بکھرتے لمحے
میں شب کی تیرہ فضاؤں میں
ردا غلامی کی
اوڑھ کر یوں پڑا ہوا تھا
کہ جیسے
کوئی ضعیف انسان
شباب کی رونقوں کو کھو کر
حیات کے دن گزارتا ہو
تو یوں ہوا
گود میں سحر کی
کرن مسرت کی جگمگائی
افق سے اٹھا
سحر کا سورج
نئی ادا سے نرالے ڈھب سے
تھے اس کے رخ پر
وفا کے تیور
شب غلامی کے زندہ داروں
کے آہنی عزم کی لکیریں
لہو کی سرخی
وہ غالباً تیس سال پہلے
کی ایک دل کش حسیں سحر تھی
کہ دھندلے دھندلے سے عکس اب تک
مرے خیالوں میں مشتعل ہیں
وہ دن تھے میری طفولیت کے
ہزاروں لمحے بکھر بکھر کر سمٹ گئے تھے
بہار کے دن پلٹ گئے تھے
تو وقت بیتا
اور آج ہوں میں وطن کا اپنے جوان شہری
وہی زمیں ہے
وہی فلک ہے
وہی فضا ہے
مگر نہ جانے چبھن سی کیوں دل میں ہو رہی ہے
نظام نو بھی
نہ راس آیا وطن کو شاید
جہاں بھی دیکھو
اٹھا ہے نفرت کا ایک طوفاں
دھواں دھواں ہے ہر ایک منظر
زمیں سے تا آسماں ابھی تک
ہزاروں شعلے بھڑک رہے ہیں
جھلس رہا ہے اب ان میں انسانیت کا دامن
کہیں بھی کنج اماں نہیں ہے
اجڑ رہی ہیں ہزاروں مانگیں
لہو کے چشمے ابل رہے ہیں
جوان بہنیں
ضعیف مائیں
اب اپنی عزت کو رو رہی ہیں
کہیں پہ بچے بلک رہے ہیں
کہ جیسے لمحے بکھر رہے ہیں
کہ جیسے لمحے بکھر گئے ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.