انقلاب دہر سے سب شان والے مٹ گئے
روم والے مٹ گئے یونان والے مٹ گئے
سیریا والے مٹے توران والے مٹ گئے
کون کہتا ہے کہ ہندستان والے مٹ گئے
نقش باطل ہم نہیں جس کو مٹائے آسماں
ہم نہیں مٹنے کے جب تک ہے بنائے آسماں
ہم نے یہ مانا ہمارے آن والے مٹ گئے
بھوج سے وکرم سے عالی شان والے مٹ گئے
بھیشم و ارجن سے یودھا بان والے مٹ گئے
اکبر و پرتاپ سے میدان والے مٹ گئے
نام لیوا ان کے ہم زیر فلک باقی تو ہیں
مٹتے مٹتے بھی جہاں میں آج تک باقی تو ہیں
خاک سے اس دیش کی پیدا ہوئے وہ نامور
نقش جن کے کارنامے ہیں بساط دہر پر
دبدبے سے جن کے جھکتے تھے سر افرازوں کے سر
جن کا لوہا مانتے ہیں حکمران بحر و بر
تیغ و ترکش کے دھنی تھے رزم گہہ میں فرد تھے
اس شجاعت پر یہ طرہ ہے سراپا درد تھے
آشنائے راز وحدت فلسفئ بے مثال
گوہر دریائے دانش نکتہ دان با کمال
ماہر علم و ہنر شیوہ بیاں شیریں مقال
راست بازو صلح جو پاکیزہ خو روشن خیال
بادۂ تہذیب سے وہ سر بسر مخمور تھے
قلب روشن معرفت کے نور سے پر نور تھے
کیا تھے اہل ہند یہ چرخ کہن سے پوچھ لو
یا ہمالہ کی گپھاؤں کے دہن سے پوچھ لو
اپنا افسانہ لب گنگ و جمن سے پوچھ لو
پوچھ لو ہر ذرۂ خاک وطن سے پوچھ لو
اپنے منہ سے کیا بتائیں ہم کہ کیا وہ لوگ تھے
نفس کش نیکی کے پتلے تھے مجسم یوگ تھے
ہم معرا ہو کے ان اوصاف سے پستی میں ہیں
دولت علم و عمل کھو کر تہی دستی میں ہیں
شہرۂ آفاق اب مستی و بد مستی میں ہیں
شمع افسردہ کی صورت محفل ہستی میں ہے
دور رفتہ کا مگر سودا ہمارے سر میں ہے
بادۂ حب وطن چھلکے ہوئے ساغر میں ہے
پھر ہمیں ہوگا میسر دہر میں جاہ و جلال
چار دن میں گلشن ہستی میں پھر ہوں گے نہال
برقؔ یہ ضرب المثل ہوگی ہمارے حسب حال
ہر کمالے را زوالے ہر زوالے را کمال
نیر اقبال چمکے گا ہمارا ایک دن
اوج پر اس دیش کا ہوگا ستارا ایک دن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.