کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
زمیں سخت ہے آسماں دور ہے
جرس راہ میں جملہ تن شور ہے
مگر قافلے سے کوئی دور ہے
تمنائے دل کے لیے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے
نہ ہو کس طرح فکر انجام کار
بھروسہ ہے جس پر سو مغرور ہے
پلک کی سیاہی میں ہے وہ نگاہ
کسو کا مگر خون منظور ہے
دل اپنا نہایت ہے نازک مزاج
گرا گر یہ شیشہ تو پھر چور ہے
کہیں جو تسلی ہوا ہو یہ دل
وہی بے قراری بدستور ہے
نہ دیکھا کہ لوہو تھنبا ہو کبھو
مگر چشم خوں بار ناسور ہے
تنک گرم تو سنگ ریزے کو دیکھ
نہاں اس میں بھی شعلۂ طور ہے
بہت سعی کریے تو مر رہیے میرؔ
بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0545
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.