہ ہو گیا اس کام کو اس بات کو گزرے
مگر چہرہ پہ اب بھی شرم سی کچھ پائی جاتی ہے
جوانی کا زمانہ پھر جوانی کا زمانہ ہے
بچے انسان کتنا ہی طبیعت آئی جاتی ہے
کلام اچھا سنائے یا سنائے فحش وہ غزلیں
جناب بومؔ سے محفل میں رونق آئی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.