پھیلی دھرتی کے سینے پہ جنگل بھی ہیں لہلہاتے ہوئے
اور دریا بھی ہیں دور جاتے ہوئے
اور پربت بھی ہیں اپنی چپ میں مگن
اور ساگر بھی ہیں جوش کھاتے ہوئے
ان پہ چھایا ہوا نیلا آکاش ہے
نیلے آکاش میں نور لاتے ہوئے دن کو سورج بھی ہے
شام جانے پہ ہے چاند سے سامنا
رات آنے پہ ننھے ستارے بھی ہیں جھلملاتے ہوئے
اور کچھ بھی نہیں
اب تک آئی نہ آئندہ تو آئے گی بس یہی بات ہے
اور کچھ بھی نہیں
ایک تو ایک میں دور ہی دور ہیں
آج تک دور ہی دور ہر بات ہوتی رہی
دور ہی دور جیون گزر جائے گا
لہر سے لہر ٹکرائے کیسے کہو
اور ساحل سے چھو جائے کیسے کہو
لہر کو لہر سے دور کرتی ہوئی بیچ میں سینکڑوں اور لہریں بھی ہیں
اور کچھ بھی نہیں
چھائی مستی جو دل پر مرے بھول کی
ایک ہی بات رہ رہ کے کہتا ہے
ایک ہی دھیان کے درد میں دل کو لذت ملی
آرزو کی کلی کب کھلی
ایک ہی موج پر میں تو بہتا رہا
اب تک آئی نہ آئندہ تو آئے گی
چاہے دھرتی کے سینے پہ جنگل نہ ہوں
چاہے پربت نہ ہوں چاہے دریا نہ ہوں چاہے ساگر نہ ہوں
نیلے آکاش میں چاند تارے نہ ہوں کوئی سورج نہ ہو
رات دن ہوں نہ دنیا میں شام و سحر
کوئی پروا نہیں
ایک ہی دھیان ہے
دور ہی دور جیون گزر جائے گا اور کچھ بھی نہیں
- کتاب : Muntakhab Shahkar Nazmon Ka Album) (Pg. 25)
- Author : Munavvar Jameel
- مطبع : Haji Haneef Printer Lahore (2000)
- اشاعت : 2000
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.