انقلاب
آنسوؤں میں پھر جھلکتا ہے لہو
آہ یہ ٹوٹے ہوئے جام و سبو
زلزلوں سے تھرتھراتی ہے زمیں
پرشکن ہے رہ گزاروں کی جبیں
بجھ گئے عشق و بصیرت کے کنول
ہیں فنا کے رحم پر دشت و جبل
کارواں گمراہ راہیں پا شکن
یہ غلاموں کے سم آلودہ کفن
خون ٹپکاتی رہی شاخ گلاب
کھو گئے ظلمت میں کتنے آفتاب
قہقہے شور فغاں میں ڈھل گئے
سوز و عرفاں کے نشیمن جل گئے
مٹ گئیں رنگینیاں رعنائیاں
ہیں بہر سو موت کی پرچھائیاں
ابر پارے خون برسانے لگے
معبدوں میں ناگ لہرانے لگے
ہو گیا ویران فردوس خیال
اب کہاں احساس میں نور جمال
زندگی نفرت کی جانب مڑ گئی
بوئے گل بن کر محبت اڑ گئی
اک تلاطم ہے دل غم ناک میں
مل گئے کتنے شگوفے خاک میں
یہ سیاہی ناسزا اوہام کی
رک گئی ہیں گردشیں ایام کی
آندھیوں سے جاگ اٹھے خار زار
مضمحل ہیں چشمہ سار و جوئبار
تیرگی کی رو میں سورج بہہ گئے
زمزمے خاموش ہو کر رہ گئے
یہ اندھیری رات اور خواب سحر
ہے مشیت خندہ زن انسان پر
روز افزوں شور ناقوس و اذاں
آگ کا طوفان خاکستر دھواں
ہو گئے کتنے حوادث بے نقاب
انقلاب اے انقلاب اے انقلاب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.