مجھ کو یہ جاننے میں بھی عمریں لگیں
کہ جو راتیں دسمبر کی گیلی سی مدھم سی اس چاندنی میں کٹیں
وہ جو راتیں ہمارے ملن کی رتوں میں حسیں خواب بنتے ہوئے گہری آنکھوں میں بس جاگتے ہی بتائی گئیں
ان کی ساری حقیقت محبت نہیں تھی فقط ایک دھوکہ تھی بس
دھند رستوں میں گاڑی کے شیشوں پہ جمتی ہوئی وہ حرارت جو سانسوں کی تھی
بھاپ اڑتے ہی شیشوں پہ کچھ نہ رہا
بس نمی رہ گئی
ہنستے ہنستے فجیرہ کی سڑکوں پہ گاڑی میں کافی کے کپ سے اٹھی بھاپ میں سارے لمحے نمی کی نظر ہو گئے
جنوری فروری مارچ اپریل مئی
جب مئی آ گیا
تو فجیرہ کی سڑکوں پہ بکھرے ہوئے منجمد خواب پانی ہوئے
دھوپ نکلی تو آنکھوں سے اشکوں کی صورت حسیں خواب بہہ کر نکلنے لگے
وہ دسمبر کی راتوں میں دیکھے ہوئے خواب یک دم سبھی پھر پگھلنے لگے
دھند چھٹنے لگی تو دکھائی دیا
سامنے اپنے کانٹوں بھرے ہاتھ کھولے ہوئے
اک بھیانک سی صورت میں تنہا کھڑی تھی مری زندگی
اور تم جا چکے تھے کہیں
چند قدم کی مسافت تھی اور اس مسافت میں عمروں کا تھا فاصلہ
پھر تمہارے چلے جانے کے بعد تو کتنی تنہا تھی میں
اس بھیانک سی صورت میں تنہا کھڑی زندگی کے گلے لگ کے روتی رہی برسوں روتی رہی
جو بھی منظر پس دھند تھے
سارے دھندلا گئے
میں وہ منظر سہانے انہیں ڈھونڈنے جب فجیرہ گئی لمبے اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کے میری صدا گونجتی ہی رہی
دھند کے موسم پلٹ آئے ہیں پھر سنو
پھر دسمبر کی رت میں چلو
ان فجیرہ کے اونچے پہاڑوں کی اس اوٹ میں کوئی وعدہ کرو
آخری سانس تک وہ نبھانے کا وعدہ کوئی
ہاں مگر مجھ کو یہ جاننے میں بھی عمریں لگیں
کہ وہ وعدے فقط دھند چھٹنے سے پہلے تلک تھے سبھی
دھند چھٹنے لگی تو یقیں ہو گیا
اب نہ آؤ گے تم ہاں مگر مجھ کو یہ جاننے میں بھی عمریں لگیں
اور کتنے دسمبر گزرتے رہے
بس گزرتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.