رات کو تھا کعبے میں میں بھی شیخ حرم سے لڑائی ہوئی
رات کو تھا کعبے میں میں بھی شیخ حرم سے لڑائی ہوئی
سخت کدورت بیچ میں آئی صبح تلک نہ صفائی ہوئی
تہمت رکھ مستی کی مجھ پر شیخ شہر کنے لایا
وہ بھی بگڑا حد سے زیادہ سن کر بات بنائی ہوئی
شیشہ ان نے گلے میں ڈلوا شہر میں سب تشہیر کیا
ہائے سیہ رو عاشق کی عالم میں کیا رسوائی ہوئی
کیسی ہی شکلیں سامنے آویں مژگاں وا اودھر نہ کروں
حور و پری پر آنکھ نہیں پڑتی ہے کسو سے لگائی ہوئی
حوصلہ داری کیا ہے اتنی قدرت کچھ ہے خدا ہی کی
عالم عالم جہاں جہاں جو غم کی ہم میں سمائی ہوئی
دیکھ کے دست و پائے نگاریں چپکے سے رہ جاویں نہ کیوں
منہ بولے ہے یارو گویا مہندی اس کی رچائی ہوئی
دل میں درد جگر میں تپیدن سر میں شور آشفتہ دماغ
کیا کیا رنج اٹھائے گئے ہیں جب سے ان سے جدائی ہوئی
ہفتم چرخ سے اودھر ہو کر عرش کو پہنچی میری دعا
اور رسائی کیا ہوتی ہے گو کہ کہیں نہ رسائی ہوئی
دود دل سوزان محبت محو جو ہو تو عرش پہ ہو
دور بجھے گی یعنی جا کر عشق کی آگ لگائی ہوئی
یہ یہ بلائیں سر پر ہیں تو آج موئے کل دوسرا دن
یاری ہوئی بیماری ہوئی درویشی ہوئی تنہائی ہوئی
اتنی لگو ہیں چشم کسو کی قہر قیامت آفت ہے
تم نے دیکھی نہیں ہے صاحب آنکھ کوئی شرمائی ہوئی
جب موسم تھا وا ہونے کا تب تو شگفتہ ٹک نہ ہوا
اب جو بہت افسردہ ہوا ہے دل ہے کلی مرجھائی ہوئی
اس کی طرف جو لی ہم نے ہے اپنی طرف سے پھرا عالم
یعنی دوستی سے اس بت کی دشمن ساری خدائی ہوئی
ہم قیدی بھی موسم گل کے کب سے توقع رکھتے تھے
دیر بہار آئی اب کے پر اسیروں کی نہ رہائی ہوئی
کہنا جو کچھ جس سے ہوگا سامنے میرؔ کہا ہوگا
بات نہ دل میں پھر گئی ہوگی منہ پہ میرے آئی ہوئی
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 5, Ghazal No- 1725
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.