Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

(2)

MORE BYمیر تقی میر

    واں ان نے دل کیا ہے مانند سنگ خارا

    یاں تن ہوا ہے پانی ہوکر گداز سارا

    کیا پوچھتا ہے ہمدم احوال تو ہمارا

    نے رمز نے کنایہ ایما ہے نے اشارہ

    اس کے تغافلوں نے ان روزوں ہم کو مارا

    ہو شہر یا کہ صحرا بارے مکان تو ہو

    غم میں نہ ہووے کچھ تو اک تن میں جان تو ہو

    حالت تغیر ہوکر منھ میں زبان تو ہو

    سو بار دیکھ صورت ہو مہربان تو ہو

    اپنے تئیں نہیں ہے اب گفتگو کا یارا

    یہ چشم تھی کہ ترکاں اکثر سوار ہوں گے

    ہم لوگ ان کی رہ کے گرد و غبار ہوں گے

    یہ جانتے نہ تھے ہم اس طور خوار ہوں گے

    اب کہتے ہیں کہ یارب کیوں کر دوچار ہوں گے

    اس بھی طرف کو ہوگا ان کا کبھی گذارا

    ہجراں میں ٹک نہ پرچے کوہ اور راغ میں ہم

    بوے وفا نہ پائی دل میں دماغ میں ہم

    مدت رہے اگرچہ گلگشت باغ میں ہم

    پرلطف کچھ جو دیکھا سینے کے داغ میں ہم

    اس بن جو گل چنے تھے ان کا کیا نظارہ

    تشنے ہیں اپنے خوں کے اے ہمدمو نہ آؤ

    ہووے طبیب گر خضر اس کو بھی یاں نہ لاؤ

    اب ٹھانی ہم سو ٹھانی گو اس میں جان جاؤ

    آب برندہ اس کی شمشیر کا پلاؤ

    آب حیات اپنے جی کو نہیں گوارا

    تنگ اس قدر نہیں ہیں اس زندگی سے ہم اب

    جو آرزو کریں پھر اٹھنے کی حشر کو تب

    ہونٹوں پہ یہ دعا ہے ہر روز اور ہر شب

    یک حرف کاشکے ہو روز جزا بھی یارب

    کس کو دماغ اتنا جو پھر جیے دوبارہ

    ہوش و دل اور ایماں یہ تو گئے تھے سارے

    موجب تو زندگی کا کوئی نہ تھا پیارے

    تجھ سے کہیں سو کیا اب کہہ ہم ستم کے مارے

    آنسو سے پونچھتا تھا کچھ جو کبھو ہمارے

    سو صبر ظلم دیدہ کل رات سے سدھارا

    اب دل اٹھا تو منعم تعمیر خانماں سے

    کیا فائدہ رہا ہے گر کچھ نشاں مکاں سے

    رہنے تجھی کو دیں گے جانا گیا کہاں سے

    آواز بھی نہ آئی اک در جواب واں سے

    کسریٰ کے در پہ جاکر کل میں بہت پکارا

    موت اس کے ہاتھ سے ہو اس سے تو کیا ہے بہتر

    پر جی میں حسرتیں ہیں بن آئی ہے یہ جی پر

    غیروں سے ٹک کہو یہ کاے مدعیو اکثر

    تلوار اس کو دے کر بھیجا کرو نہ ایدھر

    جی جائے ہے ہمارا کیا جائے ہے تمھارا

    اب وہ نہیں کہ ہر سو طوفان کا خطر ہے

    یا میرؔ سیل آیا ابر سیاہ تر ہے

    مت پوچھ رود کوئی آتا جو یاں نظر ہے

    اس گریے ہی کا اب تک کچھ کچھ کہیں اثر ہے

    دریا نے تو جہاں سے کب کا کیا کنارہ

    مأخذ :
    • کتاب : kulliyat-e-miir-Vol 2

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے