کاغذ کی ناؤ
رات کو سونے سے پہلے
مجھ سے ننھا کہہ رہا تھا چاند لاکھوں میل کیوں کر دور ہے
کیوں چمکتے ہیں ستارے دو غبارے کالی بلی کیا ہوئی
میرے ہاتھی کو پلاؤ گرم پانی وہ کہانی مجھ کو نیند آنے لگی
نصف شب کو آتے جاتے بادلوں کے درمیاں
کچھ حروف ناتواں
بوندیوں کے روپ میں کاغذ کے اک پرزے پہ میرے سامنے
دیر تک گرتے رہے
نظم کے نقش گریزاں نے ستم لاکھوں سہے
ان گنت برسوں پہ پھیلی چشم و دل کی داستاں
رات کے پچھلے پہر کی گود میں
تیز تر ہوتی ہوئی بارش کے لوری سن کے شاید سو گئی
صبح دم
کھل اٹھے چاروں طرف بچوں کے رنگیں قہقہوں اور تالیوں کے شوخ پھول
رات بھر کی تیز بارش کی بنائی جھیل میں
ڈگمگاتی ڈولتی
چل رہی تھیں چھوٹی چھوٹی کشتیاں
میں نے دیکھا ان میں ننھے کی بھی تھی پیاری سی ناؤ
نظم کا نقش گریزاں جانا پہچانا سا کاغذ جانے پہچانے حروف
ننھا بولا آج جو تالی نہ پیٹے بےوقوف
- کتاب : Lambi Barish (Pg. 50)
- Author : Balraj Komal
- مطبع : Sahitya Akademi, New Delhi (2002)
- اشاعت : 2002
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.