Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دھند چھٹنے لگی

کنول ملک

دھند چھٹنے لگی

کنول ملک

MORE BYکنول ملک

    مجھ کو یہ جاننے میں بھی عمریں لگیں

    کہ جو راتیں دسمبر کی گیلی سی مدھم سی اس چاندنی میں کٹیں

    وہ جو راتیں ہمارے ملن کی رتوں میں حسیں خواب بنتے ہوئے گہری آنکھوں میں بس جاگتے ہی بتائی گئیں

    ان کی ساری حقیقت محبت نہیں تھی فقط ایک دھوکہ تھی بس

    دھند رستوں میں گاڑی کے شیشوں پہ جمتی ہوئی وہ حرارت جو سانسوں کی تھی

    بھاپ اڑتے ہی شیشوں پہ کچھ نہ رہا

    بس نمی رہ گئی

    ہنستے ہنستے فجیرہ کی سڑکوں پہ گاڑی میں کافی کے کپ سے اٹھی بھاپ میں سارے لمحے نمی کی نظر ہو گئے

    جنوری فروری مارچ اپریل مئی

    جب مئی آ گیا

    تو فجیرہ کی سڑکوں پہ بکھرے ہوئے منجمد خواب پانی ہوئے

    دھوپ نکلی تو آنکھوں سے اشکوں کی صورت حسیں خواب بہہ کر نکلنے لگے

    وہ دسمبر کی راتوں میں دیکھے ہوئے خواب یک دم سبھی پھر پگھلنے لگے

    دھند چھٹنے لگی تو دکھائی دیا

    سامنے اپنے کانٹوں بھرے ہاتھ کھولے ہوئے

    اک بھیانک سی صورت میں تنہا کھڑی تھی مری زندگی

    اور تم جا چکے تھے کہیں

    چند قدم کی مسافت تھی اور اس مسافت میں عمروں کا تھا فاصلہ

    پھر تمہارے چلے جانے کے بعد تو کتنی تنہا تھی میں

    اس بھیانک سی صورت میں تنہا کھڑی زندگی کے گلے لگ کے روتی رہی برسوں روتی رہی

    جو بھی منظر پس دھند تھے

    سارے دھندلا گئے

    میں وہ منظر سہانے انہیں ڈھونڈنے جب فجیرہ گئی لمبے اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کے میری صدا گونجتی ہی رہی

    دھند کے موسم پلٹ آئے ہیں پھر سنو

    پھر دسمبر کی رت میں چلو

    ان فجیرہ کے اونچے پہاڑوں کی اس اوٹ میں کوئی وعدہ کرو

    آخری سانس تک وہ نبھانے کا وعدہ کوئی

    ہاں مگر مجھ کو یہ جاننے میں بھی عمریں لگیں

    کہ وہ وعدے فقط دھند چھٹنے سے پہلے تلک تھے سبھی

    دھند چھٹنے لگی تو یقیں ہو گیا

    اب نہ آؤ گے تم ہاں مگر مجھ کو یہ جاننے میں بھی عمریں لگیں

    اور کتنے دسمبر گزرتے رہے

    بس گزرتے رہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے