Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جھوٹی نفرت

کنول ملک

جھوٹی نفرت

کنول ملک

MORE BYکنول ملک

    ہمارے دل میں تمہاری خاطر

    محبتیں تھیں ازل سے زندہ ابد سے قائم

    تمہارا ہاتھوں میں ہاتھ لے کر وہ چوم لینا ثبت کرنا وہ لب ملائم

    تمہارے عشق کی ہی مانند

    تمہارا دکھ بھی ہمارے دل پر رہا تھا دائم

    آہ یک دم بے رخی سے

    وہ ہاتھ چھوڑے تمہارا جانا

    اور رستوں میں دھول بن کر مرا بکھرنا

    تمہیں بلانا

    وہ دھول ہونا وہ دھول اڑانا

    وہ تپتے صحرا کی ریت پر یوں

    پٹخ کے سر کو ملول ہونا

    وہ روتے روتے صدا لگانا تمہیں بتانا

    کہ اب تلک بے امان رستوں

    پہ سرد راتوں کی دھند میں لپٹی

    اک سسکتی سی یاد لے کر

    تمہارے وعدوں کے آسرے پر

    وہ سارے وعدے جو جھوٹ نکلے

    مجھے ابھی تک گمان کیوں ہے کہ سچ تھے شاید کبھی بتاؤ وہ جھوٹ تھے ناں

    وہیں کھڑی ہے کنولؔ تمہاری

    جہاں سے تم نے بدل کے رستہ

    پلٹ کے اک بار بھی نہ دیکھا

    جہاں سلگتی سی ریت پر میں

    دھوپ آنچل کو سر پہ اوڑھے

    جولائی کی جھلساتی لو میں

    خشک سوکھے ہوئے لبوں پر

    کربلا سی وہ پیاس لے کر میں تین دن سے وہیں کھڑی تھی

    یہ پوچھنے کو کہ اس شام ایسا کیا ہوا تھا خلاف وعدہ جو تم نہ آئے

    تمہیں پتا تھا خبر تھی تم کو

    تمہیں گوارا نہیں تھا لیکن

    کہ پاس آتے مجھے بتاتے کہ ایسے جانے کا کیا سبب تھا بنا بتائے

    لال رنگ کا پہن کے جوڑا

    لگا کے مہندی سجا کے خود کو

    میں کتنے گھنٹوں سے منتظر تھی مگر وہ گرمی کی شام ہائے

    خلاف وعدہ جو تم نہ آئے

    کہ میں تو اس شام ہی مر گئی تھی

    کبھی تو آتے مجھے بتاتے کہ کیوں گئے ہو

    فقط یہ کہتے کہ معاف کر دو

    کوئی بھی سکہ وفا کا چاہے ہمارے کاسے میں تم نہ بھرتے فقط بتاتے کہ ان درندوں کے بیچ مجھ سی وہ نرم و نازک اکیلی لڑکی کہ جو پرندوں کے پھڑپھڑانے سے خوف کھاتی جو اونچی آوازوں سے ڈر کر سہم سی جاتی

    جو جانتی ہی نہیں تھی دنیا تمہارے جیسے بھیڑیوں سے بھری ہوئی ہے

    تو آج سن لو

    ہمارے دل میں تمہاری خاطر

    محبتوں کا وہ باب جو تھا ازل سے زندہ ابد سے قائم

    تمام نفرت میں ڈھل چکا ہے

    جہاں کھلے تھے گلاب سارے

    وہ باغ چاہت کا جل چکا ہے

    وہ راہ تکتی کنولؔ کی آنکھیں بھی بجھ چکی ہیں

    اور اس کا دل بھی بدل چکا ہے

    اب اس کے دل میں تمہاری خاطر

    تمام نفرت تمام نفرت تمام نفرت

    اور نفرت کے علاوہ تو کچھ نہیں ہے

    نہیں ہے کچھ بھی

    اسے بتانا

    اسے جلانا اسے رلانا

    نہیں نہیں یہ نہیں ہے ممکن ہاں پھر بھی لیکن

    وہ آنکھیں میچے ملال ہو کر

    عجیب غم سے نڈھال ہو کر

    تو مت بتانا کہ نظم کا عنوان کیا تھا

    جھوٹی نفرت

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے