اے ہم سفرو کیوں نہ یہیں شہر بسا لیں
اے ہم سفرو کیوں نہ یہیں شہر بسا لیں
اپنے ہی اصول اپنی ہی اقدار بنا لیں
وہ لوگ جنہوں نے مرے ہونٹوں کو سیا ہے
سوزن سے مری سوچ کا کانٹا بھی نکالیں
اس بزم سے اٹھے گا نہ شعلہ کوئی ہرگز
یارو چلو قندیل سے قندیل جلا لیں
ہر شہر میں ہیں فصل جنوں آنے کے چرچے
شوریدہ سرو آؤ گریبان سلا لیں
یوں ذہن پہ ہے خوف کے سایوں کا تسلط
ہم آئی ہوئی بات کو ہونٹوں میں دبا لیں
کہنے کو تو بازار میں ہم جنس گراں ہیں
عملاً ہمیں کوڑی پہ خریدار اٹھا لیں
بوجھ اپنا بھی ہم سے تو اٹھایا نہیں جاتا
اور آپ مصر آپ کا بھی بوجھ اٹھا لیں
شاید کوئی چنگاری سلگتی ہوئی مل جائے
آؤ تو ذرا راکھ کا یہ ڈھیر کھنگالیں
- کتاب : Zehrab (Pg. 43)
- Author : Fakhrezaman
- مطبع : Idarah Eshat-e-adab, Gujrat (1968)
- اشاعت : 1968
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.