گھروندہ
ہر ایک لمحہ یہ سوچتا ہوں
وہ سارے رشتے تمام ناطے
بندھے ہوئے ہیں جو جسم ظاہر کی تازگی سے
انہیں مٹا دوں
وہ سارے چہرے لکھے ہوں جو اضطراب جاں پر
انہیں جلا دوں
کہ جسم تو خاک کی صدا ہے
رہے گی خاک بدن میں جب تک نمو کی قوت
لہو رگوں میں رواں رہے گا
ضمیر ارماں جواں رہے گا
یہ فصل رشتوں کی ذہن و دل پر اگی رہے گی
رفاقتوں کی گھڑی نظر میں کھلی رہے گی
کھلی ہیں آنکھیں تو آسماں کی بلندیاں ہیں
ہر ایک منظر گرفت فکر و شعور میں ہے
قدم زمیں پر تھرک رہے ہیں
تو پھول سارے مہک رہے ہیں
اگر نہ ہو جسم میں حرارت
تو آندھیاں ذرہ ذرہ اس کا وجود بھی لیں
تمام رشتے تمام بندھن تمام ناطے
اساس ٹھہرے جو روز و شب کی
ہر ایک پہچان توڑ ڈالیں
وہ سارے معیار جن کو دل نے وفا کہا ہے
بکھر کے گمنام ہو بھی سکتے ہیں ایک پل میں
کہیں کسی کا نشاں نہ پائیں
زمین پر آسماں نہ پائیں
یقیں نہ پائیں گماں نہ پائیں
کوئی کسی پر کہیں بھی پھر مہرباں نہ پائیں
میں ان خلاؤں میں دل شکستہ
نہ جانے کس کی تلاش میں ہوں
پس حجاب غبار میں تیرگی کے سائے
نظر جھکائے بدن چرائے
میں صرف اتنا سمجھ سکا ہوں
جہاں میں کوئی نہیں کسی کا
یہی اشارہ ہے آگہی کا
یہی ہے انجام زندگی کا
مگر سمجھ کے بھی نا سمجھ ہوں
ندی کنارے بنا رہا ہوں
میں ریت کے بے زباں گھروندے
سبھی کو رشتوں میں باندھنے کی عجیب کوشش
سمجھ رہا ہوں سبھی کو اپنا
عجیب سی بھول کر رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.