بچھڑ چکے ہیں
سو طے ہوا کہ بچھڑ چکے ہیں
فقط دکھاوا ہیں سرد آہیں
جو آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی
وہ بجھ چکی ہے
اکھڑ چکا ہے وہ سانس جس سے
حیات تھے رابطے ہمارے
جدا ہیں اب راستے ہمارے
مسافتیں ختم ہو چکی ہیں
برائے دنیا ہے راہ گردی
مروتاً ہیں مروتیں بھی
یہ ہاتھ ہاتھوں میں جانتے ہو کہاں تلک ہے
حساب سود و زیاں تلک ہے
ہیں منتظر اب کہ کب کوئی ایسا موڑ آئے
کہ بار الزام بے وفائی کوئی اٹھائے
جو مسکراہٹ ہمارے چہرے کو دیکھ کر ان لبوں پہ آتی
جبیں کی شکنوں میں ڈھل چکی ہے
وہ ہونٹ جن پہ ہمارے بوسوں سے سرخیاں تھیں
وہ ہونٹ شکوؤں سے اٹ چکے ہیں
ہم ایک دونوں میں بٹ چکے ہیں
تو طے ہوا کہ بچھڑ چکے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.