رات کچھ تاریک بھی ہے اور کچھ روشن بھی ہے
وقت کے ماتھے پہ شوخی بھی ہے بھولا پن بھی ہے
بام و در پر آج مٹی کے دیے ہیں اس طرح
آسمانوں پر ستارے جگمگائیں جس طرح
راستوں پر ہیں دنادن کی صدائیں خوفناک
زندگی سے موت گویا کر رہی ہے تاک جھانک
ہو رہی ہیں ہر گلی کوچے میں آتش بازیاں
آر رہا ہے ابر کی صورت تمول کا دھواں
کر رہے ہیں لکشمی پوجن بھی گھروں میں ساہوکار
دیو دولت کو سمجھ بیٹھے ہیں رب اقتدار
ہند والوں کو مرض ہے ناروا تقلید کا
آج گھر میں سیٹھ جی بھی کھیل لیتے ہیں جوا
ہو سکے تو چھوڑ دے رسم کہن مرد جواں
تا بہ کے دہرائے جائے گا فسردہ داستاں
عقل سے کچھ کام لے ہندوستاں پر رحم کر
آج بھی لاکھوں گھروں میں ہے اندھیرے کا گزر
ہوش میں آ خواب سے بیدار ہو اے وقف نوم
ملک پر تیرے حکومت کر رہی ہے غیر قوم
مرد ہے تو کام لے ہمت سے رونا چھوڑ دے
نام لے ارجن کا زنجیر غلامی توڑ دے
ہند کی خوابیدہ قسمت کو جگانا چاہیے
شوق سے پھر تجھ کو دیوالی منانا چاہیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.