ضعف دماغ سے کیا پوچھو ہو اب تو ہم میں حال نہیں
ضعف دماغ سے کیا پوچھو ہو اب تو ہم میں حال نہیں
اتنا ہے کہ تپش سے دل کی سر پر وہ دھمال نہیں
گاہے گاہے اس میں ہم نے منہ اس مہ کا دیکھا تھا
جیسا سال کہ پر کا گزرا ویسا بھی یہ سال نہیں
بالوں میں اس کے دل الجھا تھا خوب ہوا جو تمام ہوا
یعنی گیا جب پیچ سے جی ہی تب پھر کچھ جنجال نہیں
ایسی متاع قلیل کے اوپر چشم نہ کھولیں اہل نظر
آنکھ میں آوے جو کچھ ہووے دنیا اتنی مال نہیں
سرو چماں کو سیر کیا تھا کبک خراماں دیکھ لیا
اس کا سا انداز نہ پایا اس کی سی یہ چال نہیں
دل تو ان میں پھنس جاتا ہے جی ڈوبے ہے دیکھ ادھر
چاہ زنخ گو چاہ نہیں ہے بال اس کے گو جال نہیں
کب تک دل کے ٹکڑے جوڑوں میرؔ جگر کے لختوں سے
کسب نہیں ہے پارہ دوزی میں کوئی وصال نہیں
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 4, Ghazal No- 1444
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.