Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انخلا

احمد ہمیش

انخلا

احمد ہمیش

MORE BYاحمد ہمیش

    قل‌ الروح من امر ربی

    ان لوگوں سے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہر بات لفظ سے شروع ہوتی ہے

    میں آج ان کو چھوڑنے آیا ہوں

    ٹھیک اس جگہ پہ جہاں سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا

    صرف چند آنکھیں ہوتی ہیں ان آنکھوں آنکھوں کو رکھنے کے کے ہوا ہوا میں ڈولتی ہیں

    صرف چند آنکھیں ہوتی ہیں آسمان کے چھوٹے سے ٹکڑے کو اتار کر دیر تک گونجتی رہی

    صرف چند آنکھیں ہوتی ہیں جو انتظار کرتی ہیں کہ کوئی ان میں اترے

    اور ان سے کہے کہ چلو ہم تمہیں پھر سے پیڑوں اور پرندوں سے آباد کر دیں

    چلو پھر سے تمہیں بے لوث محبت کی جلوتیں اور خلوتیں بخش دے

    سو یہ میرا قصہ ہے کہ میں نے اترنے کی روایت کا بڑا احترام کیا

    خود کو بھول دوسروں کا کام کیا

    یہ ابھاگ ان کا تھا کہ انہوں نے مجھے پہچانا نہیں

    میں کوئی اور راہ ہو لیتا پر دل مانا نہیں

    میں بہت پاس سے گزرا تھا

    دل ہی دل میں جو عمر بھر لہراتی ہے زبان پر کبھی نہیں آتی

    اس موسیقی کا لمس بن کے میں بہت پاس سے گزرا تھا

    میں بہت پاس سے گزرا تھا

    اور میری آمد کے عرصہ میں زمین کی آب و ہوا

    نیکی و بدی خوبصورتی و بد صورتی سب سے بے نیاز تھی سراپا راز تھی

    اور گیان ایک جاگے ہوئے دل کا نام تھا

    سوالوں سے بے بے نیاز جواب نا تمام تھا

    خدا سے ملتی جلتی آدمی کی محبت

    بچھڑی ہوئی ازل کی نعمت

    ہر چند کہ حاصل ابد ہے

    اور بے نیاز نیک و بد ہے

    پھر بھی نظر میں آدمی کی اوقات

    اور دنیا جو جسم و جاں کی حد ہے

    اور کے حقیر راستوں میں تم مجھ سے شاعری کا مطلب پوچھتے ہو

    میں نہیں بتا سکتا میں کیوں بتاؤں میں نہیں بتاتا

    یہ قصہ میری دیہاتی آنکھوں میرے دیہاتی دل کا ہے

    جب بہت بہت گھنی رات میں مسافر کے پاؤں تلے راستہ نہیں ہوتا

    تب وہ کس انوکھے ستارے سے راستہ پوچھتا ہے

    تب کون سا اشارہ مسافر کے پاؤں کو تاریک کر دینے کی شرط بتاتا ہے

    پیڑ کی پھلنگی پر مہوکھا بولتا ہے

    پانی کی زبان جاننے والی ٹٹہری کی چونچ سے دن نکلتا ہے

    تم نہیں بتا سکتے تم نے کبھی نہیں بتایا تم کبھی نہیں بتاؤگے

    تمہاری آبادیاں اکال میں مرے ہوئے لوگوں کی بد دعائیں ہیں

    ماضی حال مستقبل تین اندھے فقیروں کی صدائیں ہیں

    میں تم میں شامل سفر ہوں مگر پناہ مانگتا اپنی اجل کو ڈھونڈھتا ہوں

    اور جو اپنی اجل کو ڈھونڈھتا ہے

    تمہاری دنیا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی

    مگر میں ایسے عہد با اثر میں ہوں

    کہ جس کی ہر صدا صدائے بے اثر ہے

    اور گفتگو کا پیڑ بے ثمر ہے

    خدا سے کر چکے ہیں جو کلام وہ کلیم اپنی بازگشت چھوڑ کے چلے گئے

    اور خاک باز گشت آج

    اڑ رہی ہے التباس میں

    اور وہ خامشی تھی جو مہان آتما کا رمز تھی

    اور اس کی آنکھ سبز تھی

    پھر بھی سوچ کے جی ڈرتا ہے

    پھر بھی سوچ کے جی ڈرتا ہے

    جانے والے آنے والوں کو ایسی ہی آس بندھاتے ہیں

    ہاتھ نہیں آتی ہے امر لتا

    یہاں پہنچ کر میں سوچتا ہوں

    یہاں پہنچ کر میں سوچتا ہوں

    مجھے آنسو کس نے دئے

    اور کون سا آنسو میرے ورثہ کا باطن ہے

    کس سے بچھڑ کر مٹی پانی بنتی ہے

    ندی اکیلی بہتی ہے

    دنیا چھوڑ کے کون سمندر کی تہ میں بیٹھ کے لکھتا ہے اور اپنا قلم ڈبوتا ہے

    جس پل پر چل کے کہنے والا سننے والے تک پہنچتا ہے

    وہ ایک ایسا سچ ہے جسے موت زندگی سے چھپ کر بولتی ہے

    انسانی دل کی شکل سے ملتے جلتے خیمے اب بھی جلتے ہیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے