Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

در ہجو بلاس رائے

میر تقی میر

در ہجو بلاس رائے

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    سنو یارو بلاس رائے کا حال

    ایک لچا ہے وہ عجائب مال

    کام لینا ہے اس سے امر محال

    سو جواں جا اڑیں تو دیوے ٹال

    پیر کو اپنے دے نہ جھانٹ کا بال

    لے جو کچھ اس سے ایسا ویسا ہو

    ورنہ کیا دخل کوئی کیسا ہو

    کہتا ہے دوں جو پاس پیسہ ہو

    ہوتے جو دے نہ ایسا تیسا ہو

    خلق ناحق ہے میرے جی کا وبال

    ایک عمدہ کے ہاں ہے اہل کار

    فوج کے لوگوں کا سب اس پہ مدار

    سو یہ بڑچود ایسا خوش اقرار

    کہے ہر اک کو دینے سو سو بار

    پھر نہ دے جز فریب تا دہ سال

    یا مہینوں تلک رہے روپوش

    یا ملے ہے تو بے حواس و ہوش

    لوگ کرتے پھرو نہ جوش و خروش

    یہ کچہری میں بیٹھا ہے خاموش

    زردرو بے حیا ہے گویا لال

    جب سے یہ ہے محرر دفتر

    تب سے ہنگامہ ہی رہا اکثر

    ہووے پرچھا جو دے کسو کو زر

    سو یہ پٹی پڑھا نہیں ہے لچر

    سب سے اس کو ہے ایک جنگ و جدال

    لات مکی ہے گہ روہیلوں سے

    دھول چھکڑ ہے گاہ چیلوں سے

    کم نہیں ہے کچہری میلوں سے

    آتے جاتے ہیں لوگ ریلوں سے

    نکلے ہے تیغ کھڑکے ہے واں ڈھال

    ان دنوں آگیا ہے ازبس پیش

    آج کم بھی ہے اس کا سب سے بیش

    شان میں اپنی گوہر بدکیش

    بوریاپوش گرسنہ درویش

    پشم جانے ہے یہ قبا و شال

    کیا کوئی جھاڑجی کی خوبی کہے

    اس زیادہ سری کو کون سہے

    چاٹے اس کے نہیں درخت رہے

    بردباری زہے وقار خہے

    بات کہتے ہیں تو کریں ہیں نہال

    دیکھو منھ تو خدا ہی خیر کرے

    پاک ہو شہر جو کہیں یہ مرے

    کب تک ایسے نحس سے کوئی بھرے

    کہنی تکیے پہ اس کو دیکھے دھرے

    جن نے دیکھے نہ ہوویں خرس جوال

    ایک صف خاک دھول اڑاتی ہے

    سنگ و خشت ایک صف چلاتی ہے

    لوہے پتھر کی اس کی چھاتی ہے

    اک قیامت جلو میں آتی ہے

    نکلے ہے گھر سے جب کہ یہ دجال

    مردہ شو خصم جان اہل ہنر

    جس کسو دن رہے ہے اپنے گھر

    پڑتے ہیں میرزائی پر پتھر

    یوں پھرے ہے کمر میں رکھ کے تبر

    جوں کفن چور کوئی رکھے کدال

    نے حیا ہے نہ کچھ مروت ہے

    نے کچھ اس خر میں آدمیت ہے

    کیا خدا جانے بھڑوے کی مت ہے

    گالی ہے دھول ہے یہ عزت ہے

    کہیں غیرت کا سر میں کچھ ہے خیال

    جورو گھر میں رکھے ہے اک شتاہ

    کہیں چشمک کرے کہیں وہ نگاہ

    آتے جاتے ہر اک کو اس سے راہ

    واہ رے رائے جی کی غیرت واہ

    طرفہ دیوث زن جلب چنڈال

    یہ کمر باندھ کر گئے دربار

    وہ ہوئی گرم جستجوے یار

    آنے دروازے پر لگی سو بار

    سر پہ رکھ بانکی پگڑی کھڑکی دار

    پھر ہوئی چیرہ بند بوڑھی چھنال

    کچھ حمیت نہ زن جلب کے تئیں

    ساتھ لے جائے گھر میں سب کے تئیں

    نہ رہے پاس جورو شب کے تئیں

    نہ تو پاتے ہیں اس کے ڈھب کے تئیں

    نہ سمجھتے ہیں اس چھنال کی چال

    قصہ کوتاہ بعد چندیں ماہ

    میری اس بھڑوے پر ہوئی تنخواہ

    جانے آدم لگا گہ و بے گاہ

    یہ تو مغرور بے تہ و گمراہ

    مفتری کاذب و سفیہ و ضلال

    سہل سا مجھ کو بھی سمجھ کے فقیر

    رکھنے وعدوں ہی میں لگا بے پیر

    یہ نہ جانا نہیں ہے اس کی نظیر

    اس کو جانے ہے بادشاہ و وزیر

    دور تک پہنچے گی یہ قیل و قال

    اس کی خاطر کہیں گے خرد و کلاں

    سعی اس میں کریں گے عمدے بجاں

    دوست اس کو رکھے ہیں پیر و جواں

    لے گا منت علی محمد خاں

    رکھنا ان پیسوں کا ہے کس کی مجال

    آپ نواب سن کے اس کا نام

    کہے گا دو یہ پیسے جلد تمام

    یاں نہ زنہار کیجو صبح و شام

    ہو نہ ایسا کہ پاوے طول کلام

    ایک سے دس روپئے ہیں کچھ بھی مال

    ہوتا اشراف تو یہ تہ پاتا

    کاہے کو اپنے پردے اٹھواتا

    سو جلاہوں سے اس کے تیں ناتا

    کبھو بیچے تھا بڑھیا کا کاتا

    کبھو ہوتا تھا سوت کا دلال

    اب ترقی ہوئی وکیل ہوا

    ایک عمدہ کے گھر دخیل ہوا

    فوج کے لوگوں کا کفیل ہوا

    مجھ سے اڑ کر عبث ذلیل ہوا

    جہل پر اس کے ہے یہ صحبت دال

    جو گیا آدمی سو داغ آیا

    ٹک نہ یہ کس کباب شرمایا

    جب تقاضے سے اس کو گھبرایا

    پھیر منھ لب پہ یہ سخن لایا

    تم تو کاٹو ہو پہلے چومے گال

    یوں تو سو بار آؤ جاؤگے

    پیسے تدریج ہی سے پاؤگے

    اور اس پر بھی جو ستاؤگے

    اپنے پیسوں سے ہاتھ اٹھاؤگے

    بوجھ میں اپنے سر سے دوں گا ٹال

    یاں کھڑا دو دو دن رہے ہے دواب

    مطبخی خاص کو ملے ہے جواب

    منھ تکا دیر کرتے ہیں نواب

    کس کا اللہ میاں کہاں کا ثواب

    بے زری سے ہے زیست رنج و نکال

    کام جوں توں کے میں چلاتا ہوں

    سو بھی سو سو دکاں پہ جاتا ہوں

    قرض کچھ بن گیا تو لاتا ہوں

    جیسا میں نے کیا ہے پاتا ہوں

    متصدی گری ہے یا جنجال

    باز آتا نہیں ہے نفس شوم

    ورنہ کس سے اٹھے ہے ایسی دھوم

    ہر سحر روز والوں کا ہے ہجوم

    ہے تمھیں حال یاں کا کیا معلوم

    تم تو سونٹا لیے کرو ہو سوال

    ایک دن جا کیا نفر نے شور

    ان نے دیکھا نہ مطلق اس کی اور

    ہے غرض صحبت اپنی اس کی زور

    وہ تو مچھر کی جھول کا ہے چور

    میں بھی کھینچوں گا خوب اس کی کھال

    اس پہ تنخواہ جو کہ کر لاوے

    سو وہ اپنا کیا ہی بھر پاوے

    پاشکستوں کو برسوں دوڑاوے

    ایسے سے ہاتھ خاک کیا آوے

    جس سے دل ہوں تہ غبار ملال

    بدزبانی نہیں ہے اتنی خوب

    بات اچھی نہیں ہے بے اسلوب

    گفتگو اس طرح کی ہے معیوب

    مل رہے گا جو کچھ کہ ہے مطلوب

    بس قلم اب زبان اپنی سنبھال

    مأخذ :
    • کتاب : kulliyat-e-miir-Vol 2

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے