اے درد عشق! ہے گہر آب دار تو
نامحرموں ميں ديکھ نہ ہو آشکار تو
پنہاں تہ نقاب تري جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفل نو کي نگاہ ہے
آئي نئي ہوا چمن ہست و بود ميں
اے درد عشق! اب نہيں لذت نمود ميں
ہاں خود نمائيوں کي تجھے جستجو نہ ہو
منت پذير نالہء بلبل کا تو نہ ہو!
خالي شراب عشق سے لالے کا جام ہو
پاني کي بوند گريہء شبنم کا نام ہو
پنہاں درون سينہ کہيں راز ہو ترا
اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا
گويا زبان شاعر رنگيں بياں نہ ہو
آواز نے ميں شکوہ فرقت نہاں نہ ہو
يہ دور نکتہ چيں ہے ، کہيں چھپ کے بيٹھ رہ
جس دل ميں تو مکيں ہے، وہيں چھپ کے بيٹھ رہ
غافل ہے تجھ سے حيرت علم آفريدہ ديکھ!
جويا نہيں تري نگہ نارسيدہ ديکھ
رہنے دے جستجو ميں خيال بلند کو
حيرت ميں چھوڑ ديدہء حکمت پسند کو
جس کي بہار تو ہو يہ ايسا چمن نہيں
قابل تري نمود کے يہ انجمن نہيں
يہ انجمن ہے کشتہء نظارہء مجاز
مقصد تري نگاہ کا خلوت سرائے راز
ہر دل مے خيال کي مستي سے چور ہے
کچھ اور آجکل کے کليموں کا طور ہے
- کتاب : کلیات اقبال (Pg. 50)
- Author : علامہ اقبال
- مطبع : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی (2014)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.