وہ نہیں اب کہ فریبوں سے لگا لیتے ہیں
وہ نہیں اب کہ فریبوں سے لگا لیتے ہیں
ہم جو دیکھیں ہیں تو وے آنکھ چھپا لیتے ہیں
کچھ تفاوت نہیں ہستی و عدم میں ہم بھی
اٹھ کے اب قافلۂ رفتہ کو جا لیتے ہیں
نازکی ہائے رے طالع کی نکوئی سے کبھو
پھول سا ہاتھوں میں ہم اس کو اٹھا لیتے ہیں
صحبت آخر کو بگڑتی ہے سخن سازی سے
کیا در انداز بھی اک بات بنا لیتے ہیں
ہم فقیروں کو کچھ آزار تمہیں دیتے ہو
یوں تو اس فرقے سے سب لوگ دعا لیتے ہیں
چاک سینے کے ہمارے نہیں سینے اچھے
انہیں رخنوں سے دل و جان ہوا لیتے ہیں
میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 4, Ghazal No- 1457
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.